کرِسمِس کا پیغام

اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو، جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
تو انہوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا۔ (اس وقت) ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ تو ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا
مریم بولیں کہ اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں
انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا (یعنی فرشتہ) ہوں (اور اس لئے آیا ہوں) کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں
مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں
(فرشتے نے) کہا کہ یونہی (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے۔ اور (میں اسے اسی طریق پر پیدا کروں گا) تاکہ اس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی اور (ذریعہٴ) رحمت اور (مہربانی) بناؤں اور یہ کام مقرر ہوچکا ہے
تو وہ اس (بچّے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی
اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غمناک نہ ہو تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے
اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی
تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے اللہ کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی
پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا
اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی
تو مریم نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں
بچے نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے
اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے
اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش وبدبخت نہیں بنایا
اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام (ورحمت) ہے
یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ہیں (اور یہ) سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں
اللہ کو سزاوار نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ہے جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو یہی کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے
اور بےشک اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا رستہ ہے

سورت 19 ۔ مریم ۔ آیات 16 تا 36

ہم اتنے گئے گذرے نہیں

اقوام متحدہ کے ادارے اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے آبادی کی ایجنسی [یو این ایف پی اے] کی ایک رپورٹ کے مطابق تعلیم اور بچوں کی اموات کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کا موازنہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موضوع ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ بھارت

فیصد شرح خواندگی 15 سال سے زائد لڑکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 32.3 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 23.1

فیصد شرح خواندگی 15 سال سے زائد لڑکیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60.4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 45.5

لڑکوں کا پرائمری میں داخلہ کا تناسب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 101 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔114

لڑکیوں کا پرائمری میں داخلہ کا تناسب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 83 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 109

اِن میں جو لڑکے پانچویں جماعت تک پہنچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 68 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 59

اِن میں جو لڑکیاں پانچویں جماعت تک پہنچیں ۔ ۔ ۔۔ 72 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 49

شیرخوار بچوں کی اموات فی 1000 زندہ پیدائش ۔ ۔ ۔ ۔ 53 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 62

زچہ کی اموات فی 100000 زچگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 320 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 450

غَلَط العام

غَلَطُ العام غَلَط ہی ہوتا اور کبھی درُست نہیں ہو سکتا ۔ اسے درست تسلیم کرنا انسان کی کم عِلمی کا نتیجہ ہوتا ہے یا ضد کا ۔ اگر غور کیا جائے تو غلط العام الفاظ یا محاورے مذموم مقاصد کی پیداوار ہوتے ہیں یا معاشرے کی سوچ میں انحطاط آنے سے پھیلتے ہیں

پچھلے دنوں ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے ایک غلط العام کی طرف توجہ دلائی اور پھر شگفتہ صاحبہ نے بھی اس پر لکھا ۔ ہمیں ساتویں یا آٹھویں جماعت [1950ء] میں استاذ نے بتایا تھا جسے لوگوں نے “لکھے موسٰی پڑھے خدا ” بنا لیا ہے دراصل “لکھے مُو سا پڑھے خُود آ ” ہے ۔ کبھی کسی مسلمان نے نہ سوچا کہ اس محاورے کو غلط ادا کرنے کی وجہ سے وہ گُستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں

مُغل حُکمرانوں کے زمانہ میں برِّ صغیر ہند میں صوبیدار ہوا کرتا تھا جیسے آجکل کور کمانڈر ہوتا ہے ۔ صوبیدار کے ماتحت حوالدار ہوتے تھے جیسے آجکل بریگیڈ کمانڈر ہوتے ہیں ۔ انگریزوں نے برِّ صغیر ہند پر قبضہ کے بعد مقامیوں کی تحقیر کی خاطر اپنی فوج کے سب سے نچلے افسر سیکنڈ لیفٹننٹ کے ماتحت صوبیدار کو کر دیا اور اس کے ماتحت حوالداروں کو ۔ یہی نام عہدوں کے اب تک جاری ہیں اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی

سلطان ٹیپو بہادر اور غیرتمند محبِ وطن تھے اور اپنے وطن کے دفاع میں لڑتے جان دے دی ۔ اُن کی تحقیر کیلئے انگریزوں نے اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھنا شروع کیا ۔ اُن کی دیکھا دیکھی برِّ صغیر ہند کے لوگوں نے بھی اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ پاکستان بننے کے بعد بھی لوگ اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھتے رہے ۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ وہ اپنے ایک غیرتمند رہنما کی تحقیر کر رہا ہے

انگریز حکمرانوں نے اور بھی بہت کچھ غلط عام کیا جسے برِ صغیر ہند کے بہت سے باشندوں نے اپنا لیا ۔ یہی نہیں برِّ صغیر ہند کے مسلمانوں نے شادی پر جہیز ۔ مہندی ۔ ناچ گانا اور بارات کے باجے ۔ ڈولی یا پالکی کی رسمیں ہندوؤں سے اپنا لیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان میں مُبتلا ہے ۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ رسوم اسلام کا حصہ بن گئیں ؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا

کچھ روز قبل عنیقہ ناز صاحبہ کی ایک تحریر جو ابو شامل صاحب کے بلاگ پر نقل شاہنواز فاروقی کی ایک تحریر کے نتیجہ میں عمل میں آئی اور شاہنواز فاروقی کے استدلال کو غلط ثابت کرنے کیلئے جانفشانی کی گئی ۔ میں نے بھی بچپن [1947ء تا 1953ء] میں کچھ لوگوں کو اپنے بیٹے یا کسی پڑھے لکھے آدمی کیلئے “بابو” کا لفظ استعمال کرتے سُنا تھا ۔ لیکن ہمارے بزرگوں اور اساتذہ نے ہمیں بتایا تھا کہ انگریزوں نے “بابو” کا لفظ برِّ صغیر ہند کے باشندوں کیلئے تحقیر کے طور پر استعمال کیا اور چونکہ حاکم [انگریز] کی نقل کا عام رواج ہو چکا تھا برِّ صغیر ہند کے لوگوں میں بھی مستعمل ہو گیا مگر یہ اچھا لفظ نہیں ہے ۔ البتہ یہ تو سب جانتے ہوں گے کہ سرکاری ملازمین کو بُرے الفاظ میں یاد کرنے کیلئے لوگ اور ذرائع ابلاغ عام طور پر اب بھی بابو کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ چنانچہ بابو کو اچھے معنی کا لفظ قرار دینا غلط العام تو ہو سکتا ہے لیکن درست نہیں ہے

آخر میں ایک ايسا جُملہ جو آج سے پانچ دہائیاں قبل معیوب سمجھا جاتا تھا اور شریف مرد یا لڑکے اسے اپنی زبان سے ادا نہیں کرتے تھے ۔ لاپرواہ لڑکے بھی اسے بڑوں کے سامنے بولنے سے ڈرتے تھے اور لڑکیوں یا خواتین کے سامنے کوئی بولتا نہ تھا ۔ عصرِ حاضر میں زبان زدِ عام ہے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد عورتیں لڑکے اور لڑکیاں اسے بے دھڑک سب کے سامنے بولتے ہیں ۔ شاید دو سال قبل ایک بلاگر نے یہ محاورہ لکھا تو میں نے اُسے سمجھایا کہ آئيندہ نہ لکھے ۔ اُس کی نوازش اور نیک دلی کہ وہ مان گیا کچھ اور نے بھی آئیندہ نہ بولنے کا اقرار کیا ۔ کسی نے اُس وقت مجھ سے اس کا مطلب پوچھا تھا لیکن میں نے بتانے سے گریز کیا تھا ۔ یہ محاورہ ہے “پنگا لینا ۔ دینا یا کرنا”۔ اب اتنا بتا دیتا ہوں کہ اگر ہاتھ کی چاروں انگلیاں اکٹھی جوڑی جائیں تو اسے پنگا کہتے ہیں ۔ چنانچہ اس محاورے کا مطلب فحش ہے اور کسی شریف آدمی بالخصوص عورت کو اسے دہرانا زیب نہیں دیتا ۔ غلط بات غلط ہی ہوتی ہے چاہے سب اُس کے مرتکب ہوں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سیاسی اقدار

اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا کے حُکم پر جنرل محمد ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 604 افراد کو برطرف کر دیا گیا

جنرل آغا محمد یحیٰ خاں صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 303 افراد کو برطرف کر دیا گیا

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی تو وہ صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور بغیر کوئی قانون بنائے 1600 افراد کو برطرف کر دیا گیا

مندرجہ بالا جو افراد برطرف کئے گئے ان کے خلاف کوئی مقدمہ کسی بھی عدالت میں دائر نہیں کیا گیا تھا

اب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے دور میں 8014 افراد کے خلاف بد دیانتی کے مقدمات مختلف عدالتوں میں قائم ہیں جن میں سے 7793 کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے ۔ ان 8014 افراد میں سے 34 سیاستدان ہیں جن کی اکثریت حکومت میں شامل ہے ۔ آصف علی زرداری نے پُرزور الفاظ میں کہا ہے کہ “ان الزامات کی وجہ سے کوئی مستعفی نہیں ہو گا”

دنیا تیرے رنگ نیا رے
سچ کہا تھا سقراط نے “اگر جاہلوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جائے تو حکمران بدمعاش ہی بنیں گے”
میرے خیال کے مطابق جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے

آ گیا میدان میں ۔ ہے جمالو

سوئی ناردرن کمپنی نے وفاقی وزیر میاں منظور وٹوکے سی این جی اسٹیشن کا کنکشن منقطع کردیا ہے ۔ جی ایم لاہور ریجن، سوئی ناردرن کمپنی کے مطابق گیس منقطع کرنے کا فیصلہ گیس کی لوڈشیڈنگ پر عمل درآمدنہ کرنے پر کیا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق خلاف ورزی کی شکایت پر عملہ جب کنکشن منقطع کرنے گیا تو وفاقی وزیر کے گن مینوں نے عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ سوئی ناردرن لاہور ریجن کے جی ایم کو عملے پر تشدد کی اطلاع ملی تو انہوں نے حکام بالا کو آگاہ کرتے ہو ئے اسٹیشن کا کنکشن منقطع کرادیا۔ جی ایم کا کہنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے دوران گیس کی فروخت پر پابندی کی خلاف ورزی پر سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی اور 10دن تک کنکشن بحال نہیں کیا جائے گا اور جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔

جمہوریت ۔ کتابی اورعملی

جدھر جائیں جمہوریت کی صدا لگائی جا رہی ہوتی ہے ۔ زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سب خوابی دنیا میں بس رہے ہیں ۔ ایک محفل میں پڑھے لکھے لوگ بیٹھے تھے اور بحث ہو رہی تھی کہ نظامِ حکومت کونسا اچھا ہے ؟ ایک صاحب بولے اسلامی ۔ اس پر دوسرے صاحب بولے “اسلامی خلافت چار خُلفاء سے آگے نہ جا سکی”۔ آگے چلنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ خلافت کا نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نافذ کیا ۔ اُن کے وصال کے بعد ابو بکر صدیق ۔ عمر ابن الخطاب ۔ عثمان ابن عفان اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم نے بھی مکمل طور پر اسلامی ۔ انسانی اور فلاحی مملکت قائم رکھی ۔ یہ دور آدھی صدی پر محیط تھا ۔ اس کے بعد پانچویں خلیفہ راشد ہیں عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ

جب اعتراض کرنے والے صاحب سے پوچھا گیا کہ “کونسا ایسا نظام ہے جو خُلفائے راشدین کے دور سے زیادہ چلا اور اچھا بھی ہے ؟” جواب ملا “جمہوریت”

اول تو جمہوریت کی بھی ابھی تک کوئی انسان دوست عملی مثال سامنے نہیں آئی پھر بھی دیکھتے ہیں کہ جمہوریت عملی طور پر کس مُلک میں ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے لازم ہے کہ معلوم ہو جمہوریت ہوتی کیا ہے ؟

جمہوریت ہوتی ہے عوام کی حکومت عوام کے نمائندوں کے ذریعے عوام کے لئے

بہت دیانت داری سے بھی ایسی حکومت بنائی جائے تو جو لوگ انتخابی عمل سے گذر کر حکومت کا حصہ بنتے ہیں وہ تمام عوام کے نمائندہ تو کسی صورت میں نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ عوام کی اکثریت کے نمائندہ ہو ۔ اگر ہر حلقہ میں دو سے زیادہ اُمیدوار انتخاب میں حصہ لیں تو جو شخص انتخاب جیتے گا وہ عام طور پر اس حلقے کے عوام کی اقلیت کا نمائندہ ہو گا چنانچہ جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ مُلک میں صرف دو سیاسی جماعتیں ہوں ۔ جن ممالک میں ایسا ہے وہاں جمہوریت چل رہی ہے لیکن پھر بھی غریب اور کمزور کو اس کا حق نہیں ملتا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں اور عام طور پر شریف آدمی کے بھی بس کی بات نہیں ہوتی

جب حکومت بن جاتی ہے تو اسے عوام کے تمام فیصلے کرنے کا اختیار مل جاتا ہے ۔ پھر عوام پر ٹیکس لگا کر وصول کی گئی دولت دوسرے ممالک پر حملوں میں استعمال کی جاتی ہے اور اپنے اللے تللوں پر بھی جس کا عوام نے اُنہیں حق نہیں دیا ہوتا ۔ یہی جمہوریت کی عملی شکل ہے

انتخابات جیتنے کیلئے دولت کا بے دھڑک استعمال کیا جاتا ہے ۔ کیوں ؟ کیا یہ دولت منافع کے ساتھ واپس وصول نہیں کی جاتی ؟ درست کہ چند جمہوری ممالک میں اپنے اُمیدوار کو جتانے کیلئے چندہ جمع کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے ہیں کیا وہ تجارت نہیں کر رہے ہوتے کہ اگر ان کا اُمیدوار جیت گيا تو ان کے کچھ خصوصی کام کروا دے گا ؟ اس طرح غریب اور شریف آدمی کا حق مارا جاتا ہے

امریکہ جو اسرائیل کو ہر سال تین ارب ڈالر ناقابلِ واپسی امداد دیتا ہے اور اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں ہونے دیتا ۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ امریکا کا ہر صدر یہودیوں کی دولت کے بل بوتے پر منتخب ہوتا ہے ؟ ایک جان ایف کینڈی تھا جو اُن کے چُنگل میں نہیں آيا تھا تو اُس کا انجام کیا ہوا ؟

حقیقت یہی ہے کہ جمہوریت جس کا نام ہے وہ دولتمند اور طاقتور کے ہاتھ کا کھلونا ہے جس سے جس طرح چاہے وہ کھیلے

دو چَوں کے

میں نے چَوکے کو غلط نہیں لکھا ۔ یہ چَوں کے ہی ہیں یعنی چونکا دینے والے واقعات

پاکستان
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی مخدوم جاویدہاشمی کی سربراہی میں قائم خصوصی کمیٹی کو ابتدائی رپورٹ پیش کر دی گئی ۔ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ حکام نے اعتراف کیا ہے کہ
ڈرون حملوں میں پاکستان بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر شامل ہے
امریکی لیزر گائیڈڈ میزائل پاکستان کے دو ہوائی اڈوں سے آپریٹ ہو رہے ہیں

قائمہ کمیٹی نے چکلالہ ایئر بیس راولپنڈی پر امریکی اور دیگر چارٹرڈ طیارے اترنے اور بغیر ویزے کے پاکستان آنے والے غیر ملکیوں کو بغیر نمبر پلیٹ کے امریکی سفارت خانے میں پہنچانے پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خصوصی کمیٹی کو تحقیقات کاٹاسک دیدیا ہے

بھارت
ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب نے کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں بیان دیا کہ
میں شدت پسند نہیں ہوں
مجھے پولیس نے ممبئی حملوں سے 20 دن قبل جوبو چوپاٹی سے گرفتار کیا اور تشدد کرکے اعترافی بیان لیا تھا

ممبئی حملوں کی خصوصی عدالت میں اجمل قصاب نے اپنے اقبالیہ بیانات سے انحراف کرتے ہوئے کہا کہ
مجسٹریٹ کے سامنے انہیں مار پیٹ کر بیان لیا گیا تھا

جج ایم ایل تہیلیانی نے ملزم قصاب سے گواہان کے ریکارڈ کئے گئے بیانات کی بنیاد پر ان سے سوالات شروع کئے لیکن قصاب نے کہا کہ
وہ ان حملوں میں شامل نہیں
وہ سی ایس ٹی اسٹیشن پر کبھی نہیں گیا
اور نہ ہی کسی ابو اسماعیل کو جانتاہے

سفید کرتے پاجامے میں ملبوس اجمل قصاب نے عدالت کو اس وقت چونکا دیا جب اس نے کہا کہ
پولیس حراست میں ان سے ملاقات کیلئے 4 غیر ملکی افراد آئے تھے جو اس سے تفتیش کر رہے تھے
اور ان میں ڈیوڈ ہیڈلی بھی شامل تھا
جج نے اس پر قصاب کی سرزنش کی کہ ان سے جتنا پوچھا جائے اتنا ہی جواب دے