چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کڑوی کسَیلی

سُنا ہے کہ صدر کا لباس پاکستان کے خزانے سے خریدا جاتا ہے
سُنا ہے کہ اسی لئے صدر نے 106 سوٹ اپنے لئے غیرممالک سے درآمد کئے ہیں
یہ تو سب جانتے ہیں کہ خزانے میں دولت پاکستان کے عوام سے ٹیکس وصول کر کے جمع کی جاتی ہے
سُنا ہے کہ صدر کے غیرملکی حسابات میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ دولت ہے اور غیرمنقولہ جائیداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے
مگر پھر بھی قوم کا ہمدرد صدر ایک سال میں 106 سوٹ درآمد کرتا ہے جبکہ آدھی قوم کو سال میں ایک نیا مقامی سوٹ بھی میسّر نہیں

سُنا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے کئی اڈے ہیں جن میں سے دو ہوائی اڈے جیکب آباد اور پسنی میں ہیں
سُنا ہے کہ ان اڈوں میں کوئی پاکستانی داخل نہیں ہو سکتا خواہ وہ کتنے ہی اعلٰی عہدے پر فائز ہو
وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ امریکا کا اس سلسلہ میں پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور یہ اڈے پچھلی حکومت نے دیئے تھے
یہ حقیقت تو منظرِ عام پر آ ہی چکی ہے کہ امریکیوں کی گاڑیوں کے پاکستان کے قانون کے خلاف شیشے کالے ہوتے ہیں اور ان کی چیکنگ کی کسی کو اجازت نہیں
یہ بھی اطلاعِ عام ہے کہ امريکی سفارتخانہ کی مقرر کردہ ایک سکیورٹی کمپنی کے قبضہ سے چوکھا ناجائز اسلحہ بھی براآمد ہوا

سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت یہ اڈے ختم کیوں نہیں کرتی ؟
اور بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی منصوبہ بندی کیا حکومتِ پاکستان کی دسترس سے باہر انہی خُفیہ اڈوں میں ہو رہی ہے ؟

مسیحا کے بھیس میں شقی القلب سوداگر

Imanae
لاہور کے ایک بڑے نام والے ہسپتال [Doctor’s Hospital] میں ایک ننھے فرشتے 3 سالہ بچی کو جسے ہاتھ پر گرم پانی پڑ جانے کی وجہ سے ہسپتال لایا گیا تھا کس طرح ڈاکٹروں نے موت کی نیند سُلا دیا ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے پورا واقعہ ۔ پنجاب حکومت اخبار میں خبر پڑھنے کے بعد قانونی کاروائی شروع کر چکی ہے ۔ ہسپتال کے ذمہ دار ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور انہیں گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں

اگر کاریں کمپیوٹر ہوتیں ۔ ۔ ۔

چند سال قبل ایک کمپیوٹر ایکسپو “کامڈیکس” میں بِل گیٹس نے کمپیوٹر کی صنعت کا کاروں کی صنعت سے مقابلہ کرتے ہوئے کہا “اگر جی ایم موٹرز ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کی صنعت کی طرح آگے بڑھتی رہتی تو آج ہم 25 ڈالر کی کار چلا رہے ہوتے جو 1000 میل فی گیلن چلتی”

بِل گیٹس کے اس جملے کا جی ایم موٹرز نے کیا جواب دیا یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

حقوقِ نسواں کے عَلَمبردار

آج جو مُلک ہمیں عورتوں کے حقوق کا درس دیتا ہے اور غاصب قرار دیتا ہے یہ سب اس لئے ہے کہ ہماری قوم کو کتابیں پڑھنے کا شوق و ذوق نہیں ہے کُجا کہ تاریخ کی کُتب پڑھیں ۔ اگر پڑھتے ہیں تو افسانے اور دوسری من گھڑت کہانیاں ۔ بایں ہمہ اکثر کا حافظہ بھی اتنا کمزور ہے کہ کل کی بات بھول جاتے ہیں تجربہ کے بعد معطون کئے شخص کو ہی دوبارہ منتخب کر کے پھر سے ظُلم کی گردان کرنا شیوا بن چکا ہے

آج سے صرف 9 دہائیاں قبل امریکا میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ تھا ۔ عورتوں کو مقامی کونسل میں ووٹ ڈالنے کا حق 26 اگست 1920ء کو دیا گیا ۔ اس سے قبل عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اور احتجاج کی صورت میں اُنہیں قید و بند اور تشدد برداشت کرنا پڑتا تھا ۔ پلے کارڈ اُٹھا کر خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو بھی گرفتار کر کے اُن پر تشدد کیا جاتا تھا اور رات گذرنے کے بعد وہ برائے نام ہی زندہ ہوتی تھیں
ایک بار عورتوں نے سڑک کے کنارے پیدل چلنے والے راستہ پر کھڑے ہو کر خاموش احتجاج کیا 33 عورتوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے پيدل چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ۔ پھر جیل کے سربراہ کی اشیرباد سے 40 گارڈز آہنی مُکوں کے ساتھ ان معصوم عورتوں پر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں ادھ مُوا کر دیا
لُوسی برنز نامی ایک عورت کی پٹائی کے بعد لہو لہان لُوسی برنز کے ہاتھوں کو زنجیر سے باندھ کر اُسے قیدخانے کی سلاخوں کے ساتھ لٹکا دیا گیا جہاں وہ ساری رات لٹکی مُشکل سے سانس لیتی رہی
ڈورا لِیوس نامی عورت کو اندھیری کوٹھری میں لیجا کر اس طرح پھینکا گیا کہ اسکا سر لوہے کی چارپائی سے زور سے ٹکرایا اور وہ بے سُدھ ہو کر گِر پڑی ۔ اسی کال کوٹھری میں موجود ایلائس کوسو سمجھی کہ ڈورا لِیوس مر گئی ہے اور اُسے دل کا دورہ پڑ گیا
اپنے جائز حقوق کیلئے خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو گرفتار کر کے جو کچھ حوالات میں اُن سے کیا جاتا تھا اُس میں کھینچنا ۔ گھسیٹنا ۔ پِیٹنا ۔ گلا دبانا ۔ بھِینچنا ۔ چُٹکیاں لینا ۔ مروڑنا اور ٹھُڈے مارنا شامل ہے
ایک گھناؤنا واقعہ 15 نومبر 1917ء کو وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے کے نتیجہ میں ہوا تھا جس میں احتجاج کرنے والی عورتوں کو قید کے دوران کئی ہفتے پینے کو گندھا پانی اور کیڑے پڑا ہوا کھانا دیا جاتا رہا ۔ اور جب ان میں سے ایک ایلائس پال نے ایسا کھانے پینے سے انکار کر دیا تو اُسے کرسی کے ساتھ باندھ کر ایک نالی اس کے حلق سے نیچے اُتاری گئی اور اس میں مائع خوراک ڈالی جاتی حتٰی کہ وہ قے کر دیتی ۔ ایسا اس کے ساتھ ہفتوں کیا جاتا رہا

جائیداد کے معاملہ میں اب تک زیادہ تر فرنگی ممالک میں رائج ہے کہ اگر والدین بغیر اولاد کے حق میں وصیت کئے مر جائیں تو اس جائیداد میں سے اولاد کو کچھ نہیں ملتا ۔ جہاں تک وصیت کا تعلق ہے اس میں جائیداد کا مالک جسے چاہے جتنا دے اور جسے چاہے نہ دے

ہم لوگ جو فرنگی کے ذہنی غلام بن چکے ہیں نہیں جانتے کہ اس اسلام نے ، جسے ہم 14 صدیاں پرانا ہونے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں سمجھتے ، عورت کو مکمل حقوقِ زندگی دیئے ۔ اس کی پرورش ہر لحاظ سے مرد کی ذمہ داری ٹھہرائی اور اُسے باپ کی جائیداد میں اور خاوند کی جائیداد میں بھی حصہ کا حق دیا ۔ بیوی کی کمائی پر خاوند کو کوئی حق نہ دیا مگر خاوند پر بیوی کا نان و نفقہ واجب قرار دیا ۔ اولاد پر ماں کی خدمت اور بھائی پر بہن کی پرورش لازم قرار دی

اسلام سے پہلے چھُٹی کا کوئی تصوّر ہی نہ تھا ۔ امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کفار سے جنگیں زور پر تھیں تو ان تک ایک عورت کی طرف سے اطلاع پہنچی کہ کئی ماہ سے اُس نے اپنے خاوند کی شکل نہیں دیکھی ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عورتوں کی مجلس [meeting] کی جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ وہ مردوں کے بغیر کتنا عرصہ رہ سکتی ہیں ۔ اس کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ چاہے کوئی مرد جہاد پر ہو 3 ماہ سے زیادہ اپنے گھر سے باہر نہیں رہے گا

میں جانتا ہوں کہ میرے دو تین محترم قارئین بغیر حوالہ کے میری تحریر کو ماننے کیلئے تیا ر نہیں ہوتے ۔ بلکہ اس کی مخالفت شدّ و مد کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور میں اُن کی اس حرکت پر صرف مسکرا دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جن کے حوالے دیئے جاتے ہیں وہ بھی میری طرح ہی گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں ۔ پھر عصرِ حاضر میں تو سند صرف فرنگی کی مانی جاتی ہے اور اُس کے بعد ٹی وی یا اخبار کی ۔ چاہے وہ کالے کو سفید کہیں یا سفید کو کالا اسے مان لیا جاتا ہے ۔ بہر کیف اس مضمون کے اول حصہ کی کچھ تائید “امریکی یادیں” میں اور یہاں کلِک کر کے مل سکتی ہے اور آخری حصہ کیلئے قرآن شریف سے رجوع کرنا ضروری ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ وقت

میں کچھ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اس عنوان کے تحت ساری زندگی میرے مشاہدہ میں آنے والی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں لکھوں جو قابل غور و عمل ہوتی ہیں لیکن ان پر عام طور پر غور نہیں کیا جاتا یا انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ وجہ یہ ہے کہ بڑی باتوں پر تو عام طور پر آدمی نظر رکھتا ہے لیکن کسی کو تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی ناکامی ہوتی ہے وہ انہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ زمانہ کے ساتھ چلنے والے کئی لطیفے ۔ محاورے یا قول بھی آدمی کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح کسی چرند ۔ پرند یا زمین پر رینگنے والے کیڑے کی کوئی حرکت بھی بڑی سبق آموز ہو سکتی ہے

ایک بادشاہ نے اپنی انگوٹھی اُتار کر اپنے وزیر کو دی اور کہا “اس پر ایسا فقرہ لکھوا دو کہ اگر میں بہت خوش ہوں تو دیکھ کر غمگین ہو جاؤں اور غمگین ہوں تو دیکھ کر خوش ہو جاؤں”

وزیر نے لکھوا دیا ” وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا”

ایک لطیفہ

یہ لطیفہ آجکل موبائل فونوں پر گردش کر رہا ہے
ایک گرم مزاج آدمی چینی خریدنے کے لئے قطار میں لگا تھا ۔ قطار بہت لمبی تھی ۔ ایک گھنٹہ کھڑے رہنے کے بعد اُسے غُصہ آ گیا ۔ اُس نے پستول نکالا اور کہتا ہوا چلا گیا “یہ صدر زرداری نے کیا تماشہ بنایا ہے ۔ میں آج اُسے مار ڈالوں گا”۔ بعد میں واپس آ کر پھر قطار میں کھڑا ہو گیا ۔ ایک آدمی نے اسے پوچھا ” زرداری کو مار دیا ؟” بولا “نہیں ۔ وہاں اس سے بھی لمبی قطار لگی ہے”

دینِ جمہور

میرے کچھ قارئین کا استدلال ہے کہ ہر شخص کا مذہب ہوتا ہے ۔ کہتے وہ درست ہیں ۔ ہر شخص کا کوئی نا کوئی عقیدہ ہوتا ہے اور اسی کا نام مذہب ہے ۔ اگر مذہب کا ترجمہ دیکھا جائے یعنی فرقہ تو بھی یہ استدلال درست نظر آتا ہے ۔ اللہ کا تفویض کردہ دین اسلام ہے جو ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر لحاظ سے اللہ کی تابعداری واجب [compulsory] ہے ۔ تمام نبیوں کا دین اسلام ہی تھا کیونکہ وہ اللہ کے مُسلِم یعنی تابعدار تھے [سورت 2 ۔البقرہ آیت127 ، 128 ۔ 131تا 133 ۔ سورت 3 آلِ عمران آیت 19 ، 67 ، 102 ۔ سورت 5 المآئدہ آیت 3 ، 44 سورت 10 یونس آیت 72 ، 84 ۔ سورت 27 النمل آیت 91 ، 92 ۔ سورت 42 الشورٰی آیت 13 ۔ مزید کچھ اور بھی ہیں]۔ سیکولر ازم کی وضاحت کیلئے یہاں کلِک کیجئے اور اس کے اثرات کا ایک پہلو دیکھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

میرے متذکرہ قارئین کرام Secularism کا ترجمہ “دینِ جمہور” کرتے ہیں ۔ ایک قاری ‘طاہر سلیم مغل” صاحب نے “دینِ جمہور” کی تشریح کچھ اس طرح سے کی ہے
d8b3db8cdaa9d988d984d8b1-d8a7d8b2d985