لال مسجد کا معاملہ اور ہمارا رویّہ ۔ دوسری قسط

حالات و واقعات ۔ ایک محقق شیخ محمد علی صاحب کی نظر میں
حکومت نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ یہ ریاست کی رٹ، قانون کی بالادستی اور حاکموں سے بغاوت کا معاملہ تھا اور حلیفان حکومت نے بھی جن میں عوام و خواص دونوں شامل ہیں اسی اصول پر اتفاق کر لیا اور اتنے بڑے سانحے و ظلم کے لئے محض اسی کو وجہ بنا ڈالا اور یقیناً علماء و مدارس تک بھی اس وحشت انگیز کارروائی کے ذریعہ یہ پیغام کامیابی سے پہنچایا گیا کہ دیکھ لو یہ ہے انجام ان کا جو زمین پر اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے یا سیکولر، اس پر بحث کر کے میں اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا کیونکہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان ملک ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن یہی کہنے والے عملاً اپنے نظریات و افکار سے اس کی نفی بھی کرتے ہیں۔ اب تو مغربی تعلیم کے زیر اثر وہ گروہ بھی پیدا ہو چلے ہیں جو اس کے سیکولر ہونے کے دعویدار ہیں اور اس بات کے خواہاں کہ یہاں کا طرز زندگی وہی ہو رہے جو کسی سیکولر اسٹیٹ کا ہوتا ہے تاکہ انہیں شہوات کے بہتے ہوئے دریا میں بے لباس ہو کر نہانے کے مواقع میسر آسکیں۔ میں خود بہت گنہگار مسلمان ہوں لیکن میرا ایمان ہے کہ گناہ تسلیم کر لینا اور گناہ کو گناہ نہ تصور کرنا بالکل دو مختلف چیزیں ہیں۔ اول الذکر میں خلاصی و نجات کے پورے راستے موجود ہیں جبکہ ثانی الذکر میں نجات کا کوئی راستہ نہیں۔

سچ صرف اسلام ہے اور بقا صرف اسلام میں ہی ہے۔ وہ لوگ جو حکومت کی رِٹ کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں اور اس کے اختیارات و قوانین کی بات کرتے ہیں یا حکمرانوں سے بغاوت کی انہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ حقیقی صورتحال اس ملک میں کیا ہے جو اسلامی نہ سہی مسلم تو ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اسلامی ریاست یا مملکت کیا ہوتی ہے، ایک اولی الامر یا حاکم کی تعریف اور اس کے فرائض و ذمہ داریاں کیا ہیں کم از کم یہ تو دیکھئے کہ آپ مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں، آپ سے اللہ کی ذات کیا مطالبہ کرتی ہے بالخصوص ان علماؤں سے جو اپنے آپ کو انبیاء کا وارث قرار دینے میں آگے ہیں۔ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا آپ کی ذمہ داری ہے لیکن نہیں بنانا چاہتے تو یہ آپ جانیں اور اللہ لیکن اگر کوئی خوفِ خدا رکھنے والا شخص یا گروہ حاکم وقت کو اس کے فرائض و ذمہ داریاں یاد دلائے اور اس بات پر زور دے کہ اسے کیا کرنا ہے تو یہ کون سا گناہ ہے؟ حاکم کی اطاعت واجب ہے اور اس کا حکم بھی دوٹوک اللہ نے دیا ہے لیکن ذرا یہ بھی دیکھئے کہ وہ کون سے حاکم ہوتے ہیں جن کی اطاعت فرض و واجب کے کھاتے میں ڈالی گئی ہے۔ اطاعت کا حکم ملاحظہ فرمایئے :

”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہوں۔“ (النساء:59) [نوٹ ۔ اس آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے ۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ پر نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر یقین رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریقۂ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے]

لیکن یہ صاحب امر ہوں گے کیسے جن کی اطاعت کو لازمی ٹھہرایا گیا ہے یہ بھی دیکھئے :

”یہ وہ مسلمان ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین میں صاحب اقتدار کردیا تو وہ نماز قائم کریں گے، ادائے زکوٰة میں سرگرم رہیں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے، برائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کار خدا کے ہاتھ میں ہے۔“ (الحج:41)

سو تو یہ طے ہے کہ حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری مسلمان کے لئے ضروری ٹھہرائی گئی ہے تاکہ نظام زندگی مستحسن بنیادوں پر رواں رہے، ریاست میں اللہ کا قانون اور اس کا حکم نافذ ہو رہے، بدنظمی و عدم توازن پیدا نہ ہو، لاقانونیت جنم نہ لے سکے اور امن و سلامتی کا دور دورہ ہو لیکن یہ بھی یاد رکھئے کہ اول و آخر چیز اللہ کا حکم اور اس کی شریعت ہی ہے اور یہ سارا نظام اسی کے نفاذ کے لئے راہیں ہموار کرتا ہے اگر کوئی حاکم ان راہوں کی ہمواری کے آگے رکاوٹ بن رہا ہو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پس پشت ڈالے جا رہے ہوں تو پھر ان مسلمانوں کو جنہیں اس کی اطاعت کا پابند کیا گیا ہے انہیں اس سے بری الذمہ بھی ٹھہرایا گیا ہے اور اس کی وضاحت اللہ کے رسول ﷺ نے یوں کی ہے، آپ کا ارشاد ہے:

”مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اولی الامر کی بات سنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، تاوقتکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سننا چاہئے اور نہ ماننا چاہئے۔“ (بخاری و مسلم) [نوٹ ۔ اُوپر سورة النساء کا جو حصہ نوٹ کے تحت نقل کیا گیا ہے وہ یہی حکم دیتا ہے]

اب اس سے زیادہ جو سخت بات آپ نے ارشاد فرمائی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے جس کا اطلاق ہر مسلمان پر ہوتا ہے، آپ کا ارشاد ہے:

”تم میں ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کی بعض باتوں کو تم معروف پاؤ گے اور بعض کو منکر، تو جس نے ان کے منکرات پر اظہار ناراضی کیا وہ بری الذمہ ہوا اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔“ (مسلم)

لاتعداد احادیث ایسی ہیں جن میں حکمرانوں کے احکامات معصیت اور اعمال معصیت کی تشریحات و وضاحتیں موجود ہیں اور ان پر انفرادی و اجتماعی سطح پر آوازِ حق بلند کرنے کی تلقین کی گئی ہے یہاں تک کہ ایسے حاکموں کو ان کے منصب سے اتار دینے تک کے احکامات بھی موجود ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہ سہی لیکن اگر یہ مسلمان ریاست بھی ہے تب بھی ایک مسلمان کے اس حق کو کوئی نہیں چھین سکتا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اسے دیا ہے اور جو محض ان دو مندرجہ بالا احادیث سے بھی واضح ہے۔ کوئی حکومت محض رِٹ، ہینڈ میڈ قوانین اور حکمرانوں سے بغاوت کی بات کر کے اپنے آپ کو احتساب سے نہیں بچا سکتی اور نہ ہی کسی ایسے حق سے کسی مسلمان فرد یا گروہ کو محروم کرسکتی ہے جو اس کی بنیادی دینی تربیت کا حصہ اور ایک اہم ذمہ داری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.