یہ پہلا واقعہ نہیں

سوات کے طالبان پچھلے 2 سال میں اپنی عدالتیں قائم کرنے کے بعد برسرِ عام کوڑے لگانے کی سزا 25 بار مردوں کو 2 بار عورتوں کو دے چکے ہیں ۔ یہ تمام واقعات جن میں ایک عورت کی وڈیو عام دکھائی گئی ہے سوات کے طالبان سے معاہدہ سے پہلے کے ہیں ۔ خبر یہ ہے

The videotape shown on television and displayed on websites Friday wasn’t the only time that a woman was publicly canned by the Swati Taliban. However, no videotape of the other incident, which took place on October 20, 2008, is available in which a woman and her father-in-law were flogged in Ser-Taligram village near Manglawar in Charbagh tehsil. The woman had been divorced by her husband but her father-in-law kept her in his house. The two were accused by the Taliban of having illicit relations. Villagers said the man was whipped 50 times while the woman was given 30 lashes.

The canning of the 17-year-old girl, who according to certain accounts was 16, shown by television channels on Friday was reportedly filmed by someone with a mobile phone. A reporter of a private TV channel in Swat said the two-minute footage was in their possession for sometime and was being transferred to a large number of people through cell phones. “To be honest, we didn’t want to send it to our TV channels for use due to fear of Taliban and also on account of concern that this would bring a bad name to Swat and endanger the peace accord,” he said while requesting anonymity.

The girl who was publicly canned in Kala Killay village in Kabal tehsil was reportedly named Chand. An Indian TV channel coined a couplet while reporting the incident on Friday by figuratively referring to Chand, which is the Urdu word for the moon. The boy, who like the girl was also lashed 30 times, was named Adalat Khan, son of Muslim Khan.

Incidentally, the Taliban spokesman in Swat who defended the public flogging in several interviews on Friday is also named Muslim Khan. He apparently mixed up the two incidents of public lashing of women in Swat on Taliban orders by saying that the girl videotaped during her canning was convicted of having illicit relations with her father-in-law. That incident happened in Ser-Taligram village in Charbagh tehsil while the videotape is of the girl belonging to Kala Killay in Kabal area.

One of the stories making the rounds in Swat was that a Talib saw the accused, Adalat Khan, who was an electrician by profession, leaving the home of the girl, Chand. He called other Taliban and accused the two of committing adultery. The boy defended himself by arguing that he was asked to fix some electrical appliances in the girl’s house. The Taliban then went ahead with the punishment of 30 lashes awarded to both the boy and the girl. Subsequently, as the story goes the Taliban got the two to marry and even cooked rice to hold a feast for celebrating the occasion.

It is possible that this story is cooked up or is one of the many being told and retold. But it is a fact that Taliban courts punished the two women and about 25 men by lashing them in public. Besides, drug addicts were routinely canned wherever they were found taking drugs.

Among the widely quoted cases, Taliban publicly canned two butchers in Ningolay village for selling meat of dead animals. They also awarded lashes to two men in the same village for committing unnatural sexual offences.

Two Taliban fighters were also publicly whipped 40 times each in Bar Thana village in Matta tehsil after being found guilty by a Shariah court for extorting Rs 360,000 from a goldsmith hailing from Chupriyal village. A Taliban commander known as Khairo was also involved in the same crime as he was the one who imposed the Rs 360,000 fine on the goldsmith after accusing him of running a propaganda campaign against the Taliban. When the Taliban leadership came to know about the incident, they asked the goldsmith to identify the three Taliban who had extorted the money from him. Subsequently, the two Taliban foots-soldiers were lashed in public and their commander, Khairo, was publicly executed in Sinpoora, the village of former provincial minister and JUI-F leader Qari Mahmood, near Matta.

This was Taliban justice, quick and brutal and publicly awarded.

بشکریہ ۔ دی نیوز

لڑکی۔کوڑے؟

بہت پرانی بات ہے کچھ بزرگ بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ۔ ایک بزرگ جو برمحل اور سچی بات کہنے میں معروف تھے بولے “ہماری قوم کا تو یہ حال ہے کہ کسی نے کہا کُتا کان لے گیا اور کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا ۔ دیکھا ہی نہیں کہ ہے یا نہیں”۔ اللہ اُنہیں جنت نصیب کرے مجھے اُن کی یہ بات کل پھر یاد آئی جب ساری دنیا کُتے کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور کوئی سوچ نہیں رہا تھا کہ کُتا کان لے بھی گیا ہے یا نہیں ۔

کل کے غُوغا کا شاید فائدہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود کاروائی کا اعلان کر دیا ۔ ویسے اگر ثمر من اللہ واقعی ثمر مِن اللہ ہوتی تو متعلقہ وڈیو چیف جسٹس کے نام اپنی درخواست کے ساتھ لگا کر عدالتِ عُظمٰی کے رجسٹرار کے پاس جمع کروا دیتیں پھر بھی یہی کچھ ہوتا اور اُن کی مشہوری بھی ہو جاتی البتہ ایک غیر مُلکی طاقت کا ایجنڈا ادھورا رہ جاتا ۔ اب کچھ سُنیئے اُن کی زبانی جن کے ذرائع ابلاغ نے اس وڈیو اُچھالا

مقامی افراد کے مطابق 17 سالہ اس شادی شدہ خاتون کو بدکاری کے الزام میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور یہ واقعہ 6 ماہ پہلے کبل کے علاقے کالا کلے میں پیش آیا۔ ویڈیو میں خاتون کو تین افراد نے پکڑ رکھا تھا۔ ذرائع کے مطابق سر کی طرف بیٹھا ہوا شخص خاتون کا چھوٹا بھائی ہے

صوبہ سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ اگرچہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے تاہم اس پرانے واقعے کی ویڈیو کا منظر عام پر آنا ایک این جی او کی رُکن ثمر من اللہ کی سازش ہے، جس کا بھائی مشرف کابینہ میں وزیر تھا اور یہ لوگ امن معاہدہ سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان حاجی مسلم خان نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ہمیں سزا کے طریقہ کار پر اختلاف ہے تاہم یہ سزا ہمارے کارکنوں نے ناجائز تعلقات کا اقرار جرم کرنے کے بعد مجرموں کو دی

مولانا صوفی محمد کے ترجمان امیر عزت خان نے کہا ہے کہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو سوات امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایک منظم مہم کا حصہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو کو طالبان کیساتھ منسوب کرنا درست نہیں، یہ ویڈیو سوات کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام معاشرے میں نفرت پھیلانے والے عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے

چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ 6 اپریل کو لارجر بنچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے اس سلسلے میں 8 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیدیا جسکی سربراہی وہ خود کرینگے۔ چیف جسٹس نے 6 اپریل کو سرحد کے آئی جی، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری داخلہ کو بھی عدالت میں طلب کیا ہے اور سیکرٹری داخلہ کو متاثرہ لڑکی کو بھی 6 اپریل کو پیش کرنیکی ہدایت کی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے جیو ٹی وی کو حکم دیا ہے کہ وہ واقعہ کی سی ڈی پیش کریں جبکہ جیو اور دیگر ٹی وی چینلز مشترکہ طور پر ویڈیو مواد ترتیب دیکر سماعت کے دوران عدالت میں دکھانے کا انتظام کریں

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

دبئی کیسا لگا

میں پہلی بار مارچ یا اپریل 1975ء میں متحدہ امارات گیا تھا ۔ میں امارات کی حکومت کی دعوت پر ایک خاص کام کیلئے جس کا مجھے ماہر تصوّر کیا جاتا تھا وطنِ عزیز کی نمائیندگی کر رہا تھا ۔ ہم ایک جماعت کی شکل میں گئے تھے جس میں میرے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری ڈیفنس پروڈکشن ۔ ایک لیفٹننٹ کرنل ۔ 2 میجر ۔ ایک اسسٹنٹ ورکس منیجر اور 9 صوبیدار سے حوالدار تک کے عہدوں کے فوجی تھے ۔ جوائنٹ سیکرٹری صاحب انتظامی امور کیلئے گئے تھے لیکن ان کا کوئی عملی کردار نہ تھا کیونکہ سارا بندوبست امارات میں متعیّن پاکستانی سفارتخانہ کے کونسلر صاحب نے کیا ۔ مجھے جماعت کا فنی سربراہ [Technical Head] مقرر کیا گیا تھا ۔ شیخ راشد جن کا بیٹا محمد اب دبئی کا حکمران ہے نے مہمانوں والی کار کے ساتھ ایک باوردی کپتان میرے ساتھ لگا رکھا تھا جس کی وجہ سے آزادانہ گھومنا آداب کے خلاف تھا ۔ مختصر قصہ بیان کر دیا ہے کہ صورتِ حال سمجھ میں آ سکے ۔

اُس زمانہ میں دبئی شہر اتنا چھوٹا تھا کہ سارا ایک دن میں پیدل گھوما جا سکتا تھا ۔ دبئی شہر وطنِ عزیز کے کسی چھوٹے شہر کا مقابلہ کرتا تھا ۔ دکانوں کی ترپالیں اور چھپّر مجھے اب بھی یاد ہیں ۔ شہر سے باہر کچھ نئی عمارات بن رہی تھیں ۔ دبئی سے العین اور ابوظہبی کی سڑک آدھی کے قریب بن چکی تھی ۔ اب وہ سڑک نئی سڑکوں کے جال میں گم ہو چکی ہے ۔ میں نے الشارقہ [Sharjah] ۔ العین اور ابوظہبی بھی دیکھا تھا ۔ اُن کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ ابوظہبی کا شہر کافی بڑا تھا ۔ اُس کے بعد دبئی پھر الشارقہ ۔

اب میں دبئی سے باہر نہیں جا سکا لیکن دبئی تو وہ دبئی رہا ہی نہیں جو میں نے 33 سال قبل دیکھا تھا ۔ اُس زمانہ میں صرف العین میں کچھ درخت دیکھے تھے ۔ دبئی میں ایک درخت بھی نظر نہ آیا تھا ۔ اب تو ہر طرف درخت اور ہریالی ہے ۔ اُس زمانہ کی مجھے ایک عمارت یا سڑک نظر نہیں پڑی ۔ ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ اُس زمانہ کے دبئی میں اشیاء صرف وطنِ عزیز کی نسبت سستی تھیں اب سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سب کچھ وطنِ عزیز کی موجودہ قیمتوں سے زیادہ پر بِک رہا ہے سوائے اسکے کہ کسی دکان پر مُک مُکا فروخت [clearance sale] لگی ہو ۔

دبئی میں شاید پوری دنیا کی قوموں کی نمائندگی موجود ہے ۔ دبئی کے باشندے 20 فیصد اور غیر مُلکی 80 فیصد ہیں ۔ جسے دیکھو بھاگا جا رہا ہے ۔ اگر کسی کو آرام سے چلتا دیکھا تو وہ مقامی تھا یا مقامی کے لباس میں پاکستانی ۔ ہر ملک کے وہاں ریستوراں یا ہوٹل بھی ہیں سو جیسا کھانا دِل چاہے کھایا جا سکتا ہے ۔ ہم نے پاکستانی ۔ مصری ۔ لبنانی ۔ سعودی ۔ ہندوستانی [تھالی] ۔ چینی ۔ فلپینی ۔ ملیشیائی ۔ کانٹیننٹل ۔ امریکی سب کھانے کھائے ۔ پاکستانی میں راوی کا کھانا مشہور ہے ۔ راوی کی ایک شاخ پر ہم تکہ کباب کا کہہ کر انتظار میں تھے اور دیکھ رہے تھے کہ پلاسٹک کے لفافوں میں دھڑا دھڑ ایک ہی قسم کے سادہ کھانے کے اجزاء رکھے جا رہے ہیں ۔ جب دو سو کے قریب ہو گئے تو ہمارا کھانا آیا پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لفافے دو گاڑیوں پر سوار ہو کے کسی سمت چل دیئے ۔ ہم نے کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ راوی والے روزانہ کم آمدن والے لوگوں بالخصوص پاکستانیوں کو مفت کھانا مہیا کرتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔

ایک دن ہم نے دیرہ جا کر کشتی کا سفر کیا اور اس میں کھانا بھی کھایا ۔ ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر تھا جو پُرلُطف رہا ۔ کھانا جو بھی کھائیں اچھا تھا ۔ جس کی وجہ سے میں کچھ زیادہ ہی کھاتا رہا ۔ ہم پرانی دبئی بھی گئے لیکن وہاں گاڑی کھڑی کرنے کو کوئی جگہ نہ ملی ۔ سارے بازار میں بیٹا آہستہ آہستہ گاڑی چلاتا رہا اور ہم نظارہ کرتے رہے ۔ تنگ سڑکیں اور انسانوں سے بھری ہوئی ۔ وہاں سے نکلے تو عصر کا وقت ہو رہا تھا ۔ بیٹے نے ایک مسجد کے پاس جا گاڑی روکی اور ہمیں کہا آپ نماز شروع کریں میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ڈھونڈتا ہوں ۔ ہم نماز ختم کر چکے لیکن بیٹا نہ پہنچا ۔ پارکنگ میں تلاش کیا تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے گاڑی ہی میں بیٹھا تھا ۔ مزید 5 منٹ بعد ایک گاڑی نکلی تو وہاں گاڑی کھڑی کر کے کہنے لگا آپ لوگ اُدھر چلیں میں آتا ہوں ۔ چند منٹ چلنے پر ایک بازار نظر آیا جہاں لوگ دکانوں کے باہر کھڑے آنے والوں کو دکانوں میں خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ یہ علاقہ مرکز الکرامہ تھا

دبئی میں جو خاص باتیں مشاہدے میں آئیں یہ تھیں ۔ لوگ کسی کو پریشان نہیں کرتے نہ کسی پر آواز کستے ہیں نہ کسی پر ہنستے ہیں ۔ نہ کوئی اپنا رونا روتا ہے اور نہ کوئی بڑائی جتاتا ہے ۔ سب مشینوں کی طرح کام میں لگے ہیں یا بھاگے جا رہے ہیں ۔ آپ نے کیا پہن رکھا ہے ؟ یا کیا کھا رہے ہیں ؟ کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ کسی کو کوئی غلط کام کرتے نہیں دیکھا ۔ شراب کی فروخت کھُلے عام ہے لیکں کھُلے عام شراب پینا جُرم ہے ۔ عورتیں بازاروں میں نیم عُریاں اور سمندر پر تقریباً ننگی ہوتی ہیں لیکن پیار محبت جتانا جُرم ہے ۔ ہر جگہ پولیس افسر موجود ہوتے ہیں جو شاید انہی چیزوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ گھروں میں یا ہوٹلوں کے کمروں میں کیا ہوتا اور ساتھ ساتھ چلنے والے میاں بیوی یا کچھ اور ہوتے ہیں اس سے کسی کو غرض نہیں کیونکہ وہاں کی پولیس وطن عزیز کی پولیس کی طرح نکاح نامہ نہیں دیکھتی

سب سے زیادہ قابلِ ذکر لوگوں کا سڑکوں پر کردار ہے ۔ کوئی گاڑی والا زبردستی ایک قطار سے دوسری قطار میں جانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ سڑک پر ٹریفک آہستہ آہستہ چل رہی ہے تو کوئی نہ قطار توڑنے کی کوشش کرتا ہے نہ ہارن بجاتا ہے ۔ ہر ڈرائیور قانون یا اصول کے مطابق دوسرے کا حق پہچانتا ہے اور اُسے راستہ دیتا ہے ۔ کوئی پیدل شخص زیبرا کراسنگ کے قریب فٹ پاتھ پر کھڑا ہو تو آنے والی گاڑیاں رُک جاتی ہیں تا کہ پیدل شخص سڑک پار کر لے ۔ اس کے برعکس وطنِ عزیز میں رہنے والوں کی اکثریت قانون کی خلاف ورزی اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ میرے وطن میں غیر مُلکیوں کی اکثریت بھی ایسا ہی کرتی ہے

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

ثقافت ۔ ایک پنپتا خطرناک پہلُو

میں بہت پہلے بھی ثقافت پر لکھ چکا ہوں ۔ اب کئی ہفتوں سے اس کی مزید تشریح کرنے کا ارادا کئے ہوئے ہوں لیکن دوسرے زیادہ اہم موضوع ہی ہوش سنبھانے نہیں دیتے ۔ اس وقت میں وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک ایسے عمل کی بات کرنا چاہتا ہوں جو ہماری ثقافت کا حصہ بنتا جا رہا ہے ۔ وہ ہے ای میل اور ایس ایم ایس جو بغیر سوچے سمجھے سب کو بھیجے جا رہے ہیں ۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے ۔ بھیجنے والوں نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ اس طرح کی ای میل اور ایس ایم ایس کی اکثریت کا مقصد قوم میں بے چینی اور بے یقینی پیدا کرنا ہوتا ہے خاص کر فی زمانہ جب اسلام پر نصارٰی ۔ یہود اور ہنود چہار جہتی یلغار کر رہے ہیں

کل میں نے ٹی وی پر سوات میں امن کی کوشش سے متعلق ایک مذاکرہ دیکھا جس میں انسانی حقوق کی علمبردار ایک خاتون نے کہا “یہ معاہدہ یا بات چیت قاتلوں سے کیوں کی جارہی ہے ۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے کہ اُن سب کو کُچل دیا جائے ۔ ایک 17 سالہ لڑکی پر ظُلم کیا گیا ۔ یہ کونسا اسلام ہے ؟” 17 سالہ لڑکی والا فقرہ وہ بار بار دُہرا رہی تھیں ۔ اُس خاتون نے مزید کہا ” لاَ إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ ۔ دین میں کوئی زبر دستی نہیں”۔ اس کے بعد جو کچھ اُس خاتون نے کہا اس سے ثابت ہو گیا تھا کہ ایک آیت کے اس چھوٹے سے حصے کے علاوہ وہ نہیں جانتی کہ قرآن شریف میں کیا لکھا ہے ۔ قرآنی حوالہ دینے والی اس خاتون کا حُلیہ قرآن کی تعلیم کی صریح نفی کر رہا تھا

میں آج متذکرہ محترمہ کے استدلال سے پیدا ہونے والے خدشہ کے متعلق لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس آیا اور گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ میرے موبائل فون نے ٹُوں ٹُوں کیا ۔ دیکھا تو ایک نوجوان کا پیغام تھا جس کا خُلاصہ ہے “دیکھو طالبان کس طرح 17 سالہ لڑکی کو مار رہے ہیں ۔ کیا اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے ؟ طالبان سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام ہے ؟ ان کو جواب دینا ہو گا کہ نامحرم لڑکی کو ہاتھ کیوں لگایا اور سزا کیوں دی ؟ قرآن میں لکھا ہے کہ کسی کو اس کے عمل کی سزا اللہ دینے والا ہے ۔ کسی پر زبردستی سے اسلام نہیں پھیلایا جا سکتا ۔ یہ ایس ایم ایس سب کو بھیجیں”

لاَ إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ ۔ یہ الفاظ ہوا میں نہیں کہے گئے بلکہ یہ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ کی آیت 256 کے شروع کے تین الفاظ ہیں ۔ ان الفاظ کا اس پوری آیت اور اس سے پہلے اور اس سے بعد والی آیات کے ساتھ تعلق ہے ۔ جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے

آیت 255 ۔ اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ زندہ ہمیشہ رہنے والا۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے ۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے ۔ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ۔ ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
آیت 256 ۔ دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے
آیت 257 ۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست اللہ ہے کہ اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

معاملہ 17 سالہ لڑکی کا ۔ مجھے اِدھر اُدھر سے جو معلوم ہوا ہے یہ لڑکی کسی نامحرم کے ساتھ بھاگ گئی تھی جس کی سزا اس کے قبیلے والوں نے کوڑوں کی صورت میں اُسے دی ۔ صوفی محمد کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس واقعہ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور انہیں بلاوجہ بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اصل صورتِ حال تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ فوری طور پر قرآن و سُنت سے مندرجہ ذیل حوالے پیش کر سکا ہوں

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء آیت 15 اور 16 ۔” تُمہاری عورتوں میں سے جو بَدکاری کی مُرتکِب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو اُنہیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ اور تم میں سے جو اِس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر یں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے “۔

سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیت 2 ۔ ” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے” ۔

سورت ۔ 24 ۔ النُّور۔ آیات 5 تا 9 ۔ “اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں اُن کو اَسی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اِصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور غفور و رحیم ہے ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت [یہ ہے کہ وہ] چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو ۔ اور عورت سے سزا اسطرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص [اپنے اِلزام میں] جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہو “۔

سورت ۔ 24 ۔ النُّور آیت 33 ۔ “اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری [زناکاری کا پیشہ] پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جَبَر کے بعد اللہ اُن کے لئے غفور و رحیم ہے” ۔

تمام کُتب حدیث میں موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور اُس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کا مُرتکِب ہو گیا ۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دیکر اُس شخص کو راضی کر لیا ۔ مگر جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس” اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی

ترمذی اور ابو داؤد کی روائت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کیلئے نکلی ۔ راستہ میں ایک شخص نے اسکو گرا لیااور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے مرد کو رجم کرایا اور عورت کو چھوڑ دیا
صحیح بُخاری میں ہے ” خلیفہ [حضرت عمر رَضِی اللہ عَنْہُ] کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زبردستی بدکاری کی تو خلیفہ نے غلام کو کوڑے مارے لیکن لونڈی پر حَد نہ لگائی ۔ مزید حوالوں اور تفصیل کیلئے دیکھئے میری 30 مارچ 2006ء کی تحریر ” جُرم و سزا

قصور مُلّا کا یا ؟ ؟ ؟

دوسروں کو اپنی غلطی کا بھی قصوروار ٹھہرانا میرے ہموطنوں کی خاصی بڑی تعداد کی صفتِ خاص بن چکی ہے اور اس کا سب سے زیادہ ہدف مُلّا کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔ قصور کا تعیّن کرنے کیلئے پہلے مُلّا کی اقسام بیان کرنا ضروری ہیں

پہلی قسم جو ہر جگہ دستیاب ہے یعنی جس نے ڈاڑھی رکھ لی ۔ لوگ ان کو مُلّا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ایک دن اُس کی دنیاوی ہوّس ظاہر ہو جاتی ہے یا جب اُس کا کوئی عمل پسند نہ آئے تو اُس کی عیب جوئی شروع کر دی جاتی ہے اور نام مُلّا کا بدنام ہوتا ہے

دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اُن کے علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی غرض یا دین سے لاپرواہی کی وجہ سے کسی مسجد کا امام بنا دیتے ہیں اور ان کے عمل پر آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں تا وقتیکہ وہ کوئی بڑی مُخربِ اخلاق حرکت کر بیٹھے یا اُن کی مرضی کے خلاف کوئی عمل کر بیٹھے

تیسری قسم دین کا عِلم رکھنے والے ہیں جن میں سے کچھ امام مسجد بھی ہیں ۔ ان میں دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل لوگ بھی شامل ہیں اور ان کی اکثریت مختلف پیشوں سے منسلک ہے یعنی ان میں سرکاری یا نجی اداروں کے ملازم بھی ہیں ۔ تاجر یا دکاندار بھی اور کچھ تدریس کا پیشہ اختیار کرتے ہیں

درحقیقت متذکرہ بالا تیسری قسم میں سے بھی آخرالذکر اصل مُلّا ہیں ۔ تیسری قسم میں سب کو مُلا کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ متذکرہ بالا پہلی دو قسمیں مُلا نہیں ہیں بلکہ وہ مُلا کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ ان کو مُلّا نہیں کہنا چاہیئے اور نہ اُن کو امام مسجد جیسا پاک رُتبہ دینا چاہیئے

امام مسجد کا قصور ؟

امام مسجد جس سے عام لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سے کردار کی توقع رکھنا شروع کر دیتے ہیں اُس بیچارے کی معاشی اور معاشرتی بشمول عِلمی محرومیوں پر لاکھوں میں ایک ہو گا جو نظر ڈالتا ہو گا ۔ میں مسجد مجددیہ ۔ پارک روڈ ۔ ایف 2/8 ۔ اسلام آباد میں نماز پڑھتا ہوں ۔ یہ مسجد علاقہ کے لوگوں نے تعمیر کروائی ہوئی ہے اور وہی اس کا خرچ چلاتے ہیں لیکن امام مسجد اور مؤذن کا تقرر وزارتِ مذہبی امور کرتی ہے ۔ 1998ء سے اس کے امام محمد فاروق صاحب ہیں ۔ انہوں نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد دس سالہ قرآن ۔ حدیث ۔ فقہ اور تاریخِ اسلام کا حکومت کا منظور شُدہ کورس کیا ہوا ہے اور راولپنڈی اسلام آباد کے چند مُفتی صاحبان میں سے ہیں ۔ اسی مسجد میں 1998ء تک عبدالعزیز صاحب امام تھے جنہیں والد کے قتل کے بعد مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد کا امام بنا دیا گیا اور لال مسجد پر فوجی کاروائی کے دوران سے اب تک قید میں ہیں ۔ عبدالعزیز صاحب فاروق صاحب سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ اور علم والے ہیں

بہت کم مساجد ہیں جن میں پڑھے لکھے امام ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا بہت ہی کم مشاہرہ اور واجب احترام کا نہ ہونا ہے ۔ اسی لئے دینی مدارس سے فارغ التحصیل لوگ مسجد کا امام بننا پسند نہیں کرتے اور دوسرے ذرائع معاش اختیار کرتے ہیں ۔ مُفتی محمد فاروق صاحب کو محکمہ کی طرف تنخواہ کا سکیل 10 دیا گیا ہوا ہے اور کُل 6000 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ۔ گھر کا خرچ وہ تعلیمی اداروں میں پڑھا کر پورا کرتے ہیں ۔ آٹھویں جماعت کے بعد کسی بھی دوسرے مضمون میں 8 سال پڑھائی کرنے والے کیلئے حکومت نے تنخواہ کا سکیل 17 رکھا ہوا ہے ۔ اسلام آباد میں سب سے بڑی سرکاری مسجد ہے مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد جس کے امام کو تنخواہ کا سکیل 12 دیا گیا ہے ۔ سرکاری ریکارڈ میں امام کیلئے خطیب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے

یہ تو اسلام آباد کا حال ہے باقی جگہوں پر حالات دِگرگوں ہیں ۔ اور جس کو دیکھو اُس نے اپنی بندوق کا منہ مُلّا کی طرف کیا ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر بُرائی کسی نہ کسی طرح مُلّا کے سر تھوپ دی جاتی ہے ۔ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قصور وار مُلّا نہیں بلکہ مّلّا کو قصور وار ٹھہرانے والے ہیں

کیا مُلا لوگوں سے زبردستی غلط کام کرواتے ہیں ؟
کیا مسجد میں جانے والوں نے کبھی سوچا کہ جس کے پیچھے وہ نماز پڑھتے ہیں اُس نے دین کی تعلیم حاصل بھی کی ہے یا نہیں ؟

جب مُلا کسی کی دلپسند بات نہ کہے تو مُلا کو بُرا سمجھا جاتا ہے ویسے چاہےمُلا غلط بات یا کام کرتا رہے کسی کو پروہ نہیں ہوتی ۔ لمحہ بھر غور کرنے پر ہی واضح ہو جاتا ہے کہ قصور مقتدیوں کا ہے امام کا نہیں ۔ ایسے امام کو پسند کیا جاتا ہے جو ہر جائز و ناجائز بات کی اگر حمائت نہیں تو اس پر چشم پوشی کرے

عوامی طرزِ عمل ہر شعبہ میں واضح ہے ۔ سیاسی رہنما چُنتے ہوئے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے ۔ پھر مُلا ہو یا سیاسی رہنما اُن کو کوسنا بھی اپنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ اُن کو منتخب کرتے ہوئے اُن کی اچھی بُری عادات کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ مُلا ہو یا سیاسی رہنما قوم کی اکثریت کو درست انتخاب میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا فرض صرف دوسروں کو بُرا کہنا ہے ۔ اسی لئے انتخابات کے دن چھٹی ہونے کے باوجود اکثر لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے ۔ ایسے لوگوں نے کبھی سوچا کہ اُن کی اس حرکت کی وجہ سے غلط لوگ مُنتخب ہوتے ہیں جن کو وہ بعد میں کوستے رہتے ہیں ؟

میرا پاکستان والے صاحب کی خدمت میں التماس

میں صرف ایک مقصد کی خاطر لکھتا ہوں کہ جو چاہے میرے پچاس ساٹھ سال کے مطالعہ ۔ محنت اور تگ و دو سے حاصل کئے ہوئے تجربات سے فائدہ حاصل کر لے ۔ بالخصوص میری کوشش ہوتی ہے کہ دین سے بے گانگت کے نتیجہ سے جو عام ابہام پایا جاتا ہے اُسے دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ ذاتیات اور ذاتی رائے میں مُخِل ہونا میرا وطیرہ نہیں ہے ۔ میری زندگی میں جب کبھی بحث کے دوران بات انفرادیت یا ذاتیات پر پہنچی میں نے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ میں کسی ایسی محفل میں بھی جانا پسند نہیں کرتا جہاں انفرادی یا ذاتی باتیں ہوتی ہوں

میرا پاکستان والے صاحب نے براہِ راست مجھے مخاطب کر کے میرے استدلال کو زمینی حقائق کے برعکس اور تخیّل قرار دیا ہے اور غلافے الفاظ میں جذباتی بھی کہہ دیا ۔ اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھانا وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور نہ ہی میں نے ہر چیز کی وضاحت اپنے ذمہ لے رکھی ہے ۔ میں صرف اتنا ہی کہوں گا جو ایک مستند حقیقت بھی ہے کہ

جہاں چاہ ۔ وہاں راہ

کیاواقعی ایساہے

میرا پاکستان والے صاحب نے میری تحریر سے آگے چلتے ہوئے کچھ ایسا استدلال اختیار کیا ہے جو منطق [Logic] اور تاریخی حقائق کی نفی کرتا ہے ۔ میں نہ تو عالِمِ دین ہوں نہ عالِمِ تاریخ ۔ طالب عِلم کی حیثیت سے جو میں اپنے 60 سالہ مطالعہ کی روشنی میں اُن کے مندرجہ ذیل بیانات کے متعلق اصل صورتِ حال کو مختصر طور پر واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ میری مدد فرمائے

ناں مسلمان عربی سیکھ پائیں گے اور ناں انہیں قرآن میں کیا لکھا ہے اس کی سمجھ آئے گی۔ اس سازش کو کامیاب بنانے میں عام امام مسجدوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے بچوں کو قرآن عربی میں ہی ختم کرا کے سجمھا انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری زبان سیکھنا بہت ہی مشکل تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم تو قرآن اور نماز اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں پڑھنے کا حکم دے دیں تا کہ قرآن اور نماز پڑھتے ہوئے آدمی خدا سے براہ راست مخاطب ہو اور اسے پتہ چلے کہ وہ خدا سے کیا مانگ رہا ہے اور خدا اسے کیا حکم دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا استدلال یہی ہے کہ نئی زبان سیکھنے کی کوفت میں کوئی بھی نہیں پڑے گا اور آسانی اسی میں ہے کہ دین کو اپنی علاقائی زبان میں پڑھا اور سیکھا جائے تا کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ پندرہ بیس کروڑ کی آبادی کو عربی زبان سکھانے سے بہتر ہے کہ اسے اسی کی زبان میں دین کی تعلیم دی جائے۔ اس کی مثال دنیاوی تعلیم ہے اور مسلمانوں کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک میں ان کی علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے

عربی زبان
عربی زبان سیکھنا مُشکل نہیں ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہموطن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان جس کے حروف اور رسم الخط جانے پہچانے ہیں اور جس کے کئی الفاظ ہماری اپنی زبان میں موجود ہیں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ۔ اس کے مقابلہ میں انگریزی جس کے حروف ۔ قوائدِ ترکیب ۔ صرفِ نحو اور رسمُ الخط سب کچھ بیگانے ہیں نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ اسے مادری زبان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سکولوں میں انگریزی پڑھانے والے کو اگر دس ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے تو عربی پڑھانے والے کو دو ہزار روپیہ دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے کیلئے اعلٰی سند یافتہ اُستاذ رکھا جاتا ہے اور عربی زبان پڑھانا کم خرچ کی خاطر کسی ایرے غیرے کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے والے کی عزت کی جاتی ہے اور عربی پڑھانے والے کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔ ایک بچے کو انگریزی گھر پر پڑھانے کا پانچ ہزار روپیہ ماہانہ دیا جاتا ہے ۔ گھر آ کر قرآن شریف پڑھانے والے کو ایک سو روپیہ ماہانہ دے کر احسان کیا جاتا ہے ۔ اِن حالات میں عربی زبان کیسے سیکھی جا سکتی ہے ؟

کیا عربی زبان سیکھنا مُشکل ہے ؟
ہمارے ہموطن انگریزی کے علاوہ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان اور چین کی زبانیں ۔ علومِ کیمیاء طبعیات ریاضی بالخصوص کیلکُولس بلکہ ڈِفرینشل کیلکُولس سیکھنے کیلئے سالہا سال محنت کرتے ہیں تو اُنہیں قرآن شریف جس کے حروف اُردو کی طرح ہیں اور اُردو کی طرح ہی لکھی جاتی ہے کو ترجمہ کے ذریعہ سمجھنے میں کیونکر دقت درپیش ہے ؟ خاص کر جب کتابی صورت کے علاوہ انٹرنیٹ پر قرآن شریف کا ترجمہ سیکھنے اور عربی زبان سیکھنے اور بولنے کا طریقہ آسانی سے دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ وطنِ عزیز میں ایسے کئی مدارس یا جامعات ہیں جہاں قرآن شریف [تجوید ترجمہ تفسیر] ۔ علوم القرآن و حدیث ۔ تعارف ادیان ۔ دینی شخصیات کا احوال ۔ آدابِ زندگی [ذاتی ۔ معاشرتی ۔ کلام ۔ سلوک ۔ عدل] وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں اور یہ گریجوئیٹ کیلئے ایک سالہ کورس ہے اور کورس کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جنہیں دین کی آرزو ہے وہ گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتے ہیں مگر اوّل شوق ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں اُن کی اکثریت مادہ پرست ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتی

تلاوت بغیر عربی زبان سیکھے
اگر کوئی اُردو پڑھنا جانتا ہو تو قرآن شریف کو سمجھے بغیر پڑھ سکتا اور پھر قرآن شریف میں ایسے الفاظ بھی ہیں جو اُردو میں موجود ہیں ۔ میرا نظریہ ہے کہ کوئی زیادہ وقت نہیں دے سکتا تو صرف روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن شریف کا ایک رکوع اُردو ترجمہ کے ساتھ اس نیّت سے پڑھے کہ میں نے اسے ذہن نشین کرنا ہے اور اس میں دیئے گئے اللہ کے پیغام پر عمل کرنا ہے ۔ اِن شا اللہ وہ شخص قرآن شریف کو سمجھنے لگے گا اور اس پر عمل بھی کرنے لگ جائے گا ۔ رہی بات عربی زبان پڑھ کر خود قرآن شریف کا ترجمہ کرنا اور اس کو سمجھنا تو اس کیلئے لمبی عمر کے ساتھ انتہائی خشوع و خضوع درکار ہے ۔ اُن کیلئے بھی جن کی مادری زبان عربی ہے ۔ کُجا میرے جیسے کم عِلم جنہیں اپنی زبان کی بھی درست سمجھ نہیں ۔ اگلا سوال ہو گا کہ مختلف لوگوں نے مُختلف ترجمے کئے ہیں ۔ یہ ایک معاندانہ افواہ ہے جو مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کیلئے پھیلائی گئی ہے ۔ حکومتِ پاکستان سے منظور شدہ اُردو تراجم سب ایک سے ہی ہیں ۔ الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں مفہوم نہیں ۔ مستند عام فہم مختصر تفصیر کے ساتھ اُردو ترجمہ پڑھنے کیلئے دارالسلام پبلشرز کا احسن البیان ۔ مودودی صاحب کا تفہیم القرآن اور سعودی حکومت کا منظور شدہ قرآن مع اُردو ترجمہ اور تفسیر ۔ اولالذکر دونوں بازار میں عام ملتے ہیں اور تیسرا کسی سعودی سفارتخانہ کے تحت کام کرنے والے مکتب الدعوہ سے بغیر معاوضہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ تفہیم القرآن چھ عمدہ مجلد حصوں پر مشتمل 2500 روپے میں دستیاب ہے اور اس سے کم ہدیہ والے بھی ہیں ۔ احسن البیان کا ہدیہ اس سے کم ہے

مُلا کی تاریخ
جو قوم اپنی تاریخ میں ہی دلچسپی نہیں لیتی وہ بیچارے امام مسجد کی تاریخ کیسے جان سکتی ہے ؟ مُلا انگریزی کے پروفیسر [Professor] کا ہم وزن ہے ۔ وطنِ عزیز میں تو گیارہویں جماعت کو پڑھانے والے کو بھی پروفیسر کہتے ہیں لیکن میں اس کی نہیں بلکہ عمدہ جامعہ [university] کے پروفیسر کی بات کر رہا ہوں ۔ مُلا ایک ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو صرف عالِمِ دین نہیں بلکہ کئی علُوم کا عالِم ہوتا تھا ۔ زمانہ قدیم میں مساجد اور کلیسا عِلم کا گہوارہ تھے اور یہی جامعات تھے ۔ علمِ کیمیا کا ماہر ایواگیڈرو ایک پادری تھا ۔ یونانی ماہرِ کیمیا مارک ایک راہب تھا ۔ وہ مسلمان جنہوں نے ریاضی ۔ جغرافیہ ۔ فلکیات ۔ طب ۔ طبعیات ۔ کیمیا اور عِلمِ ہندسہ وغیرہ کو جدید ترقی کی پٹڑی پر چڑھایاسارے مُلا ہی تھے اور دین پر قائم رہتے ہوئے دنیاوی عِلم میں عروج حاصل کیا تھا ۔ جب عیسائیوں نے مذہب کو دنیا سے الگ کیا تو علِم کو کلیسا بدر کر دیا جس کے نتیجہ میں عیسائی اپنے مذہب سے دور ہوتے چلے گئے ۔ ہند وستان پر انگریزوں کا غلبہ ہو جانے کے بعد تمام عالِم خواہ وہ دین کے تھے یا دنیاوی عِلم کے سب کو تہہ تیغ کر دیا گیا اور مساجد جو کہ جامعات [universities] تھیں کا خرچ چلانے کیلئے مُختص جاگیریں ضبط کر لی گئیں ۔ پھر چھوٹے قصبوں اور دیہات سے کم پڑھے لکھے روٹی کے محتاج چند سو جوانوں کو چُن کر دین اسلام کی خاص تعلیم و تربیت کیلئے برطانیہ بھیجا گیا ۔ اس تعلیم و تربیت کے بعد انہيں واپس لا کر مساجد کے امام بنا دیا گیا اور ان کا نان و نفقہ متعلقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا گیا ۔ اس طرح مُلا جمعراتی کی پود لگا کر اُس کی آبیاری کی جاتی رہی ۔ حکومت ان مُلاؤں سے اپنی مرضی کے فتوے لیتی رہی ۔ دین کا کامل علم نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ان انگریز غلام مُلاؤں نے اپنے مقتدیوں کو رسم و رواج میں اُلجھایا اور فرقوں میں بانٹ دیا ۔ بد قسمتی یہ ہے آج بھی امام مسجدوں کی بھاری اکثریت ایسے ہی مُلاؤں پر مشتمل ہے ۔ جبکہ نہ حکومت اور نہ مقتدی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہوں تو ملاؤں کا کیا قصور ؟

قرآن شریف اپنی زبان میں
قرآن شریف کا ترجمہ رائج کرنا اسلئے بھی غلط ہے کہ کسی زبان کا ترجمہ کیا جائے تو مضمون کی اصل روح کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور بعض اوقات مترجم اصل عبارت کا مفہوم ہی بدل کے رکھ دیتا ہے ۔ اس وقت دنیا کی ہر بڑی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ موجود ہے ۔ اگر صرف دوسری زبانوں پر ہی انحصار شروع کر دیا جائے تو اللہ کا اصل پیغام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہونا شروع ہو جائے گا ۔ مزید برآں پہلے سے کوشاں مخالف قوتوں کو اسے بدلنے میں سہولت ہو جائے گی اور قرآن شریف کے ساتھ وہی کچھ ہو گا جو تورات ۔ زبور اور انجیل کے ساتھ ہوا آج دنیا میں بائبل کے نام سے درجنوں مختلف کتابیں موجود ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف میں کچھ ایسی تاثیر رکھی ہے کہ عربی نہ سمجھتے ہوئے بھی قرآن شریف کی تلاوت بہت اثر رکھتی ہے اور پورا قرآن شریف لوگ زبانی یاد کر لیتے ہیں ۔ لیکن یہ سب تو صرف بحث ہے ۔ آجکل قرآن شریف کے مستند بامحاوہ ترجمہ آسانی سے دست یاب ہے ۔ اسے پڑھ کر اپنے فراض و حقوق کو اچھی طرح سے ذہن نشین کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ عربی میں تلاوت جاری رکھی جائے تو اللہ کے کلام کی برکت سے بہت کچھ سمجھ آنے لگ جاتا ہے ۔ آزمائش شرط ہے

قرآن شریف سے قبل جتنے صحیفے اُتارے گئے وہ ایک مخصوص قوم کیلئے تھے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دین مکمل کرنا چاہا تو ایسی زبان میں قرآن شریف اُتارا جو اُس وقت کی آباد دنیا کے اکثر حصہ میں سمجھی جاتی تھی اور وہ زبان عربی تھی ۔ تاریخ پر غور کیا جائے تو عربی زبان نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ ملحقہ علاقوں میں بھی بولی یا کم از کم سمجھی جاتی تھی ۔ مشہور واقع حبشہ کا ہے جو افریقہ میں واقع تھا اور مکہ سے سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مسلمان حبشہ پہنچے تھے اور وہاں کے عیسائی بادشاہ کو سورت مریم سنانے پر بادشاہ نے اُنہیں اپنا مہمان بنا لیا تھا

اپنی اپنی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرنا بھی آسان نہیں ۔ پچھلے 55 سال کے دعووں کے برعکس اب تک نہ مُلک میں اُردو نافذ کی گئی ہے اور نہ تعلیم اُردو میں شروع ہوئی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ عام پڑھی جانے والی آسان کتابوں کا بھی اُردو میں ترجمہ نہیں ہوا ۔ علاقائی زبانوں میں کون اور کیسے ترجمہ کرے گا ؟ پھر پاکستان میں درجن بھر زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہر زبان ہر ضلع میں فرق بولی جاتی ہے اور کئی اضلاع میں ہر تحصیل میں فرق فرق بولی جاتی ہے ۔ پنجابی ہی دیکھ لیں ۔ ہر ضلع میں فرق فرق ہے ۔ راولپنڈی کی تو ہر تحصل کی پنجابی فرق ہے ۔ ایک تحصیل میں آؤں گا دوسری میں آ ریساں تیسری آساں نا چھوتھی میں اچھی ریساں ۔ ایک تحصیل میں شودا کا مطلب بدمعاش یا انگریزی والا شوئی [showy] ہے اور دوسری تحصیل میں شودا کا مطلب بیچارا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت کم لوگ ہیں جو اپنی مادری یا علاقائی زبان کو ہی پڑھ ۔ لکھ یا درست طریقہ سے بول سکتے ہیں ۔ اصل مسئلہ ہماری قوم کا خواندگی ہے جو 31 فیصد ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو معمولی اُردو لکھ اور پڑھ لیتے ہیں

قرآن شریف اپنی زبان میں پڑھنے کا نتیجہ
اپنی زبان میں قرآن شریف اور نماز پڑھنے سے لوگوں کے اللہ کے بتائے راستے پر چل پڑنے والی بات تاریخ کی صریح نفی ہے ۔ ترکی کے مصطفٰے کمال پاشا نے مئی 1881ء میں حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد مولویوں کو جاہل قرار دے کر اُن سے دین چھین لیا ۔ مسجدوں کو تالے لگا دیئے ۔ اپنی قوم کا [بقول اُسکے] ترقی کی راہ میں حائل لباس اُتروا کر اُنہیں ترقی دلانے والا یورپی نیم عُریاں لباس پہنا دیا ۔ یہاں تک کہ اپنا رسم الخط بدل کر انگریزی رسم الخط رائج کیا ۔ قرآن شریف کا ترجمہ اپنی زبان میں کروایا اور حُکم دیا کہ قرآن شریف اور نماز صرف ترکی زبان میں پڑھی جائے گی ۔ مصطفٰے کمال پاشا 10 نومبر 1938ء تک حکمران رہا ۔ اس عرصہ میں مسلمانی زیادہ ہونے کی بجائے بہت کم ہو گئی اور ترکی میں مسلمانوں نے شراب اور سؤر کے گوشت کا کثرت سے استعمال شروع کر دیا اور دیگر غیراسلامی عادات اپنا لیں لیکن اس جدیدیت کو اپنانے کے ایک صدی بعد بھی ترکی کو یورپی یونین کی رُکنیت نہ مل سکی ۔ میں 1979ء میں بیوی بچوں سمیت استنبول گیا ۔ اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا ۔ میری بیگم کو فکر پڑی تھی کہ افطار میں دیر نہیں ہونا چاہیئے ۔ مجھے ہوٹل میں صرف ایک شخص ملا جسے معلوم تھا کہ روزہ کتنے بجے کھُلے گا ۔ مُسلمانوں کے اس بڑے شہر میں روزہ کب کھلے گا معلوم کرنا تو در کنار اکثریت کو روزے کا ہی معلوم نہ تھا ۔ اسے کہتے ہیں

نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

دوسرے ممالک میں اپنی اپنی زبان میں تعلیم
دوسرے ممالک میں اپنی زبان میں تعلیم کے حوالے پر میں مُسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ درست ہے کہ جرمنی ۔ فرانس ۔ اطالیہ ۔ چین ۔ جاپان حتٰی کہ عرب ممالک میں بھی دنیاوی تعلیم اپنی اپنی زبانوں میں ہے لیکن وطنِ عزیز میں آج تک دنیاوی تعلیم کا علاقائی تو چھوڑ قومی زبان میں پڑھانے کا بندوبست ہو نہیں سکا یعنی اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ انسان کی لکھی سائنس ۔ ریاضی وغیرہ کی کتابوں کا ترجمہ اُردو میں کر لیا جائے جو کوئی مُشکل کام نہیں اور ہم چلے ہیں اللہ کے کلام کا ترجمہ درجنوں علاقائی زبانوں میں کرنے جن کی سو سے زائد مقامی طرحیں ہیں ۔ وہ اللہ کا کلام جسے عام عربی پڑھنے والا بھی بغیر اُستاذ کے سمجھ نہیں سکتا ۔ جبکہ قرآن شریف کو سمجھنے کیلئے ہر سورت اور آیت کے شانِ نزول اور تاریخ کو بھی تحقیقی نگاہ سے پڑھنا پڑتا ہے