دوستی یا دُشمنی ۔ ہوشیار باش

پاکستانی ایٹمی وار ہیڈز کنٹرول میں لینے کے لیے امریکا نے ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت امریکا پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرے گا۔ یہ آپریشن امریکا کا ایک انتہائی خفیہ کمانڈو یونٹ کرے گا جس کو جوہری ہتھیاروں پر قبضے کی تربیت دی گئی ہے۔ یہ خفیہ کمانڈو یونٹ اس وقت افغانستان میں موجود ہے اور ایکشن کرنے کے لیے صدر اوباما کے حکم کا منتظر ہے۔

یقیناً امریکا ایک مربوط سازش کے تحت پاکستان کو اس کے جوہری ہتھیاروں سے ہر حال میں محروم کرنے پرتلا ہواہے۔ بڑی چالاکی اور عیاری کے ساتھ پاکستان کے دوست اور ہمدرد کا روپ دھار کر امریکا اپنی چالیں چل رہا ہے۔ دوسری طرف ہم بڑی تیزی سے اس کی طرف سے پھیلائے گئے جال میں پھنستے جا رہے ہیں اور آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اور ایٹمی پروگرام شاید پہلے کبھی اتنے خطرہ میں نہ تھے۔

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھیئے

دہشتگردی کی آبیاری کیسے ہوتی ہے

پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے دوراقتدار کے پہلے سال میں عام شہریوں کو کلاشنکوف کے 12000 لائسنس جاری کئے ۔ یہ لائسنس زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ کی سفارش پر جاری کئے گئے ۔ مشرف کے زیرسایہ (ق) لیگ کی حکومت نے اپنے 5 سالہ دوراقتدار میں اس خطرناک اسلحے کے 2000سے کم لائسنسوں کا اجراء کیا تھا ۔ وزیر مملکت برائے داخلہ تسنیم احمد قریشی نے بتایا کہ وزیراعظم نے کلاشنکوف کے 10000جبکہ انہوں نے 2000 لائسنس جاری کئے

چند ماہ قبل وزیراعظم نے وزیرمملکت برائے داخلہ تسنیم قریشی کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ وزیراعظم اور مشیرِ داخلہ رحمن ملک کی منظوری کے بغیر لائسنسوں کا اجراء کرسکتے ہیں ۔ پہلے یہ اختیار صرف وزیراعظم کے پاس تھا ۔

وزیر مملکت برائے داخلہ تسنیم احمد قریشی نے کہا کہ پستولوں [Pistols] کے لائسنس کیلئے 15000درخواستیں جبکہ دیگر اسلحہ کے لائسنس کیلئے بھی وزارت داخلہ کے پاس 2500درخواستیں زیرالتواء ہیں ۔ وزیرمملکت نے کہا کہ کلاشنکوف کے لائسنس ان لوگوں کو جاری کئے جارہے ہیں جنہیں اپنی حفاظت کیلئے اسلحے کی ضرورت ہے

بشکریہ ۔ جنگ

Click on “Reality is Often Bitter” and see that conditions for marriage written in Qur’aan are the same as were written in the Bible write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com

یونہی خیال آ گیا

کچھ روز قبل ایک کتاب پڑھنے کے بعد میں نے جو کچھ پڑھا تھا بستر پر دراز اس کے متعلق سوچ رہا تھا تو میں اس دُنیا سے گُم ہو گیا ۔ جب واپسی ہوئی تو میرا تکیہ تر تھا ۔ اچانک میرے ذہن میں ان فقروں نے جنم لیا

پیار کو ہم نے سوچ کے اپنایا ہوتا
صرف آپ کو رہنما اپنا بنایا ہوتا
آج ہم بھی ہوتے اللہ کے پیاروں میں
گر آپ کو جان سے محبوب بنایا ہوتا

Click on “Reality is Often Bitter” to read my another blog with different posts and articles or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com

ملت کے رہبر کون ؟

میرے وطن میں باتیں کرنے والے تو بہت ہیں لیکن خاموشی سے پہاڑ جیسے کام کرنے والے کچھ لوگ بھی ہیں کہ اللہ نے دشمنوں کی تمامتر سازشوں اور حکمرانوں کے گُلچھڑے اُڑانے کے باوجود شاید انہی کی وجہ سے اس مملکتِ خدا داد پاکستان کو قائم رکھا ہوا ہے اور یہی لوگ ملت کے اصل رہبر ہیں ۔ ایسا ہی ایک خاندان صوبہ سرحد کے ایک قصبہ تراکئی میں ہے جنہوں نے نقل مکانی کر کے آنے والے صرف اپنے عزیز و اقارب کو ہی نہیں ہزاروں غیروں کو بھی اپنے گھروں میں پناہ دے رکھی ہے اور ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں

تراکئی کا ایک مالدار سیاسی خاندان ہے جس کے سربراہ کا نام لیاقت ہے ۔ اس خاندان نے اپنے عزیز و اقارب کے تعاون سے مختلف علاقوں میں اپنی ذاتی زمینوں پر 7 کیمپ بنائے ہیں اور ان میں کل شام [15 مئی] تک 15000 افراد کو پناہ دی ہے اور مزید 500 کو اپنے گھروں میں رکھا ہے ۔ یہ خاندان ان مہمانوں کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے ۔ انہیں صبح کا ناشتہ ۔ دو وقت کا کھانا ۔ تین وقت چائے ۔ پینے کا ٹھنڈا پانی مہیا کیا جا رہا ہے ۔ مہمانوں کی طبی ضروریات کیلئے ڈاکٹر ۔ نرسیں ۔ دوائیوں کی سہولت موجود ہے ۔ دن رات ایمبولینس اور دوسری ٹرانسپورٹ بھی استعمال کیلئے موجود رہتی ہے ۔ اس پر بھی لیاقت نے کہا “مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے ان مہمانوں کو صبح کے ناشتہ میں پراٹھے مہیا نہیں کر سکا کیونکہ ان کی تیاری میں وقت بہت لگتا ہے “۔ کیمپوں کی تفصیل یہ ہے ۔ 2 شیوا اڈا میں ۔ ایک تولاندئی میں ۔ ایک بازارگئی میں اور 3 تراکئی میں ہیں ۔ پہلے دن 2 کیمپ تیار کئے گئے تھے جو بڑھ کر 7 ہو چکے ہیں ۔ اول روز سے ان تمام کیمپوں میں لگے ہر خیمے میں بجلی اور بجلی کا پنکھا موجود ہیں ۔ گھروں میں جہاں مہمانوں کو رکھا گیا ہے ہر کمرے میں بجلی اور پنکھا موجود ہیں

ایک طرف حکومتی کاروائیوں کی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اشتہار بازی پر زور ہے اور حقیقت سے بہت زیادہ بتایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح ایم کیو ایم نے کراچی سے ایک ٹرک بھیجا تو دن رات چھوٹے چھوٹے وقفوں سے ہر ٹی وی چینل پر اسے دکھایا جاتا رہا ۔ دوسری طرف یہ بلند مرتبت اور بلند ہمت خاندان ذرائع ابلاغ کے نرغے میں آنا پسند نہیں کرتا ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ سب کچھ انسانیت کی خدمت کیلئے کر رہے ہیں جو ان کا بحثیت انسان اور مسلمان فرض ہے اسلئے دکھاوا سے اپنا عمل ضائع نہیں کرنا چاہتے

کیا ہم عقلبند ہیں ؟

نہیں جناب ۔ میں نے اِملا کی غلطی نہیں کی ۔ میں نے عقلبند ہی لکھا ہے ۔ عقلبند کا مطلب ہے کہ عقل کو مقُفل رکھنا یعنی عقل سے کام نہ لینا مبادا خرچ نہ ہو جائے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حُکمران اور بہت سے ہموطن آجکل عقلبند ہو چکے ہیں ۔ شمال مغربی علاقہ جہاں فوجی کاروائی جاری ہے کی مصدقہ خبر بعد میں ۔ پہلے ۔ ۔ ۔

میں بیزار تھا ۔ نہ کچھ پڑھنے کو جی چاہتا تھا نہ لکھنے کو ۔ ایسے ہی ٹی وی لگا کر خبط الحواس بنا بیٹھا تھا کہ ایک فقرے نے چونکا دیا “کوئی بھی شخص ہتھیار اُس وقت اُٹھاتا ہے جب معاشرہ اُسے انصاف نہیں دے پاتا “یہ الفاظ تھے ایک بھارتی قلم کار اور سماجی کارکن ارن دھتی رائے کے جسے میں نے چوکنے کے بعد پہلی بار دیکھا ۔ وہ کراچی میں موجود تھی اور برملا بول رہی تھی ۔ ارن دھتی رائے نے مزید کہا “وہ نوجوان جو عورتوں پر پلاسٹک کے تھیلوں کی طرح پابندی لگانا چاہتا ہے وہ بھی کسی فیکٹری میں تیار ہوا ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح پلاسٹک بیگ کسی فیکٹری میں تیار ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیکٹری کہاں ہے ؟ اور اسے کون چلا رہا ہے ؟” ارن دھتی رائے نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ” جب آپ کہتے ہیں طالبان ۔ تو آپ کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ کیا اس سے مراد عسکریت پسند ہے ؟ یا اس سے مراد کوئی نظریہ ہے ؟ دونوں سے لڑنے کا طریقہ الگ الگ ہے ۔ جنگ سے یہ چیزیں ختم نہیں ہو سکتیں ۔ دہشتگردی کے خلاف جو جنگ لڑی جا رہی ہے ۔ اُس نے دنیا کو پہلے سے بھی زیادہ خطرناک بنا دیا ہے ”

اب آتے ہیں تازہ ترین مگر اہم خبر کی جانب ۔ فوجی کاروائی سے متاءثرہ علاقوں سے آئے ہوئے لوگ جہاں پناہ گزین ہیں وہاں ہمارے محلہ کا ایک وفد فوری امداد کے سلسلہ میں مطالعہ کرنے گیا تھا کہ کس نوعیت کی اور کتنی مقدار میں مدد درکار ہے وہ واپس آ گئے ہیں ۔ جو کچھ اُن بھائیوں نے بتایا ہے اسے بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے ۔ میں صرف چند جو جگر پاش نہیں ہیں تحریر میں لانا چاہتا ہوں

فوجی کاروائی سے قبل اعلان کیا گیا کہ آپ کے پاس اتنا وقت ہے علاقہ خالی کر دیں ۔ مقررہ وقت کے بعد کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔ وقت اتنا کم تھا کہ ایک عورت جو اپنے گھر کے صحن میں کپڑے دھو رہی تھی اور اس کا ننھا بچہ کمرے میں سویا ہوا تھا وہ اپنے لپٹے ہوئے بچے کو اُٹھا کر گھر سے نکل بھاگی ۔ کچھ دور جا کر اسے احساس ہوا کہ وہ لپٹے ہوئے بچے کی بجائے کچھ اور لپٹا ہوا اُٹھا کر آ گئی ہے ۔ پھر دیوانہ وار بھاگتی ہوئی گئی اور اپنے بچے کو اُٹھا کر لائی ۔ سب لوگوں کو 15 سے 40 کلو میٹر پیدل چل کر کسی مقام پر سانس لیا جو لوگ چپلیوں میں بھاگے تھے ان کی چپلیاں ٹوٹ گئیں اور راستہ میں پاؤں زخمی ہو گئے

ایک شخص نے وفد سے سوال کیا ” اس طرح اعلان کرنے سے کیا عسکریت پسند وہاں بیٹھے رہے ہوں گے کہ فوج آئے اور اُنہیں ہلاک کر دے ؟” وہ بولتا رہا ” پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا اور جب کاروائی کے بعد امن کی اطلاع ملی تو ہم خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹے ۔ مگر ہماری خوشی خاک میں مل گئی جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے گھر اور دکانیں وغیرہ تباہ ہو چکے ہیں اور پھر عسکریت پسندوں نے ہمارے ساتھ زیادہ سختی برتنا شروع کر دی تھی”

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارن دھتی رائے نے جو خیال ظاہر کیا وہ پاکستان میں کسی کو نہیں سوجھتا یا انہوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی ؟
عقلبند اور عقلمند کا فیصلہ قارئین خود کر لیں

جب وطن پکارے

بدقسمت ہے وہ شخص کہ جب اُس کا وطن پکارے تو وہ لبیک کہتے ہوئے وطن کی خدمت کو نہ پہنچ جائے ۔ اس وقت وطن کے لاکھوں بچے کس مپُرسی کی حالت میں ہیں اور وطن چیخ چیخ کر پُکار رہا ہے کہ “کہاں ہیں میری مٹی کے دعویدار ؟ میرے بچے بے سر و سامانی کی حالت میں بھوک سے بِلک رہے ہیں ۔ دھوپ کی تپش سے تڑپ رہے ہیں ۔ آؤ ۔ ان کی مدد کو آؤ ۔ وقت گذر گیا تو کل کو تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے پھر تمہاری مدد کو بھی کوئی نہیں آئے گا ”

پچھلے ایک ہفتہ میں مُلک کے شمال مغربی علاقے کے 15 لاکھ سے زائد بوڑھے بچے عورتیں اپنے ہی مُلک میں مہاجر ہو کر تپتی ریت پر پڑے ہیں ۔ حکومت اور اقوامِ متحدہ ان میں سے 25 فیصد کیلئے بھی کیمپ مہیا نہیں کر سکے ۔ اور جہاں ان کے کیمپ لگائے گئے ہیں وہاں ریت تپتی ہے تو گرمی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے جبکہ یہ لوگ سرد علاقوں کے رہنے والے ہیں ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ ان 25 فیصد کی اکثریت کے سر پر سائیبان بھی نہیں ہے ۔ 75 فیصد سے زائد جنہیں ان کے عزیز و اقارب اور دوسرے دردمند لوگوں نے اپنے گھروں میں جگہ دی ہے وہ سارا دن کیمپوں کے پاس جا کر قطاریں لگا کر کھڑے رہتے ہیں اور اُنہیں کیمپ میں نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کھانے کو نہیں ملتا

آفرین ہے وہاں کے مقامی بھائیوں کی جنہوں نے اپنی ہمت سے بڑھ کر امدادی کام کیا ہے اور دن رات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے 75 فیصد لوگوں کو پناہ دی ہے ۔ ایک مقامی بھائی جو کچھ مالدار ہے نے اپنی زمیں پر خیمے لگائے ہیں ۔ ایک یہی کیمپ ہے جہاں اول روز سے بجلی اور پنکھے مہیا کئے گئے ہیں ۔ وہ شخص مزید خیموں کا بندو بست کر رہا ہے ۔ اس کے عزیز و اقارب اس کی مالی اور جسمانی امداد کر رہے ہیں ۔ اللہ ان سب کی کوششیں قبول فرمائے ۔ اس کے علاوہ اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ ۔ جماعت اسلامی کا الخدمت اور فلاح و بہبود کے چھوٹے چھوٹے نجی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں

راولپنڈی میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں اور سٹاف کی ٹیم پورے ساز و سامان کے ساتھ مصروفِ عمل ہے ۔ بحریہ کالج کی میڈیکل ٹیم صرف انجیکشنز لے کر پہنچی ہوئی ہے ۔ کل ایدھی فاؤنڈیشن والے بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ گروہ امداد کے نام پر آتے ہیں اور اپنی اپنی مووی فلمیں بنوا کر چلے جاتے ہیں ۔ وہ تمام این جی اوز جو ہمیں ٹی وی پر اور اخبارات میں نظر آتی رہی ہیں اور جن میں سے کچھ کے نام بین الاقوامی طور پر جانے جاتے ہیں ان میں سے نہ کوئی وہاں پہنچا ہے اور نہ ہی کہیں وہ نظر آ رہے ہیں ۔ کہاں ہیں وہ انسانیت کے ٹھیکیدار عاصمہ جہانگیر ۔ حنا جیلانی ۔ اقبال حیدر ۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ؟

میری تمام دردمند ہموطنوں سے التماس ہے کہ سوچ میں نہ پڑے رہیئے ۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر امداد کیلئے آگے بڑھیئے ۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد کے تجربہ کی بنیاد پر میں کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اپنے عطیات کسی حکومتی ادارے کو نہ دیجئے کہ ان عطیات میں سے کم ہی حقداروں تک پہنچتا ہے ۔ جو ایس ایم ایس کی مہم شروع ہوئی ہے یہ سب پیسہ بھی حکومت کو دیا جائے گا ۔ آپ براہ راست موقع پر اپنے عطیات پہنچا سکتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ۔ ہم لوگ تو ایسے ہی کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا کرنا آپ کیلئے ممکن نہیں تو مندرجہ ذیل ادارے جو وہاں کام کر رہے ہیں کے پاس اپنے عطیات جمع کرایئے ۔

یو این ایچ سی آر
الخدمت جماعت اسلامی والا
اْمہ ویلفیئر ٹرسٹ
ایدھی فاؤنڈیشن

ایک پُکار

میرے وطن کا جنت نظیر علاقہ جو آگ اور خُون کا دریا بن چکا ہے وہاں سے اپنے سر کے سائے اور اپنے جگر گوشوں کے لاشے چھوڑ کر نکلنے والے پندرہ لاکھ کے قریب بے خانماں میرے ہموطن میں سے ہر ایک کہہ رہا ہے ۔ کاش کہ مقتدر ایوانوں میں اس کی گُونج پہنچے

ملی خاک میں عزت ۔ اُجڑا میرا ہے گھرانہ
جو تھی آج تک حقیقت وہی بن گئی فسانہ
یہ بہار کیسی آئی ۔ جو خزاں بھی ساتھ لائی
میں کہاں رہوں وطن میں نہیں کوئی ٹھکانہ
اس گولے مردم کُش سے کوئی آکے تو پوچھے
کریں اپنوں کے ٹکڑے ۔ کس کاہے شاخسانہ