لال مسجد تنازع بظاہر تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے اور حکومت نے بہت سے ” محب وطن حلقوں “ کے پُرزور اصرار اور دباؤ پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف خونی آپریشن کرکے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنی ”رِٹ” قائم کر دی ہے لیکن اس سارے معاملے کو شروع سے آخر تک جس انداز سے ہینڈل کیاگیا اور اب اس آپریشن کے جو مابعد اثرات سامنے آرہے ہیں، ان کے پیش نظر بحیثیت قوم بحرانوں اور مسائل سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت اور بالخصوص ہماری قیادت کی اہلیت کا سوال سب سے زیادہ توجہ اور غور وفکر کا مستحق ہے۔ جیساکہ سب جانتے ہیں لال مسجد کا تنازع اس سال جنوری میں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد کی سات مساجد کو تجاوزات قرار دے کر منہدم کرنے اور دیگر بہت سی مساجد اور جامعہ حفصہ سمیت کئی مدارس کو انہدام کا نوٹس دیئے جانے پر شروع ہوا تھا، اگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ یہ تمام مساجد ومدارس واقعی سر کاری زمین پر قائم تھے اورغیر قانونی طور پر قائم کئے گئے تھے تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام آباد میں ان چند مساجد ومدارس کے علاوہ باقی تمام عمارات سو فیصد قانونی طور پر قائم تھیں؟ اورکیا وفاقی دارالحکومت میں لینڈ مافیا کا صفایا کردیاگیا تھا کہ اب صرف مساجد و مدارس سے قبضہ واگزار کروانا باقی رہ گیا تھا؟ اگر اس کاجواب نفی میں ہے اور اخباری ریکارڈ کے مطابق یقینا نفی میں ہے تو پھر ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو گوناگوں داخلی چیلنجوں کا سامنا تھا، صرف مساجد و مدارس کے خلاف کارروائی کس کے کہنے پر کن مقاصد کیلئے کی گئی تھی؟ اس سوال کا جواب سب سے پہلے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
جس انداز سے اس کارروائی کے بعد ملک میں علماء اور دینی مدارس کا میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات اور معاہدوں کو بار بارسبوتاژ کرکے علماء ، دینی طبقوں اور بالخصوص لال مسجد انتظامیہ کو اشتعال دلانے اور انتہائی اقدامات پر مجبور کرنے کی کو ششیں کی گئیں وہ کوئی راز کی بات نہیں ہے بلکہ ان مذاکرات میں شریک اعلیٰ حکومتی شخصیت چوہدری شجاعت حسین نے خود تسلیم کیا تھا کہ نادیدہ قوت نے لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ مساجد کے معاملے میں طے پانے والے معاہدے کو سبوتاژ کردیا، لال مسجد انتظامیہ کے بعض اقدامات سے تمام قومی حلقوں اورخود علماء نے شدید اختلاف کیا لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ مولانا برادران نے کسی بھی مرحلے پر مذاکرات اور گفت وشنید سے انکا ر نہیں کیا، جبکہ حکومت نے 3 جولائی کو آپریشن کے آغاز پر ہی اعلان کردیا تھا کہ اب لال مسجد انتظامیہ سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، یہ اعلان لال مسجد کے اندر موجود افراد کی کئی دنوں تک کی زبردست مزاحمت اور بعض سنجیدہ رہنماؤں کی مداخلت پر واپس لے لیاگیا اور 9 جولائی کو علماء اور چوہدری شجاعت حسین کی کوششوں سے دوبارہ لال مسجد انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور کئی گھنٹوں تک گفت وشنید کے بعد بالآخر تینوں فریقوں کی رضامندی سے معاہدے کا ایک ڈرافٹ تیارکرلیا گیا لیکن مذاکرات میں شامل علماء کے مطابق جب ڈرافٹ پر دستخط کرنے کا مرحلہ آیا تو چوہدری شجاعت حسین اور ان کے رفقاء نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس اس کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے اور یہ کہ اس کا فیصلہ ایوان صدر میں ہی ہوگا،
ایوان صدر میں اس ڈرافٹ میں یکطرفہ طور پر تبدیلیاں کی گئیں اور علماء کوتبدیل شدہ ڈرافٹ پر صرف ”ہاں یا نہ“ میں جواب دینے کا پیغام دیاگیا جو ظاہر ہے کہ علماء کیلئے ناقابل قبول تھا۔”جنگ “کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق علامہ غازی بعد میں ایوان صدر کے منظور شدہ ڈرافٹ پر بھی راضی ہوگئے تھے لیکن حکو مت نے آپریشن روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس کا اس کے سوا اور کیا مطلب لیاجاسکتا ہے کہ حکومت نے نامعلوم مصلحتوں کی بنا پر ہر حال میں آپریشن کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا اور مذاکرات کو محض ایک اسٹریٹجی کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔
حکومت کا یہ طرز عمل اپنی جگہ ، اس کے ساتھ ساتھ بعض مخصوصہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں، دانشوروں اور کالم نگاروں نے اس سارے معاملے کو خرابی تک لے جانے میں جو کردار ادا کیا وہ بھی کچھ کم افسوسناک نہیں ہے، بعض کالم نگاروں کو لال مسجد تنازع کی شکل میں علماء ، دینی مدارس اور مذہبی طبقے کے خلاف اپنے بغض کے اظہار کا گویا ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا تھا اور انہوں نے یہ موقع ایسے وقت میں بھی ضائع نہیں ہونے دیا جب پوری قوم لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اندر موجود ہزاروں بچوں اور بچیوں کی زندگی کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا تھی ، ایسے وقت میں دونوں فریقوں کو فہم وتدبر اور صبروتحمل کی تلقین کرنے کی بجائے ملک کے بعض نامی گرامی دانشوروں اور کالم نگاروں نے حکومت کو فوری آپریشن کرنے، ” دہشت گردوں“ کو ”کچل دینے“ کے مشورے دیے اورمولانا عبدالعزیز کی برقع میں گرفتاری کے [ڈرامہ کے] بعد علماء اوردینی مدارس کے خلاف ایسی زبان استعمال کی گئی جس نے لال مسجد انتظامیہ کی مخالف دینی قوتوں کو بھی ان کی حمایت کرنے اور خود علامہ غازی اور ان کے ساتھیوں کو آخر دم تک مزاحمت کرنے پر مجبور کردیا۔
مولانا برادران پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سرکاری زمین پر اپنا ایک ذاتی”قلعہ“ بنایا ہوا ہے جہاں انہیں تمام سہولتیں حاصل ہیں، آپریشن کے اختتام پر صحافی خاص طور پر اس ”قلعے“ کو دیکھنے کیلئے اندر گئے اور یہ رپورٹ دی کہ دس ہزار کے قریب طلبا وطالبات کو مفت تعلیم ، رہائش اور طعام فراہم کرنے والے مولانا برادران کے تین تین کمروں پر مشتمل سادہ سے مکانات کے کسی کمرے میں ایئر کنڈیشنر تو درکنار ائیر کولر اور صوفہ سیٹ تک نہیں تھے، بھاری اسلحے اور” غیر ملکی دہشت گردوں کی موجودگی کے الزامات بھی محض افسانہ تھے، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے بعض دانشور قومی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے کس قسم کے تحقیقی معیار کا ثبوت دیتے ہیں۔ لال مسجد تنازع کے دوران مذکورہ حلقوں کی جانب سے ”حکومتی رٹ“ کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا اور لال مسجد انتظامیہ کو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے پر گردن زدنے کے لائق قرار دیا گیا ۔ اصولی طور پر اس موقف کے درست ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن اگر ماضی قریب میں خود انہی حلقوں کے طرز عمل پر غور کیا جائے تو کم از کم ان کی جانب سے یہ موقف بڑا عجیب لگتا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک سال قبل اکبر بگٹی مرحوم نے جب حکومت سے باقاعدہ طور پر بغاوت کرکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس لشکر تشکیل دے کر بلوچستان میں ایک جنگ شروع کردی تھی اور حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے وہاں کارروائیاں کر رہی تھی تو انہی دانشوروں اورسیاسی جماعتوں نے نہ صرف حکومت کی مخالفت کی تھی بلکہ حکومت کے خلاف اکبر بگٹی کی بغاوت کو ”حقوق“ کی جائز جدوجہد سے تعبیر کیاتھا، لال مسجد آپریشن کی سب سے بڑھ کر حمایت کرنے والی ایک حکومتی حلیف جماعت نے تو حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی آپریشن کی صورت میں حکومت سے الگ ہونے تک کی دھمکی دی تھی (جس پر اکبر بگٹی کی ہلاکت کے باوجود بھی عمل نہیں کیا گیا)۔ کیا بلوچستان میں حکومتی رٹ اہم نہیں تھی ؟ اس کاجواب ان حلقوں کے ذمے ہے۔ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے دہرے معیارات سے نجات حاصل کرنے اور قومی معاملات پر تعصبات سے ہٹ کر متوازن سوچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔