سیب یا ناشپاتی میں آٹھ دس تخم یا بِیج ہوتے ہیں اور ایک درخت پر سو سے پانچ سو تک سیب یا ناشپاتیاں لگتے ہیں ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اتنے زیادہ بیج کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہمیں بہت کم کی ضرورت ہوتی ہے ؟
دراصل اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالَی ہمیں بتاتا ہے کہ سب بیج ایک سے نہیں ہوتے ۔ کچھ اُگتے ہی نہیں ۔ کچھ پودے اُگنے کے بعد سوکھ جاتے ہیں اور کچھ صحیح اُگتے ہیں اور پھل دیتے ہیں ۔ اِس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ
ایک ملازمت حاصل کرنے کے لئے درجنوں انٹرویو دینا پڑتے ہیں
ایک اچھا آدمی بھرتی کرنے کے لئے درجنوں اُمیدواروں کو انٹرویو کرنا پڑتا ہے
ایک گھر یا کار بیچنے کے لئے درجنوں لوگوں سے بات کرنا پڑتی ہے
ایک اچھا دوست بنانے کے لئے بہتوں سے دوستی کرنا پڑتی ہے
بہت عمدہ لکھا ہے آپ نے
ڈفر (ڈی آئی ایف ایف ای آر) صاحب
شکریہ
ہو سکے تو میرے لئے دعا کیجئے
محترم بھوپال صاحب
ما شاءاللہ کیا اچھی بات کی ہے۔اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر بیج زمیں میں اگنے کے لیے نہیں ہوتا۔کچھ اگتے ہیں۔ کچھ پرندوں کی خوراک بنتے ہیں۔کچھ انسانوں کی خوراک بنتے ہیں۔کچھ انسانی تجسس کی تسکین کے لیے تجربہ گاہوں کی زینت بنتے ہیں۔ اور کچھ زمیں کے اندر دب کر چٹانوں وغیرہ کے اوپر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں تاکہ آنے والے زمانے میں جب اس درخت کی نسل ختم ہو جاے گی تو اس وقت اپنے خالق کی پہچان میں انسان کی مدد کرے۔ شاید وہ فلاح پاے۔ “مگر تم کم ہی شکر کرتے ہو”
ارشاد نبوی ہے:
الناس کالابل المائۃ لا تجد فیھا راحلۃ**
ترجمہ:
لوگ تو اونٹوں کے گلے کے مانند ہیں ، ان میں سواری کا اونٹ تجھے نہیں ملے گا (اتنی بڑی تعداد میں کام کا آدمی کم ہی نکلے گا! )
**-فصاحتِ نبوی از ڈاکٹر ظہور احمد اظہر میں کتاب “البیان” کے حوالے سے ذکر کیا گیا۔
اورانکل ایک اچھے بلاگ تک پہنچنے کے لیے ان گنت بلاگز پڑھنے پڑتے ہیں- :-)
اتنا اچھا اور پر مغز تجزیہ share کرنے کا شکریہ-
محمد ریاض شاہد اور الف نظامی صاحبان اور نینی صاحبہ
مزید حوالاجات کا شکریہ
چلیں آپ آئی کے ساتھ ہی ڈفر لکھ دیا کریں میں یو کے ساتھ پڑھ لیا کروں گا
دونوں خوش رہیں گے :grin:
بالکل درست فرمایا ہے آپ نے۔ ہر کام کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ :sad:
نھ ھر کھ سر بتراشد قلندری داند
یا یون کھ لین
ھر صدف مین گہر نہین ہوتا
مگر آپ کے بلاگ کے مضمون کے عین مطابق نہین-معافی چاہتا ھون
(آپ مانینگےکہ میری اردو لکھنے کی پریکٹس خوب جا رھی ھے(
مجھے کچھ گایڈ کیجیے گا مین اردو بلاگ لکھنا چاھتا ھون—ای میل پر کر دین مہربانی ہوگی
ماوراء صاحبہ
اللہ سبحانہ و تعالی نے جو عقل عطا کی ہے اسے صحیح طور استمال کرنا انسان پر فرض ہے ۔ میں صرف اس فرض کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں
بھائی وہاج الدین احمد صاحب
آپ نے ماشاء اللہ شروع کرتے ہی اچھی طرح اردو لکھنا شروع کر دیا ۔
اردو بلاگ کے سلسلہ میں آپ کو کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ آجکل میں اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس دبئی میں ہوں اور یہاں میرے پاس اردو لکھنے کا بندو بست نہیں ہے ۔ بڑی مشکل سے لکھ رہا ہوں ۔ میں انشاء اللہ ایک ہفتہ بعد پاکستان میں ہوں گا
Pingback: منظر نامہ » Blog Archive » نومبر 2008 کے بلاگ
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » قانونِ قدرت ۔ پریشانی سے نجات