قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کراچی میں اربوں کی زمین کوڑیوں کے مول امریکی قونصلیٹ کو دینے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کمیٹی نے 2005ء میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی طرف سے کراچی میریٹ ہوٹل سے ملحقہ 150 ارب روپے سے زائد مالیت کی 21 ایکڑ قیمتی اراضی امریکی قونصلیٹ کی تعمیر کیلئے مبینہ طور پر ڈیڑھ ارب روپے میں 99 سال کی لیز پر دینے کے معاملہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پی اے سی سیکرٹریٹ کو ہدایت کی کہ اس معاملہ کو وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کے نوٹس میں لایا جائے اور وزارت خارجہ سے ایک ماہ میں ڈپلومیٹس کو زمینوں کی الاٹمنٹ کے بارے میں قواعد و ضوابط کے حوالہ سے پوچھا جائے
بشکریہ ۔ جنگ
ایمان ۔ اتحاد ۔ نظم
عرضداشت ۔ کل ابھی یہ تحریر نامکمل تھی کہ غلطی سے شائع ہو کر اُردو سیّارہ پر ظاہر ہو گئی ۔ مگر بلاگ سے ہٹا دیئے جانے کے باعث قارئین پڑھ نہ سکے جس کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ اب پوری تحریر پڑی جا سکتی ہے
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 1946ء میں پاکستان کیلئے رائے شماری ہونے سے قبل ناگپور میں منعقد ہونے والی آل انڈیا مُسلم سٹوڈنٹس کنونشن میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آپ کو میں ایک مقولہ [Motto] دیتا ہوں ۔ ایمان ۔ اتحاد ۔ نظم
قائد اعظم کی وفات کے کچھ دہائیاں بعد بلند آواز والے لوگوں نے اس مقولے کو اتحاد ۔ یقین ۔ تنظیم بنا دیا ۔ اُن کا استدلال تھا کہ یقین اتحاد سے پیدا ہوتا ہے جبکہ ساری دنیا کے مفّکر کہتے ہیں کہ اتحاد یقین یا ایمان سے پیدا ہوتا ہے ۔ بہرکیف دورِ حاضر میں ایمان کی جو حالت ہے وہ سب جانتے ہیں ۔ اکثر لوگ امریکا سے ڈرتے ہیں یا امریکا کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔ انفرادی طور پر بھی طاقتور یا بارسوخ انسان سے ڈرتے ہیں ۔ اللہ سے نہ ڈرتے ہیں نہ انہیں اللہ کی خوشنودی سے کوئی سرو کار ہے
رہ گئی تنظیم تو فوجی کاروائی کے نتیجہ میں بے گھر ہونے والے بے قصور لوگوں کو متبادل جگہ اور خوراک مہیاء کرنے میں حُکمرانوں اور ان کے حواریوں نے جو دھماچوکڑی مچائی ہے ایسی بدانتظامی کا نمونہ شاید ماضی میں دنیا کے کسی بدترین حصہ میں بھی دیکھنے میں نہ آیا ہو ۔ حکومت اور اقوامِ متحدہ کا متعلقہ ادارہ مل کر بے گھر افراد کے 15 فیصد کو ابھی تک نہ خیمے ۔ نہ خوراک اور نہ دوسری ضروریات مہیاء کر سکے ہیں ۔ باقی شہروں کا کیا ذکر دارالحکومت پشاور میں پہنچنے والے ان بے گھر افراد کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہے ۔ خوراک کی تقسیم کا حصول اتنا سُست ہے کہ لوگ پورا پورا دن قطار میں کھڑے رہتے ہیں کیونکہ اُن کی شناخت اور تقسیم صرف ایک نقطہ پر ہو رہی ہے اور بندوبست یہ ہے کہ فی خاندان دو تھیلے گیہوں اور ایک ڈبہ تیل کا دیا جاتا ہے ۔ جن لوگوں نے بالآخر گیہوں اور تیل وصول کر لیا وہ پریشان ہیں کہ اسے کیا کریں ۔ کیا وہ گیہوں کھا کر تیل پی لیں ؟ ہمیشہ سے ڈالروں پر پلنے والی نام نہاد این جی اوز کا وہاں پر کردار صرف اتنا ہے کہ کچھ وہاں تصاویر بنوا کر واپس چلے جاتے ہیں ۔ حُکمران اور دوسرے بڑے اہلکار بھی وہاں صرف تصاویر بنوانے جاتے ہیں ۔ سرکاری کیمپوں کی حالت یہ ہے کہ اتنی شدید گرمی میں ابھی تک بہت کم خیموں میں پنکھے دیئے گئے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ خاص کر بچے اسہال میں مبتلاء ہو رہے ہیں ۔ بلند بانگ دعوے روزانہ کئے جا رہے ہیں
اس کے برعکس جو کیمپ دردمند لوگوں نے بنائے ہیں وہاں لوگوں کو بجلی کے پنکھوں سمیت سب کچھ مہیاء کیا گیا ہے ۔ ہمارے جو وفود امداد پہنچا کر آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مقامی عام لوگوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کے بعد الخدمت فاؤنڈیشن [جماعتِ اسلامی والی] ۔ اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ اور چھوٹی چھوٹی نجی قسم کی ویلفیئر سوسائٹیاں وہاں مصروفِ عمل نظر آتی ہیں ۔ سرکاری کیمپ بدنظمی کا مظہر تھے ۔ میڈیکل ٹیمیں زیادہ تر حکومتِ پنجاب کی ہیں ۔ کچھ نجی اور کچھ فوج کی بھی ہیں ۔ کل آئندہ کے لائحہ عمل پر بات ہو رہی تھی تو حکومتی بدانتظامی کا ذکر بھی آیا ۔ ایک صاحب جو ایک سال قبل تک پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے کہنے لگے “جن کا کوئی جلوس یا جلسہ یا دعوت کبھی بغیر بگھدڑ توڑ پھوڑ یا مارکٹائی کے نہیں ہوا وہ کیا جانیں انتظام کس بلا کا نام ہے ؟ ”
سب سے کم دولت والے صوبے بلوچستان نے بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کیلئے 6 کروڑ روپیہ دیا ہے ۔ پنجاب نے 10 کروڑ روپیہ کے علاوہ میڈیکل ٹیمیں مع دوائیوں کے بھیجی ہیں ۔ پنجاب نے دونوں صوبوں میں بے گھر ہو جانے والے لوگوں کی میزبانی کی پیشکش بھی کی اور پنجاب میں ہزاروں بے گھر ہونے والے لوگ پناہ لے چکے ہیں ۔ صوبہ سندھ امداد کے بارے میں خاموش ہے شاید وہ بہت نیک لوگ ہیں اور اس مقولے کے پابند ہیں کہ ایک ہاتھ دے اور دوسرے کو پتہ نہ چلے ۔ سب سے بڑھ کر جو کام صوبہ سندھ نے کیا ہے یہ ہے کہ الطاف حسین کے کہنے پر متاءثرین کے سندھ میں داخلہ پر پابندی لگا دی ہے ۔ انسانی ہمدردی کے بلند بانگ دعوے کرنے والی ایم کیو ایم نے ایک ٹرک بھیجا تھا تو کئی دن صبح شام اس کی تشہیر کی جاتی رہی تھی ۔ اب جسقم کے ساتھ مل کر اپنے ہی پُرزور مطالبہ پر ہونے والی فوجی کاروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے عام شہریوں کے سندھ میں داخلے کے خلاف ہڑتالیں کر رہے ہیں
کسے سچ سمجھیں یہ بتائے کوئی ؟
Updated at 1820 PST Jang 23-5-2009
اسلام آباد… وزیراطلاعات قمر الزمان کائرہ نے کہا ہے کہ بے گھر ہونے والوں کیلئے پورا پاکستان کھلا ہے ۔کئی افراد صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ منتقل ہوچکے ہیں ۔ انہیں صرف رجسٹریشن کرانی ہوگی
Updated at 1830 PST Jang 23-5-2009
اسلام آباد…وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ سوات آپریشن کے متاثرین کو صوبہ سرحد تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ صوبہ سرحد سے باہر جانے والوں کو نہ 25 ہزار روپے امداد ملے گی نہ وہ بحالی کے منصوبے میں شامل ہوں گے
معذرت
ایمان ۔ اتحاد ۔ تنظیم کے عنوان والی میری تحریر اِن شاء اللہ کل پڑھی جا سکے گی ۔ آج غلطی سے نامکمل شائع ہو گئی تھی اسلئے ہٹا دی گئی ہے
جہاں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور امن پسند بستے ہیں
کراچی کے مختلف علاقوں میں ہنگامہ آرائی کے واقعات میں خاتون سمیت3افراد ہلاک اور رینجرز اہلکار سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے،جبکہ نا معلوم افراد کی جانب سے11 مسافر بسوں ایک ٹریکٹر اور لوڈنگ ٹرک کو بھی کو آگ لگادی گئی۔ ہنگامہ آرائی کا آغاز گارڈن میں واقع شو مارکیٹ کے قریب روٹ نمبر پی ون کی مسافر بس کو آگ لگاکر جلانے کی کوشش کے ساتھ ہوا،جس کے نتیجے میں بس میں سوار11بچوں کی والدہ آمنہ زوجہ حاجی رزاق جھلس کر ہلاک اور ایک بچے اور خاتون سمیت دو افراد ذخمی ہوگئے۔ کھارادر کے علاقے مچھی میانی میں ماشا اللہ کوچ، گلستان جوہر میں محکمہ موسمیا ت کے دفتر کے قریب مسافر ،شاہ فیصل کالونی میں ایک ٹریکٹر دو بسوں،صفورا گوٹھ ،طارق روڈ ،مومن آباد ،عید گاہ،نارتھ کراچی،میں بسوں کوآگ لگادی ۔گلستان جوہر میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے باعث ہوٹل کامالک44 سالہ ناظر گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے بعد جمشید کوارٹرز کا رہائشی25 سالہ نعمان ولد حبیب ،،لانڈھی سیکٹر36 بی کے علاقے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے22سالہ عمران،تین ہٹی کے علاقے میں26سالہ ایمان اللہ کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرتے ہوئے زخمی کردیا۔ نارتھ کراچی کے علاقے میں نامعلوم سمت سے چلنے والی گولی لگنے سے رینجرز اہلکار40 سالہ مہر علی زخمی ہوگیا، ناظم آباد نمبر1،پٹیل پاڑہ اور بڑا بورڈ کے علاقے میں نامعلوم افراد نے ہوائی فائرنگ کی اور گاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا، جس کے بعد دکانیں بند اور ٹریفک معطل ہوگیا ۔ ہنگامہ آرائی کے واقعات صبح کے اوقات میں بھی جاری ہیں جس کے باعث مختلف علاقوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے،جبکہ متاثرہ علاقوں میں سٹرکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم ہے اور امتحانات دینے والے طالبات کو ٹرانسپورٹ کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے
بشکریہ ۔ جنگ
مشقِ لاحاصل
قومی کانفرنس تمام ہوگئی ۔ 43 چھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ سب کو اظہار خیال کا موقع ملا ۔گھنٹوں مباحثہ ہوا ۔ حکومت کی تیار کردہ قرارداد میں ترامیم ہوئیں ۔ ایک متفقہ قرارداد کا متن تیار ہوا ۔ اس پر تمام جماعتوں کے عمائدین نے دستخط ثبت فرمائے ۔ اس 16نکاتی اعلامیے میں سب کچھ ہے لیکن کہیں ”فوجی آپریشن“ کے الفاظ استعمال نہ ہوئے اور نہ ہی زعمائے ملت نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا کہ باجوڑ کے شدت پسندوں کو زبردست فوجی قوت کے ساتھ کچل دیا جائے ۔ منظور کردہ قرارداد میں ”طالبان“ کا لفظ بھی موجود نہیں ۔ عمومی اندازوعظ و تلقین اور دعوت و ارشاد کا سا ہے ۔ کوئی ایک بھی ٹھوس، جامع اور متعین بات نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا میکانزم تجویزکیا گیا ہے جو اس کانفرنس کی منظور کردہ قراردادکو عملی جامہ پہنانے کا اہتمام کرے گا ۔ سب کچھ ایک بار پھر اسی حکومت پر چھوڑدیا گیا ہے جس کی ناک میں امریکہ کی نکیل پڑی ہے اور جو مشرف کے اس فلسفے کو ایمان کا درجہ دیئے بیٹھی ہے کہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے شہنشاہ عالم پناہ کی خوشنودی کی ضرورت ہے
کانفرنس نے اکتوبر 2008ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی منظور کردہ قراردادوں کی حمایت کی ۔ آئین اور ریاستی خودمختاری کے تحفظ کا عہد کیا ۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ریاستی رٹ پر زور دیا ۔ آئین اور ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی مسلح کوششوں کی مذمت کی ۔ فوجیوں اور معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیا ۔ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کہا ۔ بے گھر ہوجانے والے افراد کی ہرممکن امداد اور بحالی کا عزم ظاہر کیا ۔ قوم سے اپیل کی کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کیلئے اٹھ کھڑی ہو ۔ ایک متحرک اور فعال جمہوری نظام کو ناگزیر قرار دیا ۔ پورے یقین کے ساتھ دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے ایک موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں ۔ زور دے کر کہا کہ اہم قومی دفاعی معاملات اور فوج کی مختلف مقامات پر تعیناتی صرف پاکستان کا کام ہے ۔ کہا گیا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو اقتصادی ، سیاسی اور جانی قربانیاں دی ہیں ان کی نظیر کوئی دوسرا ملک پیش نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور علاقائی خودمختاری کے خلاف کارروائیوں بالخصوص ڈرون حملوں کی شدید مخالفت کی گئی اور قرار دیا گیا کہ پاکستان ایک آزادوخودمختار ملک ہے اور اسے دی جانے والی اقتصادی اور فوجی امداد کو شرائط میں جکڑنے کے منفی اثرات برآمد ہوں گے
یہ ایک لحاظ سے وعظ و نصیحت کا وہ پرچہ ہے جو آپ کو کبھی کبھار ڈاک میں موصول ہوتا ہے اور جس کے کنارے پہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر تم نے اس کی مزید دس کاپیاں تیار کرکے تقسیم نہ کیں تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا۔ ممکن ہے یہ تاثر مبنی برحقیقت نہ ہو لیکن قیاس یہی ہے کہ قومی کانفرنس کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ فوجی آپریشن اسی انداز میں چلتا رہے گا، گناہ گاروں اور بے گناہوں کی تمیز کے بغیر لاشیں گرتی رہیں گی ۔ بے خانماں ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہے گی
عرفان صدیقی کے مضمون کا بقیہ یہاں کلک کر کے پڑھیئے
بشکریہ ۔ جنگ
بھیک مانگنے میں کامیابی پر مبارک
اِسے حالات کی ستم ظریفی کہئے یا اعتقادکی ضعیفی مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہماری شناخت ”بھک منگوں“ کے سوا کچھ نہیں رہی ہے… ہم وہ بھکاری اور ڈھیٹ منگتے ہیں جوڈالر اور پاؤنڈ کے لئے اپنے ہی گراؤنڈ خانماں بربادوں سے بھر کر ”انسانی گراؤنڈ“ پر یہود و نصاریٰ سے بھیک مانگتے ہیں…کئی دہائیوں سے بدچلن حکمرانوں کا یہی چلن ہے کہ دنیا پرستوں سے دنیا سازی کی باتیں کر کے چھلنی دامن کو ”امداد کے نوٹوں“ سے بھر لیں…یہ اور بات ہے کہ دل اور دامن میں سوراخ کے سبب گرنے والے نوٹوں کا اِس لئے حساب نہیں ہوتا کیونکہ اُن گِرے ہوؤں کو ”گِرے ہوئے“ اُٹھالیتے ہیں اور جو الجھ کر جھولی ہی میں رہ جاتے ہیں وہی ”قومی خزانے کا حصہ “قرارپاتے ہیں…افسوس ہوتا ہے اپنے حکمرانوں پر کہ جن کے نزدیک بھرے کشکول کے ساتھ کامران لوٹنا ہی عظیم سفارت کاری ہے …نویں جماعت کے لازمی مضمون ”مطالعہ پاکستان“میں کبھی پڑھا تھا کہ سربراہِ مملکت جب کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو معاہدے کرتا ہے ، مختلف شعبوں میں تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کئے جاتے ہیں،مشترکہ امور پر متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے اور پھر وطن واپسی پر قوم کو فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو فلاں معاملے پر مقدم رکھا، اُس کی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ہم نے ایسی کوئی شرط تسلیم نہیں کی جس سے ہماری خودی پر آنچ آتی ہو اور ہم نے برابری کی بنیاد پر باہمی تعلق کو فروغ دیا لیکن ”نواں آیا سوہنیا“کیا جانے کہ ”نویں جماعت“ کا سبق کیا ہے؟اُنہیں تو ڈالروں کی خوشبو ملک سے باہر کھینچے رکھتی ہے ، پاؤنڈ اور فرینک کے حصول میں وہ اتنے Frank ہیں کہ دل کی بات فوراً ہی زبان پر لے آتے ہیں، کوئی پس و پیش اور نہ ملال بس دولت، روپیہ اور مال…اپنے فن میں بلا کے ماہر ہیں کہ”مانگنے“ میں کوئی جھجھک ہی محسوس نہیں ہوتی،
بقیہ مضمون پڑھیئے یہاں کلِک کر کے