یہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے

قتل وغارت میں ملوث دوہزار افراد کی فہرست وفاقی حکومت کو پیش
کراچی(جاوید رشید) ملک کے ایک بڑے حساس ادارے نے ایک سیاسی جماعت اور اسکی ذیلی تنظیموں کے دوہزار سے زائد ایسے افراد کی فہرست تیارکی ہے جو دیگر سیاسی کارکنوں کے قتل میں ملوث ہیں اور یہ فہرست مرکزی حکومت کے سپرد کی ہے، ذرائع کے مطابق 101 سیاسی کارکنوں کے قتل ، جلاؤ ، گھیراؤ، املاک سے بیدخل کرنے اور مارنے جیسے جرائم ثبوت کے ساتھ حکام کو دیئے گئے ہیں جبکہ سٹی کورٹ میں وکلاء کو جلائے جانے کے واقعات کی مکمل رپورٹ اور فلمیں حکام بالا کے پاس پہنچ گئی ہیں،

حساس اداروں نے اس تنظیم کی جانب سے کراچی میں لوگوں کو مارنے کی بھی تحقیقاتی رپورٹیں مقتدر حلقوں کو روانہ کردی ہیں جبکہ اس کے دفاتر میں ہونے والی میٹنگز کی ٹیپ اور خطرناک منصوبوں کے بارے میں بھی ہر سطح پر آگاہی دے دی ہے، ذرائع کے مطابق اس تنظیم کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانچ پڑتال کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے،جن کے باہر کی دنیا سے خفیہ روابط ہیں جبکہ اس تنظیم کے ایسے سرکردہ لوگوں پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے جن کے شہر کے بلڈرز سے تعلقات ہیں ، اسلام آبادکے حکام اس سلسلے میں ان غیر ملکی سفیروں کو بھی اعتماد میں لیں گے جو انکی قیادت سے ملتے رہتے ہیں

وقتِ دُعا

کوئی جو بھی لبادہ پہنا دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے حُکمرانوں نے اپنی ذاتی اغراض اور اپنے غیرمُلکی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے پہلے بلوچستان میں اور پھر صوبہ سرحد خانہ جنگی کو جنم دیا جو اب تک جاری ہے ۔ اس میں ہلاک ہونے والے کی اکثریت بے قصور عام شہریوں کی ہے ۔ امریکہ نے جو ڈرون حملے قبائلی علاقہ میں اب تک کئے ہیں ان میں درجن بھر انتہاء پسند اور 700 بے قصور شہری ہلاک ہوئے ہیں ۔ چند دن قبل شروع ہونے والی فوجی کاروائی کے نتیجہ میں 30 فوجی ہلاک اور 80 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں سرکاری ذرائع کے مطابق 700 سے زائد شدت پسند ہلاک کر دیئے گئے ہیں ۔ 13 لاکھ سے زائد شہری اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے ہی وطن میں مہاجر اور بے یار و مددگار پناہ گزین ہو گئے ہیں ۔ سینکڑوں بچے لاوارث ہو گئے ہیں ۔ ابھی مزید کیا ہونے والا ہے اس کا اندازہ نہیں ۔

وہ نام نہاد سِول سوسائٹی کے لیڈر جو ہردم انسانی حقوق کا گیت گاتے تھے اور سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی کاروائی کروانے کیلئے تقریریں کرتے اور جلوس نکالتے تھے وہ کہاں گم ہو گئے ہیں ؟ 13 لاکھ بے قصور بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ مرد اور عورتیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی آفات میں مبتلا ہیں ۔ اُن میں بمشکل ایک لاکھ کو حکومت خیمے مہیا کر سکی ہے اور ان کی خوراک کا بندوبست عام شہری اور ایک دو کونسلر کر رہے ہیں مگر کوئی نام نہاد سِول سوسائٹی یا ڈالر کمانے والی این جی او وہاں نظر نہیں آتی

ہم کیا کرنا چاہ رہے ہیں اور ہمارا مقصد کیا ؟ اس کا جواب شاید آصف علی زرداری کے پاس بھی نہ ہو کیونکہ اسے اپنی غُربت دُور کرنے کے لئے اربوں ڈالروں کی اشد ضرورت ہے اور اس کیلئے وہ امریکہ کی سرتابی نہ کرنے پر مجبور ہے ۔ دوسری طرف ہموطنوں کی اکثریت دُشمنوں کے پروپیگنڈہ سے اتنی محسور ہو چکی ہے کہ اللہ اور رسول کے فرمان کی بجائے اخبار اور ٹی وی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے ۔ اب وہ قرآن کو بھی پاکستانی ٹی وی چینلز پر آنے والے نام نہاد روشن خیال عُلماء کی زبان سے سمجھتے ہیں قرآن کی اصلیت سے نہیں

ایک صدی قبل اُمت کے ایک غمخوار ۔ الطاف حسین حالی صاحب ۔ نے یہ نظم لکھی تھی اور میں نے آدھی صدی سے زیادہ قبل سکول کے زمانہ میں پڑھی تھی ۔ کتنی اَشَد ضرورت ہے آج اسے پڑھ کر صدق دِل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی فقط مسلمانوں کو

اے خاصہءِ خاصانِ رُسل وقتِ دُعا ہے
اُمت پہ تیری آ کے عجَب وقت پڑا ہے

جو دِین بڑی شان سے نِکلا تھا وطَن سے
پردیس میں وہ آج غرِیبُ الغُرَباء ہے

وہ دین ہُوئی بزَمِ جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بَتّی نہ دِیا ہے

وہ دِین جو تفَرّقے اَقوام کے آیا تھا مِٹانے
اس دِین میں خُود تفَرّقہ اب آ کے پڑا ہے

جس دِین نے دِل آ کے تھے غَیروں کے مِلائے
اس دِین میں خُود بھائی سے اب بھائی جُدا ہے

ہے دِین تیرا اب بھی وہی چشمہءِ صافی
دِینداروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے

جِس قوم میں اور دِین میں ہو عِلم نہ دولت
اس قوم کی اور دِین کی پانی پہ بِناء ہے

[پانی پہ بِناء ۔ پانی پر بنیاد۔ یعنی عمارت کی ایسی کچی بنیادجو رکھتے ہی بہہ جائے]

مُختصر سوانح
خواجہ الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ انکے والد کا نام خواجہ ایزو بخش تھا – ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا ۔ بڑے بھائی امداد حسین نے پرورش کی ۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن شریف حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی ۔ غالباً 18 برس کی عمر میں انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔ 1856ء میں حصار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہوگئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ تین چار سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ تقریباَ 8 سال دہلی چلے گئے ۔ مرزا اسداللہ غالب کی وفات پر لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی ۔ لاہور میں محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر انجمنِ پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی ۔ 4 سال لاہور میں رہنے کے بعد پھر دہلی چلے گئے اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہوگئے ۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی ۔ 1904ء میں شمس العلماء کا خطاب ملا ۔ 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی

Click on “Reality is Often Bitter” and see that conditions for marriage written in Qur’aan are the same as were written in the Bible write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com

ماں کا ایک دن یا عمر بھر

کل دنیا میں ماں کا دن [Mothers Day] منایا گیا ۔ جب کوئی قوم مادہ پرست یا مردہ پرست ہو جائے تو زندگی کی عمدگیوں سے محروم ہو جاتی ہے اور بظاہر ترقی دراصل اُس کا بحثیت انسان تنزل ہوتی ہے ۔ والدین بالخصوص ماں کی خدمت بنی نوع انسان پر ہر لمحہ فرض ہے اور والدین کی حُکم بجا آوری کا اللہ سُبحانہُ و تعالٰی نے متعدد بار حُکم دیا ہے سوائے اس کے کہ کفر یا شرک کا حُکم دیں ۔ دین سے دور ہو جانے والے لوگوں کی اکثریت مادی دنیا میں کھو کر ماں جیسی عظیم ہستی کی خدمت میں ملنے والی نعمتوں سے نا آشنا ہو چکی ہے اور رسمی طور پر اپنی پردہ پوشی کیلئے ماں کی یاد کو صرف ایک دن پر محمول کر دیا ہے ۔ بدقسمتی ہے ہماری قوم کی کہ اب میرے ہموطن بھی اُن کے ساتھ شامل ہوناشروع ہو گئے ہیں ۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ماں کا دن نہ منایا جائے ۔ ایسا کریں گے تو انفرادی طور پر مجھے اور میری بیگم کو نقصان ہو گا یعنی ہمارے بیٹے ۔ بہو بیٹی اور پیاری پوتی کا بھیجا ہوا جو کیک ہم نے کل کھایا ہے اور جو تحفے پچھلے سالوں میں اِنہوں نے ۔ بیٹی نے ۔ چھوٹے بیٹے اور چھوٹی بہو بیٹی نے ہمیں بھیجے یا دیئے وہ ملنا بند ہو جائیں گے ۔ :lol: ۔ اللہ کی مہربانی سے ہمارے بچے ہمیشہ سے ہمارا بہت خیال و خدمت کرتے ہیں اور اس طرح کے دنوں کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی بڑی رحمت ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ سب کو ایسی اولاد دے ۔ میرا بڑا بیٹا زکریا ۔ بڑی بہو بیٹی اور ہماری پیاری پوتی امریکہ میں ہیں ۔ چھوٹا بیٹا فوزی اور چھوٹی بہو بیٹی سوا سال سے دبئی میں ہیں اور بیٹی ہمارے پاس ہے

کچھ لوگ ماں کی قبر پر کتبہ لکھ کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں
mother2
دن منانے کے ساتھ ساتھ ماں کا ہمیشہ خیال رکھنا اور خدمت کرنا چاہیئے ۔ ماں کی زندگی میں اس کی خدمت کا نہ صرف بہت اجر ہے بلکہ اس سے خدمت کرنے والے بچے کو سکون بھی ملتا ہے اور میرا یقین ہے کہ اللہ ایسے بچوں کی بالخصوص مدد کرتا ہے ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ماں کے پاؤں میں جنت ہے ۔ رسول اللہ سیْدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا “غارت ہو وہ جس نے بوڑھے والدین پائے اور اُس کی بخشش نہ ہوئی” ۔ مطلب یہ ہے کہ والدین کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت ۔ 36 ۔ ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت ۔ 151 ۔ ۔ کہو [لوگو] آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں ۔ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ [سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ] سلوک کرتے رہنا ۔ ۔ ۔

سورت ۔ 17 ۔ بنٔی اسرآءیل ۔ آیات ۔ 23 و 24 ۔ ۔ اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو ۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں [شفقت سے] پرورش کیا ہے تو بھی اُن [کے حال] پر رحمت فرما

[تبصرہ ۔ انسان اُس وقت اُف کرتا ہے جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے ۔ سو اللہ کا حُکم ہے کہ اگر والدین سے کوئی تکلیف بھی پہنچے تو بُرا نہ مناؤ]

سورت ۔ 31 ۔ لقمٰن ۔ آیات ۔ 14 و 15 ۔ ۔ اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے [پھر اس کو دودھ پلاتی ہے] اور [آخرکار] دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے [اپنے نیز] اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی [کہ تم کو] میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا [کے کاموں] میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا

سورت ۔ 46 ۔ الاحقاف ۔ آیات ۔ 15 تا 18 ۔ ۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح [وتقویٰ] دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں
یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرمائیں گے اور [یہی] اہل جنت میں [ہوں گے]۔ [یہ] سچا وعدہ [ہے] جو ان سے کیا جاتا ہے
اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ اُف اُف! تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ میں [زمین سے] نکالا جاؤں گا حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور وہ دونوں اللہ کی جناب میں فریاد کرتے [ہوئے کہتے] تھے کہ کم بخت ایمان لا۔ اللہ کا وعدہ تو سچا ہے۔ تو کہنے لگا یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں
یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں جنوں اور انسانوں کی [دوسری] اُمتوں میں سے جو ان سے پہلے گزر چکیں عذاب کا وعدہ متحقق ہوگیا۔ بےشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے

اللہ کم از کم سب مسلمانوں کو ماں کی عظمت کو عملی طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے

درندے کہاں کہاں

میں نہیں کہتا کہ مالاکنڈ [سوات اسی میں ہے] میں ظُلم نہیں ہوا ۔ ظُلم ہوا مگر اسے اُچھالنے اور ایک خاص گروہ کو وحشی اور درندے کہنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ اُن کے اپنے ہاں کیا ہو رہا ہے ۔ کیا اُن کے خلاف بھی وہ اسی طرح پروپیگنڈا کرتے ہیں اور حکومت کو کہتے ہیں کہ اُن پر فوجی کاروائی کر کے اُنہیں نیست و نابود کر دو ؟ نہیں ایسا وہ کیوں کرنے لگے وہ تو بڑے لوگ ہیں اسلئے اُنہیں تو غریبوں پر ظُلم کا حق پہنچتا ہے ۔

نیچے سال 2008ء کی عورت فاؤنڈیشن کی تیار کردہ رپورٹ سے اعداد و شمار نقل کر رہا ہوں ۔ اسے پڑھ کر دیکھیئے کہ وحشی یا درندے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار صرف عورتوں پر ظُلم و تشدد کے ہیں اور ان میں وہ واقعات شامل نہیں ہیں جو کسی کے اثر و رسُوخ یا ڈر کی وجہ سے رجسٹر نہیں کئے گئے اور اخبارات نے بھی اپنی خیر منانے میں بھلی سمجھی

۔ ۔ ۔ ۔ جُرم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام آباد ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ سرحد ۔ بلوچستان

قتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 19۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 690 ۔ ۔ ۔ 288 ۔ ۔ ۔ 404 ۔ ۔ ۔ 115
قتل غیرت کے نام پر ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 91 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 220 ۔ ۔ ۔۔ 32 ۔ ۔ ۔۔ 127
اقدامِ قتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 29۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 45
اغواء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1403۔ ۔ ۔ 160 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 71 ۔ ۔ ۔ ۔ 52
جسمانی ایذا رسانی ۔ 11 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 279 ۔ ۔۔ ۔ 97 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 193 ۔ ۔۔ 264
گھریلو تشدد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 67 ۔ ۔ ۔۔ ۔ 98 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 113 ۔ ۔ ۔ 34
خود کُشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 349 ۔ ۔۔ ۔ 144 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ۔ ۔ ۔۔ 18
زنا بالجبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 316 ۔ ۔ ۔ ۔ 80 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 28 ۔ ۔ ۔ ۔ 10
اجتماعی زنا بالجبر ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 248 ۔ ۔ ۔ ۔ 50 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3
جنسی سراسیمگی ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 128 ۔ ۔ ۔ ۔ 40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 12 ۔ ۔ ۔۔ 3
حراست میں تشدد ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 69 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پڑھیئے میرے دوسرے بلاگ پر A “Secret” Database of Israeli Settlements

سوات ۔ طالبان ؟ کچھ سوال و جواب

محبِ وطن جب وطن سے دُور ہوں تو اُن کی توجہ ہر لحظہ وطن طرف رہتی ہے ۔ ایک ایسے ہی دردمند پاکستانی جو اپنی روزی کے سلسلہ میں وطن سے دور ہیں اُنہوں نے کچھ سوالات مجھ سے پوچھ کر میری حوصلہ افزائی کی ہے ۔ ہر چند کہ میں مفکر یا محقق نہیں ہوں لیکن جس ملک میں رہتا ہوں اس کی بہتری کیلئے فکر کرنا تو ایک فطری عمل ہے ۔ موصوف کی برقی چِٹھی کے مطابق اُن کے بہت سے ساتھی بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں اسلئے جو کچھ میرے علم میں آیا ہے اُس کے مطابق جواب دینے کی کوشش کروں گا ۔ برقی چِٹھی کے ذریعہ جواب دینے کی بجائے یہاں اسلئے تحریر کر رہا ہوں کہ دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں

سوال ۔ 1 ۔ یہ پاکستانی طالبان کون ہیں؟ ان میں اور افغانستان کے حقیقی طالبان میں کیا ربط ضبط ہے؟
جواب ۔ 1 ۔ میں طالبان کے حوالے سے ایک تحریر پورے تاریخی پسِ منظر کے ساتھ لکھ چکا ہوں ۔ ابتداء میں نام نہاد پاکستانی طالبان کا نام بیت اللہ محسود سے منسوب ہوا تھا ۔ بیت اللہ محسود کون ہے ؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اس کے بارے میں سنا ہے اسے گونٹانامو بے میں امریکی قید میں ایک سال گذارنے کے بعد رہا کیا گیا اور یہ پاکستان کے قبائلی علاقہ میں پہنچ کر سرگرمِ عمل ہو گیا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی دوسرا پاکستانی صحتمند حالت میں گونٹانامو بے سے رہا نہیں کیا گیا اور جو رہا کئے گئے وہ افغانستان یا پاکستان میں ابھی تک قید ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعہ طالبان کا نام دے کر سینکڑوں قبائلی ہلاک کئے ہیں لیکن بیت اللہ محسود کو نشانہ کیوں نہیں بنایا ؟ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ بیت اللہ محسود اور اُس کے ساتھی امریکا کا لگایا ہوا زہریلا پودا ہے

آجکل نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایک تو ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق کسی کو کچھ علم نہیں ۔ جولائی 2007ء میں پرویز مشرف کے حُکم سے جامعہ حفصہ میں داخل سینکڑوں بچیاں فاسفورس بموں سے جلا کر ہلاک کر دی گئیں تھیں سو طالبان کہلانے یا کہے جانے والوں میں کچھ وہ ہیں جن کی بہن یا بیٹی یا قریبی عزیزہ ان بچیوں میں شامل تھیں ۔ کوئی اس لئے طالبان بنا کہ اس کے اہلِ خانہ فوجی کاروائی میں ہلاک ہو گئے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکومت نے تحفظ نہ دیا تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں بچانے کیلئے نام نہاد طالبان کے حصار میں چلے گئے ۔ ان میں جو شرارت کی جڑ طالبان ہیں انہیں بنانے اور اسلحہ اور مالی امداد دینے والے ان تینوں میں سے ایک ۔ دو یا تینوں ہو سکتے ہیں ۔ بھارت ۔ امریکہ ۔ اسرائیل ۔ بقول فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ “پچھلی حکومت نے بھارت کی راء ۔ امریکہ کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد کو پاکستان میں کام کرنے کی کھُلی چھٹی دے رکھی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں اُنہوں نے قبائلی علاقوں میں اپنے لوگ لگا دیئے”

نام نہاد پاکستانی طالبان جو کوئی بھی ہیں ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کا مقصد وہ ہے جو افغانستان کے طالبان کا ہے ۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں روس یا امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے ہوں

سوال ۔ 2 ۔ ملا صوفی محمد کون ہیں؟ کیا ان کا رویہ یا انکی موجودہ تحریکات واقعی میں قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات پر مبنی ہیں؟
جواب ۔ 2 ۔ صوفی محمد ایک گاؤں کی مسجد کا امام تھا ۔ ایک بار جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر کا انتخاب جیتا تھا لیکن چند ماہ بعد علیحدہ ہو گیا ۔ 1989ء میں اس نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی تھی یا اس میں شامل ہوا تھا ۔ ہوا یوں تھا کہ 1974ء میں منظور ہونے والے 1973ء کے آئین کے نام پر 1975ء میں جو عدالتی نظام سوات میں قائم کیا گیا دراصل وہ نظامِ عدل نہیں بلکہ سوات پر مکمل گرفت کیلئے مجسٹریسی نظام تھا ۔ جب اس کے اثرات پوری طرح سامنے آئے تو وہاں کے عوام جو اسلامی طرز کے نظامِ عدل کے عادی تھے اس کے خلاف احتجاج کرنے لگ گئے اور 1989ء میں اس تحریک نے جنم لیا

میرا نہیں خیال کہ صوفی محمد قرآن شریف کی تفسیر ۔ حدیث اور فقہ سے کما حقہُ آگاہ ہے ۔ جس طرح کے صوفی محمد اب بیانات دے رہا ہے وہ 1989ء سے آج تک دیتا آیا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کسی نے توجہ نہیں دی ۔ صوفی محمد سیدھا سادھا روائتی دیہاتی ہے یعنی جو ذہن میں آیا کہہ دیا ۔ وہ قرآن و سنْت کا نفاذ تو چاہتا ہے لیکن اس کے رموز سے شاید پوری طرح واقف نہیں ہے ۔ صوفی محمد کے مطابق “عورت کا سوائے حج کے گھر سے باہر نکلنا حرام ہے” ۔ اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شریعت کا کتنا علم رکھتا ہے ۔ ایک خوبی اُس میں ہے کہ وہ امن پسند ہے اور ایک بار قبل بھی امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر چکا ہے

سوال ۔ 3 ۔ پاکستانی طالبان کا سوات ڈیل سے یا سوات شریعت سے کیا تعلق ہے؟
جواب ۔ 3 ۔ سوات معاہدہ شریعت کے نفاذ کیلئے نہیں ہے بلکہ نظامِ عدل کا معاہدہ ہے جس کے تحت انصاف سستا اور جلد مہیا ہو سکتا ہے ۔ معاہدہ صوفی محمد سے ہوا کیونکہ وہ صُلح جُو آدمی ہے ۔ اُس کے پیروکار کافی ہیں لیکن نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایسے لوگ ہیں جو اُس کے تابع نہیں ہیں ۔ اور جہاں تک میرا قیاس ہے وہ لوگ کسی غیر ملکی ادارے کے ایجنٹ ہیں جو امن قائم نہیں ہونے دیتے تاکہ پاکستان میں استحکام نہ آئے ۔ پاکستان میں عدمِ استحکام کا براہِ راست فائدہ بھارت ۔ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچتا ہے

سوال ۔ 4 ۔ سوات میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ لڑکی کو کوڑے مارنے کی جو ویڈیو مشہور کی گئی اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟
جواب ۔ 4 ۔ دیر اور بونیر میں فوجی کاروائی کے بعد پاکستانی طالبان نے سوات میں کچھ مقامات پر قبضہ کر لیا تھا ۔ چنانچہ سوات میں بھی فوجی کاروائی شروع کر دی گئی ہے ۔ ان علاقوں کے لوگ پھر سے پریشان ہیں اور اپنی جانیں بچانے کیلئے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں صرف سوات میں سو سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں

لڑکی کو کوڑے مارنے کا معاملہ عدالتِ عظمٰی میں ہے ۔ متعلقہ وڈیو جن لوگوں نے اُچھالی تھی وہ اس کی درستگی کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کر سکے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاہدہ سوات کے خلاف یہ ایک منظم غیرملکی سازش تھی تاکہ امن قائم نہ ہو سکے جو کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں ہمارے ذرائع ابلاغ اور نام نہاد سِول سوسائٹی نے بہت گھناؤنا کردار ادا کیا

5۔ پاکستان میں جاری یہ شورشیں آخر کب ختم ہوں گی؟
جواب ۔ 5 ۔ شورش کب ختم ہو گی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ جس طرح پچھلے ایک سال سے اس سارے معاملے سے نبٹا جا رہا ہے اس سے شورش کم ہونے کی بجائے بڑھنے کے امکانات ہیں ۔ مرکزی حکومت بہت بے دلی سے اس اہم معاملے کے لئے کوئی کاروائی کرتی ہے جس سے شُبہ ہوتا ہے کہ اُنہیں پاکستانیوں اور پاکستان کی بجائے اپنی کرسی اور مال اکٹھا کرنے سے غرض ہے جو امریکہ کے دم سے قائم ہے ۔ قبائلی علاقہ میں ان دگرگوں حالات کا اصل ذمہ دار پرویز مشرف ہے جس نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے قوم اور مُلک کو داؤ پر لگا دیا تھا ۔ جب موجودہ حکومت آئی تو چاہیئے تھا کہ فوری طور پر اس معاملہ کی طرف توجہ دے کر مناسب منصوبہ بندی کی جاتی لیکن اربابِ اختیار اپنی کرسیاں مضبوط کرنے اور دوسرے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے میں گُم رہے ۔ جب معاملہ مالاکنڈ جس میں سوات شامل ہے تک پہنچ گیا تو بھی بے دِلی سے کام کیا گیا ۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے

اُسے تو قتل کرنا اور تڑپانا ہی آتا ہے
گلا کس کا کٹا کیونکر کٹا تلوار کیا جانے

سُنا اور پڑھا تھا کہ کوئی علاقہ مُلک دُشمن لوگوں سے واگذار کرانا ہو تو زمینی کاروائی ہی بہترین ہوتی ہے جس میں خُفیہ والے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں ۔ جس طرح سے پچھلے چار سالوں سے قبائلی علاقہ میں اور اب سوات وغیرہ میں فوجی کاروائی ہو رہی ہے اس نے حکومت کی بجائے نام نہاد پاکستانی طالبان کے ہمدرد پیدا کئے ہیں ۔ اس کاروائی میں دُور مار توپوں کے استعمال سے دہشتگردوں کی بجائے عام شہری زیادہ مارے گئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ خُفیہ والوں کا کردار تو کہیں نظر ہی نہیں آتا

اللہ ہمیں حقائق کو سمجھنے اور درست راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

پڑھیئے میرے دوسرے بلاگ پر A “Secret” Database of Israeli Settlements

میں کیا ہوں ؟

” میں کیا ہوں ” میرا دوسرا بلاگ ہے جو میں نے 5 مئی 2005ء کو شروع کیا جبکہ پہلا بلاگ میں نے 9 ستمبر 2004ء کو شروع کیا تھا ۔ میرا پہلا بلاگ سب کیلئے تھا اور ہے جبکہ یہ دوسرا بلاگ الگ موضوعات لئے بالخصوص ہموطنوں کیلئے شروع کیا تھا اور اُنہی کیلئے ہے ۔ شاید یہ حُب الوطنی کا جذبہ ہے کہ میں نے غیر محسوس طور پر اس بلاگ کو زیادہ وقت دینا شروع کر دیا ۔ میری خوش نصیبی کہ اسے ہمسایہ ممالک جیسے ایران ۔ افغانستان اور بھارت کے مسلمان بھائی بھی سعادت بخشتے ہیں ۔ کئی ایرانی اور افغانی بھائی اُردو پڑھ تو لیتے ہیں مگر لکھ نہیں سکتے ۔ اُن کی ای میلز مجھے فارسی میں آئیں ۔ مزید میرا یہ بلاگ پڑھا جاتا ہے چین ۔ امریکا ۔ افریقا ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ ہسپانیہ ۔ ہالینڈ ۔ اٹلی ۔ ڈنمارک ۔ سویڈن ۔ برطانیہ ۔ جاپان ۔ ملیشیا ۔ سنگاپور اور فلیپائن وغیرہ میں

میں 4 سال انتظار میں رہا کہ کو ئی مُتجسس قاری مجھے پوچھے کہ “یہ نام کیوں رکھا”۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بہت کم قاری ایسے ہیں جو پوسٹ کے علاوہ کہیں اور نظر ڈالتے ہیں ۔ جہاں تنقید کا امکان ہو ۔ وہاں صفحات پُر ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات بے معنی یا غیر متعلقہ تنقید کی جاتی ہے ۔ ایک بار میں نے تنگ آ کر ایک ناقد سے پوچھا کہ “جس پر آپ لکھے جا رہے ہیں وہ میں نے کہاں لکھا ہے ؟” میری سمجھ میں جو بات آئی ہے یہ ہے کہ عِلمی تجسس شاید اپنے وطن سے کوچ کر گیا ہے

اس بلاگ کی وجہ تسمیعہ یہ تھی کہ اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کے اُن پہلوؤں کا اظہار کروں جو آئندہ نسل کیلئے سودمند ہو سکتے ہیں اور نئی نسل کو احساس ہو کہ “میں کیا ہوں” یعنی وہ جو کوئی بھی ہیں بحثیت انسان اُنہیں کیا کرنا چاہیئے

جہاں تک میری اپنی ذات کا تعلق ہے ۔ عام لوگوں نے مجھے سمجھا نہیں یا شاید لوگوں کے پاس کسی اور پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا ۔ جو مجھے سمجھے ان میں سے بھی اکثر نے لمبا وقت لگایا ۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ میری کہی ایک بات کی کسی کو تین چار سال بعد سمجھ آئی تو مجھے کہنا پڑا “مریض تو بغیر علاج کے مر کر دفن بھی ہو گیا ۔ اب کیا فائدہ ؟”

میری ایک عادت ہے کہ کوئی پوچھے “کیا ہو رہا ہے ؟” میں برملا کہتا ہوں ” اپنے دو کام ہیں کھانا اور سونا”۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ سُننے والے نے سنجیدگی سے اسے سچ سمجھ لیا ۔ جبکہ میں کھانے سے پہلے ایک بڑا گلاس پانی پیتا ہوں اور کبھی پیٹ بھر کے نہیں کھایا خواہ کھانا کتنا ہی لذیز اور میرا دلپسند ہو ۔ 24 گھنٹوں میں کبھی 8 گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا ۔ عام طور پر 6 گھنٹے سوتا ہوں ۔ شاید ۔ ۔ ۔ مجھے سمجھنا ہے ہی مشکل

جو قارئین کافی عرسہ سے میرا بلاگ پڑھتے آ رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ میری خصلت سے کچھ آگاہ ہو گئے ہوں ۔ میں نے 19 مئی 2005ء کو “ایسا کرنا”کے تحت اپنی خصلت کا صرف ایک رُخ پیش کیا تھا جس کی وجہ سے بیوقوف ہونے کی سند ملی تھی

میری قسمت میں شاید صرف محنت و کوشش اور دوسروں کی خدمت لکھی ہے جو میں بچپن سے اب تک کرتا آ رہا ہوں ۔ میں اس کیلئے اپنے خالق کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ محنت کرنے والا آدمی کبھی دُکھی نہیں رہتا اور نہ کبھی بازی ہارتا ہے ۔ رہی خدمت تو “ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شُد” پر میرا یقین ہے

جاگو اَو و و و و و

دیر ہو گئی ہے مگر جاگو ۔ ابھی کچھ وقت باقی ہے کہ پانی سر کے اُوپر سے نہیں گذرا

دوسروں کا حق مارنے کی جو عادت پڑ چکی ہے اس بُری عادت سے جان چھڑاؤ
ہوشیاری بہت ہو چکی ۔ ہیراپھیری ۔ جھوٹ ۔ دھوکہ ۔ فریب ۔ بھتہ خوری چھوڑ کر محنت سے کام کرو
اپنی خطاؤں اور نااہلی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی بجائے اپنی خامیاں دُور کرو
اپنی محرومیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے کی بجائے اپنے اطوار و اخلاق درست کرو
کم کھاؤ ۔ سادہ کھاؤ مگر حلال کی روزی کما کے کھاؤ
دوسروں کو کج رَو کہنے کی بجائے اپنی روِش کی سمت درُست کرو
سُرخ بتی کراس کرنے یا کراس کرنے کی کوشش والی عادت اب چھوڑ دو
ملک کے آئین اور قانون کا زبانی احترام نہیں بلکہ عملی طور پر اس کی پابندی کرو
اسلام ماتھے پر سجانے والا جھُومر نہیں ۔ اگر مسلمان ہو تو اللہ کے احکام پر عمل کرو
قرآن صرف مُردوں پر پڑھنے کیلئے نہیں ۔ اسے سمجھو اور اس پر عمل کرو
اپنے آپ کو اور اپنے ماتحت لوگوں اور اداروں کو درست کر چُکو تو دوسروں کی تنقید نہیں ۔ اُن کی مدد کرو
قومی سُرخ بتی جل چکی ۔ زیادہ مُہلت ملنے کے آثار نہیں ۔ اب راہِ فرار چھوڑ دو

آندھی کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں ۔ آندھی چل پڑی تو اُسے ساری دنیا کے انسان مل کر بھی نہیں روک سکیں گے
ڈرو اُس وقت سے جب آندھی چل پڑے ۔ پھر اللہ کو پُکارنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا

Click on “Reality is Often Bitter” to read my another blog with different posts and articles or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com