احمد بلال ناصر سے عبدالرحمٰن

میں نے پانچ چھ سال قبل سنا تھا کہ بلال ناصر اپنے لوگوں کو چھوڑ کر ہم لوگوں میں شامل ہو گیا ہے ۔ میں نے توجہ نہ دی کہ جب تک مستند بات نہ ہو خبریں افواہ ہوتی ہیں ۔ پھر پچھلے سال ایک ہفت روزہ اخبار میں یہی خبر پڑھی تو مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا کہ لوگ اس اخبار کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے ۔ آج دی نیوز میں پھر خبر پڑھی جو نیچے نقل کر رہا ہوں

یہ بات ہو رہی ہے احمد بلال [ولد ناصر ولد طاہر ولد بشیر الدین محمود ولد مرزا غلام احمد قادیانی] کی جو مرزا ناصر کا بڑا بیٹا ہے

Abdur Rahman, elder son of Mirza Nasir Ahmed, embraced Islam in the year 1999 after going through Allama Ihsan Elahi’s book “Qadiniat, Mirzayat and Islam.” He has command of seven languages and is working as a translator at Bhasha Dam. His Qadiani name was Mirza Ahmed Bilal.

He said that a fortnight back, a group of Qadianis abducted him and subjected him to severe torture at Aiwan-e-Mahmud near Sir Ganga Ram Hospital and his nose was fractured. He fell unconscious after which they abandoned him near Anarkali Bazaar. Allama Ibtisam Elahi provided him with protection and arranged his medical treatment.

He said that if the people in Rabwah were given basic human rights, their majority would revert to Islam. At present, he said, Rabwah people were under great pressure.

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ آدمی

پچھلے دنوں کراچی کے میئر مصطفٰے کمال صاحب نے لوگوں کو “اُلو کے پٹھے” کہا اور سیاسی جماعتوں کے سر براہوں پر لعنت بھیج دی ۔ ان کے مداحوں نے یہ جواز نکالا کہ جو آدمی اتنا زیادہ کام کرے اور جس کو اتنا تنگ کیا جائے وہ اور کیا کرے ۔ گویا تریاق دینے والا طبیب اگر کبھی زہر کھلا دے تو کوئی مضائقہ نہیں

يہی کچھ کم نہ تھا کہ 5 جنوری کو حقوقِ انسانی کی بلند پایہ علَم بردار عاصمہ جہانگیر نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے ارکان کو idiot اور “اُلو کے پٹھے” کہہ دیا گویا یہ گالیاں پوری قوم کو دیں جنہوں نے اُنہیں منتخب کيا

پرانی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب ملک کے سربراہ تھے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے بھارت کی اُس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کو اس طرح مخاطب کیا ” وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [گندھی گالی] مائی ”
بعد میں کہہ دیا ” کاٹ دو کاٹ دو ۔ میں عوامی آدمی ہوں اسلئے منہ سے نکل گیا ”
گویا عوام کا کام گالیاں دینا ہوتا ہے

بہادر شاہ ظفر کا شعر ہم نے سکول کے زمانہ میں پڑھا تھا

ظفر آدمی اس کو نہ جانیئے گا ۔ ہو وہ کتنا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

حزبِ مخالف کی حکومت

ہمارے ملک میں بہت سے عجائبات میں سے ایک عجوبہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی ہیں ۔ ان کے عمل اور بیان میں فرق تو ہوتا ہی ہے لیکن کچھ جماعتوں میں ایک خاص خُوبی پائی جاتی ہے کہ ان کے راہنماؤں کی تربیت اور ذہنی بالیدگی بطور حزبِ مخالف کے ہوئی ہے ۔ اس لئے جب وہ حسبِ مخالف میں ہوتے ہیں تو چھا جاتے ہیں اور حکومت میں ہوتے ہیں تو کچھ عوام کو ہنسانے اور باقیوں کو پریشان کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں

جے یو آئی [ف] کے سربراہ فضل الرحمٰن حکومت میں شامل ہوتے ہوئے عام طور پر جو بیانات داغتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ حزبِ اختلاف میں ہیں اسلئے حکومت کے خلاف بیان دے رہے ہیں

ان کے بعد باری آتی ہے پی پی پی کی جس نے کبھی پاکستان کی حکومت کو مانا ہی نہیں کیونکہ پی پی پی جب حکومت ہوتی ہے تو اس کے سب راہنما پی پی کی حکومت کی رُٹ لگائے ہوتے ہیں اور جب مخمہ میں تقریر کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف حزبِ اختلاف میں ہیں ۔ حالیہ مثال وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ نے مطالبہ کیا کہ “اگر سیاستدانوں کا احتساب کرنا ہے تو جرنیلوں اور ججوں کا بھی کیا جائے”
کوئی پوچھے کہ بھلے آدمی آپ کی حکومت ہے شروع کریں احتساب سب کا کِس نے روکا ہے ؟

اس عمل میں ایم کیو ایم بھی پیچھے نہیں ۔ باوجود مرکز اور صوبہ سندھ کی حکومتوں میں شامل ہونے کے حزبِ اختلاف کی طرح بیان داغے جاتے ہیں ۔ حالیہ مثال الطاف حسین کا بیان کہ “کراچی میں عاشورہ کے روز بم دھماکہ اور بعد میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات اعلٰی عدلیہ سے کرائی جائے”
بھلے آدمی مرکز اور صوبہ سندھ میں آپ حکومت میں شامل ہیں اور کراچی میں ضلعی حکومت بھی آپ کی ہے ۔ آپ کو کس نے روکا ہے اعلٰی عدالتی تحقیقات سے ؟

کون یقین دلائے اِن حضرات کو کہ جناب حکومت آپ کی ہے الیکشن کمپین [Election campaign ] والی تقریریں چھوڑیئے اور کچھ کام کر کے دکھایئے تاکہ اگلے الیکشن میں پٹنے کی بجائے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ لَڑَو گے ؟ مَرَو گے ؟

سیاستدان عجیب چیز ہوتے ہیں مگر ہمارے مُلک کے سیاستدانوں کا تو جواب ہی نہیں اور اُن سے بڑھ کر اُن کے پیروکار لاجواب ہیں ۔ ہمارے مُلک کا سب سے بڑا سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو کہا جاتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ۔ اپنے فنِ تقریر کو بروئے کار لاتے ہوئے حاضرینِ جلسہ کے جذبات کو خُوب اُبھارا ۔ آخر میں تقریر اس مکالمہ پر ختم ہوئی

بھٹو صاحب ۔ “لڑو گے ؟”
حاضرین پورے جوش کے ساتھ ۔ “ہاں”

بھٹو صاحب ۔ “مرو گے ؟”
حاضرین پورے جوش کے ساتھ ۔ “ہاں”

بھٹو صاحب “جاؤ مرو ” کہتے ہوئے چلے گئے اور حاضرین جئے بھٹو کے نعرے لگانے لگے

اس بارے کیا خیال ہے ؟

وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ کراچی میں عاشورہ جلوس میں ہونے والا دھماکا خودکش نہیں تھا

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کراچی کے واقعہ میں کسی نے تو کرایا ہے ، میں کسی کا نام نہیں لونگا ، مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد سانحہ کراچی میں ملوث تھے

ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ ان واقعات کا جائزہ لینے کیلئے اعلٰی سطح کی کمیٹی بنا دی ، کراچی میں پولیس اور رینجرز مشترکہ پٹرولنگ کریں گے

تھیوکریسی Theocracy اور اسلام

اگر اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا کوئی غَلَط بات کہے تو اُسے بے عِلم سمجھ کر درگذر کیا جا سکتا ہے ۔ عصرِ حاضر میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بغیر متعلقہ موضوع کا مناسب مطالعہ کئے فتوٰی صادر کر دیتے ہیں ۔ یہاں ضروری ہے کہ اپنے طریقہ تحریر کی وضاحت کر دوں ۔ جب میں کسی اور کی تحریر نقل کرتا ہوں تو اس کا حوالہ دے دیتا ہوں لیکن خود کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے میں اس موضوع کا ممکن حد تک مطالعہ کرتا ہوں اس کے بعد لکھتا ہوں اس مطالعہ کا دورانیہ ایک ہفتہ سے کئی سال تک ہو سکتا ہے ۔ میرے دونوں بلاگز پر ایسی تحاریر موجود ہیں جن سے پہلے میں نے کئی سال تحقیق اور مطالعہ کیا

آجکل جبکہ بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعہ ہر قسم کی معلومات کافی حد تک حاصل ہو سکتی ہیں کسی پڑھے لکھے آدمی کا بغیر مناسب مطالعہ کئے رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ دوسرے کی تحریر کو رد کر دینا اگر جُرم نہیں تو ظُلم ضرور ہے

جب بھی اسلامی ریاست کی بات کی جاتی ہے تو اپنے تئیں تعلیم یافتہ طبقہ کے کچھ لوگ شور مچا دیتے ہیں “قائد اعظم نے پاکستان کو سیکیولر بنایا تھا ہم اسے تھیوکریسی نہیں بننے دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ”۔ کسی پڑھے لکھے نے یہاں تک کہہ دیا کہ [نعوذ باللہ من ذالک] رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے مدینہ میں سیکولر ریاست کی بنیاد رکھی تھی ۔ میں سیکولرزم کے متعلق پہلے لکھ چکا ہوں آج صرف تھیوکریسی [theocracy] کے متعلق اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا

تھیوکریسی کا مطلب جو میں سالہا سال کے مطالعہ کے بعد سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو پاکستان کا حکمران بنا دیا جائے اور ہر قانون مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے فتوٰی کا محتاج ہو ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ پیر پگاڑا صاحب کو حکمران بنا دیا جائے اور قانون ان کے فتوٰی کا محتاج ہو

تھیوکریسی کا مطلب مندرجہ ذیل ڈکشنریوں اور آزاد اینسائيکلوپیڈیا سےہی سمجھ میں آ جانا چاہیئے

Merriam Webster’s Dictionary
Government of a state by immediate divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided

American Heritage Dictionary
A government ruled by or subject to religious authority

Wikipedia
Theocracy is a form of government in which a god or deity is recognized as the state’s supreme civil ruler,[1] or in a higher sense, a form of government in which a state is governed by immediate divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided.[2] In Common Greek, “theocracy” means a rule [kra′tos] by God [the.os′]. For believers, theocracy is a form of government in which divine power governs an earthly human state, either in a personal incarnation or, more often, via religious institutional representatives (i.e., a church), replacing or dominating civil government.[3] Theocratic governments enact theonomic laws.
Theocracy should be distinguished from other secular forms of government that have a state religion, or are merely influenced by theological or moral concepts, and monarchies held “By the Grace of God”.
A theocracy may be monist in form, where the administrative hierarchy of the government is identical with the administrative hierarchy of the religion, or it may have two ‘arms,’ but with the state administrative hierarchy subordinate to the religious hierarchy.

اسلامی سلطنت تھیوکریسی نہیں ہوتی اور نہ ہی خُلفائے راشدین کا دور تھیوکریسی تھا ۔ اسلامی سلطنت جب مدینہ میں قائم ہوئی تو اُسے اس لحاظ سے تھیوکریسی کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے سربراہ اللہ کے رسول تھے لیکن عملی جہت کو دیکھا جائے تو وہ بھی تھیوکریسی نہیں تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تھیوکریٹِک حُکمرانی [theocratic rule] کا سبق نہیں دیا ۔ اگر صیہونیت کو مذہب قرار دیا جائے تو عصرِ حاضر میں عملی لحاظ سے اسرائیل کو تھیوکریٹِک ریاست کہا جا سکتا ہے ۔ اسلامی سلطنت میں جب بات دنیاوی حقوق کی آتی ہے تو بلا امتیاز رنگ و نسل یا عقیدہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حُکم ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں ریاست میں سربراہ کی نام زدگی اور چناؤ ہوتا رہا ہے ۔ جسے عصرِ حاضر میں رائے شماری کہا جاتا ہے اُس کا منبع بیعت ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی ریاست میں رائے کا حق اُن لوگوں کو ہے جن کا کم از کم ظاہر جُرم سے پاک ہو جبکہ دورِ حاضر میں رائے دہندہ تو کیا منتخب ہونے والا بھی مُجرم ہو سکتا ہے

سقراط نے کہا تھا “اگر جاہلوں کو رائے شماری کا حق دے دیا جائے تو بدمعاش ہی حکمران ہوں گے”