دریائے سندھ ۔ تعصب اور حقیقت

میری تحریر “دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق” پر ایک دو تبصرہ نگاروں نے تحریر کے مندرجات سے قطع نظر کرتے ہوئے مجھ پر تعصب کا سرنامہ [label] چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجھے اس غلط کوشش کا رنج نہیں مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ ہماری جوان نسل جس نے مستبل میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا ہے وہ اپنی تاریخ کے علم اور حقائق کے ادراک سے محروم ہے ۔ میں وہیں جواب لکھ چکا تھا مگر خیال آیا کہ بات تاریخ اور حقائق کی ہے اسلئے سرِ ورق لکھی جائے تاکہ ایک طرف جو قارئين کسی وجہ سے اس بارے میں علم نہیں رکھتے اُن تک بات پہنچے اور دوسری طرف باعِلم لوگوں کی نظر سے یہ تحریر گذرے تو وہ میرے عِلم میں اضافہ کا باعث بنیں

بات پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کے پانی کی ہو رہی تھی لیکن سوال پانی کے ذخیروں کا بنا دیا گیا ۔ جب دریاؤں میں پانی ہی نہیں ہو گا تو ذخیرہ کرنے کیلئے جھیل بنا کر کیا کریں گے ؟ جہاں تک پانی کے ذخیروں کی بات ہے پہلا پانی کا ذخیرہ واسک میں ایوب خان کے دور سے قبل بنا دوسرا منگلا میں ایوب خان کے دور میں اور تیسرا تربیلہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ۔ پہلے ذخیرہ کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور سے قبل ہوئی تھی دوسرے اور تیسرے ذخیروں کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور میں ہوئی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان انجنیئرنگ کانگریس کی مخالفت کے باوجود ذخیرہ کالا باغ کی بجائے تربیلہ میں بنایا جس کے نتیجہ میں دس ارب روپيہ زیادہ بعد کی مرمتوں پر خرچ ہوا ۔ تربیلا کے بعد آج تک کوئی ذخیرہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی

دس بارہ سال قبل تک پاکستان میں موجود پانی کے ذخیرہ کیلئے بنائی گئی یہ تین جھیلیں نہ صرف بھری رہتی تھیں بلکہ فالتو پانی دریاؤں میں چھوڑنا پڑتا تھا ۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ حال ہے کہ سال میں دو بار منگلا اور تربیلہ کی جھیلیں تقریباً خالی ہو جاتی ہیں جس کے نتیجہ میں بجلی کا بحران ملک کو گھیرے ہوئے ہے

کراچی کا کچھ حصہ پاکستان بننے سے قبل بھی سطح سمندر سے نیچا تھا ۔ عبداللہ غازی کے مزار اور بارہ دری سے سمندر کی طرف ایک ڈیڑھ کلو میٹر اندر پتھر کا بند نمعلوم کس زمانہ سے بنا ہوا تھا پھر بھی مد ہوتا تو سمندر کا پانی کسی جگہ سے میٹروپول ہوٹل سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ جاتا تھا ۔ جب جزر ہوتا تو پانی واپس چلا جاتا جس کی وجہ سے میٹروپول ہوٹل اور کلفٹن کے درمیان کچھ حصہ میں ایک دلدل ہوا کرتی تھی جس میں سے مردہ مچھلیوں کی بدبُو آیا کرتی تھی ۔ بعد میں ایک کافی اُونچا اور پہلے بند سے آگے سمندر کے اندر بند بنا کر زمین کی طرف بھرائی کی گئی ۔ جس جگہ آجکل فن لینڈ ہے یہ سمندر تھا ۔ بند باندھ کر اسے فن لینڈ بنایا گیا

میں سُنی سنائی باتیں نہیں لکھ رہا یہ سب کچھ میں نے خود دیکھا ہوا ہے ۔ نہ کراچی میرے لئے اجنبی ہے اور نہ میں کراچی کیلئے

میری تحریر میں سمندر کی سطح بلند ہونے کا حوالہ بھی تھا جس کا مذاق اُڑانے اور اسے بھی میرے تعصب کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ ایک منٹ بعد کیا ہونے والا ہے صرف اللہ ہی جانتا ہے تو میں کیسے بتا سکتا ہوں ؟ ایسے اندیشے اور پیشگوئیاں سائنسدان کرتے رہتے ہیں اور آج دورِ حاضر کے لوگ من و عن تسلیم کرتے ہیں لیکن میں نے نقل کیا تو تعصب بن گیا

سمندر کا پانی سندھ ڈیلٹا المعروف کیٹی بندر میں داخل ہونے کی بڑی وجہ سطح سمندر کی بلندی ہے اور یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ درست کہ پچھلے پانچ دس سالوں سے سندھ میں بہت کم پانی بہہ رہا ہے اور اس کی وجوہات میں نے متذکرہ بالا تحریر میں لکھی ہیں

تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو کراچی کے علاوہ ہالینڈ کا ساحلی شہر راٹرڈیم بھی سطح سمندر سے نیچے ہے ۔ آج ہالینڈ کے ساحل سمندر پر بنے بند کو ٹوڑ دیا جائے تو راٹرڈیم سمندری پانی میں ڈوب جائے گا ۔ کراچی کے ساحلِ سمندر کے کنارے جو ڈیم بنایا گیا ہے اُسے گرا دیا جائے تو سمندر کا پانی میٹرو پول ہوٹل اور سینٹرل ہوٹل تک پہنچ جائے گا اور دوسری طرف آدھا ڈی ایچ اے سمندری پانی میں ڈوب جائے گا

میں مسلمان ہوں

میں دفتر کے اوقات میں ذاتی کام کرتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں رشوت لیتا یا دیتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں کم تولتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں جھوٹ بولتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں دوسروں کا حق مارتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں دھوکہ دیتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں دوسرے کو ذلیل کر کے خوش ہوتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں چوری کرتا یا ڈاکہ ڈالتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں عورت کی عزت سے کھیلتا ہوں ۔ میں مسلمان ہوں
میں روزے نہیں رکھتا ۔ میں مسلمان ہوں
میں نماز نہیں پڑھتا ۔ میں مسلمان ہوں
میں نے قرآن شریف کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ میں مسلمان ہوں
میں قرآن شریف میں دیئے گئے مسلمان کے اوصاف نہیں اپنانا چاہتا ۔ میں مسلمان ہوں
وغیرہ وغیرہ
میں مسلمان ہوں ۔ میں سب جانتا ہوں ۔ کسی اور کو مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمان کیا ہوتا ہے

اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے لیکن اللہ کے احکامات سے لاپرواہی کر کے وہ اپنے مسلمان ہونے کی نفی کرتا ہے ۔ مسلمان صرف زبان سے کہنے کا نہیں اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے کا نام ہے ۔ علامہ اقبال صاحب نے کہا تھا

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق

پچھلے دنوں “آؤ سنواریں پاکستان” پر ایک تحریر پڑھی جس کی سطور سے لکھنے والے کے درد کا احساس ہوا ۔ لیکن یہ درد صرف اُن کا ہی نہیں قومی معاملات پر نظر رکھنے والے ہر پاکستانی کا ہے ۔ اس کے بعد آوازِ دوست پر ایک نظریہ پڑھا جو کسی حد تک درست ہے ۔ ایک انجنیئر ہونے کے ناطے میں اس میں اتنا اضافہ کروں گا کہ ہمیں بڑے بڑے ڈیم بنانے کی بجائے مناسب غیر آباد جگہوں پر چھوٹے کئی ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ سیلابی پانی کو روک کر سارا سال تھوڑا پانی چھوڑا جائے ۔ ان جگہوں پر چھوٹے بجلی گھر بھی بنائے جائیں ۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں دریاؤں اور نہروں پر مناسب فاصلہ پر صرف بجلی گھر بنائے جائیں یعنی پانی پیچھے سے آئے اور ٹربائن میں سے گذرتا ہوا آگے نکل جائے ۔ اس کے علاوہ ہمارے رہنما اب ہیرا پھیری چھوڑ دیں اور جو کوئی پانی چوری کرے اُس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے

عرصہ سے ہم سیاسی نعرے سنتے آ رہے ہیں جن کے زیرِ اثر عوام گمراہ ہوتے رہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے عوام کو گمراہ کرنے والے ہی عوام کے ہردل عزیز رہنما ہیں ۔ سیاسی نعرہ بازی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں موجودہ صورتِ حال کے اصل اسباب مختصر طور پر بیان کروں گا لیکن ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے جس نے مجھے دریاؤں اور نہروں میں پانی کے معاملہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے پر مجبور کیا

مجھے پہلی بار جھٹکا اس وقت لگا تھا جب پورے پاکستان سے دو درجن سے زائد سنیئر افسران کی ایک جماعت نظامت کے مطالعہ کیلئے پاکستان کے دورے پر تھی اور جنوری 1975ء میں روہڑی بیراج پہنچی ۔ ہمارے ساتھ کمشنر کی سطح کے افسر بھی تھے ۔ دورے کی باقاعدہ اطلاع ایک ماہ پہلے دی جا چکی تھی مگر متعلقہ کوئی افسر موقع پر یا دفتر میں موجود نہ تھا۔ روہڑی بیراج کے ایکسین کے دفتر سے اس کے کسی کلرک نے ٹیلیفون کیا تو کچھ دیر بعد ایک نوجوان انجنیئر صاحب آئے ۔ وہ ہی ایکسین تھے ۔ نظامت کا حال تو واضح ہو گیا تھا ۔ ایک ساتھی نے ٹیکنیکل سوال پوچھ لیا “What is the maximum flood level here?” ايکسین نے جواب دیا “Flood تو آتا ہی نہیں ۔ سب پانی پنجاب پی جاتا ہے”۔ Maximum flood level کا مطلب ہوتا ہے کہ اس جگہ سارے سال کے دوران پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کیا ہوتی ہے ؟ اس کا تعلق طغیانی [flood] سے نہیں ہوتا ۔ سوال پوچھنے والا ڈپٹی کمشنر اس علاقے میں رہ چکا تھا اسلئے ٹیکنیکل معلومات اس بیراج کی رکھتا تھا ۔ وہ کچھ طیش میں آ گیا ۔ کمشنر صاحب بانپ گئے اور اشارے سے اسے روک دیا ۔ بہرحال ایکسین کے جواب سے دو باتیں واضح ہو گئی تھیں

ایک ۔ ايکسین صاحب جو کہ سینیئر انجنیئر ہوتے ہیں تعلیمی لحاظ سے پیدل ہی تھے
دو ۔ سندھ میں بسنے والوں کے ذہنوں میں وقت کے سیاستدانوں نے زہر بھر دیا تھا

یہ مسئلہ گھمبیر ہے اور بہت اُلجھا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ایک سال یا ایک سیاسی دور میں پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ اس کے ذمہ داران تین چار طاقتور ملکی رہنما ہیں

ایک ۔ 10 فیصد کا ایوب خان ذمہ دار ہے جس نے سندھ تاس معاہدہ کیا جس کے نتیجہ میں آبپاشی نظام قائم کرنے کیلئے پیسہ ملا مگر غلطی یہ کی کہ اس میں مستقبل کیلئے بھارت کو پوری طرح نہ باندھا

دو ۔ 20 فیصد حصے کے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے بھارت کی مُخبری کرتے ہوئے بھارت کے خلاف بھارت کے اندر کام کرنے والی بھارتی قوتوں کی اطلاع بھارت کو دی جس کے نتیجہ میں ان کا صفایا کرنے کے بعد بھارت کو فراغت ملی اور اس نے پاکستان کا گلا دبانا شروع کیا یعنی بھارت نے دریائے راوی اور پھر دریائے جہلم پر ڈیم بنایا

تین ۔ 10 فیصد کے ذمہ دار بارسوخ زمیندار ہیں جو پانی چوری کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں بسنے والے وڈیروں اور بارسوخ پيروں کی ہے

چار ۔ 60 فیصد کا پرویز مشرف ذمہ دار ہے جس نے اپنی گدی قائم رکھنے کی کوشش میں امریکا کی خوشنودی کیلئے بھارت کے ساتھ یک طرفہ دوستانہ اقدامات کرنے کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جد و جہد کرنے والوں میں نفاق کا بیج بو کر ان کا اتحاد توڑ دیا چنانچہ اس تمام صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان جانے والے دو بڑے دریاؤں چناب اور جہلم پر چھ ڈیم تعمیر کر لئے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا

یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ سندھ تاس معاہدہ کے بعد دریائے سند ھ کے بڑے معاون تین دریا راوی چناب اور جہلم ہیں جب ہمارے اپنے حکمرانوں کی مہربانیوں سے بھارت نے ان تینوں دریاؤں پر بند باندھ کر ان کا زیادہ تر پانی روک لیا تو دریائے سندھ بے یار و مددگار ہو کر لاغر ہو گیا ہے

حکمرانوں کی ان ملک دشمن کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ہماری قوم کی بے راہ روی کے نتیجہ میں شاید اللہ بھی ہم سے ناراض ہے کہ سالہا سال سے ملک میں بارشیں بہت کم ہو رہی ہیں اور پہاڑوں پر سالانہ برف باری کی مقدار بھی بہت کم ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں دریائے سندھ میں اپنے پانی کا بہاؤ کم ہو چکا ہے

اگر بھوک اور افلاس کا شکار ہو کر بلک بلک کر مرنا نہیں چاہتے تو اب ایک ہی حل ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی آزادی کی جد و جہد کو کامیاب کرایا جائے جس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ مرکز میں حکومتی پارٹیاں پی پی پی اور ایم کیو ایم مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے پیدائشی انسانی حق آزادی کیلئے لڑنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتی ہیں اور جو تھوڑا سا حصہ وہیں کے باشندوں نے 1947ء میں آزاد کرایا تھا اُس پر قبضہ جمانے اور لوٹ مار کرنے میں پیش پیش نطر آتی ہیں ۔ اللہ ہی ہے کہ ہم پر کسی وجہ سے رحم کھائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلا دے جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے

سمندر پاس دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ جدیدیت کی ایک سوغات global warming بھی ہے جس کے نتیجہ میں ساری دنیا کے برفانی پہاڑ اور گلیشیئر پچھلی ایک دہائی سے بن کم رہے ہیں اور پگھلتے زیادہ ہیں ۔ چنانچہ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ اس طرح بھی سمندر کا نمکین پانی ڈیلتا کے اندر گھس رہا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے پندرہ بیس سال میں کراچی ۔ ہالینڈ ۔ برطانیہ ۔ انڈونیشیا اور بہت سے جزیرے سمندر میں ڈوب جائیں گے

صیغہ واحد غائب

ہمیں سکول کے زمانے میں سارے صیغے پڑھائے جاتے تھے ۔ دورٍ حاضر ترقی کر گیا ہے شائد اسلئے صیغوں کی ضرورت نہیں رہی ۔ خیر بات یہ ہے کہ لاہور سے ڈھائی دن کیلئے صغہ واحد غائب ہوا اور آج ابھی ابھی واحد حاضر ہوا ہے ۔ اسلئے کسی کا تبصرہ نہ دیکھا جا سکا تو پھر جواب کیسے دیا جاتا

خود کُش حملہ میں ہلاک ہونے والی اسرائیلی لڑکی کی ماں کی پُکار

یوروپین پارلیمنٹ نے 8 مارچ 2005ء کو سٹراس بورگ [Strasbourg] میں ہونے والے اپنے اجلاس میں ایک خودکُش حملہ میں ہلاک ہونے والی 13 سالہ اسرائیلی لڑکی کی ماں کو تقریر کرنے کی دعوت دی ۔ اس ہلاک ہونے والی اسرائیلی لڑکی کی ماں ڈاکٹر نُورِٹ پَیلڈ الحنّان [Dr. Nurit Peled-Elhanan] ہے جو معروف امن پرچارک [peace activist] ہے اور یورپین پارلیمنٹ سے امن کا انعام حاصل کر چکی تھی

فلسطینیوں کے خود کُش حملہ میں ہلاک ہونے والی 13 سالہ لڑکی کی ماں نے کیا کہا یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

سچائی ۔ تلخ ہوتی ہے اور خوفناک بھی

پرویز مشرف دور میں پاکستانی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے انکشاف کیا ہے کہ 11ستمبر 2001ء کے بعد کئی اہم فیصلے کورکمانڈروں کو اعتماد میں لئے بغیر کئے گئے۔ پرویز مشرف نے پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کو دینے اور ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی خود ہی کرلیا تھا ۔ شاہد عزیز کہتے ہیں کہ بطور چیف آف اسٹاف جیکب آباد اور پسنی ایئر بیس امریکیوں کے حوالے کرنے کے بارے میں وہ بالکل بے خبر تھے

یہ دونوں اڈے بدستور امریکہ کے پاس ہیں

ذرا سوچئے کہ ان دونوں اڈوں پر اترنے والے ہوائی جہازوں کے مسافروں کو کسی ویزے کی ضرورت نہیں
وہ ایئرپورٹ سے کالے شیشوں والی گاڑیوں میں بیٹھ کر کہیں بھی جاسکتے ہیں اور ہماری فوج یا پولیس ان کی کسی گاڑی کو روک کر ان سے ویزا طلب کرنے کا اختیار نہیں رکھتی
پرویز مشرف دور کے یہی وہ فیصلے ہیں جن کے باعث آج پاکستان دنیا کے غیر محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے

تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

خبر ہو یا افواہ ؟

آجکل ذرائع ابلاغ کی چاندی ہے ۔ ایک خبر اِدھر سے اُٹھائی دو افواہیں اُدھر سے مل گئیں اور چھاپ دیا مضمون ۔ عوام تو سنسنی خیز خبروں کے شوقین بن ہی چکے ہیں ۔ دھڑا دھڑ کمائی ہو رہی ہے ۔ قوم و ملک تباہ ہوتے ہیں اس کا کسی کو ہوش نہیں ۔ خبر ہو یا افواہ پہلے یہ سوچنا چاہیئے کہ اسے آگے بڑھانے سے کوئی اجتماعی فائدہ ہو گا ؟ اگر فائدہ نہیں ہو گا تو پھر آگے پہنچانے میں نقصان کا خدشہ بہرحال ہوتا ہی ہے

دُشمن کی مربوط سازشوں کی وجہ سے اس وقت ہمارا ملک ایک بھیانک دور سے گذر رہا ہے ۔ نہ صرف ہمارے حکمران اس کے ذمہ دار ہیں بلکہ ہم من حیث القوم بھی ذمہ دار ہیں ۔ ہماری قوم کی اکثریت جلد سے جلد مالدار بننے کی لالچ میں آ کر باہمی اخوت کھو بیٹھی اور بالآخر بالواسطہ یا بلاواسطہ دُشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگی ۔ سچ کو جھوٹ سے ملا کر ہم اپنی قوم یا ملک کی کوئی خدمت نہيں کرتے بلکہ جان بوجھ کر نہیں تو انجانے میں دُشمن کا کام آسان اور ملکی اداروں کا کام مشکل بناتے ہیں اور عوام جو دہشتگردی کا پہلے ہی سے شکار ہیں اُن کی بے کلی میں اضافہ کرتے ہیں

یہ افواہیں پھیلا کر دشمن کا کام آسان کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ محنت اور جانفشانی سے حقائق کی تلاش کرنا ہر محبِ وطن پاکستانی پر فرض ہے ۔ بالخصوص ذرائع ابلاغ کا یہ فرض ہے کہ کوئی خبر اچھی طرح چھان بین کئے بغیر نہ چھاپیں اور غلط اطلاعات لانے والے نامہ نگاروں کا محاسبہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی ہر محبِ وطن اپنے کردار کا محاسبہ کرے اور کوئی خبر [افواہ] سن کر آگے نہ بڑھائے جب تک اُسے سو فیصد یقین نہ ہو جائے کہ یہ حقیقت ہے اور اسے دوسرے تک نہ پہنچانے سے اجتماعی نقصان کا خدشہ ہے

میری تمام خواتین اور حضرات سے گذراش ہے کہ میرے لئے نہیں ۔ قوم کیلئے نہیں ۔ دین کیلئے بھی نہیں ۔ صرف اور صرف اپنے اور اپنے بچوں کی خاطر ذاتیات ۔ جعلی دل لگیاں اور احساسِ برتری کی کوششیں چھوڑ کر خِرد کو کام میں لائیں اور بغیر سو فیصد ثبوت کے کوئی بات سُن کر آگے نہ بڑھائیں بلکہ بات سچی بھی ہو تو پہلے سوچیں کہ اسے آگے بڑھانے سے کوئی اجتماعی فائدہ ہے ؟ اگر نہیں ہے تو فقط یہ جتانے کی خاطر کہ میں یہ جانتا یا جانتی ہوں بات آگے نہ بڑھائیں ۔ اپنے لکھنے کا شوق تاریخ بیان کر کے یا کسی اور علم کی افزائش سے پورا کریں یا پھر صاف نظر آنے والے سچے واقعات رقم کریں

ایک اور عادت جو عام ہو چکی ہے کہ جب تک اپنے آپ پر نہ بن جائے ہر بات سے لاپرواہی برتی جاتی ہے ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑائے بغیر گرد و پیش پر نظر رکھیں اور اگر کوئی چیز غیر معمولی نظر آئے تو فوری طور پر اپنے شہر کے ریسکیو 15 یا 115 یا جو بھی متعلقہ ادارہ ہو اُسے تحمل کے ساتھ مطلع کر دیں

وما علینا الالبلاغ