تاريخ ۔ مُولد النبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم

ميں اس سے قبل اس سلسلہ ميں مندرجہ ذيل تحارير لکھ چکا ہوں ۔ تاریخ ولادت سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے متعلق تاريخی خلاصہ نقل کر رہا ہوں
ربيع الاول ہی نہيں ہر ماہ ہر دن
عشقِ رسول
جشنِ عيد ميلادُالنبی کی تاریخ

اميرالدين مدرسہ تعليم القرآن نواں شہر ملتان ۔ سيرت طيّبہ ۔ ص76 ۔ لکھا ہے کہ قول مختار يہ ہے کہ 5 ربيع الاول کو آپ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے

زادالمعاد ۔ ج 1 ص 68 مترجم رئيس احمد جعفری ۔ حافظ ابن قيم متوفی 751ھ نے لکھا ہے کہ جمہور قول يہ ہے کہ 8 ربيع الاول کو آنحضرت صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت ہوئی

رحمت للعالمين ۔ قاضی سليمان منصور پوری ۔ ج 1 ص 43 ۔ لکھا ہے کہ ہمارے نبی موسم بہار دوشنبہ کے دن 9 ربيع الاول کو پيدا ہوئے

تاريخ اسلام ۔ اکبر شاہ نجيب آبادی ۔ حصہ اول ص 72 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول 571ء بروز سوموار بعد از صبح صادق اور قبل از طلوع آفتاب آنحضرت صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے

تاريخ اسلام ۔ معين الدين احمد ندوی ۔ ج 1 ص 25 ۔ لکھا ہے کہ عبداللہ کی وفات کے چند مہينوں بعد عين موسم بہار اپريل 571ء 9 ربيع الاول کو عبداللہ کے گھر فرزند تولد ہوا ۔ بوڑھے اور زخم خوردہ عبدالمطلب پوتے کی پيدائش کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ لے جا کر اس کيلئے دعا مانگی

محبوب خدا ۔ چوہدری افضل حق ۔ ص 20 ۔ لکھا ہے کہ 20 اپريل 571ء بمطابق 9 ربيع الاول دوشنبہ کی مبارک صبح کو قدسی آسمان پر جگہ جگہ سرگوشيوں ميں مصروف تھے کہ آج دعائے خليل اور نويد مسيحا مجسم بن کر دنيا ميں ظاہر ہو گی

رسول کامل ۔ ڈاکٹر اسرار احمد ۔ ص 23 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول کو پيدائش کا دن ٹھہرايا

قصص القرآن ۔ حفظ الرحمٰن سوہاری ۔ ج 4 ص 9 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول کو پيدائش کا دن ٹھہرايا

الطبقات الکبری لا بن سعد ۔ 1/100مطبوعہ بيروت ۔ لکھا ہے کہ ماہ ربيع الاول کی 10 راتيں گذری تھيں کہ دو شنبہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے

دين مصطفٰی ۔ محمود احمد رضوی ۔ ص 84 ۔ لکھا ہے کہ واقعہ فيل کے پچپن روز بعد 12 ربيع الاول مطابق 20 اپريل 571ء حضور صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت ہوئی

ضياء القرآن ۔ پير کرم شاہ الازہری ۔ ج 5 ص 665 ۔ لکھا ہے کہ 12 ربيع الاول کو حضور صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم رونق افروز گيتی ہوئے

تبرکات صدرالافاضل مرتبہ حسين الدين سواداعظم لاہور ۔ لکھا ہے کہ 12 ربيع الاول کی صبح صادق کے وقت مکہ مکرمہ ميں آپ کی ولادت ہوئی

چودہ ستارے ميں سيّد نجم الحسن کراروی ۔ص 28 ، 29 میں لکھا ہے کہ نے پيدائش کا دن 17 ربيع الاول ہے

البشر لاہور ہادی انسانيت نمبر فروری 1980 ص 50 مضمون چودہ معصومين کے مطابق فقہ جعفريہ کے علماء کے نزديک طے شدہ تاريخ ولادت 17 ربيع الاول ہے

[مندرجہ بالا حوالوں کے مطابق تاریخ ولادت مبارک ربی الاول کی 5 يا 8 يا 9 يا 10 يا 12 يا 17 ہے يعنی درست تاريخ کا تعيّن مشکل ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عادت

ایک کچھوا دریا میں تیر رہا تھا کہ اسے “بچاؤ بچاؤ” کی آواز آئی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بچھو ڈُبکیاں کھاتا بہتا جا رہا ہے ۔ کچھوے نے بڑھ کر اُسے اپنی پیٹھ پر اُٹھا لیا اور دریا کے کنارے کی طرف تیرنے لگا ۔ لمحے بعد کچھوے کو ٹُک ٹُک کی آواز آئی تو پوچھا “یہ میری کمر پر کیا مار رہے ہو ؟” بچھو نے کہا “ڈنک مارنا میری عادت ہے”۔ کچھوے نے کہہ کر”اور میری عادت ڈُبکی لگانا ہے” ڈُبکی لگائی اور بچھو ڈوب گیا

شیخ سعدی

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

جشنِ عيد ميلادُالنبی کی تاریخ

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے وصال [12 ربيع الاول 632ء] کے بعد کم از کم 500 سال تک ميلادُالنبی بطور محفلِ ميلاد یا جلوس نہيں منايا گيا ۔ مُختلف تحارير سے اکٹھی کی گئی چيدہ چيدہ معلومات مندرجہ ذيل ہيں

تاريخ ابن خلکان ج 3 ص 274 ۔ ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی عيد منانے کا آغاز 604ھ ميں ملک المعظم مظفرالدين کوکبوری نے کيا جو 586ھ ميں شہر اربل کا گورنر مقرر ہوا تھا ۔ شاہ اربل مجلس مولود کو ہر سال شان و شوکت سے مناتا تھا ۔ جب اربل شہر کے ارد گرد والوں کو خبر ہوئی کہ اس نے ايک مجلس قائم کی ہے جس کو وہ بڑی عقيدت اور شان و شوکت سے انجام ديتا ہے تو بغداد ۔ موصل ۔ جزيرہ سجادند اور ديگر بلادِ عجم سے گويّے ۔ شاعر اور واعظ بادشاہ کو خوش کرنے کيلئے ناچ گانے کے آلات لے کر ماہ محرم ہی سے شہر اربل ميں آنا شروع ہو جاتے ۔ قلعہ کے نزديک ہی ايک ناچ گھر تعمير کيا گيا تھا جس ميں کثرت سے قبے اور خيمے تھے ۔ شاہ اربل بھی ان خيموں ميں آتا گانا سُنتا اور کبھی کبھی مست ہو کر ان گويّوں کے ساتھ رقص بھی کرتا

حسن المقصد فی عمل المولد ۔ تحرير امام سيوطی ۔ جب محفلِ ميلاد کا چرچا ہوا تو کمزور ايمان والے خوشامدی اکٹھے ہو گئے ۔ عُلمائے سُو کا گروہ ہر دور ميں موجود رہا ۔ اس وقت بھی ايک مشہور عالمِ دين ابن وحيہ تھا ۔ وہ خراسان جا رہا تھا کہ اربل شہر سے گذرا ۔ اسے پتہ چلا کہ يہاں کے بادشاہ نے ايک مجلس ميلاد ايجاد کی ہے جس سے اسے انتہائی رغبت ہے ۔ ابن وحيہ نے مال و دولت کے لالچ ميں ميلاد کی تائيد کيلئے ايک رسالہ “التنوير فی مولد السراج المنير” لکھا پھر بادشاہ تک رسائی حاصل کی اور دربار ميں پڑھ کر سنايا ۔ شاہ اربل نے خوش ہو کر ايک ہزار اشرفی بطور انعام دی

عصرِ حاضر کے ميلادُالنبی منانے والے زعماء کيا کہتے ہیں

ماہنامہ ضيائے حرم دسمبر 1989ء زيرِ سر پرستی محمد کرم شاہ الازہری ۔ يہ درست ہے کہ جس بڑے پيمانے پر آجکل ميلادُالنبی منائی جاتی ہے اس طرح صحابہ کرام يا تابعين يا تبع تابعين کے زمانہ ميں نہيں منائی گئی بلکہ کئی صديوں تک اس کا نشان نہيں ملتا ۔ تاريخی نقطہ نگاہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے يہ ماننا پڑتا ہے کہ مجالسِ ميلاد يا مجالسِ ذکر و شغل کی طرف مسلمانوں کی زيادہ تر توجہ اس وقت ہوئی جب ضروريات اسلام سے فراغت پا کر مسلمان اپنی حکومت اور اسلامی ترقيات سے بہرہ ور ہو کر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور غير اقوام کے ميل جول نے ان کو اس عمل کی طرف مجبور کيا کہ جس طرح وہ لوگ اپنے اسلاف کی يادگاريں قائم کرتے ہيں اسی طرح ان کے دوش بدوش مسلمان بھی اسلامی شان و شوکت کا اظہار کريں

مقدمہ سيرت رسول عربی از عبدالحکيم اشرف قادری جامعہ نظاميہ رضويہ لاہور ۔ بارہ ربيع الاول کو عام طور پر بارہ وفات کہا جاتا تھا ۔ يہ حضرت علامہ توکلی کی کوششوں کا نتيجہ ہے کہ گورنمنٹ کے گزٹ ميں اسے عيد ميلادُالنبی صلی اللہ عليہ و سلم کے نام سے منظور کروايا

منہاج القرآن ستمبر 1991ء ص 19 ۔ شہنشاہانِ دنيا ميں سب سے پہلے اربل کے بادشاہ نے ميلاد شريف منانے کا اہتمام کيا اور وہ بزرگ اور سخی حکمرانوں ميں سے تھا ۔ شيخ ابن وحيہ نے ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موضوع پر ايک رسالہ التنوير فی مولد البشير النذير لکھ کر بادشاہ کو پيش کيا تو اس نے اسے ايک ہزار دينار انعام ديا ۔ ايک شخص ايک دفعہ شاہ اربل کے پاس ميلاد کے دسترخوان پر حاضر ہوا تو اس نے بيان کيا کہ اس دسترخوان پر 5 ہزار بھُنے ہوئے بکرے 10 ہزار روسٹ مُرغياں ايک لاکھ نان ايک لاکھ کھانے سے بھرے ہوئے مٹی کے پيالے اور 30 ہزار مٹھائی کی طشتریاں تھيں اور بادشاہ ہر سال محفلِ ميلاد پر 30 لاکھ دينار خرچ کرتا تھا

[خليفہ دوم اميرالمؤمنين عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نامور سپہ سالار اور صحابی خالد بن وليد رضی اللہ عنہ کو اسلئے معزول کر ديا تھا کہ اُنہوں نے جہاد سے واپسی پر دس بارہ ہزار دينار بخشيش کئے تھے]

روزنامہ کوہستان لاہور عيد ميلاد ايڈيشن 22 جولائی 1964ء۔ لاہور میں ميلادُنبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا جلوس سب سے پہلے 5 جولائی 1933ء بمطابق 12 ربيع الاول 1352ھ کو نکلا اور 1940ء تک باقاعدگی سے نکلتا رہا

روزنامہ کوہستان 1964ء حکيم محمد ايوب حسن کا مضمون راولپنڈی ميں ميلادُ النبی ۔ راولپنڈی ميں يہ سلسلہ ايک مدت سے جاری ہے ۔ اس کی ابتداء اس زمانہ ميں ہوئی جب پٹی ضلع لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ايمان کے ايڈيٹر مولانا عبدالمجيد قريشی نے ايک تحريک شروع کی کہ سارے ملک ميں سيرت النبی صلی اللہ عليہ و سلم کميٹياں قائم کی جائيں

[ميرا ذاتی مشاہدہ ۔ مجھے اچھی طرح ياد ہے کہ کم از کم 1950ء تک بارہ ربيع الاول کو رسول اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے کو وصال مبارک کی تاريخ 12 ربيع الاول کے حوالے سے بارہ وفات کے نام سے ياد کيا جاتا تھا]

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ بُزدلی اور بہادری

بہادر یا دلیر کا مفہوم وطنِ عزیز میں اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ اصل مفہوم عوام کے ذہنوں سے ماؤف ہو چلا ہے ۔ عصرِحاضر میں بہادر مرد اُسے سمجھا جاتا ہے جو کسی کو تھپڑ مار دے ۔ گھونسہ جَڑ دے یا گولی مار دے ۔ اور کچھ نہیں تو کھڑے کھڑے کسی کی بے عزتی کر دے ۔ کچھ ناہنجار تو سڑک پر جاتی لڑکی یا عورت پر آوازہ کسنے يا اُس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے کو بہادری سمجھتے ہیں ۔ اس کے برعکس کچھ عورتیں مردوں کو کھری کھری سنانا يا بے عزتی کرنے کو بہادی سمجھتی ہیں ۔ کچھ مرد و زن ایسے ہیں کہ دوسرے کو نیچ ذات یا کم عِلم کہنے کو بہادری سمجھتے ہیں ۔ صاحبِ فہم لوگ ان حرکات کو بُزدلی کی نشانی قرار دیتے ہیں اور نفسیات کے ماہرین اسے نفسیاتی مرض احساسِ کمتری سے تعبیر کرتے ہیں گو ايسے لوگوں کو احساسِ برتری ہوتا ہے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہادری کیا ہے ؟ سب سے بڑی بہادی اپنی غلطی کو بغیر کسی دباؤ کے ماننا اور اگر اُس غلطی سے کوئی متاءثر ہوا ہو تو اُس سے صدق دِل سے غیر مشروط معافی مانگنا ہے ۔ اس سلسلہ میں مجھے دو واقعات یاد آئے ہیں ۔ دونوں کے وقوع پذير ہونے کا عمل ايک ہی تھا جو ہوا تو بے خبری ميں تھا ليکن نتائج بھيانک تھے

پہلا واقعہ بزدلی کا چار دہائیاں پیچھے کا ہے ۔ دفتر میں بیٹھے خبر ملی کہ محکمہ کے ایک سینیئر کلرک نے خود کُشی کر لی ہے ۔ ہوا يوں کہ خفیہ معاملات کی ايک فائل [Secret File] گم ہو گئی تھی جو اُس کلرک کی الماری میں ہوتی تھی ۔ کلرک کو تفتيش کيلئے کسی خفيہ ادارے کے حوالے کيا گيا تھا کہ ايک دن اُس نے خودکُشی کر لی ۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والوں سے معلوم ہوا کہ کلرک شریف اور دیانتدار تھا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس نے وہ فائل جنرل منیجر صاحب کو دی تھی اور پھر واپس اُس کے پاس نہیں پہنچی تھی ۔ اس ڈر سے کہ اُس کے بیان کو سچ مان لیا گيا تو الزام جنرل منیجر یا کم از کم جنرل منیجر کے کوآرڈینیشن آفیسر پر آئے گا کسی نے جنرل منيجر کے دفتر کی تلاشی لينے کا نہ سوچا ۔ میں نے کوآرڈینیشن آفیسر سے پوچھا کہ “جنرل منیجر کی ميز کی ساری درازیں باہر نکال کر اور میز اُٹھا کر دیکھا تھا” ۔ اُس نے جواب دیا “الماری اور درازيں ديکھی تھيں”۔ خیر مرنے والا مر چکا تھا بات آئی گئی ہو گئی ۔ کچھ ماہ بعد جنرل منیجر کے کمرے میں رنگ روغن کرنے کیلئے میز اُٹھائی گئی تو وہ فائل میز کے نیچے سے نکلی

دوسرا واقعہ ایک غیر مسلم کا ہے ۔ مئی جون 1999ء میں امریکا کی ایک ریاست میں ایک اعلٰی معیار کی یونیورسٹی میں سالانہ امتحانات ہوئے ۔ ایک غیر ملکی مسلم طالبعلم کا پرچہ گُم [Answer sheet] ہو گیا ۔ طالبعلم کا مسلک تھا کہ پرچہ حل کرنے کے بعد اُس نے اُسی جگہ پر رکھا تھا جہاں باقی سب نے پرچے رکھے تھے ۔ انکوائری وغیرہ ہوئی ۔ آخر فیصلہ ہوا کہ چونکہ طالبعلم کی پورے سال کی کارکردگی بہت اچھی تھی اسلئے اسے پاس کر دیا جائے لیکن کچھ سزا کے ساتھ

يونيورسٹی چھوڑنے کے بعد طالبعلم امریکا کی کسی اور ریاست میں ملازم ہو گیا ۔ چند ماہ بعد اُسے اُس پروفیسر کی ای میل آئی جس کے مضمون کا پرچہ گم ہوا تھا ۔ اُس نے معذرت کی تھی اور لکھا تھا ۔ “میرے دفتر میں رنگ روغن ہوا تو چیزیں درست کرتے میز کے نیچے سے ایک پرچہ ملا جس کا پہلا صفحہ غائب ہو چکا تھا لیکن میں نے تمہارا رسم الخط پہچان لیا اور میں نے ڈین سے مل کر اس مضمون میں تمہارا گریڈ “ڈی” کی بجائے “اے” کرا دیا ہے ۔ اُن پروفيسر صاحب کو دو ماہ کی پوچھ گچھ کے بعد اُس طالبعلم کا ای میل کا پتہ ملا تھا

پروفيسر صاحب کے متذکرہ عمل کو کہتے ہیں بہادری جو وطنِ عزیز میں مفقود ہوتی جارہی ہے

عشقِ رسول

میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں میڈا ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں،جند جان وی توں
میڈا کعبہ قبلہ مسجد ممبر مُصحف تے قرآن وی توں
میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں صوم صلاۃ اذان وی توں
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں
میڈا سانول مٹھڑا شام سلونڑا من موہن جانان وی توں
میڈا مرشد ھادی پیر طریقت شیخ حقائق دان وی توں
میڈی آس امید تے کھٹیا وٹیا تکیہ مانڑ تے ترانڑ وی توں
میڈا دھرم وی توں میڈا بھرم وی توں
میڈی شرم وی توں میڈی شان وی توں
میڈا ڈُکھ سُکھ رووَنڑ کھلنڑ وی توں
میڈا درد وی توں درمان وی توں
میڈا خوشیاں دا اسباب وی توں
میڈے سولاں دا سامان وی توں
میڈا حُسن تے بھاگ سُہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام و نشان وی توں

کلام ۔ خواجہ غلام فرید

يک نہ شُد دو شُد

ميں نے جعلی پاسپورٹوں کا ذکر کيا تھا گو پاسپورٹ ناردا کے ہی ماتحت ہے مگر اب تو نادرا خود ہی قابو آ گيا ۔ کسی نے کہا تھا کہ يہ لفظ نادرا دراصل “نالائق ادارہ”کا مخفف ہے

خبر
گزشتہ ماہ ایک عرب ملک جاتے ہوئے گرفتار کیے جانیوالے عبدالمالک ریگی کے پاس سے نادرا کا جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ برآمد ہوا ہے اور ایرانی حکام نے اس بارے میں پاکستان کو آگاہ بھی کردیا ہے لیکن حکومت نے اس بات کو خفیہ رکھا ہے اور نادرا کا کہنا ہے کہ یہ شناختی کارڈ جعلی ہے۔نادرا کی جانب سے وضاحت بھی اس وقت سامنے آئی جب ٹی وی پر اس کی خبر نشر ہوگئی۔عبدالمالک ریگی کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈنادرا کیلیے ایک چیلنج بن چکا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ” اب دھوکا ممکن نہیں“ جب کہ وزارت داخلہ کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ریگی کے بھائی کے پاس بھی جعلی پاکستانی شناختی کارڈ ہے جو کہ ایرانی شہری ہے۔
واضح رہے کہ چیکنگ کے دوران عبدالمالک ریگی کا شناختی کارڈ اصلی ثابت ہو چکا ہے۔

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ فلسفی اور فلسفہ

پچھلے دنوں کچھ تحارير فلسفہ کے متعلق پڑھنے کو مليں جن ميں مسلمانوں ميں فلسفہ کا آغاز کندی سے شروع کر کے درميانی کچھ سيڑھياں چھوڑ کر اس کی مسلمانی ابنِ رشد پر ختم قرار دی گئی ۔ استدلال ليا گيا کہ فلسفہ کا عقيدہ مذہب سے متعلق نہيں ہے ۔ سوچا کہ لکھوں فلسفہ ہوتا کيا ہے تاکہ طويل تحارير اور الفاظ کے سحر ميں کھوئے ہوئے قارئين کم از کم فلسفہ کی اصليت تو سمجھ سکيں ليکن مصروفيت کچھ زيادہ رہی جس میں اسلام آباد بھی جانا پڑا اور خُشک موسم کی سوغات وائرس کيلئے بھی ميں مرغوب ثابت ہوا جس سے معالج اور دوائيوں کی دکان کی قسمت جاگ اُٹھی ۔ حاصل يوں ہے کہ اللہ نے اس کام کا سہرا محمد رياض شاہد صاحب کیلئے مختص کر ديا تھا کہ اُنہوں نے خوش اسلوبی سے لکھا “فلسفہ کيا ہے

میں پانچويں یا چھٹی جماعت ميں پڑھتا تھا کہ کتاب میں لفظ فلسفی آيا ۔ استاذ صاحب نے ماحول خوشگوار کرنے کی خاطر ايک لطيفہ سنايا “ايک فلسفی گھر ميں داخل ہوا تو اپنی چھتری کو بستر پر لٹا کر خود کونے ميں کھڑا ہو گيا”۔ پھر ميں نے ساتويں يا آٹھويں جماعت ميں کسی سے سُنا کہ فلسفی اگر پورا نہيں تو آدھا پاگل ہوتا ہے

اساتذہ کی تربيت کا اثر تھا کہ اللہ کی خاص مہربانی يا دونوں کہ ميں بچپن سے ہی ہر چيز و عمل کی بنياد پر غور و فکر کرنے کا عادی ہو گيا تھا ۔ سالہا سال محنت اور غور و فکر ميں گذرنے کے بعد مجھے متذکرہ بالا دونوں بيانات درست محسوس ہونے لگے ۔ ميرے طرزِ فکر و عمل کی وجہ سے متعدد بار ميرے گرد کے لوگوں نے مجھے پاگل کہا ۔ کبھی کبھی تو ميں خود بھی اپنے آپ کو پاگل کہہ ديتا

عصرِ حاضر ميں لوگ گريجوئيشن کے بعد چند سال کی محنت سے کسی چھوٹے سے مضمون کی بنياد پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند حاصل کر ليتے ہيں ۔ ايک دور تھا جب کاغذ کی سند ناياب تھی اور لوگ ساری عمر عِلم کی کھوج اور غور و فکر ميں گذار ديتے تھے مگر اُنہيں ايسی سند نہ دی گئی صرف اُن ميں سے چند کا نام تاريخ ميں نظر آ جاتا ہے اگر کوئی تاريخ پڑھنے کی زحمت کرے ۔ يہ وہ زمانہ ہے جب عِلم کی بنياد ہی فلسفہ تھی اور ہر عالِم جنہيں دورِ حاضر ميں سکالر کہا جاتا ہے کا مطالعہ ہمہ جہتی ہوتا تھا کيونکہ وہ کتاب کے کيڑے نہيں بلکہ فلسفی ہوتے تھے اور ہر عالِم يا فلسفی بيک وقت کئی علوم کی بنياد کا مطالعہ کر رہا ہوتا تھا

ميرا خيال ہے کہ فلسفی بننے کيلئے کسی سکول يا مدرسہ ميں جانا ضروری نہيں ہے ۔ فلسفہ کا تعلق انسان کی سوچ ۔ محنت اور طرزِ عمل سے ہے ۔ ميں ساتھی طلباء کے ساتھ 1960ء ميں کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی کے مطالعاتی دورے پر گيا ۔ دورہ کے بعد ہميں جنرل منيجر صاحب نے بتايا کہ ايک شخص جو کہ چِٹا اَن پڑھ ہے وہ سب سے زيادہ اور اُن سے بھی زيادہ تنخواہ پاتا ہے کيونکہ وہ بھرتی تو بطور مستری ہوا تھا مگر فکر و عمل کے باعث فلسفی اور انجنيئر ہے ۔ وہاں موجود انجنوں اور اُن کے کام کا مطالعہ کر کے وہ ان کی بنياد پر پہنچنے ميں کامياب ہوا اور اس فلسفہ اور حاصل مطالعہ سے کام لے کر اس نے دو انجن کارآمد بنا ديئے ہيں اور تيسرے پر کام کر رہا ہے

ميری نظر ميں وہ شخص بھی فلسفی ہے جس نے چار پانچ دہائياں قبل چاول کے ايک دانے پر ہاتھ سے پورا کلمہ طيّبہ لکھنے کا طريقہ دريافت کيا ۔ ميری نظر ميں پاکستان کا حسب نسب رکھنے والا وہ جوان بھی فلسفی ہے جس نے 1970ء کی دہائی ميں دوسری جنگِ عظيم ميں کالی ہو جانے والی لندن کی عمارات کو صاف کرنے کا ايک قابلِ عمل نسخہ تيار کيا تھا جبکہ برطانيہ کے بڑے بڑے سائنسدان اس میں ناکام ہو چکے تھے

دورِ حاضر ميں صيہونی پروپيگنڈہ اتنا ہمہ گير ہو چکا ہے کہ جو خبر اس منبع سے نکلتی ہے اسے من و عن قبول کيا جاتا ہے اور موجود تاریخ کا مطالعہ کرنا بھی گوارہ نہيں کيا جاتا ۔ محمد رياض شاہد صاحب نے اپنی متذکرہ بالا تحرير ميں ايک نہائت مُختصر مگر جامع تحرير لکھ کر حقائق کے ساتھ ايسی سوچ کا توڑ پيش کيا ہے

بلاشُبہ مسلمان کے دشمنوں نے تاتاريوں کے رُوپ میں بغداد کی بہترين عِلمی لائبريری فنا کر کے سوائے ناصر الدين طوسی کے جو اپنی جان بچانے کی خاطر اُن سے مل گيا تھا تمام اہلِ عِلم کو تہہ تيغ کر ديا ۔ فرنينڈس اور اُس کے حواريوں کی صورت ميں يہی کچھ غرناطہ ۔ اشبيليہ اور قرطبہ ميں ہوا ۔ 1857ء ميں ہندوستان ميں انگريزوں نے تمام علمی خزانہ تباہ کرنے کے بعد اہلِ عِلم و ہُنر کو تہہ تيغ کر ديا ۔ اور حال ہی ميں امريکہ اور اُس کے اتحاديوں نے بغداد کی نہ صرف قومی لائبريری بلکہ ہر يونيورسٹی کو تباہ کر ديا اور اہلِ عِلم کو نابود کر ديا

اس کے باوجود دورِ حاضر ميں تھوڑی سی موجود تاریخ کا ہی مطالعہ کيا جائے تو يہ حقيقت عياں ہو جاتی ہے کہ اعلٰی سطح کا پہلا مسلمان فلسفی يعقوب ابن اسحاق الکندی [800ء تا 873ء] نہيں تھے بلکہ ابو موسٰی جابر ابن حيّان تھے جو وسط آٹھويں صدی عيسوی ميں پيدا ہوئے اور 803ء ميں وفات پائی ۔ ان کا فلسفہ جديد علمِ کيمياء کی بنياد بنا ۔ دوسرے نامور فلسفی ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوازمی [780ء تا 850ء] ہيں جنہوں نے لوگرتھم اور ايلوگرتھم ۔ الجبراء اور عربی کے ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے اعشاریہ نظام کے نئے علم دريافت کئے ۔ مزيد يہ کہ صفر کو قيمت عطا کی ۔ يہی وہ فلسفہ اور عِلم ہے جو عصرِ حاضر کی کمپيوٹر اور ڈيجيٹل ٹيکنالوجی کی بنياد بنا ۔ اگر يہ علوم نہ ہوتے تو آج نہ کمپيوٹر ہوتا اور نہ ڈيجيٹل ٹيکنالوجی

يعقوب ابن اسحاق الکندی کا نام تيسرے نمبر پر آتا ہے

مزيد يہ کہ عبدالوحيد محمد ابن احمد ابن محمد ابن رشد [1126ء تا 1198ء] کے بعد دو صديوں ميں کم از کم 5 اعلٰی پائے کے مسلمان فلسفی ہوئے ہيں جن ميں سے آخری عبدالرحمٰن ابن محمد [1332ء تا 1395ء] تھے جو ابن خلدون کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کا فلسفہ تاریخ اور عمرانيات سے متعلق ہے