قانون ؟ ؟ ؟

خبر ہے کہ ہالینڈ میں 5 ہم جنس پرست جوڑے شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ شادی کرنے والے پانچ افراد کا تعلق امریکی ریاست نیو یارک سے ہے جہاں قانونی طور پر ہم جنس پرستوں کی شادی ممنوع ہے ۔ اسی لئے امریکی ہم جنس پرست دیگر یورپی ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور شادی کے بعد واپس امریکا آجاتے ہیں کیونکہ اس صورت میں امریکہ میں شادی سرکاری طور پر تسلیم کی جاتی ہے

پریشانی کی وجوہات

پریشانیوں کا اصل سبب جائز یا ناجائز توقعات ہوتی ہیں ۔ مثال کے طور پر

* دوسروں سے اچھائی کی توقع
* دوستوں سے اپنی تعریف کی توقع
* ہوائی جہاز یا ٹرین کے وقت پر پہنچنے کی توقع
* سب لوگوں سے دیانت داری کی توقع
وغیرہ

یہ سب توقعات معقول معلوم ہوتی ہیں لیکن اکثر پوری نہیں ہوتیں
نتیجہ مایوسی اور دِل شِکنی ہوتا ہے

مسخرا اور بھانڈ وغیرہ منافق نہیں ہوتے

آج کے زمانہ میں لوگ ترقی تو بہت کر گئے ہیں اور دولتمند بھی ہو گئے ہیں مگر چہروں سے بشاشت غائب ہو گـئی ہے۔ اس دور میں مسخرے اور بھانڈ کی شائد زیادہ ضرورت ہے مگر اب کم از کم شہروں میں تو نظر نہیں آتے۔ ہماری نوجوان نسل نے تو شايد انہیں دیکھا بھی نہیں ہو گا۔

کیا مہارت ہوتی تھی ان میں ۔ محفل میں کتنا ہی افسردہ شخص کیوں نہ ہو ہنسے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ مسخرے اور بھانڈ کی شخصیت بھی عجیب ہوتی ہے ۔ بظاہر خوش اور لاپرواہ مگر اندر سے بعض اوقات غم کے مارے ہوئے ۔ مسخرے اور بھانڈ منافق نہیں ہوتے وہ تو اپنے بول اپنی حرکات اور چہرہ بھی صرف دوسروں کو خوش کرنے کے لئے بدلتے ہیں ۔

پرانی بات ہے ایک مسخرے سے پوچھا کہ اس نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا ؟ بولا ” اپنے غم تو دوسروں کو دے نہیں سکتا ۔ لوگوں کو ہنسا کر مجھے اپنے غم بھول جاتے ہیں”۔ مسخرے اور بھانڈ اپنی اصلیت چھپا کر دوسروں کی مسرت کا سامان کرتے ہیں اور اس لئے وہ منافق نہیں ہوتے

ہائے کیا کروں ؟

ہائے کیا کروں ؟ وقت نہیں ملتا۔ بہت مصروف ہوں ۔ ۔ ۔
سوری ۔ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔
کیا کروں یہاں تو مرنے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔

آجکل اس طرح کے الفاظ ہر جگہ اور ہر دم سننے میں آتے ہیں ۔ یہ تکیہ کلام بیس سال قبل بہت بڑے افسروں سے شروع ہوا ۔ پھر نیچے کی طرف سفر شروع کیا ۔ چھوٹے افسروں نے بڑے لوگوں کی نشانی سمجھ کر اپنایا ۔ پھر جوانوں نے ترقی کا راستہ سمجھتے ہوئے اختیار کیا ۔ گویا یہ تکیہ کلام وباء کی صورت اختیار کر گیا ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سکول کے بچے ۔ بالخصوص بچیاں ۔ یہی کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں۔ بچوں کی سطح پر ابھی یہ مرض زیادہ تر بڑے گھرانوں اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ یا ماڈرن سمجھنے والے گھرانوں میں پھیلا ہے مگر ڈر ہے کہ درمیانے طبقہ کے لوگ جو آئے دن روشن خیالی کا راگ سنتے ہیں ۔ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہو جائیں گے کیونکہ آخر ان کا بھی دل چاہتا ہے بڑا آدمی بننے کو ۔ اصل میں تو بیچارے بڑا بننے سے رہے۔ کم از کم گفتار میں تو بن جائیں ۔ اس کے لئے تو کوئی روپیہ پیسہ بھی درکار نہیں

اللہ سبحانہ و تعالٰی کی بڑی مہربانی رہی مجھ پر کہ میرے بچے اس سے محفوظ رہے بڑے بیٹے زکریاکا ایک واقعہ مجھے یاد ہے ۔ اس کا انجنئرنگ کا تھرڈ ایئر کا سالانہ امتحان تھا۔ اگلے دن صبح پرچہ تھا۔ ایک لڑکا جو کسی اور کالج کا طالب علم تھا ۔ شام سے پہلے سوال سمجھنے آیا ۔ سمجھتے سمجھتے رات کے نو بج گئے ۔ ہم لوگ آٹھ بجے کھانا کھاتے تھے ۔ مجھ سے رہا نہ گیا ۔ میں نے ڈرائنگ روم میں جا کر کہا “بیٹے آپ نے ابھی کھانا بھی کھانا ہے اور پھر سونا کب ہے ؟ کل آپ کا پرچہ ہے”۔ یہ سن کر وہ لڑکا ایک دم یہ کہتے ہوۓ اٹھا۔” ہیں ؟ امتحان ؟ اس نے مجھے بتایا ہی نہیں” اور اپنی کتابیں سمیٹ کر یہ جا وہ جا

ہم پرانے وقتوں کے لوگ ہیں ۔ سکول کے ٹیسٹ میں دس میں سے دس کی بجائے نو نمبر آ جائیں تو گھر والے یوں گھورتے تھے جیسے کھا ہی جائیں گے ۔ عام دن ہوں یا سالانہ امتحان چند دن بعد ہوں ۔ روزانہ تھیلا اور پیسے ہاتھ میں تھما کر کہا جاتا ۔ جاؤ سبزی منڈی سے سبزی لے کر آؤ ۔ روزانہ اپنے سکول جانے سے پہلے بہن کو سکول چھوڑنا اور چھُٹی کے بعد اُسے گھر لے کر آنا بھی میرا فرض تھا ۔ روزانہ انگریزی کا اخبار پڑھنا بھی میرے فرائض میں داخل تھا کہ اس سے انگریزی فرفر ہو جاتی ہے ۔ پہلے سول اینڈ ملٹری گزٹ پڑھتا رہا ۔ وہ بند ہو گیا تو پاکستان ٹائیم ۔ ایک ماہ میں دو بار چکی سےگندم پسوا کر لانا بھی میرا کام تھا ۔ ہفتہ وار چٹھی کے دن گھر کی جھاڑ پونچھ کرنا ہم سب بھائی بہنوں کا کام تھا ۔ روزانہ ایک گھنٹہ ہاکی یا بیڈمنٹن یا باسکٹ بال کھیلنا بھی میرے لئے ضروری تھا کیونکہ والد صاحب کہتے تھے کہ صحت نہیں ہو گی تو پڑھائی کیسے کرو گے ۔ رات کو نو بجے سو کر صبح ساڑھے تین چار بجے اٹھنا اور صبح سویرے سیر کے لئے جانا بھی صحت کے لئے ضروری تھا ۔ لیکن مجال ہے کبھی دل میں یہ خیال گھُسا ہو کہ میں مصروف ہوں ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے سب ساتھی لڑکوں کا بھی کم و بیش یہی حال تھا

میرا خیال ہے ہماری تعلیم کے زمانہ میں ایک دن میں شاید چوبیس گھنٹے کام کے لئے اور آٹھ گھنٹے آرام کے لئے ہوتے ہوں گے

منافقت [Hypocrisy] ۔ مزید وضاحت

یہ تو میں واضح کر چکا ہوں کہ منافقت اپنے میں ایسی خصوصیات کا دعوٰی یا تصنع ہے جو موجود نہیں ۔ یا اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ خُوبی یا مذہب کی غلط شکل پیش کرنا ۔ منافق میں پائی جانے والی عداوت یا کینہ ویسے ہی ہیں جیسے کہ جھوٹے میں پائے جانے والے ۔ دونوں میں جو آدمی کے دماغ میں ہے یا سوچ ہے اور جو وہ ظاہر کرتا ہے میں تفاوت یا اختلاف ہوتا ہے ۔ البتہ کسی کا اپنے جُرم یا گناہ کو اس وقت تک چھپانا جب تک اس کی تفتیش کوئی شرعی یا قانونی عہدہ یا اختیار رکھنے والا نہ کرے کو ہُپوکریسی یا منافقت نہیں کہا جا سکتا ۔

دو عناصر میں فرق کو سمجھنا از بس ضروری ہے ۔ ایک ہے ۔ نیکی کی خواہش ۔ اور دوسرا ہے ۔ نیکی کی خواہش کا بہانہ کرنا ۔ اور اگر کوئی دونو بیک وقت ہونے کا دعوٰیدار ہو تو وہ بھی منافقت ہے ۔

اس محرک پر تفتیش ضروری ہے جس کی بنا پر کوئی شخص ریاکارانہ یا پُرفریب عمل میں ملوّث ہوتا ہے ۔ اگر وہ کسی کا منظورِ نظر بننے یا کسی کی محبت جیتنے کیلئے اپنے آپ کو غلط طریقہ سے پیش کرتا ہے تو وہ منافقت میں ملوّث ہے

قانونِ قدرت ۔ پریشانی سے نجات

اگر قانونِ قدرت سمجھ آ جائے تو ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ جاتے ہیں
ہم اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں
ہم پیش آنے والے واقعات سے نبٹنا سیکھ لیتے ہیں

قانونِ قدرت کو ذاتی سطح پر لینا درست نہیں ۔
ہمیں اِسے سمجھنا اور اس کے ساتھ چلنا سیکھنا چاہیئے
ظاہر ہے کہ ہم قانونِ قدرت بدل نہیں سکتے
تجربات کا حاصل یہ ہے کہ شکست کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔
کامیاب لوگ زیادہ بار ناکامیوں سے گذرتے ہیں مگر کامیابی کے لئے وہ زیادہ بیج بوتے ہیں

میں کہاں ہوں

میں ممنون ہوں ان سب اصحاب کا جنہوں نے میری غير حاضری کو محسوس کیا بالخصوص ڈ ِ ف ر ۔ عمر احمد بنگش ۔ چوھدری حشمت افضل ۔ معراج خٹک اور کامران صاحبان کا

سب کچھ ایسی عُجلت میں ہوا کہ کچھ کہنے سننے کا وقت ہی نہ ملا۔ کوئی افسانہ نویس ہوتا تو کہتا “آنکھ کھلی تو لاہور میں تھا”۔ میں ایسا نہیں کہوں گا کیونکہ ایسا صرف اغوا کی صورت میں ہو سکتا ہے ۔ تو جناب ۔ بیٹھے بٹھائے ہمیں کیا سوجھی کہ لاہور میں کچھ عرصہ کیلئے رہائش اختیار کر نے کا منصوبہ بنا کر فٹ سے اس پر عمل کر دیا ۔ 17 جون کو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم لاہور کو سدھاريں گے ۔ 17 جولائی کو اسلام آباد سے روانہ ہو کر لاہور پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کر لی

کرائے کا مکان ہو اور بندہ پردیسی تو خوامخواہ ہی مت ماری جاتی ہے ۔ اوپر سے بجلی کی آنکھ مچولی اور بلا کی گرمی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ تین دن سے بارشیں شروع ہو گئیں تو موسم کچھ خوشگوار ہو گیا ہے

ابھی تک مکان کے اندر کی ضروریات پوری کرنے میں لگے ہیں اور سب کی دعاؤں کے متمنی ہیں