تھیوکریسی Theocracy اور اسلام

اگر اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا کوئی غَلَط بات کہے تو اُسے بے عِلم سمجھ کر درگذر کیا جا سکتا ہے ۔ عصرِ حاضر میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بغیر متعلقہ موضوع کا مناسب مطالعہ کئے فتوٰی صادر کر دیتے ہیں ۔ یہاں ضروری ہے کہ اپنے طریقہ تحریر کی وضاحت کر دوں ۔ جب میں کسی اور کی تحریر نقل کرتا ہوں تو اس کا حوالہ دے دیتا ہوں لیکن خود کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے میں اس موضوع کا ممکن حد تک مطالعہ کرتا ہوں اس کے بعد لکھتا ہوں اس مطالعہ کا دورانیہ ایک ہفتہ سے کئی سال تک ہو سکتا ہے ۔ میرے دونوں بلاگز پر ایسی تحاریر موجود ہیں جن سے پہلے میں نے کئی سال تحقیق اور مطالعہ کیا

آجکل جبکہ بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعہ ہر قسم کی معلومات کافی حد تک حاصل ہو سکتی ہیں کسی پڑھے لکھے آدمی کا بغیر مناسب مطالعہ کئے رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ دوسرے کی تحریر کو رد کر دینا اگر جُرم نہیں تو ظُلم ضرور ہے

جب بھی اسلامی ریاست کی بات کی جاتی ہے تو اپنے تئیں تعلیم یافتہ طبقہ کے کچھ لوگ شور مچا دیتے ہیں “قائد اعظم نے پاکستان کو سیکیولر بنایا تھا ہم اسے تھیوکریسی نہیں بننے دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ”۔ کسی پڑھے لکھے نے یہاں تک کہہ دیا کہ [نعوذ باللہ من ذالک] رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے مدینہ میں سیکولر ریاست کی بنیاد رکھی تھی ۔ میں سیکولرزم کے متعلق پہلے لکھ چکا ہوں آج صرف تھیوکریسی [theocracy] کے متعلق اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا

تھیوکریسی کا مطلب جو میں سالہا سال کے مطالعہ کے بعد سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو پاکستان کا حکمران بنا دیا جائے اور ہر قانون مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے فتوٰی کا محتاج ہو ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ پیر پگاڑا صاحب کو حکمران بنا دیا جائے اور قانون ان کے فتوٰی کا محتاج ہو

تھیوکریسی کا مطلب مندرجہ ذیل ڈکشنریوں اور آزاد اینسائيکلوپیڈیا سےہی سمجھ میں آ جانا چاہیئے

Merriam Webster’s Dictionary
Government of a state by immediate divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided

American Heritage Dictionary
A government ruled by or subject to religious authority

Wikipedia
Theocracy is a form of government in which a god or deity is recognized as the state’s supreme civil ruler,[1] or in a higher sense, a form of government in which a state is governed by immediate divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided.[2] In Common Greek, “theocracy” means a rule [kra′tos] by God [the.os′]. For believers, theocracy is a form of government in which divine power governs an earthly human state, either in a personal incarnation or, more often, via religious institutional representatives (i.e., a church), replacing or dominating civil government.[3] Theocratic governments enact theonomic laws.
Theocracy should be distinguished from other secular forms of government that have a state religion, or are merely influenced by theological or moral concepts, and monarchies held “By the Grace of God”.
A theocracy may be monist in form, where the administrative hierarchy of the government is identical with the administrative hierarchy of the religion, or it may have two ‘arms,’ but with the state administrative hierarchy subordinate to the religious hierarchy.

اسلامی سلطنت تھیوکریسی نہیں ہوتی اور نہ ہی خُلفائے راشدین کا دور تھیوکریسی تھا ۔ اسلامی سلطنت جب مدینہ میں قائم ہوئی تو اُسے اس لحاظ سے تھیوکریسی کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے سربراہ اللہ کے رسول تھے لیکن عملی جہت کو دیکھا جائے تو وہ بھی تھیوکریسی نہیں تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تھیوکریٹِک حُکمرانی [theocratic rule] کا سبق نہیں دیا ۔ اگر صیہونیت کو مذہب قرار دیا جائے تو عصرِ حاضر میں عملی لحاظ سے اسرائیل کو تھیوکریٹِک ریاست کہا جا سکتا ہے ۔ اسلامی سلطنت میں جب بات دنیاوی حقوق کی آتی ہے تو بلا امتیاز رنگ و نسل یا عقیدہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حُکم ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں ریاست میں سربراہ کی نام زدگی اور چناؤ ہوتا رہا ہے ۔ جسے عصرِ حاضر میں رائے شماری کہا جاتا ہے اُس کا منبع بیعت ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی ریاست میں رائے کا حق اُن لوگوں کو ہے جن کا کم از کم ظاہر جُرم سے پاک ہو جبکہ دورِ حاضر میں رائے دہندہ تو کیا منتخب ہونے والا بھی مُجرم ہو سکتا ہے

سقراط نے کہا تھا “اگر جاہلوں کو رائے شماری کا حق دے دیا جائے تو بدمعاش ہی حکمران ہوں گے”

This entry was posted in معاشرہ, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

6 thoughts on “تھیوکریسی Theocracy اور اسلام

  1. وھاج اھمد

    اجمل بھای بھت اچھا کیا اس کے لکھنے کی فی زمانہ بھت ضرورت تھی
    میں خود بھی اس معاملے مین کنفیوز رھا ھون اور بھت کچھ پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ واقعی خلافت راشدہ در حقیقت تھیوکریسی نھیں تھی
    اجمل بھا ئ اللہ تبارک و تعالی ا نے ھمین ایک پوتی بخشی ھے اسکے ماں باپ نے اسکا نام
    آیہ ایمان تجویز کیا ھے اللہ اس بچی کو صالحہ مسلمہ بناءے آپ سے بھی دعا کی درخواست ھے

  2. خرم

    انکل جی منتخب نمائندوں کے کسی بھی اخلاقی جرم سے پاک ہونے کی شرط تو ہمارے آئیں میں بھی موجود ہے۔ اس پر عمل درآمد چیزے دیگر است۔

  3. محمد سعد

    السلام علیکم۔
    پاکستان میں نہ تو ڈیموکریسی ہے نہ تھیوکریسی۔ یہاں کا نظام ہے “اللہ کریسی” (سرائیکی کا جملہ۔ ترجمہ: “اللہ کرے گا”)۔ یعنی بیشتر لوگ اپنی ذمہ داریاں یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے ہیں کہ “اللہ کریسی”۔

  4. محمد سعيد البالنبوري

    Wo shuahat jinke zarye wo kanfiuzan phelate hain, un may se agar kuch ka btor namona tardid ke sath zikr hojay to ye ham talib e ilmon k izdiyad e ilm ka bais ho.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.