طویل المعیاد امریکی حکمتِ عملی

افغانستان میں امریکی موجودگی دراصل ایک طویل المعیاد امریکی فوجی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت امریکہ اپنی دیرینہ معاشی اور حُکمرانی کے خواب پورا کرنا چاہتا ہے ۔ پڑھیئے ایک ہوشرُبا تجزیہ ۔ مندرجہ ذیل عنوانات پر دی ہوئی ترتیب سے باری باری کلِک کر کے
1 ۔ ذرخیز مشرق پر امریکی قبضہ کا منصوبہ
2 ۔ عزائم کی تکمیل میں امریکی خوش قسمتی ۔ پاکستان میں تابعدار فوجی آمر کی موجودگی
3 ۔ دراصل امریکہ طالبان کی مالی امداد کر رہا ہے
4 ۔ امریکہ کا منصوبہ طالبان کو فتح کرنا نہیں بلکہ اس سے بہت بڑا مقصد ہے

یادگار سفر اور خوبصورت شیر

میں نے ڈائری کے سلسلے میں اپنے جموں سے سرینگر جس سفر کا ذکر کیا تھا وہ حادثاتی طور پر میرے لئے بہت دلچسپ بن گیا تھا مجھے شیروں کے ساتھ کھیلنے نہ دیا گیا ۔ وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کرتے ؟ معلوم نہ ہو سکا ۔ بہر حال وہ میرا ایک یادگار سفر ہے

ہمیں 1946ء میں سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں ۔ ہمارے والدین فلسطین میں تھے میں اور میری دونوں بہنیں جو مجھ سے بڑی ہیں چھٹیاں شروع ہونے پر اپنی پھوپھی اور دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ایک دن صبح سویرے گھر سے نکلے اور ٹانگے پر بیٹھ کر بس کے اڈا پر پہنچ گئے ۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی بس روانہ ہوئی ۔ بس میں کُل 6 سواریاں بیٹھنے کی اور پیچھے سامان رکھنے کی جگہ تھی ۔ میں کچھ تنگی محسوس کر رہا تھا ۔ پوچھ کر پیچھے سامان کے اُوپر چڑھ کے کبھی بیٹھتا اور کبھی لیٹتا رہا ۔ سورج چڑھنے کے بعد ہم اُودھم پور پہنچے ۔ وہاں پُوڑے بن رہے تھے سب نے گرم گرم پُوڑوں سے ناشتہ کیا ۔ ہم لوگ آجکل والی انگریزی چائے نہیں پیتے تھے ۔ نمکین چائے جسے آجکل کشمیری چائے کہتے ہیں یا قہوہ جسے آجکل چائنیز ٹی [Chinese Tea] کہتے ہیں پیتے تھے ۔ پوڑوں کے ساتھ سب نے قہوہ پیا

اُودھم پور سے بس روانہ ہوئی تو اُونچے پہاڑوں پر چڑھنے لگی ۔ بس پہاڑ کے ساتھ ایک سمت کو جاتی پھر گھوم کر واپس آتی پھر واپس اُدھر جاتی پھر اِدھر آتی ۔ اُوپر چڑھنے پر ہم جس سڑک سے آئے تھے نیچے ایک رسی کی مانند دائیں بائیں بَل کھاتی نظر آنے لگی۔ بس کی رفتار اتنی تھی کہ کوئی شخص اس کے ساتھ بھاگ کر آگے نکل سکتا تھا ۔ ایک طرف سے پہاڑ پر چڑھ کر بس دوسری طرف اُترنا شروع ہو گئی ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ عمل کتنی بار دوہرایا گیا

عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا بس آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکی تھی کہ رام بن کے علاقہ میں دریائے چناب کا پُل گذر کر بس کوئی 20 میل آگے گئی تھی کہ کھڑی ہو گئی ۔ معلوم ہوا کہ بس کے پچھلے ایک پہیئے کی نابھ یا دھُرا [hub] ٹوٹ گیا ہے جو کہ جموں یا سرینگر سے لایا جائے گا ۔ مغرب کے وقت ڈرائیور گزرنے والی بس میں بیٹھ کر سرینگر چلا گیا بس میں باقی ایک مرد ۔ دو عورتیں اور ہم تین بچے رہ گئے ۔ قصہ کوتاہ بس وہاں دو راتیں اور ایک دن کھڑی رہی

جو کچھ ہمارے پاس تھا ہم نے پہلی رات کو کھا لیا ۔ رات کو سب بس میں بیٹھے اُونگ رہے تھے ۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اور بس سے باہر نکلنے کیلئے بے چین تھا ۔ آخر موقع پا کر بغیر آواز پیدا کئے بس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ چاندنی رات تھی ۔ اُونچے اُونچے پہاڑ اور سڑک کے ساتھ گہری وادی جس میں چناب دریا کا شفاف پانی بہہ رہا تھا ۔ خاموشی اتنی کہ بہتے پانی کا ارتعاش عجب موسیقی پیدا کر رہا تھا ۔ فضا انتہائی خوشگوار تھی ۔ پہلے میں ٹہلتے ہوئے بلند پہاڑوں پر غور کر کے لُطف اندوز ہوا پھر نیچے وادی اور اس میں بہتے پانی کا نظارہ کیا ۔ وادی بہت گہری تھی پھر بھی نیچے پانی تک جانے کی خواہش نے دل میں چُٹکی لی ۔ وادی میں اُترنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک مجھے نیچے پانی کے قریب کچھ نظر آیا ۔ یہ دو شیر تھے ۔ وہ مجھے اتنے خُوبصورت لگے کہ جی چاہا جلدی سے ان کے پاس جا کر اُن سے کھیلوں ۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے اُترنے کا عادی تھا مگر سڑک کے ساتھ ایکدم گہرائی ہونے کی وجہ سے نیچے اُترنے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اچانک بڑی خاموشی کے ساتھ کوئی پیچھے سے مجھے دبوچ کر بس میں لے گیا ۔ وہ میری پھوپھی تھیں جنہوں نے نیند کھُلتے ہی مجھے ڈھونڈا اور بس سے باہر نکلنے سے پہلے ہی اُن کی نظر شیروں پر پڑی تھی

دوسرے دن صبح سویرے ہی کھانے کی فکر ہوئی ۔ ایک رشتہ دار مرد جو ہمارے ساتھ تھے سڑک پر پیدل چلتے ہوئے گئے اور دو گھنٹے بعد ایک چھوٹے سے گاؤں رام سُو سے ساگ ۔ گھی اور کچھ نمک مرچ وغیرہ لے آئے ۔ پتھروں کا چولہا بنایا ۔ اِدھر اُدھر سے سوکھی لکڑیاں چُن کر آگ چلائی گئی ۔ چاول ہمارے پاس تھے ۔ چاول اور ساگ پکائے گئے ۔ ہم نے وہ ساگ نہ پہلے کھایا تھا نہ بعد میں کبھی کھایا ۔ رات کو ڈرائیور نابھ لے کر پہنچ گیا ۔ ساتھ ایک مستری بھی لایا اور نابھ تبدیل کیا گیا ۔ اُس سڑک پر رات کو سفر نہیں کیا جاتا تھا ۔ اسلئے اگلی صبح سرینگر روانہ ہوئے ۔ جب بس راستہ میں قاضی کُنڈ پہنچی تو مجھے چھوٹی چھوٹی پیاری سی ٹوکریوں میں خوبصورت چھوٹی چھوٹی ناشپاتیاں دکانوں پر نظر آئیں اور میں بھاگ کر ناشپاتیاں لے آیا اور سب نے کھائیں ۔ ناشپاتیاں خوبصورت اور بہت لذیذ تھیں

سرینگر میں ہم نے جہلم دریا میں مِیرا قدل [قدل پُل کو کہتے ہیں] کے قریب کشتی پر بنے گھر [House Boat] میں قیام کیا ۔ اس میں دو کافی بڑے سونے کے کمرے دو غسلخانے اور بہت بڑا بیٹھنے اور کھانے کا کمرہ تھا ۔ اس بڑی کشتی کے ساتھ ایک چھوٹی کشتی تھی جس میں باورچی خانہ اور نوکروں کے رہنے کا بندوبست تھا ۔ نوکر ہاؤس بوٹ والا ہی مہیا کرتا تھا ۔ سبزی پھل خریدنے کہیں نہیں جانا پڑتا تھا ۔ سبزی پھل اور مچھلی سب کچھ کشتیوں میں بیچنے آ جاتے تھے ۔ چھوٹی مچھلیاں لینا ہوں تو اسی وقت دریا میں جال ڈال کر پکڑ دیتے تھے

سرینگر میں ہم حضرت بَل ۔ نسیم باغ ۔ نشاط باغ اور جھیل ڈَل ۔ وغیرہ کی سیر کو گئے ۔ پھلوں کے باغات میں بھی گئے ۔ ایک باغ میں گلاس [Cherry] کے درخت تھے جو اس طرح لگائے گئے تھے کہ چاروں طرف سے بالکل سیدھی قطاروں میں تھے ۔ ان پر لگے گلاس بہت خُوبصورت منظر پیش کر رہے تھے ۔ گلاس دو قسم کے تھے ۔ مالی نے ہمیں دونوں چکھائے ۔ کالے بہت میٹھے تھے جبکہ سُرخ کچھ تُرش تھے ۔ ہم نے کالے والے ایک سیر خریدے جو اُس نے درخت سے اُتار کر دیئے ۔ ہم آلو بخارے ۔ بگو گوشے اور بادام کے باغات میں بھی گئے ۔ قریبی پہاڑوں پر گلمرگ ۔ ٹن مرگ ۔ کُلگام ۔ پہلگام ۔ وغیرہ بھی دیکھے ۔ وہاں بہت سردی تھی کئی جگہ برف پڑی ہوئی تھی ۔ ایک ماہ رہ کر ہم واپس جموں لوٹے ۔ ایک رات راستہ میں ہوٹل میں گذاری اور دوسرے دن گھر واپس پہنچے ۔ واپسی کا سفر بغیر کسی اہم واقعہ کے گذرا

آپریشن جاری ہے

آہ ظالم ڈاکٹر شاہد مسعود ۔ کیوں پھر یاد کرا دیا مجھے وہ وقت جب میں دس دن اور دس رات بالکل نہ سویا تھا اور پھر آخری دن 16 دسمبر 1971ء کو ٹرین میں کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے ریڈیو سنتے مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے بہت بلند ہوائی جہاز سے بغیر پیراشوٹ کے مجھے زمین پر پھینک دیا ہو ۔ اب تو 1970ء کا ایک ایک منظر آنکھوں کے سامنے گذرنے لگا ہے اور کتنی مماثلت ہے آج کے دور کی اس دور کے ساتھ

ڈاکٹر شاہد مسعود کی تحریر سے اقتباسات
ہم خود فریبی اور منافقت کے نتیجے میں آدھا ملک گنوادینے اور گزرے باسٹھ برسوں کے دوران بارہا اپنے ہی ہم وطنوں کو فتح کر لینے کی ناکام کوششوں کے باوجود، دُنیا بھر میں ذلیل و خوار اپنا کشکول لے کر گھومنے اور جہاں کی پھٹکار سننے کے بعد یہاں تک تو فخریہ اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ ”میں طویل غیر ملکی دورے پر زیادہ بھیک مانگنے گیا تھا!!“ لیکن کوئی واضح راہ متعین کرنے، نظریہ تراشنے یا حکمتِ عملی طے کرنے کو تیار نہیں

صوبہ سرحد پختونخواہ میں بھر پور عسکری کارروائی جاری ہے! سینکڑوں شدت پسندوں کے مارے جانے اور لاکھوں انسانوں کے بے گھر ہو جانے کی خبریں ہیں! یہ ”شدت پسند“ کون ہیں ؟ میں نہیں جانتا کیونکہ کچھ عرصہ قبل یہ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں سے مدد لیتے ملک دشمن عناصر تھے ! پھر اچانک ممبئی پر ہوئے حملوں کے بعد اِن ”بھارتی ایجنٹوں“ نے کسی بھی جارحیت کی صورت بھر پور ملکی دفاع کا اعلان کرتے، پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ پھر یہی طے ہوا تھا کہ مطالبہ صرف عدل و انصاف کی فراہمی ہے، اس لئے صرف مفاہمت ہی بہترین حکمت عملی ہے! اور واحد رستہ چونکہ معاہدہ ہے، اس لئے بھر پور ”قومی یکجہتی“ کا اُسی طرح مظاہرہ کرتی قوم کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر انتہائی سرعت سے معاہد ہ پر دستخط کردیئے تھے جس طرح اب سر جھکائے ایک بار پھر ”اعلیٰ قومی مفاد کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے “اور” سیاسی بلوغت کا اظہار“ کرتے ، اُس کے خلاف عسکری کارروائی کی حمایت کردی ہے!

اور پھر یہ قومی علماء و مشائخ کانفرنس؟ سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال اور بے مقصد قرار دادیں اور اپیلیں! باسٹھ برسوں میں نہ ہم قائد اعظم کے افکار و خیالات کی دُرست تشریح پر اتفاق کرسکے اور نہ علامہ اقبال کے اشعار کے مفہوم پر اتحاد! قوموں، فرقوں اور مسالک کی تقسیم در تقسیم اور ہر دور کی نئی منطق! جنرل ضیاء الحق کے دور میں منعقد ہوتی علماء و مشائخ کانفرنسیں جہاد فی سبیل اللہ کا درس دیتی دُنیا کے ہر کونے میں باطل کو مٹادینے کیلئے پکارا کرتی تھیں اور اب یہی حکو متی سر پرستی میں ہوتی محافل اُس کے برعکس اقدام کو عین شریعت قرار دے رہی ہیں!! اور حیران کن امر یہ کہ ذرا … مدعوئین اورمقررین کے ناموں کی فہرستیں ملاحظہ کیجئے!

روئیداد خان نے کہا کہ برسوں پہلے اُنہوں نے ہجرت کرتے بنگالیوں کو بھارتی سرحد کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ جنرل حمید گل نے اِسی بات کو آگے بڑھاتے کہا کہ اگر آج بھی سرحد پار امریکہ نہ موجود ہوتا تو شاید پختون، ہماری عسکری کارروائی کے بعد سرحد کا ہی رُخ کرتے اور پھر … جنرل حمید گل نے ایک عجب جملہ کہا ”ہوسکتا ہے یہ ظلم آگے چل کر … کسی پختون مکتی باہنی کو جنم دے دے“۔

”آپر یشن جاری ہے ۔ لا تعداد شدت پسند مارے جاچکے ہیں۔ بے مثال کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ دشمن کے دانت کھٹے کردیئے جائیں گے۔ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ تمام سازشیں ناکام بنادی جائیں گی۔ سیاسی قیادت متحد ہے،بھارت ہمارا دوست ہے۔ قوم بیدار ہے۔ علماء یکسو اور یکجا ہو چکے ہیں، ہر اُٹھنے والی آنکھ پھوڑ اور بڑھنے والا ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ سب ٹھیک ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ جتنا زیادہ ہو سکے ، چندہ ، خیرات اور امداد دیں تاکہ آپ کے بھائیوں کی مدد ہوسکے“ ۔ مفتی رفیع عثمانی کو نہیں صاحبزادہ فضل کریم کو سنیے۔ ریڈیو پاکستان اب بھی یونہی گونج رہا ہے کہ آپریشن جاری ہے۔

ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟

کسی قوم کی اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ اُس کے رہنما جھوٹ بولیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قوم کے افراد اُسے قبول کر لیں یا کم از کم اُس پر اعتراض نہ کریں

تازہ ترین مثال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نے 18 مئی 2009ء کو کُل جماعتی اجلاس بُلایا ۔ اُس میں جو متفقہ قراردار منظور کی گئی اس میں کہیں ذکر نہیں کہ سب جماعتوں نے فوجی کاروائی کی حمائت کی ۔ اُلٹا فوجی کاروائی پر اعتراضات کئے گئے ۔ لیکن اجلاس کے بعد وزیرِ اطلاعات نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ یہ بیان دیا کہ سب جماعتوں نے فوجی کاروائی کی حمائت کی ۔ اسی پر بس نہیں ۔ صدر صاحب نے سمجھا کہ وہ اپنا حق ادا نہیں کر سکے اور انہوں نے 19 مئی کو بیان داغ دیا کہ پوری قوم فوجی کاروائی کی حمائت کرتی ہے

اللہ کی مہربانی تو ہر صورت ہے ہی ۔ اس کے بعد شاید میرے بزرگوں اور اساتذہ کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ جب سے مجھے یاد ہے سمجھ لیں 10 سال کی عمر سے جو بات مجھے سمجھ نہیں آئی یہ ہے کہ لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ میرا اعتقاد ہے کہ جھوٹ کا بہت جلد عِلم ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہے

ایسا کیوں ؟

میں نے آج صبح متاءثرین کے متعلق ویب سائٹ کا ذکر کیا تھا جو صوبہ سرحد کی حکومت نے بنائی ہے ۔ اس کے بعد میں کھانے کی اشیاء کی ہفتہ وار خریداری کیلئے چلا گیا ۔ اب میں نے اس ویب سائٹ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے تو بہت افسوس ہوا ہے کہ اے این پی والوں نے ایسے وقت میں بھی ذاتی کدورت سے خلاصی نہیں پائی ۔ الخدمت ویلفیئر سوسائٹی جو کہ اول روز سے متاءثرین کی خدمت کر رہی ہے اس کا نام اس ویب سائٹ پر کہیں نہیں ہے جبکہ ایم کیو ایم جس نے صرف ایک کیمپ میں تعلیم کے بندوبست کیلئے اپنا ایک آدھ آدمی یو این ایچ سی آر کے ساتھ لگا ہے اس کی خدمت فاؤنڈیشن کا نام موجود ہے ۔ صرف اس لئے کہ الخدمت ویلفیئر سوسائیٹی جماعتِ اسلامی کا ذیلی ادارہ ہے

احساسِ ذمہ داری

دورِ حاضر میں بڑی بڑی باتیں بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں مگر زمینی حقائق چُغلی کھا جاتے ہیں کہ یہ سب لاف بازی ہے ۔ ایک دور تھا جب حُکمران تقریروں کی بجائے اپنے عمل سے لوگوں کے دِلوں پر حُکمرانی کرتے تھے ۔ میں نے 17 مئی 2009ء کو جس کتاب کا ذکر کیا تھا ۔ اُس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار اور رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے اُن کی عقیدت کے واقعات درج تھے ۔ اُن میں سے ایک واقع جو بہت کم منظرِ عام پر آیا ہو گا

نظام الملک طوسی جو سلجوقی سلطان جلال الدین ملک شاہ کے وزیراعظم تھے نہایت دیندار ۔ ذہین اور حکومتی انتظامات کے ماہر تھے ۔ انہوں نے حکومتی انتظامات پر ایک نہایت بیش قیمت کتاب ”سیاست نامہ“ کے نام سے ترتیب دی تھی اس میں اچھی حکومت کرنے کے اعلیٰ طریقے اور حکمران کو وہ تمام اعمال کرنے کی ہدایت جو اس کو عوام میں ہر دل عزیز کر دیں بیان کئے گئے ہیں ۔ اپنے اس سیاست نامہ میں نظام الملک طوسی نے کئی دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں جو ایک طرح سے ہدایت ہیں ۔ لکھتے ہیں

کہاوت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بوقتِ وفات دریافت کیا کہ اب ان کی ملاقات ان سے کب اور کہاں ہو گی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگلی دنیا میں تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ ان سے جلد ملاقات چاہتے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ ان کو خواب میں اسی رات یا دوسری رات کو یا تیسری رات کو ملنے آئیں گے لیکن بارہ سال تک عمر رضی اللہ عنہ بیٹے کے خواب میں نہیں آئے اور جب بارہ سال بعد آپ خواب میں تشریف لائے تو بیٹے نے شکایت کی کہ آپ نے تو فرمایا تھا کہ تین راتوں کے اندر اندر تشریف لائیں گے لیکن یہ تو بارہ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بے حد مصروف تھے کیونکہ بغداد کے قرب میں ایک پل خستہ ہو گیا جو اُن کے زمانہ میں تعمیر ہوا تھا اور ذمہ دار لوگوں نے اس کی مرمت نہیں کی تھی ۔ ایک بکری کی اگلی ٹانگ ایک سوراخ میں پھنس کر ٹوٹ گئی تھی اور میں اس تمام عرصہ میں اس کی جواب دہی کرتا رہا ہوں

اس واقعے کا اخلاقی پہلو سب پر عیاں ہو جانا چاہیئے خواہ کارندے ہوں یا حُکمران یا عوام ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مملکت خداداد پاکستان میں ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے نہ کسی کا احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو سزا دی جاتی ہے ۔ سب بھُولے بیٹھے ہیں کہ روزِ محشر جو حساب ہو گا اور بہت سخت ہو سکتا ہے

متاءثرین کے متعلق معلومات

سوات ۔ مالاکنڈ ۔ بونیر اور دیر میں فوجی کاروائی کے نتیجہ میں 22 لاکھ کے قریب متاءثرین نقل مکانی کر چکے ہیں جن میں سے صرف 2 لاکھ 31 ہزار کیمپوں میں ہیں ۔
ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ صرف باتیں کرنے اور نعرے لگانے کی بجائے آگے بڑھے اور خاموشی سے متاءثرین کی بھرپور امداد اور اعانت کرے ۔ اللہ کی کرم نوازی ہے اُن علاقوں کے رہائشیوں پر کہ انہوں نے لاکھوں کو پناہ دی ہے اور اپنے محدود وسائل سے ہمہ تن متاءثرین کی خدمت کر رہے ہیں ۔ لیکن یہ محدود ذرائع روزگار رکھنے والے لوگ اتنا زیادہ بوجھ کب تک اٹھائیں گے ؟

انسان ہونے اور انسانی ہمدردی کے دعوے سچ ثابت کیجئے عملی اقدام سے

صوبہ سرحد کی حکومت نے متاءثرین کیلئے معلومات مہیاء کرنے کے لئے ایک ویب سائٹ بنائی ہے جس کا ربط ہے

http://www.helpidp.org/