تین روز قبل ساجد صاحب نے ایک تحریر ”اچھا باجی“ کے عنوان سے لکھی تھی ۔ اب اسی تصوریر کا ایک اور رُخ دیکھئیے
اپنے کمپیوٹر کے سپیکر آن کر دیجئے پھر یہاں کلک کر کے وڈیو دیکھیئے اور سر دھنیئے
کیا ایسے ”ساب“ لوگ ہمارے ملک میں اب کچھ زیادہ نہیں ہو گئے ؟
حسبِ حال
مرزا اسداللہ غالب گو عشق ميں غرق رہے ليکن بسا اقات بڑی سدا بہار بات کہہ گئے جو آج بھی ويسی ہی تر و تازہ ہے جيسی مرزا اسداللہ غالب کے دور ميں تھی
قوم کی عام حالت
عمر بھر ہم يونہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئينہ صاف کرتے رہے
اور يہ تو جاپتا ہے کہ شايد ميرے جيسوں کے متعلق کہہ گئے تھے
پتھر ہی لگیں گے تجھے ہر سمت سے آ کر
یہ جھوٹ کی دنیا ہے یہاں سچ نہ کہا کر
اب روتا ہے کیا تجھ سے کئی بار کہا تھا
حالات کے دھارے کے مخالف نہ بہا کر
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کمال
کمال یہ نہیں
کہ دوسروں کو بدلنے کی تلقین کرتے رہیں
کمال یہ ہے کہ
اپنے رنگ کو قائم رکھتے ہوئے،
قابلِ تقلید مثال بن کر،
دوسروں کی زندگیاں روشن کی جائیں
میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ سوا 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Real Threat to Peace “
آدھی بیوہ
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے ستائے شہریوں کی ایک نئی داستان سامنے آئی ہے۔ یہاں 1500 سے زائد خواتین ایسی ہیں جن کے خاوند تو مر چکے ہیں، لیکن انہیں سرکاری سطح پر بیوہ نہیں قرار دیا جا رہا۔ قطر کے نشریاتی ادارے نے کشمیریوں کی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ 1989ء کے بعد سے 70 ہزار سے زائد کشمیری نوجوان شہید کردئیے گئے ، 10000 سے زائد کشمیر ی نوجوان غائب ہیں، جن کے بارے کچھ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ۔ 1500سے زائد ایسی خواتین جن کے شوہروں کو غائب کردیا گیا، وہ سرکاری سطح پر بیوہ نہیں کہلا سکتیں کیونکہ ان کے خاوندوں کو مردہ قرار نہیں دیا گیا، معاشی مسائل اور ذہنی صدمات نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے، سماج انہیں دوسری شادی کرنے نہیں دے رہا، مذہبی اسکالروں کی اس کے متعلق مختلف رائے ہے ۔ تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری جدو جہد آزادی میں ایسی خواتین کی دل ہلا دینے والی داستانیں ہر جگہ ملیں گی جن کے شوہر غائب ہیں اور وہ انہیں مردہ سمجھ کر کہیں شادی بھی نہیں کرسکتیں ۔ 1989ء کی مسلح جدو جہدکے بعد کشمیری نوجوانوں پر بھارتی فوج نے ظلم کے پہاڑ توڑے ۔ کبھی مجاہدین کشمیر نوجوانوں کو گائیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں کبھی بھارتی فوجی ان کو جنگلوں میں سرچ آپریشن کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ کئی ان میں سے واپس گھروں کو نہیں لوٹے ۔ خواتین اپنے شوہروں کا آج بھی انتظار کرتی ہیں کہ شاید وہ زندہ ہوں
2009ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے کشمیر کو ”کرہ ارض کا سب سے بڑا فوجی علاقہ“ قرار دیا تھا، غیرحل طلب تنازعات نے کئی دکھ بھری داستانیں چھوڑیں ہیں ۔ ان میں سب سے بد قسمت صورت ایسی خواتین کی ہے جن کے شوہر غائب کردیئے گئے اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل پایا ۔ تاہم مقامی سطح پر انہیں آدھی بیوہ سمجھا جاتا ہے ۔ حکومت کے پاس آدھی بیوہ کے کوئی اعداد وشمار نہیں، ایک تھنک ٹینک کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد 1500 سے زائد ہے،
تھنک ٹینک نے کشمیر کے 22 اضلاع میں سے صرف ایک ضلع بارمولا میں 2700 گمنام اور اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی تھی، رپورٹ کے مطابق ان خواتین کے غائب شوہروں کی قبریں ان میں سے ہو سکتیں ہیں ۔ تھنک ٹینک نے بھارتی حکومت سے ان قبروں میں مدفون افرادکے ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کیا تھا ۔ ان نصف بیواؤں کے علاوہ ایسے ڈی این اے ان 10000 غائب ہونے والے کشمیریوں کے خاندانوں کو مدد دے گا
حکومت نے ایسی خواتین کو ریلیف دینے کی اسکیمیں جاری کرنے کا اعلان کیا، تاہم انہیں حکومت کی طرف سے ماہانہ صرف 200 روپے دیئے گئے ۔ نصف بیوائیں معاشی اور ذہنی صدمات سے دو چار ہیں اور ان کا انحصار سسرال یا والدین پر ہے ۔ انہیں جائداد یا بینک اکاوٴنٹ کے لئے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ چاہیے جو ایک بیوہ کے لئے ضروری ہے تاہم نصف بیواؤں کے شوہروں کو سرکاری سطح پر مردہ قرار نہیں دیا گیا۔
اسلامی شریعت کے مطابق بچوں کے ساتھ بیوہ کو آٹھواں اور بغیر بچوں کے چوتھا حصہ ملتا ہے لہٰذا نصف بیوہ کو تو کچھ نہیں ملتا، کشمیر یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ دوسری شادی کو معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ،سری نگر کے ایک دیو بند مکتبہ فکر کے اسکالر مفتی عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جن کے شوہر غائب ہو ں وہ کسی مسلمان جج سے ایک سال تک اپنے شوہر کی تلاش میں مدد لے سکتی ہے، اگر جج ناکام رہے تو وہ شادی ختم کرکے اس خاتون کو کسی دوسری جگہ نکاح کی اجازت دے سکتا ہے ، اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر سامنے آجائے تو دوسری شادی ختم ہو جائے گی ۔ حنفی فقہ کے مطابق ایسی خاتون جس کا شوہر غائب ہو جائے وہ 90 سال تک اس کا انتظار کرے (میرا نہیں خیال کہ یہ درست ہے)، اگر نہ آئے تو پھر وہ شادی کرسکتی ہے ۔ ایک اور اسلامی اسکالر مفتی قمر الدین کا کہناتھا کہ شوہر کے انتظار کم کرکے 4 سال دس 10 ہے ۔ اس عرصہ کے بعد خاتون دوسری شادی کرسکتی ہے
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 سے غائب ہونے والا کسی کا شوہر واپس نہیں آیا ۔ 52 سالہ بیگم جان کا شوہر 1998 ء کی ایک شام نماز کے لیے گھر سے نکلا اور آج تک واپس نہیں آیا ۔ بی بی فاطمہ کا شوہر 1993ء میں مزدوری کے لئے گھر سے نکلا پھر واپس نہیں لوٹا ،آرمی کیمپوں کے علاوہ اس نے اسے ہر جگہ تلاش کیا اور اب اس کی واپسی کی امید توڑ دی
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
میں نے اپنا یہ خیال 21 جون 2007ء کو شائع کیا تھا ۔ سوچا کہ اس کی اب بھی ضرورت ہے سو دوبارہ پیشِ خدمت ہے
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان ۔ ۔ ۔ تیرا سجّن یورپ نہ امریکہ
تیرا ساتھی چین نہ جاپان ۔ ۔ ۔ اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
نہ کر بھروسہ غیروں کی مدد پر ۔ ۔ اپنی زمیں ا ور اپنوں پر نظر کر
اور رکھ اپنی طاقت پر ایمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
دساور کا مال جو کھائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہڈ حرام وہ ہوتا جائے
بھر اپنے کھیتوں سے کھلیان ۔ اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
دشمن کہہ کر نہ گِراتا جا ۔ ۔ ۔ اپنوں کی لاشیں جا بجا
اپنے خون کی کر پہچان ۔ اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
کرے جو تو محنت مزدوری ۔ ۔ دال روٹی بن جائے حلوہ پوری
حق حلال کی اب تو ٹھان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ماضی حال مستقبل
ماضی حوالے کی جگہ ہے نہ کہ بسنے کی
مستقبل اچھا بنانے کیلئے حال میں محنت کی جاتی ہے
جتنا زیادہ آدمی اپنے آپ اور اپنی ضرورت کو پہچانے گا
اتنا ہی وہ کم پریشانی سے دوچار ہو گا
میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ سوا 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ”Repudiating Fanaticism“
شاعری اور منافقت
شاعر ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے کلام اور اپنے عمل سے قومیں بنا دیں یا سوئی ہوئی قوموں کو جگا کر مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا مگر دیکھا گیا ہے کہ کئی شاعر اپنی عملی زندگی کے بالکل برعکس لکھتے ہیں ۔ نمعلوم کیوں مجھے ایسے لوگ پسند نہیں جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں
سورت ۔ 61 ۔ الصّف ۔ آیت 2 اور 3 ۔ ” اے لوگو ۔ جو ایمان لائے ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ۔ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں”
اور واضح الفاظ میں سورت 26 الشُّعَرَآء کی آیات
آیت 224 ۔ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ۔ ترجمہ ۔ اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ کرتے ہیں
آیت 225 ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ۔ ترجمہ ۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادئ میں بھٹکتے ہیں
آیت 226 ۔ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں