تشریح

ماحول انسان کے ذہن پر اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسان کے لئے حقیقت کو سمجھنا ہی محال ہو جاتا ہے ۔ کل میں نے اسی حوالے لکھا تھا ۔ تشریح نہ کی کہ میں اسلام آباد گيا ہوا تھا ۔ وہاں بھتیجے کا کمپیوٹر استعمال کیا جس میں اُردو نہیں تھی

ماضی کی تلخیوں کو بھُلانا دینا چاہیئے مگر ان سے سبق ضرور حاصل کرناچاہیئے
حال میں رہنے کا مطلب ہے کہ نہ تو یہ سوچا جائے کہ بڑے آدمی کی اولاد چھوٹا کام نہ کرے اور نہ یہ کہ چھوٹے آدمی کی اولاد بڑا کام نہیں کر سکتی ۔ نہ مستقبل کے لئے خیالی پلاؤ پکائے جائیں بلکہ حال میں مستقبل کیلئے جد و جہد کی جائے

گاہے گاہے باز خواں

میری تحریر “امریکا نے میری سالگرہ کیسے منائی” پر کچھ تبصرے آئے ہیں جو عصر حاضر کےجوانوں کے لئے غور طلب ہیں

پاکستان سے محمد سعد صاحب نے لکھا
بہرحال، پاکستان کے موجودہ حالات میں میں لوگوں سے اس بات پر زیادہ توجہ دینے کی گزارش کروں گا کہ جاپانیوں نے جس ہمت کے ساتھ اس تباہی کا ازالہ کیا، اس سے ہمیں بھی کچھ سیکھنا چاہيئے۔

ہسپانیہ سے جاوید گوندل صاحب نے لکھا
ویسے عجب اتفاق ہے جنگل کے اس قانون میں امریکہ کا نام ہمیشہ ہی سب سے اوپر رہا ہے ۔ اور امریکہ اپنے آپ کو اشرف اقوام اور انتہائی تہذیب یافتہ کہلوانے پہ بھی سب سے زیادہ زور دیتا ہے ۔ طرف تماشہ یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جاپان ہتھیار پھینکنا چاہ رہا ہے اور اس بات کا ٹرومین کو علم تھا]کیونکہ جاپانیوں نے باقاعدہ طور پر ہتھیار پھینکے کا پیغام ٹرومین کو بھیجا تھا ۔ ٹرومین کو جوہری بم کی انسانیت سوز ہلاکت کا بھی علم تھا ۔ اس بم سے ہیروشیما پر پہلے حملے کے بعد پتہ چل گیا تھا کہ ایٹمی بم نے کس قدر تباہی مچائی ہے مگر اس کے باوجود ٹرومین نے تیسرے دن ناگا ساکی پہ اٹیمی بم حملے کا حکم دیا ۔ ایٹمی حملے میں جو مر جاتے ہیں وہ خوش قسمت ہوتے ہیں جو اس حملے میں زندہ رہ جاتے ہیں وہ مردوں سے برتر ہوتے ہیں اور مرنے کی التجائیں کرتے ہیں

امریکا سے ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب نے لکھا
اگرچہ ٹرومن کا حکم تھا لیکن اتحادی فوجوں کے سب کمانڈر اس میں ملوث ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس اقدام کو تمام قومیں اچھا قرار دیتی ہیں اس لئے کہ اس کی وجہ سے جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا ۔ مغربی اقوام کی دور اندیشی بھی ملاحظہ ہو کہ یورپ اور امریکہ سے اتنی دور یہ بم پھینکے گئے ۔ ابھی آپ نے عراق میں جو بم استعمال ہوئے ہیں کے متعلق ساری کہانیاں اور تصویریں نہیں دیکھیں اور یہ مہذب قومیں ہیں شاید کبھی ایسی تصویریں شائع کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ عراق میں ایسی بیماریاں کہاں سے آئیں؟

مُشکل شرط

میری تحریر ” Software Piracy اور دین اسلام ” پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے کو ڈفر کہنے والے صاحب نے شرط عائد کی ہے جو عصر حاضر کےجوانوں کے لئے غور طلب ہے

“اگر یہاں‌ یہ شرط رکھ دی جائے کہ صرف وہ لوگ پائریسی کے خلاف بول سکتے ہیں جنہوں ‌نے کمپیوٹر اور دوسرے علوم پائریٹڈ سافٹ وئیر اور نقل شدہ کتابوں سے نہیں سیکھا تو شاید یہاں مکمل سکوت چھا جائے”

میں اس شرط کی کچھ اس طرح وضاہت کروں گا کہ جس نے خود نہ نام نہاد پائریٹڈ سافٹ ویئر استعمال کی ہو اور نہ اصل کے علاوہ کوئی کتاب پڑھی ہو اور نہ براہ راست اصل کتاب سے پڑھنے کی بجائے کسی اور کے تیار کردہ نوٹس [notes] سے پڑھائی کی ہو

امریکا نے میری سالگرہ کیسے منائی ؟

میرے ساتھ امریکی حکومت کی دشمنی بہت پرانی ہے ۔ میری سالگرہ کے دن آج سے 64 سال قبل 6 اگست 1945ء کو انسانیت سے دوستی کا ڈنڈورہ پیٹنے والے امریکہ نے اپنے صدر ہَیری ایس ٹرُومَین کے حُکم پر ہروشیما کی شہری آبادی پر ایٹم بم گرایا جس سے 255000 کی آبادی میں سےblast1 66000 بے قصور انسان ہلاک اور 69000 زخمی ہوئے ۔ یعنی 26 فیصد مر گئے اور مزید 27 فیصد زخمی ہوئے ۔ صرف 47 فیصد باقی بچے ۔ زخمیوں میں سے بہت سے اپاہج ہو گئے ۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بوڑھے اور جوان مرد عورتیں اور بچے سب شامل تھے ۔ جوہری اثرات کے تحت اس دن کے بعد کئی سالوں تک اپاہج بچے پیدا ہوتے رہے
effect-1effect-2effect-3

کاش

میں نے گذشتہ کل اپنی تحریر میں عنیقہ ناز صاحبہ اور نعمان صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوالات اور اپنے 5 سوالات کے منطقی جوابات کی درخواست کی تھی ۔ بجائے میری درخواست اور اس میں مخفی حقائق پر غور کر کے منطقی حل پیش کرنے کے اکثر مبصرین نے سارا زور اس پر صرف کیا کہ میں نے چوری کو جائز قرار دیا ۔ کاش کوئی غور سے میری تحریر پڑھ کر بتائے کہ کہاں میں نے چوری کو جائز قرار دیا ہے ۔ دیگر جس زمانے میں [1985ء-1987ء] ہمارے محکمہ کے لوگوں نے کوڈ توڑا تھا اس زمانہ میں کوئی ایسا قانون نہ تھا کہ کوڈ توڑا یا نقل تیار نہیں کی جا سکتی ۔ اس زمانہ میں کوڈ توڑنے کا کام یورپ میں بھی عام تھا بلکہ اس پر فخر کیا جاتا تھا

مبصرین نے یہ عندیہ بھی دیا کہ میں یعنی افتخار اجمل بھوپال چوری کی سافٹ ویئر استمال کرتا ہوں اس لئے چوری کا دفاع کر رہا ہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے چوری کا دفاع نہیں کیا بلکہ اجارہ داری کے خلاف احتجاج کیا اور قارئین سے مدد کا متمنی تھا مگر اُلٹا چور قرار دیا گیا ۔ سُبحان اللہ

ضرورت تو نہ تھی لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کو بے چینی ہو اسلئے حقیقت کا اظہار کر رہا ہوں ۔ جب میں نے 1987ء کے شروع میں اپنا پہلا پی سی خریدا اُس وقت ڈاس يعنی ڈسک آپریٹنگ سسٹم ہوتا تھا ۔ جب میں نے پینٹیئم 2 خریدا تو فلاپی ڈسکس پر اصل ونڈوز دستیاب تھی ۔ پھر جب میں نے اسے اَپ گریڈ کر کے پینٹیئم 3 بنایا تو لوگ ابھی ڈی ایکس 2 استعمال کر رہے تھے ۔ میں نے ونڈوز 95 پھر 98 پھر 2000 پھر میلینیئم پھر ايکس پی انسٹال کی ۔ یہ سب اصل بازار میں ملتی تھیں اور میری دسترس سے باہر نہ تھیں ۔ اصل ایکس پی ابھی میرے پاس موجود ہے ۔ چند سال قبل اسی کے ذریعہ مائکروسافٹ کی ویب سائٹ سے پیک ون اور پیک ٹو ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کئے تھے ۔ اس کے بعد ایکس پی پیک ٹو ایک عزیز نے مجھے برطانیہ سے لا کر دی ۔ چند ماہ قبل میں نے پيٹیئم 4 استعمال کرنا شروع کیا ۔ اس میں وزٹا انسٹال نہیں کروایا کہ اصل بہت ہی مہنگا ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں موجود نہ تھا ۔ دیگر وزٹا پر میرے اپنے بنائے ہوئے ایک دو اہم پروگرام نہیں چلتے ۔ اسلئے میں نے اپنی ایکس پی پیک ٹو انسٹال کی

ہم لوگ دین پر عمل کرنے پر بہت زور دیتے ہیں لیکن دین کے اصولوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور انسان کا بنایا ہوا قانون بھی کہتا ہے کہ

A person is innocent until proved guilty

مگر عملی طور پر آجکل ساری دنیا مندرجہ ذیل پر عمل کر رہی ہے

A person is guilty until proved innocent

کاش کوئی صاحبِ علم ہو جو عنیقہ ناز صاحبہ اور نعمان صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا منطقی جواب دے ؟
اور ہو سکے تو میرے اُٹھائے ہوئے 5 سوالوں کا بھی جواب دے

انسان کے عمومی اطوار مندرجہ ذیل اقتباس سے احاطہ کیا جا سکتا ہے جو مارچ 1975ء میں شائع ہونے والے میرے ایک تحقاتی مقالے سے ہے

4.4. Perceptions of communication vary according to the group involved as well as according to an individual’s frame of reference. The frame of reference of upper management, lower management and workers is quite different. This is bound to influence the perception of each group in communication. Management perceives conceptions through it’s own interests and values. What worker (the Employee) perceives in a message has a great bearing on his response. Past experience from all facets of living, that is, childhood, school, previous work and home along with past relations with the Supervisor affect his perception.

سافٹویئر چوری اور اسلام

یاسر عمران مرزا صاحب نے سافٹ ویئر کا استعمال جسے Piracy کا نام دیا گیا ہے کے متعلق لکھا اور مبصرین نے زبردست تبصرے کئے ان میں سے دو تبصرے منطقی جواب مانگتے ہیں ۔
ایک ۔ عنیقہ ناز صاحبہ کا کتابوں کے حوالے سے
دوسرا ۔ نعمان صاحب کا سوفٹ ویئر کی استحصالی فروخت کے حوالے سے

اپنا تجربہ اور نظریہ بیان کرنے سے قبل میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ

1 ۔ صرف فرنگیوں کے بنائے ہوئے اصولوں یا قوانین کی خلاف ورزی ہی جُرم کیوں ہے جبکہ وہ خود تمام انسانی حدوں کو توڑ کر جسے چاہیں ملیامیٹ کرتے رہتے ہیں ؟
2 ۔ اجارہ داری کا مقابلہ کرنا اگر چوری یا ڈکیتی ہے تو پھر جمہوریت کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں ؟
3 ۔ اگر ہم بہت دیندار ہیں تو کیا صرف امریکا کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی سے گناہگار بنتے ہیں ؟ اور کیا ہم نے اپنے باقی سارے اوصاف دین کے مطابق ڈھال لئے ہیں ؟
4 ۔ دورِ حاضر میں بہت سی اشیاء کی اصل اور نقل ملتی ہیں ۔ مثال کے طور پر نیشنل کی استری یا مولینکس کا گرائنڈر بلینڈر ۔ اصل کی قیمت اگر 4000 روپے ہے تو نقل 2000 روپے یا کم میں مل رہی ہے ۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں ہے ۔ درمیانی یا کم آمدن والے لوگ اصل کی قیمت ادا نہیں کر سکتے اسلئے نقل خریدتے ہیں ۔ باقی اشیاء کی نقل خریدنا جُرم نہیں پھر امریکی سافٹ ویئر کی نقل خریدنا جُرمِ کیوں ؟
5 ۔ آخر یہ سارا نزلہ پاکستان پر کیوں گرایا جا تا ہے ؟ اور ہم خود ہی اپنے آپ کو امریکا کی استحصالی اجارہ داری میں کیوں جکڑنا چاہتے ہیں ؟

حقیقت کیا ہے ؟
سود خور دنیا کی اجارہ داری اور سودی نظام کے ساتھ ساتھ استحصالی نظام میں دنیا کو جکڑنا ۔ کیا اس استحصال کے خلاف کھڑے ہونا انسانیت کی خدمت نہیں ہو گا ؟ اگر امریکا کی preemptive strategy کے تحت دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اپنے بغل بچہ اقوامِ متحدہ کے ذریعہ امریکا کا تسلط نہ ماننے والے ممالک پر تجارتی اور دوسری پابندیاں لگانا درست ہے تو امریکا کے مال کی نقل بنانا کیوں غلط ہے ؟

آپ بیتی

میرا کمپیوٹر سے واسطہ ستمبر 1985ء میں پڑا جب مجھے جنرل منیجر منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز [Management Information Systems] تعینات کر کے انوینٹری منیجمنٹ سسٹم [Inventory Management System] کو کمپیوٹرائز کرنے کا پراجیکٹ دے دیا گیا ۔ ادارے میں موجود تھا آئی بی ایم کا مین فریم [IBM”s Main Frame] کمپیوٹر اور سافٹ ویئر ۔ دونوں کی قیمت ادا کر چکنے کے باوجود ہر ماہ ادائیگی کی جاتی جس کے عوض آئی بی ایم کا ایک نمائندہ ہمارے ادارے کی سیاحت کر کے سب ٹھیک کہہ جاتا ۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کا ہرجانہ علیحدہ ادا کرنا پڑتا ۔ اسی پر بس نہیں ذرا ذرا سی بات کیلئے ہم آئی بی ایم کے محتاج تھے ۔ ہم نے آئی بی ایم کے متوازی آزادی دینے والے ادارے نارسک ڈاٹا سے ناطہ جوڑا ۔ اُن کے ماہرین نے میرے ساتھ بیٹھ کر تمام سافٹ ویئر تیار کی اور اللہ کے فضل سے پاکستان کا سب سے وسیع اور فعال انوینٹری منیجمنٹ سسٹم کمپیوٹرائز ہو کر 1988ء میں بھرپور طور پر چالو ہو گیا

جب مجھے اکتوبر 1988ء میں ایم آئی ایس کا سربراہ بنا دیا گیا تو میں نے آئی بی ایم سے اگلا کنٹریکٹ ماضی کی شرائط پر کرنے سے انکار کر دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آئی بی ایم والے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ ہم نے ایک اور آزاد کمپنی سے رجوع کیا تو آئی بی ایم والوں نے ملک کی اعلٰی سطح پر رابطہ کیا کہ مجھے زیر کر سکیں ۔ اللہ کی مہربانی سے وہ کامیاب نہ ہوئے اور اُن کے بڑے میرے پاس بھاگے آئے اور ایک جدید کمپیوٹر سی ایس پی اور ایس کیو ایل کے ساتھ دینے پر راضی ہو گئے اس شرط پر کہ ماہانہ کرایہ ختم صرف جب ضرورت پڑے مینٹیننس چارجز ہوں گے ۔ اُن دنوں پاکستان میں آئی بی ایم کے سربراہ یوسف صاحب تھے ۔ کمپیوٹر کی وصولی کے وقت سربراہ نثار میمن صاحب تھے جو پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر رہے ۔ نثار میمن صاحب عہدہ سنبھالتے ہی واہ تشریف لائے اور مجھ سے ملاقات کر کے خوشی کا اظہار کیا

آئی بی ایم کی مہیا کردہ سافٹ ویئر کا یہ حال تھا کہ ایک فلاپی ڈسک سے 4 بار سافٹ ویئر انسٹال کرنے سے وہ سافٹ ویئر بیکار ہو جاتی تھی چنانچہ آئے دن آئی بی ایم سے نئی فلاپی ڈسکس بڑی قیمت پر خریدنا پڑتی تھیں یعنی ہاتھی کی قیمت میں چیونٹی ۔ ہمارے لوگوں نے کوڈ توڑااور ایک فلاپی ڈسک سے کئی فلاپی ڈسکس تیار کر لیں ۔ اگر امریکی قانون کو ماننا لازم ہوتا تو میں اور میرا سابق ادارہ بہت بڑے مجرم قرار پاتے ۔ گویا نہ میرا یہ بلاگ ہوتا اور نہ اتنے سارے ہونہاروں سے تعارف ہو پاتا

آجکل جسے پائریٹڈ سافٹ ویئر کہا جاتا ہے وہ مفت تو نہیں ملتی ۔ اب جو شخص بازار سے یہ سسستی سافٹ ویئر خرید کر لاتا ہے وہ مجرم کیسے ہوا ؟ مجرم تو وہ ہے جس نے کوڈ توڑ کر نقل بنائی ۔ سب کی اطلاع کیلئے لکھ دوں کہ کوڈ توڑ کر نقل بنانے والے پاکستانی نہيں ہیں بلکہ ان کا تعلق امریکا اور يورپ سے ہے ۔

ایک اہم واقعہ یاد آیا ۔ جب امریکا نے لبیا سے خام تیل خریدنے پر اقوامِ متحدہ کو استعمال کر کے پابندی لگوا دی اُن دنوں میں لبیا میں تھا ۔ امریکا کے تیل بردار جہاز مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے اور مڈل مين [Middle Man] کے ذریعہ سودے ہوتے ۔ کسی نجی کمپنی کے جہاز لبیا سے تیل لے کر جاتے اور امریکی جہازوں میں ڈال دیتے ۔ اس طرح امریکا مہنگا تیل سستے داموں خریدتا رہا ۔ کیا یہ جعلسازی اور دھوکا نہیں ؟

امریکا اور يورپ والوں کی دیانتداری کا پول ماضی کی تاریخ کھولتی ہے ۔ یونانی مصنّف مارک نے اپنی کتاب لائبر اگنیم میں جس تحقیقی مواد کو یونانی کا لاطینی ترجمہ بتایا تھا بعد کی تحقیق میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ دراصل عربی سے لاطینی ترجمہ تھا ۔ اسی طرح جس اُوزی مشین گن یا مشین پِسٹل پر اسرائیل کی واہ واہ ہوتی ہے وہ دراصل نئی ایجاد نہیں بلکہ چیکوسلواکيا کی سب مشین گن کی نقل یا اس کی ترمیم ہے

یہی حال کتابوں اور تحقیقاتی مقالاجات کا ہے فرنگیوں نے عربی سے ترجمے کر کے اپنے ناموں سے شائع کئے اور جس کا ترجمہ نہ ہو سکا اُن کُتب کو جلا دیا گیا ۔ اپنے ملک کو ہی لے لیجئے ۔ ہندوستان پر ہیراپھیری سے قبضہ کے بعد تمام محققین اور ہنر مندوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔ میرے اپنے آباؤ اجداد برطانوی حکومت کی دہشتگردی کا شکار ہوئے