شاعری اور منافقت

شاعر ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے کلام اور اپنے عمل سے قومیں بنا دیں یا سوئی ہوئی قوموں کو جگا کر مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا مگر دیکھا گیا ہے کہ کئی شاعر اپنی عملی زندگی کے بالکل برعکس لکھتے ہیں ۔ نمعلوم کیوں مجھے ایسے لوگ پسند نہیں جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں

سورت ۔ 61 ۔ الصّف ۔ آیت 2 اور 3 ۔ ” اے لوگو ۔ جو ایمان لائے ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ۔ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں”

اور واضح الفاظ میں سورت 26 الشُّعَرَآء کی آیات
آیت 224 ۔ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ۔ ترجمہ ۔ اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ کرتے ہیں
آیت 225 ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ۔ ترجمہ ۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادئ میں بھٹکتے ہیں
آیت 226 ۔ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں

جوانی گر چلے راہ پہ

”جوانی نے ڈھلنا ہی ہوتا ہے۔ جذبات کے منہ زور طوفانوں کو ایک دن تھمنا ہی ہوتا ہے لیکن کتنے خوش بخت ہیں وطن عزیز کے وہ جوان جن کی جوانیاں انسانی فلاح و بہبود کے کسی خوبصورت سانچے میں ڈھل جاتی ہیں”

یہ اقتباس ہے ایک مضمون کا
جس میں ذکر ہے ایک خاص قسم کی جراحی کے پاکستان میں واحد ہسپتال کا
ایک اور خصوصیت کے لحاظ سے بھی یہ ہسپتال اپنی مثال صرف آپ ہی ہے کہ یہاں جراحی کروانے والے کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوتا

موضوع اور ہسپتال کا تعلق دیکھنے کیلیئے یہاں کلک کیجئے

محاورے کیسے بنے ؟

سونے کے باعث کمر درد سے بچنے کیلئے بستر کھِچا ہوا رکھا جاتا ہے ۔ شَیسپیئر کے زمانے میں انگلستان میں بستر سے بندھی رسیاں کھینچ کر بستر کو کسا ہوا (tight) رکھا جاتا تھا جیسے ہمارے ہاں چارپائی (مَنجی) کی رسی (دھَون یا ادھوان) کو کھینچ کر چارپائی کسی جاتی تھی ۔ اس سے انگریزی محاورہ بنا
Good night, sleep tight

4000 سال قبل شہر بابل میں بیٹی کی شادی کے بعد لڑکی کا باپ ایک ماہ تک اپنے داماد کو شہد سے بنی شراب مہیاء کرتا تھا ۔ مہینے چونکہ چاند کے حساب سے یعنی قمری ہوا کرتے تھے تو اسے لوگ شہد کا چاند (honeymoon) کہنے لگے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئےآمنہ مسعود جنجوعی کی تحریر ”انصاف کیلئے جد و جہد

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ہو سکتا ہے ؟

ہو سکتا ہے کہ میں آنسو نہ بہاؤں لیکن تکلیف تو مجھے ہوتی ہے

ہو سکتا ہے کہ میں خاموش رہوں لیکن فکر تو میں کرتا ہوں

ہو سکتا ہے کہ میں اظہار نہ کروں لیکن پرواہ تو میں کرتا ہوں

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ سوا 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئےآمنہ مسعود جنجوعی کی تحریر ”انصاف کیلئے جد و جہد

ڈیجِٹل نظام اور ہم

محمد ریاض شاہد صاحب نے ”طرزِ کُہن پہ اُڑنا“ کے عنوان سے لکھا ۔ میں متعدد بار اپنی معذوری کا اظہار کر چکا ہوں کہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد سے میر ے دماغ کا سوچنے والا حصہ مفلوج ہو چکا ہے چنانچہ میں کچھ بھی سوچ نہیں سکتا لیکن جونہی میں نے تبصرہ کے خانہ میں اظہار خیال شروع کیا قادرِ مطلق نے میرے ساتھ بیتے کچھ واقعات ذہن میں زندہ کر دیئے اور میں نے طوالت کے باعث باقاعدہ تحریر شائع کرنے کا قصد کیا

محمد ریاض صاحب نے تو ڈیجِٹل نظام (Digital System) کی بات کی ہے جسے کمپیٹرائزڈ نظام (Computerised System) بھی کہا جا سکتا ہے ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے ہموطن خواہ کتنے ہی پڑے لکھے اور جہاں دیدہ کیوں نہ ہوں وطنِ عزیز میں کوئی باربط نظام چلنے نہیں دیتے ۔ اس کی وضاحت کیلئے میں اپنے ساتھ بیتے صرف 3 واقعات بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں

نظام ضبط مواد (Material Control System)

محکمہ فنی تعلیم میں بڑی باعزت اور شاہانہ ملازمت چھوڑ کر یکم مئی 1963ء کو میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف)۔ واہ چھاؤنی میں ملازمت اسلئے اختیار کی کہ انجنیئرنگ میں عملی تجربہ حصول کے بعد اللہ کریم کی عطا کردہ صلاحیت کو استعمال کر کے اپنی قوم کے کم از کم ایک شعبہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی اپنی سی کوشش کروں ۔ شروع کے 8 ماہ ہی میں اللہ کے فضل سے میری محنت کو پذیرائی ملی اور مجھے پی او ایف کے ایک نہائت اہم پروجیکٹ (رائفل جی 3) کی ڈویلوپمنٹ پر لگا دیا گیا ۔ جب کام پیداوار (production) کے قریب پہنچا (1965ء) تو میں نے اپنے سے سینیئر افسر (جو کہ اس پروجیکٹ کا سربراہ تھا) سے پوچھا ”یہ سب مٹیریئل ۔ ٹولز ۔ فکسچرز ۔ وغیرہ کہاں سے آتے ہیں اور اس کا کیا طریقہ کار ہے ؟“
اُنہوں نے سب سے سینیئر فورمین سے رابطہ کرنے کا کہا ۔ میں نے اُن صاحب کے پاس جا کر یہی سوال پوچھا تو جواب ملا ”سٹور سے“۔
میں نے استفسار کیا ”سٹور میں کہاں سے آتا ہے ؟” جواب ملا ”نیوٹن بُوتھ نے برطانیہ سے منگوایا تھا
میں گہری ٹھنڈی سانس بھرنے کے سوا کیا کر سکتا تھا ۔ نیوٹن بُوتھ کو واپس برطانیہ گئے کئی سال گذر چکے تھے ۔ شاید 1956ء میں واہ چھاؤنی میں پہلی 4 فیکٹریوں میں کام شروع ہونے پر ان کا ٹیکنیکل سربراہ ہونے کے ناطے نیوٹن بُوتھ صاحب نے یہ سب کچھ دساور سے منگوایا تھا

میں نے معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ایک ماہ کی پوچھ گچھ اور دماغ سوزی کے بعد ایک نظام تیار کیا ۔ یہ وقت کی قید کے ساتھ ایک مربوط نظام تھا کہ مستقبل کی ضروریات کیلئے کب خرید کا سوچ کر منظوری حاصل کرنا ہے کب بجٹ بنانا ہے کب پیشکشیں مانگنا اور آرڈر کرنا ہے ۔ مٹیریئل کی مقدار کا تخمینہ کیسے لگانا ہے جب مال آ جائے تو اُسے کیسے اور کہاں رکھنا ہے اور اس کا اجراء کیسے کرانا ہے ۔ میں نے مجوزہ نظام اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف کو پیش کیا جنہوں نے پڑھنے کے بعد ایک کمیٹی بنائی جس میں میرے ساتھ دیگر متعلقہ محکموں کے افسران لگا دیئے گئے ۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ شروع ہونے کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی ۔ اراکین کمیٹی نے بحث مباحثہ کے بعد نظام کی منظوری دی اور بڑے صاحب کی منظوری کے بعد نظام کے نفاذ کا حکمنامہ 1966ء میں جاری ہو گیا ۔ ٹیکنیکل چیف کی اشیر باد سے میں جس فیکٹری میں تھا وہاں میں نے پہلے ہی نفاذ شروع کر دیا تھا ۔ مجھے مئی 1976ء میں ایک دوست ملک کا ایڈوائزر بنا کر بھیج دیا گیا جہاں میں پونے سات سال رہا ۔ واپس آیا تو سب کچھ چوپٹ ہو چکا تھا

محکمہ اکاؤنٹس

اواخر 1985ء میں مجھے پی او ایف کے محکمہ منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز (ایم آئی ایس) میں جنرل منیجر تعینات کیا گیا ۔ میں نے 3 ماہ محکمہ کے کام اور گرد و پیش کا مطالعہ کیا ۔ محکمہ اکاؤنٹس والے ہر سال کئی ماہ ملازمین کے جنرل پراویڈنٹ فنڈ (جی پی فنڈ) کی ضربوں تقسیموں میں گذارتے تھے ۔ میں نے جی پی فنڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا منصوبہ بنایا اور کنٹرولر آف اکاؤنٹس سے بات کی وہ خوش ہوئے کہ اس طرح اُن کے محکمہ کا جو وقت بچے گا اسے کسی اور بہتر کام پر لگایا جا سکے گا ۔ ایک ماہ میں پروگرام بنا کر ڈاٹا اَینٹری بھی کر دی گئی اور بطور نمونہ ایک ہارڈ کاپی بنا کر (پرنٹ لے کر) اُنہیں دے دیا گیا ۔ اگلے روز کنٹرولر آف اکاؤنٹس میرے پاس شکریہ ادا کرنے آئے تو میں نے کہا ”چلیئے آپ کو دکھاتے ہیں کہ اب یہ کام کتنا آسان ہو گیا ہے“۔ جب اُن کے متعلقہ محکمہ میں پہنچے تو ایک شخص دی گئی ہارڈ کاپی اپنی میز پر رکھے کیلکولیٹر سے کچھ حساب کتاب کر رہا ۔ اُسے پوچھا کہ ”کام سمجھ میں آ گیا ؟“ بولا ”ابھی تو میں کیلکولیشنز چیک کر رہا ہوں“۔

مٹیریئل رسد کا نظام (Material Receipt System)

چیئرمین پی او ایف بورڈ (لیفٹننٹ جنرل صبیح قمرالزمان) نے 1989ء میں کہا کہ”آپ کراچی چلے جائیں ۔ پاکستان مشین ٹولز فیکٹری کا مٹیریئل رسد کا نظام بہت اچھا ہے ۔ اس کا مطالعہ کر کے ہمارے ادارے کی ضروریات کے مطابق نظام وضع کریں جو بعد میں کمپیوٹراز بھی کیا جا سکے“۔ میں چلا گیا اور نظام کو اچھا پایا ۔ واپس آ کر پی او ایف کیلئے ایک جامع نظام تشکیل دیا اور چیئرمین صاحب کو پیش کر دیا ۔ اُنہوں نے اس کا جائزہ لینے کے بعد منظوری دے دی اور نفاذ کیلئے محکمہ سٹورز کو بھیجا جنہوں نے خدشات کا اظہار کیا ۔ چیئرمین صاحب نے ایک میٹنگ بُلائی جس میں محکمہ سٹورز کے سربراہ اور اُن کے ماتحت افسران کو مدعو کیا اور مجھے بھی بُلایا ۔ میٹنگ میں جو احساس میرے ذہن میں اُبھرا یہ تھا کہ کسی نے مجوزہ نظام کا مطالعہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی اور جمودِ ذہن کے باعث بے بنیاد خدشات ان الفاظ میں ظاہر کئے ”بہت مشکل ہو جائے گی“۔ ”ہم کئی دہائیوں کے آزمائے نظام پر کام کر رہے ہیں ۔ کہیں یہ نہ ہو جائے ۔ کہیں وہ نہ ہو جائے“۔ میٹنگ کے بعد چیئرمین صاحب نے مجھے دفتر میں آنے کا اشارہ کیا ۔ میں گیا تو بولے ”بھوپال صاحب ۔ اس قوم کیلئے آپ جتنی بھی محنت کریں بیکار ہے”۔

پاکستان کا مطلب کیا

شاید ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو گا جس نے ” پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الا اللہ“ نہ سُنا ہو ۔ ویسے چند لوگوں کو اس سے کچھ چِڑ بھی ہے کہ اُن کے خیال کے مطابق پاکستان شاید موج میلہ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا جہاں دین اسلام کا عمل دخل نہ ہو ۔ خیر مجھے اس سے بحث نہیں ہے لیکن اتنا واضح کر دوں کہ یہ جُملہ سامنے آتے ہی جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزی سے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گیا تھا اور ہر مسلمان عورت مرد لڑکی اور لڑکے کی زبان پر رواں ہو گیا تھا کیونکہ تمام مسلمان پاکستان کا مطلب یہی لیتے تھے

آج صرف یہ تاریخی حقیقت ایک بار پھر آشکار کرنا ہے کہ یہ نعرہ جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی اور جو پاکستان بننے پر مُنتج ہوا ۔ معرضِ وجود میں کیسے آیا تھا ؟

پروفیسر اصغر سودائی نے 1944ء میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی ”ترانۂ پاکستان”۔ یہ بے مثال طرح مصرع اسی نظم کا ہے ۔ یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے ۔ اسی لئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ تحریکِ پاکستان میں 25 فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے ۔ اصغر سودائی 1926ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا اور علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ لوگ اُنہیں “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا” بھی کہتے تھے ۔ اُنہیں ایک بار پوچھا گیا تھا کہ ”یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا ؟“ تو آپ نے فرمایا کہ “جب لوگ پوچھتے کہ مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے ؟ تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے“۔

ترانۂ پاکستان

شَب ظُلمت میں گزاری ہے ۔ اُٹھ وقتِ بیداری ہے
جنگِ شجاعت جاری ہے ۔ ۔ ۔ آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

ہادی و رہبر سرورِ دیں ۔ ۔ ۔ صاحبِ علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں ۔ ۔ ۔ احمد مُرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

چھوڑ تعلق داری چھوڑ ۔ اُٹھ محمود بُتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

جُرأت کی تصویر ہے تو ۔ ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

نغموں کا اعجاز یہی ۔ ۔ ۔ دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی ۔ ۔ ۔ وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

پنجابی ہو یا افغان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان ۔ ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

تجھ میں ہے خالد کا لہو ۔ تجھ میں ہے طارق کی نمُو
شیر کے بیٹے شیر ہے تُو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

مذہب ہو ۔ تہذیب کہ فن ۔ تیرا جُداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن ۔ ۔ ۔ غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

اے اصغر اللہ کرے ۔ ۔ ۔ ننھی کلی پروان چڑھے
پھول بنے خوشبو مہکے ۔ وقتِ دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ راحت

نیک کام کرنے سے دل کو 2 بار راحت ملتی ہے

ایک ۔ جب وہ کام کیا جاتا ہے
دو ۔ جب اس کام کا اَجر ملتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ سوا 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے The Reason Behind Terrorism