چار سال گذرے میرا بیٹا دو چھوٹے چھوٹے کچھوے مع ان کے شیشے کے گھر کے خرید لایا ۔ وہ خوب کھیلتے رہتے ۔ سردیاں آئیں تو ایک کچھوا بیمار ہو گیا ۔ وہ پانی میں اُترا تو اُس سے واپس پتھر پر نہیں چڑھا جا رہا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ دوسرا کچھوا پانی میں اُترا اور تیرتا ہوا اُس کے نیچے چلا گیا ۔ پھر نیچے سے اُسے اُٹھا کر بڑی کوشش سے آہستہ آہستہ پتھر پر چڑھا دیا
صرف کراچی میں ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
ملک میں دھماکے روز کا معمول بن چکے ہیں ۔ جب کہیں دھماکہ ہوتا ہے مقامی لوگ دھماکے کی جگہ پہنچ جاتے ہیں کچھ نظارہ کرتے ہیں اور کچھ متاءثرین کی امداد شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے
آج کراچی میں دھماکا ہوا ہے صوبائی وزیر ڈاکٹر صغیر کے مطابق20افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور 45 افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ بہت دکھ کی بات ہے لیکن کراچی کے لوگوں کا طرزِعمل نرالا ہے
کراچی میں دھماکے کے بعد مشتعل افراد نے شدید ہنگامہ آرائی کی ہے اور متعدد گاڑیاں نذر آتش کر دی ہیں جبکہ ایم اے جناح روڈ پر واقع لائٹ ہاؤس مارکیٹ کے لنڈا بازار کونذرآتش کر دیا ہے ۔ سٹی کورٹ کے اطراف کھڑی متعددگاڑیوں کو مشتعل افراد نے آگ لگا دی ہے ۔ نذر آتش کی جانے والی ایک عمارت میں لوگ بھی پھنس گئے ہیں ۔ نمائش،ملیر،جعفر طیار سوسائٹی، ایم اے جناح روڈ پر جلاؤ گھیراؤ کی اطلاعات ہیں ۔ نامعلوم افراد کی جانب سے ہوائی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے اور465 دکانیں 68 گاڑیاں اور مختلف املاک کو نذرآتش کردیا گیا جلائی جانے والی گاڑیوں میں ایدھی ایمبولینس،کے ای ایس سی اور پولیس موبائل بھی شامل ہیں
انوکھا بِیج
ایک تاجر اپنی محنت سے کامیاب ہوا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا ۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دلچسپ ترکیب نکالی ۔ اُس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی اسلئے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ سب کو ایک ایک بِیج دوں گا ۔ اسے بَونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا”
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا
ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب خوبصورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا وہ خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے
سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے”۔ اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اُگا”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا
چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی ۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانتداری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیئے تھے جو اُگ نہیں سکتے ۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیئے”
اے بندے ۔ مت بھول کہ جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا تو پیدا کرنے والا دیکھ رہا ہوتا اسلئے دیانت کا دامن نہ چھوڑ
احمق یا اصل روپ میں
پیپلز پارٹی کے رہنما لاف باز ہیں یا دہشتگرد ؟
صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا [سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے خاوند] نے رتوڈیرو میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا “جس وقت بی بی کو شہید کیا گیا اس وقت ہم نے پاکستان توڑنے کا ارادہ کرلیا تھا اور شہید بے نظیر بھٹو کے آبائی گھر ”نوڈیرو ہاوٴس “ سے پاکستان کے خلاف نکل ہی رہے تھے کہ ہمارے قائد آصف علی زرداری نے ‘پاکستان کھپے’ کا نعرہ لگاکر ہمارے تمام راستے بند کر دیئے”
وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے مزید کہا “اِس سے قبل جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی ہم نے پاکستان کا ایک ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے کا پروگرام بنالیا تھا لیکن سندھ کے ممتاز علی بھٹو نے ہمیں منع کر دیا تھا”
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ میری زندگی کا نچوڑ
دعا اس سے عقیدہ مانگیئے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے
اور
محنت اس عقیدہ سے کیجئے کہ سب کچھ آپ ہی نے کرنا ہے
قائداعظم کے خلاف پروپیگنڈہ اور حقیقت
قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا “جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں”
میں [جنرل اکبر] نے عرض کیا کہ “آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے”۔
قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ “کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا؟”
” سٹینو کو بلایا گیا ۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں [جنرل اکبر] نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“
دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ چند برسوں سے دن رات یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست1947ء والی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں قائداعظم کی دیگر ہزاروں تقاریر میں کوئی ایسا مواد نہیں ملتا جسے وہ اپنی پراپیگنڈہ مہم کا ہر اول دستہ بنا سکیں۔ قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں
اللہ جانتا ہے کہ میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں، میری سوچ کا محور و مرکز صرف پاکستان ہے اور میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نظام کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا تھا اس لئے اگر مجھے قائداعظم کی تقریروں سے کہیں بھی سیکولرازم (لادینیت) کی بو آتی تو میں اسے نہ ہی صرف تسلیم کرتا بلکہ کھُلے ذہن سے اس کا اظہار کرتا کیونکہ میرے نزدیک قائداعظم سے عقیدت اور فکری دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ بابائے قوم کے فرمودات کو کھُلے ذہن اور تعصب سے پاک دل کے ساتھ پڑھا جائے
11اگست کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد قائداعظم کی تقریر فی البدیہہ تھی اور اس میں انہوں نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل میثاق مدینہ کی روح کے مطابق ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں سے کیا تھا اور انہیں برابر کے شہری حقوق دیئے تھے۔ جو حضرات پاکستان کی پہلی کابینہ میں چودھری ظفر اللہ خان اور جوگندر ناتھ منڈل (ہندو) کو وزارتیں دینے پر اعتراض کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ میثاق مدینہ کا مطالعہ کریں جس کا ترجمہ رفیق ڈوگر کی کتاب ”الامین“ جلد دوم میں موجود ہے
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائداعظم ہرگز کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی تھیو کریسی کا تصور اسلام میں موجود ہے ۔ ان کا تصور پاکستان ایک ماڈرن جمہوری ریاست کا تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو یعنی جس میں نہ ہی صرف غیر اسلامی قوانین اور رسومات کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے آئین،قانون اور ڈھانچے کی بنیاد بھی اسلامی اصولوں کی روح کی عکاسی کرے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جس ملک کی بہت بڑی اکثریت مسلمان ہو وہاں غیر اسلامی قوانین بن ہی نہیں سکتے۔ اسلام کی عین روح کے مطابق قائداعظم مذہبی فرقہ واریت اور مذہبی تشدد کے خلاف تھے اور وہ تحمل، برداشت [Tolerance] اور سماجی یگانگت پر زور دیتے تھے چنانچہ موجودہ مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور مذہبی تشدد [Militancy] اس تصور پاکستان کی نفی کرتا ہے جو قائداعظم نے پیش کیا تھا اور جس کی حمایت مسلمانان ہندو پاکستان نے کی تھی۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی حکومتوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور حکمرانوں کی فکری گمراہی کا نتیجہ ہے جس کے ڈانڈے تحریک پاکستان سے ملانا بہت بڑی بے انصافی ہے۔ جمہوری نظام کے علاوہ قائداعظم پاکستان میں اسلام کی روح کے مطابق قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات اور سماجی و معاشی عدل چاہتے تھے اور اگر وہ زندہ رہتے تو ایسا ہی ہوتا لیکن اگر موجودہ پاکستان میں ان اصولوں کے نفاذ کی امید بھی نظر نہیں آتی تو کیا یہ تصورِ پاکستان کا قصور ہے؟ تصورِ پاکستان تو ایک آئیڈیل ہے جسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے اسی لئے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ منزل کا شعور زندہ رہنا چاہئے، یہ آرزو باقی رہے تو کبھی نہ کبھی منزل بھی مل جاتی ہے۔ قائداعظم قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام کا بھی خاتمہ چاہتے تھے ۔ وہ ہر قسم کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے جبکہ آج کا پاکستان جاگیرداروں، رؤسا اور جرنیلوں کی جاگیر بن چکا ہے جن کی کرپشن کی کہانیاں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے آج کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، معاشی عدل ا ور انسانی مساوات کے تصور کو پامال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی سردمہری کا یہ حال ہے کہ وہ بار بار انہی سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اقتدار کے شیش محل میں بٹھا دیتے ہیں جنہوں نے قومی خزانے لوٹے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے اور عوام کی جمہوریت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر بار فوجی حکومت کو خوشی سے قبول کرلیتے ہیں اور جرنیلوں کو نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال نے ہر طرف مایوسی کے اندھیرے پھیلا دیئے ہیں اور نوجوان نسلوں کو قیام پاکستان کے حوالے سے غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس فضا میں قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی شمع جلائے رکھنا ضروری ہے تاکہ نوجوان نسلوں کے سامنے ایک آئیڈیل موجود رہے اور وہ قائداعظم مخالف لابی کے پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں
سیکولر حضرات مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا پرچار کرتے ہیں اور یہ بھو ل جاتے ہیں کہ ریاست اور چرچ کی علیحدگی کاتصور بنیادی طور پر عیسائیت کا تصور ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں بقول اقبال
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ان کا یہ الزام کہ موجودہ فرقہ واریت اور دہشت گردی سیاست کو مذہب سے ملانے کا نتیجہ ہے سراسر بے بنیاد اور سطحیت کا شاہکار ہے کیونکہ اسلام بذات خود فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا۔ دراصل یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور عالمی قوتوں کی چالوں کا کیا دھرا ہے جس میں پاکستانی عوام پھنس کر رہ گئے ہیں۔
ایک ریسرچ سکالر کے بقول قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ نئی مملکت کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جائیں گی
یوں تو ان [قائداعظم] کی سینکڑوں تقریریں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں لیکن آپ کو اس کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھانے کے لئے میں قائداعظم کے خط بنام پیر مانکی شریف آف صوبہ سرحد سے چند سطریں پیش کر رہا ہوں کیونکہ اس خط کا ذکر قائداعظم کی تقاریر اور اکثر کتابوں میں نہیں ملتا اور نہ ہی لوگ عام طور پراس سے آگاہ ہیں۔ یاد ر ہے کہ صوبہ سرحد میں خان عبد الغفار خان [اسفند یار ولی کے دادااور عبدالولی خان کے والد] بے پناہ سیاسی اثر رکھتے تھے اور انہیں کانگرس کے ایک ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کا صحیح معنوں میں توڑ پیر آف مانکی شریف تھے جن کی مسلم لیگ کے لئے حمایت سیاسی پانسہ پلٹ سکتی تھی۔ 1945ء میں پیر صاحب نے مسلم لیگ کو جوائن کرنے سے قبل قائداعظم سے تصور پاکستان کے حوالے سے وضاحت چاہی تو قائداعظم نے پیر صاحب کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کبھی شریعت کے منافی قوانین نہیں بنائے گی اور نہ ہی پاکستان کے مسلمان غیر اسلامی قوانین کی اجازت دیں گے۔ [بحوالہ دستور ساز اسمبلی کارروائی 9مارچ 1949ء جلد: V نمبر3صفحہ نمبر46]
آج یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد نوزائیدہ مملکت کو مسائل کے کوہ ہمالیہ کاسامنا تھا جن میں خاص طور پر لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری، خالی خزانہ، وسائل کا فُقدان اور نئی مملکت کے لئے انتظامی ڈھانچے اور مرکزی حکومت کا قیام قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف خود قائداعظم کی صحت دن بدن گر رہی تھی اور کئی دہائیوں کی مسلسل محنت نے انہیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا تھا چنانچہ قیام پاکستان کے ایک برس بعد وہ ستمبر 1948ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ قائداعظم زندہ رہتے تو کس طرح اپنے وعدے شرمندہ تعبیر کرتے اور کس طرح نئی مملکت کی تعمیر کرتے اس کا اندازہ ان کے دستور ساز اسمبلی 14اگست 1947ء کے خطاب سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رول ماڈل قرار دیا اور جنوری 1948ء کے امریکی عوام کے نام پیغام سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا دستور جمہوری طرز کا ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس ارادے کی ایک معمولی سی جھلک پاکستان کے پہلے سپہ سالار جنرل محمد اکبر خان [انگروٹ] کی کتاب ”میری آخری منزل“ کے صفحہ نمبر 281 میں ملتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لئے اچنبھے کا باعث ہوگی۔ جنرل محمد اکبر [آرمی پی 71نمبر1] کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 25جون 1948ء سے تین دن کے لئے علیل قائداعظم کے زیارت میں مہمان رہے۔ قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ ”قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی، انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ لہٰذا میں نے عرض کیا کہ آپ ایک حکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا… سٹینو کو بلایا گیا۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“۔
قائداعظم کانفیڈریشن باکس ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے اور اس باکس میں قرآن مجید کا نسخہ بھی شامل تھا۔ جنرل اکبر کی عینی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم قرآن مجید پڑھتے اور ضروری مقامات پر نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ اسی طرح 15اگست 1947ء کوپاکستان کا جھنڈا لہرانے کے لئے قائداعظم کا مولانا شبیر عثمانی کو کہنا بھی ایک واضح اشارہ ہے۔ اس لئے اگر انہیں موقعہ ملتا تو وہ یقینا اسلامی اصولوں کے نفاذ کے لئے اقدامات کرتے اور تصور پاکستان کو حقیقت کا جامہ پہناتے لیکن بدقسمتی سے موت کے بے رحم ہاتھوں نے قائد کو ہم سے چھین لیا اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد ادھوری رہ گئی اور پھر ملک پر جاگیردار اور جرنیل چھا گئے جنہوں نے پاکستان کو پاکستان نہ بننے دیا اب ہمیں مِل جُل کر پاکستان کو پاکستان بنانا ہے اور قائداعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر صفدر محمود
”ایمان، اتحاد اور نظم“ کی حقیقت کے متعلق یہاں کلک کر کے پڑھیئے
قائداعظم کا احسان ؟ ؟ ؟
آج برِّ صغير ہندوپاکستان کے مُسلمانوں کے عظيم رہنما قائداعظم محمد علی جناح کا يومِ ولادت ہے
قائداعظم کو اللہ تعالٰی نے شعور ۔ منطق اور استقلال سے نوازا تھا جِن کے بھرپور استعمال سے انہوں نے ہميں ايک اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ملک لے کر ديا مگر ہماری قوم نے اُس عظيم رہنما کے عمل اور قول کو بھُلا ديا جس کے باعث ہماری قوم اقوامِ عالَم ميں بہت پيچھے رہ گئی ہے
قائداعظم کا ايک پيغام ہے ” کام ۔ کام ۔ کام اورکام ” مگر قوم نے کام سے دل چرانے کی عادت اپنا لی
قوم میں وہ لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے قائداعظم کا دیا ہوا نعرہ ” ایمان ۔ اتحاد ۔ تنظیم ” ہی بدل کر ” اتحاد ۔ یقین ۔ نظم ” بنا دیا
اپنے آپ کو کشادہ ذہن قرار دینے والے کم ظرف کہنے لگے کہ پاکستان اسلام کے نام پر تو بنا ہی نہ تھا بلکہ قائداعظم کو سیکولر قرار دے کر پاکستان کو بھی سیکولر بنانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے
کچھ بدبخت اس سے بھی آگے بڑھے اور قائداعظم کے مسلمان ہونے کو ہی مشکوک بنانے کی ناپاک کوشش کی
آئيے آج سے اپنی بد اعمالیوں کی توبہ کریں اور اپنے اللہ پر یقین کرتے ہوئے قرآن کی رہنمائی میں قائدِاعظم کے بنائے ہوئے راستہ پر چلیں اور اس ملک پاکستان کو تنزل کی گہرائیوں سے نکالنے کی جد و جہد کریں