تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے وصال [12 ربيع الاول 632ء] کے بعد کم از کم 500 سال تک ميلادُالنبی بطور محفلِ ميلاد یا جلوس نہيں منايا گيا ۔ مُختلف تحارير سے اکٹھی کی گئی چيدہ چيدہ معلومات مندرجہ ذيل ہيں
تاريخ ابن خلکان ج 3 ص 274 ۔ ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی عيد منانے کا آغاز 604ھ ميں ملک المعظم مظفرالدين کوکبوری نے کيا جو 586ھ ميں شہر اربل کا گورنر مقرر ہوا تھا ۔ شاہ اربل مجلس مولود کو ہر سال شان و شوکت سے مناتا تھا ۔ جب اربل شہر کے ارد گرد والوں کو خبر ہوئی کہ اس نے ايک مجلس قائم کی ہے جس کو وہ بڑی عقيدت اور شان و شوکت سے انجام ديتا ہے تو بغداد ۔ موصل ۔ جزيرہ سجادند اور ديگر بلادِ عجم سے گويّے ۔ شاعر اور واعظ بادشاہ کو خوش کرنے کيلئے ناچ گانے کے آلات لے کر ماہ محرم ہی سے شہر اربل ميں آنا شروع ہو جاتے ۔ قلعہ کے نزديک ہی ايک ناچ گھر تعمير کيا گيا تھا جس ميں کثرت سے قبے اور خيمے تھے ۔ شاہ اربل بھی ان خيموں ميں آتا گانا سُنتا اور کبھی کبھی مست ہو کر ان گويّوں کے ساتھ رقص بھی کرتا
حسن المقصد فی عمل المولد ۔ تحرير امام سيوطی ۔ جب محفلِ ميلاد کا چرچا ہوا تو کمزور ايمان والے خوشامدی اکٹھے ہو گئے ۔ عُلمائے سُو کا گروہ ہر دور ميں موجود رہا ۔ اس وقت بھی ايک مشہور عالمِ دين ابن وحيہ تھا ۔ وہ خراسان جا رہا تھا کہ اربل شہر سے گذرا ۔ اسے پتہ چلا کہ يہاں کے بادشاہ نے ايک مجلس ميلاد ايجاد کی ہے جس سے اسے انتہائی رغبت ہے ۔ ابن وحيہ نے مال و دولت کے لالچ ميں ميلاد کی تائيد کيلئے ايک رسالہ “التنوير فی مولد السراج المنير” لکھا پھر بادشاہ تک رسائی حاصل کی اور دربار ميں پڑھ کر سنايا ۔ شاہ اربل نے خوش ہو کر ايک ہزار اشرفی بطور انعام دی
عصرِ حاضر کے ميلادُالنبی منانے والے زعماء کيا کہتے ہیں
ماہنامہ ضيائے حرم دسمبر 1989ء زيرِ سر پرستی محمد کرم شاہ الازہری ۔ يہ درست ہے کہ جس بڑے پيمانے پر آجکل ميلادُالنبی منائی جاتی ہے اس طرح صحابہ کرام يا تابعين يا تبع تابعين کے زمانہ ميں نہيں منائی گئی بلکہ کئی صديوں تک اس کا نشان نہيں ملتا ۔ تاريخی نقطہ نگاہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے يہ ماننا پڑتا ہے کہ مجالسِ ميلاد يا مجالسِ ذکر و شغل کی طرف مسلمانوں کی زيادہ تر توجہ اس وقت ہوئی جب ضروريات اسلام سے فراغت پا کر مسلمان اپنی حکومت اور اسلامی ترقيات سے بہرہ ور ہو کر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور غير اقوام کے ميل جول نے ان کو اس عمل کی طرف مجبور کيا کہ جس طرح وہ لوگ اپنے اسلاف کی يادگاريں قائم کرتے ہيں اسی طرح ان کے دوش بدوش مسلمان بھی اسلامی شان و شوکت کا اظہار کريں
مقدمہ سيرت رسول عربی از عبدالحکيم اشرف قادری جامعہ نظاميہ رضويہ لاہور ۔ بارہ ربيع الاول کو عام طور پر بارہ وفات کہا جاتا تھا ۔ يہ حضرت علامہ توکلی کی کوششوں کا نتيجہ ہے کہ گورنمنٹ کے گزٹ ميں اسے عيد ميلادُالنبی صلی اللہ عليہ و سلم کے نام سے منظور کروايا
منہاج القرآن ستمبر 1991ء ص 19 ۔ شہنشاہانِ دنيا ميں سب سے پہلے اربل کے بادشاہ نے ميلاد شريف منانے کا اہتمام کيا اور وہ بزرگ اور سخی حکمرانوں ميں سے تھا ۔ شيخ ابن وحيہ نے ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موضوع پر ايک رسالہ التنوير فی مولد البشير النذير لکھ کر بادشاہ کو پيش کيا تو اس نے اسے ايک ہزار دينار انعام ديا ۔ ايک شخص ايک دفعہ شاہ اربل کے پاس ميلاد کے دسترخوان پر حاضر ہوا تو اس نے بيان کيا کہ اس دسترخوان پر 5 ہزار بھُنے ہوئے بکرے 10 ہزار روسٹ مُرغياں ايک لاکھ نان ايک لاکھ کھانے سے بھرے ہوئے مٹی کے پيالے اور 30 ہزار مٹھائی کی طشتریاں تھيں اور بادشاہ ہر سال محفلِ ميلاد پر 30 لاکھ دينار خرچ کرتا تھا
[خليفہ دوم اميرالمؤمنين عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نامور سپہ سالار اور صحابی خالد بن وليد رضی اللہ عنہ کو اسلئے معزول کر ديا تھا کہ اُنہوں نے جہاد سے واپسی پر دس بارہ ہزار دينار بخشيش کئے تھے]
روزنامہ کوہستان لاہور عيد ميلاد ايڈيشن 22 جولائی 1964ء۔ لاہور میں ميلادُنبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا جلوس سب سے پہلے 5 جولائی 1933ء بمطابق 12 ربيع الاول 1352ھ کو نکلا اور 1940ء تک باقاعدگی سے نکلتا رہا
روزنامہ کوہستان 1964ء حکيم محمد ايوب حسن کا مضمون راولپنڈی ميں ميلادُ النبی ۔ راولپنڈی ميں يہ سلسلہ ايک مدت سے جاری ہے ۔ اس کی ابتداء اس زمانہ ميں ہوئی جب پٹی ضلع لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ايمان کے ايڈيٹر مولانا عبدالمجيد قريشی نے ايک تحريک شروع کی کہ سارے ملک ميں سيرت النبی صلی اللہ عليہ و سلم کميٹياں قائم کی جائيں
[ميرا ذاتی مشاہدہ ۔ مجھے اچھی طرح ياد ہے کہ کم از کم 1950ء تک بارہ ربيع الاول کو رسول اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے کو وصال مبارک کی تاريخ 12 ربيع الاول کے حوالے سے بارہ وفات کے نام سے ياد کيا جاتا تھا]