میں فقیر نہیں ہوں

راشد ادریس رانا صاحب نے اپنے بلاگ پر ایک تحریر نقل کی جسے میں نیچے دُہرا رہا ہوں ۔ میری تمام قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ دولت کسی وقت بھی چھن سکتی ہے اور زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں کہ کب اچانک ختم ہو جائے اسلئے آج ہی سے اپنے عزیز و اقارب ۔ محلے داروں ۔ ملنے والوں اور چلتے پھرتے نظر آنے والوں کو ذیل میں درج واقعہ کے راوی کی نظر سے دیکھا کیجئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ سے قریب ہی کوئی خاندان ایسا ہو گا جو بظاہر ٹھیک ٹھاک نظر آتے ہیں یعنی اپنا بھرم کسی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ فوری مدد کے مستحق ہیں ۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جلد مدد کیلئے آگے بڑھیئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ خاموشی سے کی ہوئی آپ کی امداد آپ کی دسترس میں کمی کرنے کی بجائے اِن شاء اللہ اسے اور بڑھا دے گی کیوں کہ اللہ ایک کے بدلہ میں 10 سے 100 تک دیتا ہے ۔ اُنہیں تو اللہ نے پال ہی دینا ہے تو کیوں نا اس نیکی کو آپ اپنے نام لکھ لیں
درجِ ذیل واقعہ کو اِنہماک سے پڑھیئے اور اپنا مستقبل درست کرنے کی کوشش کیجئے لیکن اس سے پہلے میری 3 دسمبر 2013ء کی تحریر پر نظر ڈال لیجئے

واقعہ
مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ایک معصوم سے چہرے پر نظر پڑی ۔ عمر یہی کوئی 14 یا 15 سال ہوگی ۔ پر پتہ نہیں ایسی کیا بات تھی اس کے چہرے پر کہ میں رُک کر اُسے دیکھنے لگا اور ایسی جگہ کھڑا ہو گیا جہاں سے مجھے وہ نہ دیکھ پائے ۔ وہ بچہ باہر نکلتے ہوئے جھجک رہا تھا ۔ نمازیوں نمازیوں کی طرف قدم بڑھاتا پھر پیچھے ہو جاتا ۔ میں سمجھ گیا کہ اس لڑکے کو ضرور کوئی ممسئلہ درپیش ہے ۔

خیر آہستہ آہستہ نمازی مسجد سے باہر نکل گئے ۔ وہ لڑکا دیوار سے ٹیک لگا کر زمین پر پیٹھ گیا اور زمین پر اپنی اُنگلیوں سے آڑھی ترچھی لکیریں بنانے لگا ۔ میری بے صبری طبیعت بھی اب مجھے اس کا حال احوال پوچھنے کیلئے اُکسانے لگی تھی سو اسکے پاس جا کر زمین پر ہی بیٹھ گیا ۔ مجھے دیکھ کر وہ اُٹھ کر جانے لگا تو میں نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور پوچھا ”کیا ہو گیا ہیرو ؟ کیوں پریشان ہو ؟“

جواب ملا ”کچھ نہیں بھائی ۔ میں گھر جا رہا ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ پھر جانے لگا تو میں بھی اُس کے پیچھے ہو لیا اور تھوڑی دور جانے کے بعد پھر سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا اور کہا ”دیکھو ۔ میں تمہارا بھائی ہوں ۔ تم مجھے جانتے ہو گے (دراصل آس پاس محلے کے لڑکے میرے بہت اچھے دوست ہیں اور تقریباً سب ہی مجھے نام سے جانتے ہیں)۔

میں نے کہا ”بھائی سے تو بات نہیں چھپایا کرتے ۔ میں جانتا ہوں تم کسی پریشانی میں ہو ۔ دیکھو ۔ تمہارا بھائی اتنے پیسے والا تو نہیں کہ تمہارے مسائل حل کر سکے ۔ پر جتنا ہو سکا اتنا ضرور کروں گا ۔ اس کی آنکھیں تو شاید کب سے برسنا چاہ رہی تھیں میری ان باتوں سے تو وہ ساون کی بپھری ہوئی برسات کی طرح برس پڑیں ۔ یہ 14 ، 15 سال کی عمر بہت حساس ہوتی ہے ۔ بچہ اس عمر مین نئی نئی چیزیں اور انسانی عادت سمجھتا ہے ۔ محسوسات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ دُکھ یا خوشی کا مطلب سمجھنا شروع کرتا ہے ۔ میں نے اسے بہت مشکل سے چُپ کرایا پھر اسے کُریدنا شروع کیا تو جو کچھ اُس نے کہا وہ آپ لوگوں سے شیئر کرتا ہوں

”میں فقیر نہیں ہوں ۔ اللہ قسم میں فقیر نہیں ہوں ۔ کچھ عرصہ پہلے جب ابو سکول کی کتابیں لینے جا رہے تھے تو اُنہیں کسی نے گولی مار دی ۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ تمہارے ابو کی ”ٹارگٹ کِلِنگ“ ہو گئی ۔ امی نے فیکٹری مین کام کرنا شروع کر دیا لیکن جب وہ بیمار ہو گئیں تو کام چھوڑ دیا ۔ ابھی امی بہت بیمار ہین ۔ ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جاتیں ۔ شام مین نے کہا ”امی ۔ اگر آپ ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گی تو میں روزہ نہیں کھولوں گا ۔ پھر امی رونے لگی ۔ کہہ رہی تھیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں ڈاکٹر کے پاس چلی گئی تو رات کھانا کیا کھائیں گے ؟ اب تو دکان والا اُدھار بھی نہیں دیتا ہے ۔ عرصہ ہوا تمہارے چچا تایا وغیرہ بھی نہیں آئے ۔ مین نے امی سے کہا کہ میں کھیلنے جا رہا ہوں ۔ عصر کی نماز پڑھی تو مسجد میں ایک بندہ پیسے مانگ رہا تھا اور سب اسے پیسے دے رہے تھے ۔ وہاں سب مجھے جانتے ہیں تو پھر میں ادھر آپ لوگوں کے علاقے میں آ گیا کہ مجھے بھی پیسے ملیں گے تو میں امی کو ڈاکٹر کے پاس لیجاؤں گا ۔ لیکن جب مین نے مانگنے کی کوشش کی تو میں نہ تو ہاتھ پھیلا سکا اور نہ ہی میری آواز نکلی ۔ مجھے ابو یاد آ گئے وہ کسی سے بھی کچھ مانگنے سے منع کرتے تھے ۔ ابو بہت اچھے تھے ۔ سکول سے ایک بھی چھٹی نہیں ہونے دیتے تھے ۔ اب مین نے سکول بھی چھوڑ دیا ۔ اب اگر بھیک مانگوں گا تو ابو اور خفا ہو جائین گے ۔ پر پیسے نہ ہوئے تو امی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائین گی پھر وہ بھی مر جائیں گی ۔ پھر میرا کیا ہو گا ؟ میں کہاں جاؤں گا ؟

شاید اس سے زیادہ مجھ میں بھی سننے کی ہمت نہیں تھی ۔ میں نے اپنے آنسو روکے اور اسے گلے سے لگا لیا ۔ جیب میں پاکٹ منی کی تھوڑی سی رقم تھی سو اسکے گھر گیا ۔ وہاں اس کی والدہ سے ملا اور پھر اپنے ننھے شیر کی ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ۔ اس کے بعد ایک طویل کہانی ہے کہ کس طرح میں نے اپنے والد صاحب کو قائل کیا کہ ان کی مستقل مدد کرنا چاہیئے ۔ اس وقت بھی میری آنکھیں بھیگ رہی ہیں ۔ آنسوؤں سے ناجانے کتنی ہی معصوم کلیاں مجبوری کے پتھروں تلے کُچلی جاتی ہوں گی

میری ان تمام لوگوں سے گذارش جنہیں اللہ تعالٰی نے مناسب مال عطا کر کے ایک آزمائش مین ڈالا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں کہ کسی کو ہاتھ پھیلانے کا موقع نہ ملے ۔ یہ آپ کا احسان نہیں آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حلات خود سمجھیئے ۔ ڈھائی فی صد تو فرض ہے ۔ اپنے ہاتھ کھولیئے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کیجیئے ۔ میں دروازے پر مانگنے والوں کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ باہر نکلئیے اور مستحق لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کیجیئے ۔ یقین کیجیئے سب کچھ یہیں رہ جائے گا سوائے اُس (الباقیات الصالحات) کے جو آپ نے آگے بھیجا

یہ پیسہ اور مال کسی کام کا نہیں اگر اس سے کسی دکھی دل کی خدمت نہ ہو ۔ میں آپ کو وہ سکون اور خوشی کبھی بھی کسی بھی طرح نہیں بتا سکتا جو سچے دل سے اور بنا کسی بدلے کی اُمید کے کسی کا دکھ بانٹ کر ملتی ہے ۔ یہ بچپن بہت قیمتی ہوتا ہے ۔ خدا راہ کسی کا بچپن بچا لیجئے ۔ کسی کے موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی آنسو مٹی تک نہ پہنچنے دیجئے ورنہ یہ نمی مٹی تک پہنچنے سے پہلے بہت تیزی سے عرش تک جا پہنچتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ اللہ تعالٰی کی بے آواز لاٹھی وار کرے اُٹھین اور دوسروں کی مدد کریں

معذرت اور فوری مدد کی ضرورت

آج میں گھر سے باہر تھا کہ ٹیلیفون آنے شروع ہو گئے جس سے علم ہوا کہ میرا یاہو اکاؤنٹ اغوا (ہائی جَیک) ہو گیا ہے ۔ اور میری طرف سے میری کانٹَیکٹ لسٹ میں موجود تمام پتوں پر میری بیوی کی خدا نخواستہ سخت بیماری اور امداد کی درخواست والی ای میل گئی ہے

اس سلسلہ میں سب کو فکر ہوئی ہوگی جس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں

ہوا یہ ہے کہ میری کانٹیکٹ لسٹ ۔ اِن باکس ۔ سَینٹ فولڈر اور سب کچھ حذف کر دیا گیا ہے اور اب میں کسی کو اطلاع بھی نہیں دے سکتا کہ کیا ہوا ہے اور ہم خیریت سے ہیں

تمام ماہر قارئین سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں میری رہنمائی کریں کہ میں اپنی یاہو کی کانٹیکٹ لسٹ کیسے بحال کروں یا اگر کچھ ایڈریس میرے کمپیوٹر میں کسی فولڈر میں پڑے ہوں تو اُنہیں کیسے اَپ لوڈ کروں ۔ ایک ایک کر کے لکھنے میں تو بہت وقت لگے گا

اس سلسلہ میں اور بھی کسی قسم کی رہنمائی کر سکیں تو مشکور ہوں گا
اور یہ بھی بتایئے کہ ویب سے مُفت میں ملنے والی کونسی اَینٹی وائرس سب سے اچھی ہے جو ڈیفَینڈر کا کام درست کر سکے

میں تا حال اپنے کمپیوٹر کی درستگی کی تگ و دو میں لگا ہوں ۔ یہ پیغام کسی دوسرے کمپیوٹر سے لکھا ہے

اگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگر آپ نے کپڑے پہن رکھے ہیں ۔ آپ کے فرج میں کھانے کو کچھ ہے ۔ آپ کے سر پر چھت اور سونے کو جگہ ہے
تو آپ دنیا کے 75 فیصد لوگوں سے بہتر ہیں

اگر آپ کے بٹوے میں پیسے ہیں اور بنک اکاؤنٹ میں بھی
تو آپ دنیا کے 8 فیصدامیر ترین لوگوں میں سے ہیں

اگر آپ کا اپنا کمپیوٹر ہے
تو آپ کا شمار دنیا کے صرف ایک فیصد لوگوں میں ہوتا ہے

اگر آپ صبح اُٹھے تو بیمار نہیں تھے
تو آپ اُن لاکھوں سے بہتر ہیں جو صحت کو ترس رہے ہیں

اگر آپ نے کسی جنگ کی زِک نہیں اُٹھائی ۔ نہ کبھی قیدِ تنہائی میں رہے ہیں ۔ نہ کبھی اذیت سہی ہے ۔ نہ کبھی فاقوں سے سامنا ہوا ہے
تو آپ دنیا کے ایک ارب لوگوں سے بہتر ہیں

اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں
تو آپ دنیا کے 2 ارب لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں جو ایسا نہیں کر سکتے

تو پھر کیا ؟
اللہ آپ کو خوش اور خوشحال رکھے
لیکن
اپنے خالق و مالک اللہ الرحمٰن الرحیم کا شکر ادا کرتے رہیئے جس نے آپ کو متذکرہ اور دیگر اَن گِنت نعمتیں ادا کی ہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سیانے کا قول اور حقیقت

کہتے ہیں کسی سیانے نے کہا تھا
1 ۔ اعلٰی دماغ ادراک و فکر کرتے ہیں
2 ۔ درمیانے دماغ واقعات پر بحث کرتے ہیں
3 ۔ چھوٹے دماغ کا موضوعِ بحث لوگ ہوتے ہیں

میں نے زندگی بھر دیکھا کہ اکثر لوگوں کا موضوع زیرِ بحث لوگ ہی ہوتے ہیں
تو
کیا اس کا مطلب لیا جائے کہ اکثر لوگوں کے دماغ چھوٹے ہوتے ہیں ؟

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” I Am Not A Terrorist

میری کہانی ۔ لالٹین اور جاتکو

جی نہیں ۔ یہ وہ کہانی نہیں ۔ نہ تو یہ جیو کہانی ہے اور نہ وہ جس کا گانا محمد رفیع نے 6 دہائیاں قبل گایا تھا بلکہ میری سر گذشت ہے جس سے کچھ اقتباسات پیش کرنے کا آخر ارادہ کر ہی لیا ہے

سن 1948ء میں شاید نومبر یا دسمبر میں ہم نے راولپنڈی جھنگی محلہ کی سرکلر روڈ سے نکلتی ایک گلی میں ایک مکان کی 2 کمروں باورچی خانہ غُسلخانہ اور بڑے سے صحن پر مُشتمل پہلی منزل کرایہ پر لی ۔ دوسری منزل میں مالک مکان ۔ اُس کی بیوی اور والدہ ررہتے تھے ۔ گھر بالکل نیا بنا تھا لیکن گھر میں نہ پانی تھا نہ بجلی ۔ مالک مکان نے اپنا بندوبست کرنے تک ایک لالٹین عنائت کی جو ہم بچوں نے پہلی بار دیکھی تھی ۔ میرا سوا سالہ بھائی رونے لگا تو والدہ محترمہ نے لالٹین کمرے میں لانے کو کہا ۔ میں جو لالٹین اُٹھا کر چلا تو اُس کا شعلہ پھپ پھپ کی آواز کے ساتھ اُچھلنے لگا اور کمرے میں پہچنے تک لالٹین بُجھ گئی ۔ میری پھوپھو جی جو بیوہ تھیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں نے لالٹین جلا کر دی مگر پھپ پھپ کرتی پھر بُجھ گئی ۔ پھوپھو جی جلاتیں اور وہ پھر بُجھ جاتی ۔ یہ عمل بڑوں کیلئے تو شاید پریشانی کا باعث ہوا ہو لیکن میں ۔ میری بہن اور ایک 8 سالہ بھائی ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے ۔ اگلی صبح پھوپھو جی لالٹیں دوسری منزل پر لے گئیں تو مالک مکان کی والدہ نے درست کر دی اور بتایا کہ آرام سے لالٹین اُٹھائیں ورنہ تیل اُوپر موہرے میں چڑھ جاتا ہے تو پھپ پھپ کرتی ہے

ہم 2 بھائیوں کو چھوٹی چھوٹی بالٹیاں خرید دی گئیں کہ روزانہ گلی کے نلکے سے پانی بھر کر لایا کریں ۔ پہلے میں نلکا کھول کر بالٹی میں پانی بھرتا پھر چھوٹا بھائی بالٹی بھر کے نلکا بند کرتا ۔ ایک دن بھائی نلکا کھُلا چھوڑ آیا ۔ جب ہم دوبارہ پانی لینے گئے تو ایک عورت بولی ”جاتکو ۔ ٹُوٹی کھُلی کیئوں چھوڑ وَینے او“۔ ہم نے گھر جا کے کہا کہ ”ایک عورت نے ہمیں ڈانٹا ہے اور گالیاں دی ہیں ۔ اب ہم پانی لینے نہیں جائیں گے“۔ اگلے روز ہماری پھوپھو نے ملک مکان کی والدہ سے ذکر کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے ”بچو ۔ نلکا کھُلا کیوں چھوڑ دیتے ہو“۔

لو اور سُنو

یہ تو سُنا تھا کہ مُجرم کی بجائے کسی دوسرے کو مُجرم کہہ کر پکڑ لیا مگر یہ پہلے کبھی نہ سُنا تھا

کراچی میں امن وامان سے متعلق اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف کے سامنے سیکریٹری داخلہ سندھ نے انکشاف کیا کہ سندھ کی جیلوں میں 41 جعلی قیدیوں کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ یہ قیدی کسی دوسرے افراد کی جگہ بند کئے گئے ۔ جعلی قیدیوں کی نشاندہی نادرا کے ریکارڈ کے ذریعے ہوئی