اُردو اِسپِیکِنگ

یہ واقعہ ہے اُس زمانے کا جب مجھے نویں جماعت [اپریل 1951ء] میں بیٹھے چند یوم ہوئے تھے ۔ ہمارے مُہتمم استاذ صاحب نے پوری جماعت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ بہت لائق ۔ لائق اور درمیانے درجے کے طالب علم ۔ نالائق ہماری جماعت میں کوئی نہیں تھا ۔ پھر ہر گروہ میں سے ایک ایک لڑکا لے کر تین تین کو اکٹھا بٹھا دیا ۔ میرے ساتھ “م” اور “ی” کو بٹھایا گیا جن سے میری خاص واقفیت نہ تھی ۔ میں نے تعارف کی غرض سے “م” سے جو میرے ساتھ بیٹھا تھا پوچھا “آپ کی تعریف ؟” جواب ملا “ہم Urdu Speaking ہیں”۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں لفظ “اُردو اِسپِیکِنگ” سے متعارف ہوا۔ میں نے “ی” سے وہی سوال دہرایا تو اس نے جواب دیا “ہم محلہ ۔ ۔ ۔ میں رہتے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بنگلورمیں رہتے تھے” ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ “م” اپنے خاندان کے ساتھ بہار سے ہجرت کر کے آئے تھے

اُردو نے پنجاب میں جنم لیا اور پنجاب کے علاوہ حیدرآباد دکن میں پروان چڑھی ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ وہ علاقہ جس کا نام مغلوں نے پنجاب رکھا تھا دہلی اور دہرہ دون وغیرہ اس میں شامل تھے اور اس کی سرحدیں مشرق میں سہارنپور ۔ مراد آباد اور علیگڑھ تک تھیں ۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی اور اس کے شمال اور مشرق کا علاقہ اس میں سے نکال دیا تھا ۔ میں تاریخی ثبوت کے ساتھ یہ بھی واضح کر چکا ہوں کہ اُنیسویں صدی تک اُردو میں اُن الفاظ کی کثرت تھی جنہیں پنجابی سمجھا جاتا ہے

میں اپنی زندگی میں بے شمار ایسے لوگوں سے ملا ہوں کہ اُردو بولتے تھے مگر وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتے تھے ان کا تعلق بھی پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے اُن علاقوں سے تھا جہاں صرف اُردو بولی جاتی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدرآباد دکن جہاں اُردو کی افزائش ہوئی اور جہاں 1947ء سے قبل واحد اُردو یونیورسٹی تھی کے لوگ بھی اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتے تھے

سکول کالج اور ملازمت کے شروع کے چند سالوں کے دوران مجھے کوئی دہلی سے آیا ہوا سمجھتا اور کوئی آگرہ سے کیونکہ میں اُردو بولتا تھا ۔ اس سے بھی آگے چلیں تو میرے تینوں بچے اُردو بولتے ہیں اور پنچابی نہیں جانتے ۔ اسلئے قاعدے کے لحاظ سے اُن کی مادری زبان اُردو ہوئی ۔ میرے تمام بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں اُردو بولتے ہیں اور پنجابی نہیں بول سکتے یا اچھی طرح نہیں بول سکتے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتا ۔ مجھے فخر ہے کہ میرے خاندان کے سب بڑے اور چھوٹے درست اُردو بولتے ہیں

اُردو ہماری قومی زبان ہونے کے علاوہ بھارت ۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں سب سے زیادہ سمجھی جانے والی زبان ہے اور دنیا کی پانچویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ۔ افغانستان اور ایران کے بھی کئی باشندے اُردو سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل بھی اُردو پورے ہندوستان کی معتبر ترین زبان تھی ۔ اُردو کسی خاص قوم یا گروہ یا شہر کی زبان نہیں ہے ۔ یہ عجب بات ہے کہ ایک گروہ اپنے آپ کو ” Urdu Speaking ” کہتا ہے اور کہتے بھی انگریزی میں ہیں ۔ میں نے اس سلسلہ میں بہت سے لوگوں سے استفسار کیا اور کچھ سے براہِ راست کہا کہ وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کیوں نہیں کہتے ۔ عام تاءثر یہی تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کہتے ہیں

سیکولرزم کا ایک اور چھَکّا

میں بہت پہلے سیکولر ہو نے کا دعوٰی کرنے والی دنیا کی منافقت کے کئی پہلو اُجاگر کر چکا ہوں ۔ میرے کچھ ہموطنوں کو میری تحاریر پر پریشانی ہوتی رہی ہے ۔ مختصر یہ کہ بھارت میں سیکولر حکومت اور عیسائیوں کے گرجے جلائے جاتے ہیں اور حکومت کے بڑوں کی اشیرباد سے مساجد جلائی اور گرائی جاتی ہیں ۔ داڑھی سکھ ہندو عیسائی يہودی اور دہریئے سب رکھتے ہیں بلکہ یہودی مذہبی پیشواؤں کی داڑھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسی افغانستان کے طالبان کی لیکن امریکا ہو یا یورپ داڑھی والا صرف مسلمان ہی بُرا سمجھا جاتا ہے ۔ سر پر رومال عیسائی یہودی اور دوسری عورتیں بھی باندھتی ہیں مگر مسلمان عورتیں اگر سر پر رومال باندھیں تو دنیا کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اُن کے ساتھ بدتمیزی بھی کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ سکول کی بچیوں کو رومال باندھنے کی سزا کے نتیجہ میں سکول سے نکال دیا جاتا ہے

ان تمام حقائق کے باوجود سمجھا جاتا تھا اور میرا بھی خیال تھا کہ سوٹزرلینڈ ایک سیکولر ملک ہے ۔ وہاں پر کسی کے مذہب یا عقیدہ یا ذاتی زندگی پر اعتراض نہیں کیا جاتا مگر حکومت میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت کی ایماء پر ریفرینڈم اور اس کے نتیجہ میں مسجد کے مینار یا گُنبد بنانے پر پابندی نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ سیکولرزم ایک دھوکا ہے اور غیرمُسلم دنیا کی انسانیت پسندی کا دعوٰی منافقت کا ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ عیسائیوں کے گرجاؤں کے مینار مسجد کے میناروں سے بھی اُونچے ہوتے ہیں مگر اُن پر کسی کو اعتراض نہیں

تنزّل کا ایک سبب

قوم کے تنزّل کے چند اہم اسباب میں سے ایک قوم کے معمار محبانِ وطن کو اپنے ذہنوں میں سے نکالنا ہی نہیں بلکہ ان کے آثار کو بھی مٹانا ہے ۔ واہ چھاؤنی سے معروف تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے نام لکھا ہوا محمد یوسف گوندل صاحب کا مراسلہ پڑھنے کے بعد میں کافی دیر سوچتا رہا کہ ہماری قوم اب مزید کونسی گہرئیوں میں کودنے کی متمنی ہے ؟

اس خط میں تین محبانِ وطن کا ذکر ہے جن کے نام تو احسان فراموش قوم نے بھُلا ہی دیئے تھے اب اُن کی کارگذاریوں کے رہے سہے نشان بھی مٹائے جا رہے ہیں ۔ میر لائق علی ۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ اور محمد اُمراؤ خان ۔ میر لائق علی صاحب سے میرے والد صاحب واقفیت رکھتے تھے کیونکہ ہمارا خاندان حیدرآباد دکن میں کئی سال رہائش پذير رہا اور میرے دادا کے نظام حيدرآباد سے مراسم تھے

ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب کے متعلق میں نے اُس وقت جانا جب یکم مئی 1963ء کو میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت اختیار کی ۔ جن انجنیئر صاحبان نے ان کے ساتھ کام کیا تھا اتفاق سے میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات بن گئے تھے ۔
چیئرمین پی او ایف بورڈ میجر جنرل ریٹارڈ محمد امراؤ خان صاحب کے ساتھ میں نے جنوری 1964ء سے ان کے پی او ایف چھوڑنے تک بطور ٹیکنکل سیکرٹری برائے جرمن رائفل جی تھری اور جرمن مشین گن ایم جی فورٹی ٹو کام کیا ۔ اس اسلحہ کی پیداواری نشو و نما کی منصوبہ بندی کیلئے میرا انتخاب اُنہوں نے ہی کیا تھا ۔ واہ اور گرد و نواح میں جدید اسلحہ ساز فیکٹریاں محمد امراؤ خان صاحب کی سوچ کا نتیجہ ہیں

محمد یوسف گوندل صاحب کا مراسلہ
“یاران وطن تاریخ سے محبان وطن کا نام مٹانے کا کام شروع کر چکے ہیں ۔ ایک صاحب میر لائق علی تھے ۔ مرحوم حیدر آباد کے آخری وزیراعظم نے قیام پاکستان کے موقع پر نظام حیدر آباد سے سفارش کر کے بیس کروڑ روپے کی رقم مشکل میں گرفتار حکومتِ پاکستان کو ٹرانسفر کر دی تھی ۔ حیدر آباد کی آزادی کی تحریک کے لئے خفیہ ذرائع سے تھوڑے بہت اسلحہ کا بندوبست کیا ۔ قائداعظم کی علالت کے آخری دنوں میں کسی نہ کسی طرح پاکستان آئے مگر ملاقات ممکن نہ تھی ۔ اس سے اگلے ہفتے اس شخصیت [قائداعظم] کا انتقال ہوگیا اور اس کی یوم وفات پر انڈیا نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا ۔ میر لائق علی سمجھ دار آدمی تھا ۔ حیدر آباد کی حکومت کا کافی روپیہ بذریعہ ہائی کمیشن لندن میں جمع کروا دیا ۔ اپنی ذاتی دولت بھی اسی طرح محفوظ کر لی۔ آپ کا انڈسٹری کا بہت تجربہ تھا ۔ سقوط حیدر آباد پر ہندوستان نے آپ کو قید میں ڈال دیا کسی نہ کسی طرح فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے ۔ یہاں آپ کو اعزازی مشیر صنعت کاری مقرر کیا گیا ۔ اسی ناطے پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے Consultant بھی تھے۔آپ صرف ایک روپیہ تنخواہ پاتے تھے۔ یہاں انگریز ایڈوائزر (نیوٹن بوتھ) سے نہ بنی تو اس وقت کے ڈیفنس سیکرٹری سکندر مرزا نے آپ کو فیکٹری کے معاملات سے الگ کر دیا ۔ آپ نے واہ فیکٹری بہبود (ویلفیئر) کے لئے خطیر رقم مرحمت فرمائی ۔ اسی وجہ سے واہ کینٹ کا ایک بڑا چوک آپ کے نام سے موسوم تھا [لائق علی چوک]۔ اب 60 سال کے بعد اس چوک کا نام تبدیل کردیا گیا ہے ۔ (تُفو بر تو اے چرخ…)

میر لائق علی کے ساتھ ہی ایک جیّد سائنس دان ماہر اسلحہ ساز، عظیم محبِ وطن ڈاکٹر عبدالحفیظ (1883-1964) (آف لاہور) کی جلا وطنی انگریزوں کے چلے جانے کی وجہ سے ختم ہوئی ۔ آپ ایک بین الاقوامی شخصیت تھے ۔ ترکیہ، افغانستان کے علاوہ جرمنی، آسٹریا، انگلستان وغیرہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ امیر امان اللہ خان کے کہنے پر افغانستان میں اسلحہ ساز فیکٹری بنانے کی کوشش کی جو بوجوہ انگریزوں نے ناکام بنادی ۔ کمال اتاترک کے ذاتی دوست تھے انقرہ میں مصطفٰی کمال کے مقبرہ پر ایک البم میں اتاترک کے ساتھ آپ کی تصویر بھی دیکھی ۔ کری کالے کی بارود فیکٹری میں کام کیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں آسٹریلیا کے اسلحہ ساز اداروں میں سامان تیار کرواتے اور ترکیہ بھجواتے تھے اور بھی ان کے بہت کارنامے ہیں ۔ کاش آپ جیسا کوئی محقق اس طرح کی شخصیات کی زندگیوں پر ریسرچ کرے ۔ دس سال واہ فیکٹری کے انگریز اور انگریز پرست افسروں کے ساتھ مقابلہ کیا بالآخر لاہور چلے گئے

ایسے ہی ایک سابق چیئرمین پی او ایف میجر جنرل محمد امراؤ خان بھی تھے ۔ آپ نے فیکٹری کے اندر اور باہر بہت کام کیا انگریز ایڈوائزروں سے پیچھا چھڑایا اور 160انگریز افسروں کو گھر بھیجا جس کے بعد فیکٹری صحیح معنوں میں Nationalize ہوئی ایک نیا موڑ آیا فرسودہ ہتھیاروں کی بجائے جدید مشینری سے آٹو میٹک رائفل اور مشین گن بنانے کا عمل شروع ہوا۔جدید اقسام کے بارود بننے لگے جس سے بھاری توپوں کے گولے بنانے ممکن ہوئے اور ڈائنامیٹ کا کارخانہ سویڈن کے اشتراک سے قائم ہوا۔ ”بستی کاریگر“ (آج کل اسے لالہ رخ کہتے ہیں) کی لاجواب رہائشی کالونی بنوائی جس میں فیکٹری ملازمین کو ارزاں نرخ پر مکانات مہیا ہوئے ۔ یہ تو نمونہ “مشتے از خروارے” ہے المیہ یہ ہے کہ جنرل امراؤ کا لگایا ہوا سنگ بنیاد جو اسی بستی کے چوک میں نصب تھا وہ بھی اکھاڑ پھینکا گیا جیساکہ میر لائق علی چوک کا حشر کیا گیا ۔ جو ”نقش وفا“ تم کو نظر آئے مٹا دو

دنیا کا بیمثال کنواں

ہر سال لاکھوں لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس کے علاوہ لاکھوں دوسرے دنوں میں عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ یہ سب آبِ زم زم خُوب پیتے ہیں اور اپنے عزیزوں کیلئے بھی لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ۔ یہ آبِ زم زم کیا ہے ؟

جب سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کو مکہ جا کر اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور چند ماہ کے بچے اسمٰعیل [علیہ السلام] کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنے کا حُکم اللہ کی طرف سے ملا تو اُنہوں نے تعمیل کی ۔ اُن کے واپس چلے جانے کے بعد حضرت ہاجرہ نے ننھے بچے کو وادی میں لٹا دیا اور صفا نامی چوٹی سے مروا نامی چوٹی تک جا جا کر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہو گئیں ۔ جب وہ سات بار ایک چوٹی سے دوسری تک جا چکیں تو اُنہوں نے ديکھا کہ اس ننھے بچے نے جو بعد میں اللہ کے نبی سیّدنا اسمٰعیل بنے جہاں زمین پر ایڑیاں ماریں وہاں سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے پانی کا چشمہ جاری کردیا ۔ یہ واقع آج سے 4000 سال سے زائد پہلے کا ہے

اُس دن سے آج تک یہ چشمہ جاری ہے اور لاکھوں آدمیوں کے اس پانی کو پينے کے باوجود کبھی خُشک نہیں ہوا ۔ اسی کو زم زم کا نام دیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ہاجرہ نے کہا تھا “زم زم” جو اُس وقت بولی جانے والی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رُک جا رُک جا

زم زم کا کنواں 13 میٹر گہرا ہے اور اس کا منہ ساڑھے پانچ میٹر لمبا اور سوا چار میٹر چوڑا ہے ۔ زم زم کا پانں پینے کیلئے دنیا کا بہترین پانی ہے ۔ اس کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی اس میں کوئی چراثیم یا نباتی شے پیدا ہوئی ہے جب کہ ایسا دوسرے سب پانیوں میں ہوتا ہے ۔ حج کے دوران اس کنویں سے روزانہ بڑے بڑے پمپوں سے 8000 لٹر پانی فی سیکنڈ نکالا جاتا ہے ۔ پانی نکالنے کے بعد 15 منٹ میں یہ کنواں پھر بھر جاتا ہے ۔ سُبحان اللہ

عید مبارک

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

سب قارئین کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے ۔ جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک ۔ اللہ ان کا حج قبول فرمائے

کچھ ہلکا پھُلکا

پہلے 2 معروف لوگوں کی باتیں

مارک ٹوَین : دنیا میں سب سے آسان کام تمباکو نوشی چھوڑنا ہے ۔ میں نے ہزاروں بار اسے چھوڑا ہے

گریسی ایلن : میرے لئے تعجب خیز ہے کہ جب میں پیدا ہوئی تو ڈیڑھ سال تک نہیں بولی
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

” ہمیشہ ” اور ” کبھی نہیں ” دو ایسے مستعملِ گفتار ہیں جو آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کبھی نہیں بولے جائیں

کبھی کسی احمق سے بحث نہ کریں ۔ ہو سکتا ہے لوگ نہ پہچانتے ہوں کہ احمق کون ہے

مہاجر کون ؟

نقلِ مکانی تو آدمی ازل سے کرتا ہی آیا ہے لیکن جسے طاقت کے بل بوتے نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا جائے اُسے تاریخ میں مہاجر کہا گیا ہے اور وہ بھی کسی جگہ قیام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو مہاجر نہیں رہتا یا کم از کم اُس کی اگلی نسل مہاجر نہیں ہوتی ۔ 1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی ہندوستان میں ایک محتاط منصوبہ بندی کے تحت عسکری تربیت یافتہ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے ۔ مسلمانوں کا قتل اور آگ لگانا روز کا معمول بن گیا ۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں بھی جن محلوں میں مسلمان اقلیت میں تھے یا جہاں کہیں اکیلا دوکیلا ملے اُن پر قاتلانہ حملے ہونا شروع ہو گئے

ان غیرمتوقع حالات نے بھارت کے زیرِ تسلط آنے والے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور اُنہوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن میں سے بہت سے سفر کے دوران شہید کر ديئے گئے ۔ یہ لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر سرحدوں کے قریب ہی بنائے گئے عارضی ٹھکانوں میں رکھا گیا اور بعد میں مختلف شہروں یا دیہات میں بسایا گیا ۔ اِن لوگوں کو مہاجر یا پناگزیں یا پناہ گیر کہا گیا لیکن اپنی روزی آپ کمانا شروع کرتے ہی انہوں نے یہ تخلص ترک کر دیا ۔ پھر اگر کوئی انجان ان میں سے کسی کو مہاجر کہہ دیتا تو اس کا بہت بُرا منایا جاتا ۔ 1948ء میں بھی مہاجر پاکستان آتے رہے ۔ سوائے جموں کشمیر کے باقی علاقوں سے اس کے بعد آنے والوں کو مہاجر نہیں کہا گیا کیونکہ وہ اپنی تسلی کے ساتھ آئے تھے اُنہیں زبردستی گھروں سے نہیں نکالا گیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگ سوائے معدودے چند کے اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ آئے تھے اور وہ مہاجر نہیں تھے بلکہ اپنی مرضی سے نقل مکانی کرنے والے تھے ۔ 1951ء میں قانون بنا جس کے تحت بھارت سے پاکستان میں قیام کی خاطر داخل ہونے والے مسلمان کو بھی حکومتِ پاکستان سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا قرار پایا

برطانیہ کے ذہنی غلاموں نے 16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور بابائے قوم کے قریبی ساتھی لیاقت علی خان صاحب کو قتل کرا دیا اور اپنی چالاکیوں کے نتیجہ میں خواجہ ناظم الدین صاحب کو چکمہ دے کر ایک اوباش شخص غلام محمد کو پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا جس نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی کو توڑ دیا جبکہ وہ اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کر چکی تھی اور اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لینا تھی ۔ اس کے بعد برطانیہ کے ذہنی غلاموں اور انڈین سول سروس کے سابقہ افسروں نے ملک کا پورا نظم و نسق سنبھال لیا ۔ آئین کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا اور 1951ء کا قانونِ شہریت تو کیا ہر قانون کی صریح خلاف ورزیاں حکمرانوں کے ایماء پر ہونے لگیں ۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں آ کر بس گئے جو 1951ء کے شہریت کے قانون کے تحت شاید کبھی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار نہ کر سکتے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی مشکوک لوگوں کو اچھے عہدے بھی دیئے جاتے رہے

بقول شخصے ہمارے ہموطنوں کی ہر چیز ہی نرالی ہے ۔ پاکستان بننے کے تین دہائیاں بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان میں پیدا ہونے والوں نے اپنے آپ کو مہاجر کا نام دے دیا اور کراچی يونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو الطاف حسین نامی طالبعلم نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں اس نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی ۔ اس میں شامل ہونے والوں میں اکثریت ان صاحبان کی اولاد ہے جو 1951ء کا قانون نافذ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے ۔ کچھ اُن کی اولاد بھی شامل ہوئی جو مہاجر تھے لیکن اپنے آپ کو مہاجر کہنا پسند نہیں کرتے تھے اور چند ایسوں کی اولاد بھی جن کے آباؤ اجداد 14 اگست 1947ء سے پہلے اس علاقہ میں مقیم تھے جو پاکستان میں شامل ہوا ۔ اب گو حالات کے دباؤ کے تحت اس سیاسی جماعت کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا لیکن اس میں شامل لوگ ابھی بھی اپنی شناخت مہاجر کے طور پر ہی کراتے ہیں ۔ یہ رویہ کس حد تک مناسب ہے کوئی آنے والا مؤرخ ہی لکھے گا ۔ شروع میں میری ہمدردیاں مہاجر موومنٹ کے ساتھ تھیں کیونکہ میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں ہجرت کر کے آیا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ جب مہاجر قومی موومنٹ کے کچھ رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا تو دور ہونا ہی قرینِ حقیقت سمجھا

اللہ ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہے اُسے حقیقی پاکستانی بننے اور اس مُلک پاکستان کی خدمت کی توفیق دے