جیسا بادشاہ تیسے وزیر

سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کہا ہے کہ یوم عاشور پر بم دھماکے کے بعد لوٹ مار اور آگ لگانے والوں پر اگر پولیس یا رینجرز فائرنگ کرتی اور 6 لاشیں بھی گر جاتیں تو آج پورا پاکستان جل رہا ہوتا اور آج پورا پاکستان بند ہوتا‘

وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ پولیس اور رینجرز کے اہلکار موجود تھے لیکن انہوں نے لوٹ مار کرنے اور آگ لگانے والے شرپسندوں کو گولی کیوں نہیں ماری؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شرپسند بھی عزاداروں کی طرح کالے کپڑوں میں تھے اور کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں علم جیسی چیزیں تھیں‘ ایک طرف تو بم دھماکے میں لوگ شہید ہوگئے تھے دوسری طرف پولیس یا رینجرز کی گولیوں سے صرف چھ لاشیں بھی گرجاتیں تو صورتحال اور زیادہ خراب ہوجاتی

[خیال رہے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ بم دھماکے کے بعد آگ لگانے اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف اگر پولیس اور رینجر کاروائی کرتے تو نقصان سے بچا جا سکتا تھا ۔ اور عینی شاہدین کے مطابق بلوہ کرنے والے عزاداروں میں سے نہیں تھے]

گُم شدہ کی تلاش

نئے سال کا آغاز عِلم کی کھوج میں شروع کرتے ہیں

یہ برتن کیا ہیں ؟

1 ۔ تھالی ۔ رکابی ۔ طشتری ۔ پرات
2 ۔ کاشک ۔ چمچی ۔ چمچہ ۔ ڈوئی ۔ کڑچھی ۔ کاشک
3 ۔ مٹکا ۔ جھجھر ۔ صراحی ۔ چاٹی ۔ ولٹوئی
4 ۔ ڈول ۔ بالٹی ۔ کڑاہی ۔ باٹی

مکان کے یہ کونسے حصے ہیں ؟

5 ۔ جھروکا ۔ روشندان ۔ کھڑکی ۔ طاق
6 ۔ آنگن ۔ صحن ۔ دالان ۔ رسوئی ۔ کوٹھری ۔ بیٹھک ۔ شاہنشین

یہ کھانے کی چیز یں کیا ہیں اور کس چیز سے بنتی ہیں ؟

7 ۔ مَٹھی ۔ پاپڑی ۔ پاپڑ ۔ ام پاپڑ
8 ۔ پُوری یا پُوڑی ۔ کچوری ۔ لُچی ۔ پُوڑا یا مال پُوڑا ۔ قتلمہ ۔ پھیونیاں یا پھینیاں
9 ۔ پراٹھا ۔ درُپّڑ ۔ گھی میں تَلی روٹی ۔ نان کُلچہ ۔ کشمیری کُلچہ ۔ باقرخوانی
10 ۔ جلیبی ۔ امرتی ۔ امرتسا ۔ کھجور [پیڑ پر لگنے والی نہیں]
11 ۔ چھاچھ ۔ لسی ۔ کچی لسی

جو صاحب یا صاحبہ تبصرہ کے خانے میں لکھنا نہ چاہیں وہ مجھے بذریعہ برقیہ [e-mail] لکھ کر بھیج سکتے ہیں ۔ پتہ حسبِ ذیل ہے
iabhopal@yahoo.com

رُکن اور ستُون

غَلَط العام لکھنے سے چند قاری پریشان ہوتے ہیں اسلئے اس لفظ کا استعمال مناسب نہ سمجھا
ہمارے ملک میں دینی تعلیم تو کیا دنیاوی تعلیم کا بھی مناسب نظام وضع نہیں کیا گیا اسلئے عام طالبِ عِلم کو نصابی علم کی بھی گہرائی میں جانے کا موقع نہیں ملتا کُجا نصاب سے باہر کی باتیں ۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں ۔ مسلمان ہوتا کیا ہے یہ جاننے کا سب کا دعوٰی تو ہے مگر حقیقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے

کوئی ڈھائی دہائیاں پیچھے کی بات ہے کہ مجھے گریجوئیٹ سطح پر اسلامیات پڑھانا پڑھی ۔ ہر نصاب شروع کرتے ہوئے پہلے دن پچھلے نصاب کی مختصر سی دہرائی کی جاتی ہے ۔ میں نے جماعت سے سوال کیا “اسلامی سلطنت کے پانچ ستون کیا ہے ؟” چاروں طرف سنّاٹا تھا ۔ میرے سوال دہرانے پر ایک طالب عِلم نے ڈرتے ڈرتے کہا “کلمہ ۔ نماز ۔ روزہ ۔ زکوٰة۔ حج” ۔

حال تو پورے نظامِ تعلیم کا ہی قابلِ تعریف نہیں ہے لیکن دینی تعلیم کے ساتھ جو لاپرواہی برتی گئی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان اور پانچ ستونوں کو عام طور پر آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے

مُسلمان ہونے کی اوّل شرط ایمان ہے اور ایمان کے پانچ رُکن ہیں
1 ۔ کلمہ [لازم]
2 ۔ نماز [لازم]
3 ۔ روزہ [لازم]
4 ۔ زکوٰة [لازم بشرطیکہ شرائط پوری ہوں]
5 ۔ حج [لازم بشرطیکہ شرائط پوری ہوں]

بات صرف ایمان لے آنے پر ختم نہیں ہو جاتی ۔ یہ تو یوں ہوا کہ ایک مدرسہ [School] یا کُلیہ [college] یا جامعہ [university ] میں داخلہ لینے کیلئے کچھ صلاحیت ضروری ہوتی ہے ۔ ایمان لے آنے پر اُس صلاحیت کی شرط پوری ہو گئی تو اسلام میں داخلہ مل گیا ۔ پڑھے لکھے ہی نہیں بہت سے اَن پڑھ بھی جانتے ہیں کہ تدریس کا ایک نصاب ہوتا ہے جس میں کچھ لازمی اور کچھ اختیاری مضامین ہوتے ہیں جنہیں شعوری طور پر مکمل کرنے کے بعد ہی سند ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح مسلمان ہونے کا نصاب ہے جس کے پانچ لازمی مضامین جن میں کامیابی ضروری ہے ۔ یہی اسلام کے ستون ہیں

1 ۔ ایمان جو بنیاد ہے اور اس کے بغیر باقی سب عمل بیکار ہیں
2 ۔ اخلاق یعنی سلوک یا برتاؤ
3 ۔ عدالت یا انصاف
4 ۔ معیشت
5 ۔ معاشرت

جب تک یہ پانچوں ستون مضبوط بنیادوں [ایمان] پر استوار نہیں ہوں گے مسلمانی کی عمارت لاغر رہے گی اور معمولی سے جھٹکے یا جھونکے سے نیچے آ رہے گی

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے توفیق دی تو اِن شاء اللہ ۔ ان پانچ ستونوں کا مختصر جائزہ جلد لکھوں گا

سوچنے کی بات

محمد خُرم بشیر بھٹی صاحب نے ایک پُرمغز تحریر لکھی ہے جس کا بالخصوص مندرجہ ذیل حصہ دعوتِ فکر دیتا ہے

اب اولاد کی پرورش ایک بائی پراڈکٹ [byproduct] ہے۔ ایک ڈھول جو گلے میں پڑے تو بجانا ہی پڑتا ہے۔ ایک ایسا کام جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب ہر کوئی ہر کام کرنا چاہتا ہے اور کوئی بھی اپنا کام نہیں کرنا چاہتا۔ اولاد کی پرورش وقت کا ضیاع ہے، اہلیت کا ضیاع ہے۔ ایک ماں ہونا۔ صرف ماں ہونا تو مانو ایک گالی ہے۔ کہ لوجی تمام عمر کچھ نہیں کیا؟؟ بچے پیدا کرنا بھی کوئی کمال ہے؟؟ سب کرتے ہیں اور پال بھی لیتے ہیں۔انسان کو اپنا کیریئر بنانا چاہئے۔ رہے بچے تو وہ پہلے تو دس بارہ برس ہونے ہی نہیں چاہئیں کہ یہی وقت ہوتا ہے کیرئیر بنانے کا۔ پھر جب ہو گئے تو کچھ عرصہ آیاؤں کے سپرد، پھر دو برس کے ہوئے تو سکول والوں کے سپرد اور بس۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ پل بھی جائیں گے، پڑھ بھی جائیں گے اور سیکھ بھی جائیں گے جو دنیا کا رواج ہے۔ ویسے بھی یہ سب انہی کے لئے تو ہے۔ ہم نے کونسا ساتھ لے جانا ہے؟ اور ویسے بھی بندہ محتاج نہیں ہوتا جب خود کماتا ہے۔ رُعب رہتا ہے سسرال میں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اور جہاں اتنی ساری “میں میں اور صرف میں” ہو وہاں تو کوئی بھی پرخلوص رشتہ پروان نہیں چڑھ سکتا چہ جائکہ ماں ایسا رشتہ جو تمام رشتوں میں سب سے مقدس کہ خالق نے جب مخلوق سے اپنی محبت کی مثا ل دینا چاہی تو ماں کی محبت کو پیمانہ بنایا۔

بات وہیں پر آ جاتی ہے جیسا شاعرِ مشرق اور مفکر علامہ اقبال نے کہا

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر