Category Archives: معاشرہ

انکوائری ۔ تفتیش

اس سلسہ میں 7 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“اور ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“لکھ چکا ہوں

ہمارے ہاں اول تو مجرم پکڑا ہی نہیں جاتا اور اگر پکڑا جائے تو اسے سزا نہیں ہوتی ۔ اس کی ایک مثال میں ” غیب سے مدد“ میں لکھ چکا ہوں کہ بندوقیں چوری کرنے والے کیسے رہا ہو گئے تھے ۔ اپنی تحریر ”پارسل“ میں لکڑی غائب ہونے کی انکوائری کا حال بھی لکھ چکا ہوں

آج میں ایسے 2 واقعات رقم کر رہا ہوں کہ جس تفتیش یا انکوائری میں بیان دینے والا میں خود تھا

یہ واقعہ ہے 1959ء کا جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں اور میرے 3 ہم جماعت لاہور شہر سے واپس ہوسٹل جا رہے تھے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک چوراہے پر سپاہی نے میرے ایک ہمجماعت کے بائیسائکل کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچا ۔ میرا ہمجماعت گر گیا اور اسے چوٹیں لگیں جس پر اس کا پولیس والے سے جھگڑا ہو گیا ۔ ہم آگے نکل چکے تھے واپس آ کر بیچ بچاؤ کی کوشش کی مگر پولیس والے کی منہ زوری کی وجہ سے بات بڑھ گئی ۔ اور پولیس والے بھی آ گئے اور ہمیں بھی ساتھ تھانے لیجانے لگے ۔ کافی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے جو ہماری حمائت میں ساتھ تھانے چلے گئے ۔ وہاں ہم چاروں کو پولیس والے تھانے میں لے گئے ۔ باقی لوگ بھی اندر جانا چاہتے تھے مگر اُنہیں دھکے دیئے گئے اور تھانے کا بڑا سا آہنی دروازہ بند کر دیا گیا ۔ ہمیں اندر لیجا کر ایک بنچ پر بٹھا دیا ۔ باہر لوگ نعرے لگاتے رہے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ پندرہ بیس منٹ بعد آوازیں کم ہونا شروع ہوئیں اور پنتالیس پچاس منٹ بعد شاید سب لوگ چلے گئے ۔ اس دوران ہم چاروں کو چالان تھما دیئے گئے کہ ہم ایک ایک بائیسائکل پر دو دو بیٹھے ہوئے تھے ۔ پولیس والے نے ہمیں روکا تو ہم نے اس کی مار پیٹ کی اور لوگوں نے چھڑایا ۔ حقیقت یہ تھی کہ پولیس والے نے ہمارے ہمجماعت کو مارا اور لوگوں نے چھڑایا تھا ۔ ہم 3 جب پہنچے تو لوگ ہمارے ہمجماعت کو بچا رہے تھے

ہم نے احتجاج کیا تو کہا گیا ”پہلے دستخط کر کے چالان وصول کریں اور پھر اس کے خلاف درخواست دیں ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ تھانیدار صاحب انکوائری کر رہے ہیں ۔ اپنے بیان لکھوائیں ۔ ہمیں ایک ایک کر کے بُلایا گیا ۔ میری باری آخر میں آئی ۔ میں نے جو دیکھا تھا بول دیا ۔ وہاں ایک پولیس والا بیان لکھ رہا تھا ۔ دستخط کرنے کیلئے مجھے بیان دیا گیا ۔ نیچے لکھا تھا ”میں نے پڑھا اور پڑھ کر قبول کیا”۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو پولیس والا بولا ”جو تم نے کہا وہ لکھا ہے ۔ دستخط کرو“۔ میں نے پڑھنا جاری رکھا تو اُس نے کاغذ میرے ہاتھ سے چھین کر پھاڑ دیا اور مجھے باہر نکال دیا ۔ بعد میں ایک ہمجماعت دوسرے کے ساتھ جھگڑنے لگا ”تم سب کچھ غلط مان کر آ گئے ہو“۔ جس کے ساتھ وہ جھگڑ رہا تھا اُس سے میں نے پوچھا ”آپ نے اپنے بیان پر دستخط کرنے سے پہلے اسے پڑھا تھا ؟“ وہ بولا ”نہیں“۔ سو بات واضح ہو گئی کہ میرے ہمجماعت بیان کچھ دے رہے تھے اور لکھا کچھ اور جا رہا تھا

دوسرا واقعہ 1973ء کا ہے جب میں ویپنز فیکٹری کا پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ فیکٹری کے گیٹ پر معمور فوجی نے ایک چپڑاسی کی پٹائی کر دی ۔ فیکٹری کے ورکر بھی اکٹھے ہوگئے ۔ مسئلہ بڑھ گیا ۔ میں نے جا کر بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا ۔ معاملے کی اعلٰی سطح کی انکوائری شروع ہوئی ۔ انکوائری افسر ایک کرنل تھے ۔ مجھے بھی بیان دینے کیلئے بُلایا گیا ۔ بیان کے بعد مجھ سے سوالات بھی پوچھے گئے ۔ دوسرے دن ٹائپ شُدہ بیان مجھے دستخط کرنے کیلئے دیا گیا ۔ ایک تو مجھے یہ تحریر اپنے بیان سے بہت زیادہ طویل لگ رہی تھی دوسرے نیچے لکھا تھا ”میں نے اپنا بیان پڑھ کر درست پایا“۔ میں نے بیان پڑھنا شروع کر دیا ۔ کرنل صاحب بولے ”جو آپ نے کہا وہی لکھا ہے ۔ دستخط کریں“۔ میں نے کہا ”میں پڑھے بغیر دستخط نہیں کروں گا“۔ کاغذات میرے ہاتھ سے چھین کر کہا ”آپ جا سکتے ہیں“۔

یو اے ای اور لبیا کیسے گیا

اس سلسلہ میں 6 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” اور ”کہانی کیا تھی“لکھ چکا ہوں

مئی 1975ء میں میں واہ چھاؤنی سے سرکاری کام کے سلسلہ میں راولپنڈی گیا ہوا تھا ۔ اہم کام سٹیٹ بنک میں تھا اسلئے پہلے وہاں جا کر متعلقہ افسر سے ملا ۔ اُس نے بتایا کہ بعد دوپہر 2 بجے تک کام ہو جائے گا سہ پہر 4 بجے تک لیجاجائیں ۔ میں کچھ کاموں سے فارغ ہو کر 4 بجے پہنچا تو ماتحت افسر نے بتایا کہ وزارتِ مالیات میں اچانک ایک اعلٰی سطح کی میٹنگ ہو گئی ہے اور صاحب وہاں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اُن کے دستخط ہونا باقی ہیں ۔ کچھ دیر بعد وہ کہنے لگا ”کوئی اور کام آپ نے کرنا ہے تو کر آئیں ۔ ہم تو روزانہ مغرب (6 بجے) کے بعد بھی یہیں ہوتے ہیں“۔ سب کام ختم کر کے میں سوا 6 بجے پہنچا اور مطلوبہ دستاویز لے لی ۔ ماتحت افسر نے راستے میں روک کر بتایا ”آپ کے ادارہ کے ایک افسر ایک گھنٹہ آپ کی انتظار میں بیٹھ کر گئے ہیں ۔ آپ منسٹری آف ڈیفینس میں سیکریٹری صاحب آپ کی انتظار میں ہیں“۔ میرے لئے یہ عجوبہ تھا کہ سیکریٹری صاحب بغیر پیشگی اطلاع کے میری انتظار میں بیٹھے ہیں

خیر میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ”منسٹری چلو“۔ ڈرائیور نے پریشان ہو کر کہا ”سر ۔ خیریت تو ہے ؟“ میں نے پتہ نہیں کہہ کر اُسے چلنے کا اشارہ کیا ۔ منسٹری کے گیٹ پر پہنچے تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوا جیسے میں ملک کا صدر یا وزیر اعظم تھا ۔ ایک صاحب مجھے ہاتھوں ہاتھ سیکریٹری صاحب کے دفتر لے گئے ۔ سیکریٹری صاحب نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ”آپ آئے نہیں ؟“۔ میں نے بتایا کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں مجھے کیوں بُلایا گیا ہے۔ اس پر سیکریٹری صاحب بولے ”کیا آپ نے فلاں کام نہیں کئے تھے اور فلاں رپورٹ نہیں لکھی تھی ؟“ میں نے ہاں میں جواب دیا تو بولے ”آپ نے پرسوں صبح سویرے ساڑھے 4 بجےیو اے ای روانہ ہونا ہے ۔ جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس جائیں میں نے اُنہیں سمجھا دیا ہے“۔

میں نے جوائنٹ سیکریٹری صاحب کو بتایا کہ میرا پاسپورٹ بھی بنوانا ہے ۔ وہ بولے ”فکر نہ کریں جتنا وقت آپ کی تلاش میں لگا اس دوران یہ انتظامات کر لئے تھے اب آپ کے کوائف درج کر کے فنانشل ایڈوائزر سے منظوری لے کر نوٹیفائی کرنا ہے ۔ ٹائپسٹ سارے چھٹی کر چکے تھے ۔ ڈپٹی سیکریٹری صاحب نے نوٹیفیکیشن ٹائپ کیا ۔ دستخط کئے اور سائکلوسٹائل کر کے 3 کاپیاں 8 بجے رات میرے ہاتھ پکڑائیں ۔ میں جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس گیا تو اُنہوں نے کہا ”امیریکن ایکسپرس میں آدمی آپ کی انتظار میں ہے ۔ اُس سے 500 ڈالر لیتے جائیں“۔

واپسی پر میں نے اس افسر کو اپنے ساتھ بٹھا لیا جو مجھے تلاش کرتا رہا تھا ۔ اُس نے بتایا ”سر ۔ بنیادی طور پر آپ نے جانا تھا بطور ٹیم لیڈر ۔ باقی فوجی افسران اور فوجی تھے ۔ پھر ٹیم بنائی گئی اور مجھے بطور آپ کے نائب کے اور آپ کی فیکٹری کے ایک مستری کو ڈالا گیا۔ جب جانے کے دن قریب آئے تو آپ کا نام غائب تھا اور سربراہ کے طور پر جوائنٹ سیکریٹری صاحب تھے اور اُن کی بیگم بھی جا رہی تھیں ۔ میٹنگ میں آتے ہی سیکریٹری صاحب نے کہا ”وہ ۔ وہ کہاں ہیں ؟ جس نے سارا کام کیا ہے ؟ اُس کے نام کے ساتھ ایک خاص لفظ ہے” ہمارے چیئرمین سمیت کوئی نہ بولا”۔ کرنل ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہا ”سر آپ مسٹر بھوپال کی بات کر رہے ہیں ؟ اس کا تو ٹیم میں نام ہی نہیں ہے”۔ سیکریٹری صاحب یہ کہتے ہوئے کانفرنس ہال سے اُٹھ کر چلے گئےکہ بھوپال کو لائیں جہاں کہیں بھی ہے ۔ میں اُس کے آنے تک یہیں ہوں ۔ آپ کو تلاش کرنے کی ڈیوٹی مجھے دی گئی ۔ میں نے آپ کے دفتر ٹیلیفون کیا تو پی اے نے بتایا کہ آپ راولپنڈی میں ہیں اور جہاں جہاں جائیں گے اُس کی تفصیل بتائی ۔ میں جہاں جاتا آپ وہاں سے جا چکے ہوتے ۔ آخر سٹیٹ بنک میں معلوم ہوا کہ آپ دوبارہ آئیں گے“۔

دوسرے دن صبح 8 بجے فوٹوگرافر میرے دفتر آیا اور میری تصویر کھینچ کر چلا گیا ۔ ایک ہیڈکلرک آیا اور ایک فارم پر میرے دستخط کروا کر لے گیا ۔ شام مغرب سے پہلے وہ مجھے میرا نیا پاسپورٹ دے گیا ۔ اگلے روز صبح ساڑھے 4 بجے جوائنٹ سیکریٹری اُن کی بیگم ۔ ایک کرنل ۔ مجھے ڈھونڈنے والا اسسٹنٹ منیجر اور میں چکلالہ سے سی 130 میں کوئٹہ روانہ ہوئے ۔ کوئٹہ سے 2 میجر اور کچھ فوجی سوار ہوئے اور ہم جا پہنچے دبئی ۔ پوری ٹیم میں صرف میں تھا جسے تمام تکنیکی معلومات تھیں ۔ فوجیوں نے ڈَیمنسٹریشن کا متعلقہ کام کرنا تھا لیکن تینوں فوجی افسروں نے کہا کہ میں ہی ساری مینجمنٹ کروں ۔ چنانچہ سب نے مل کر میری مدد کی اور دبئی کے چند فوجیوں نے بھی ہماری مدد کی جس کے نتیجہ میں اللہ نے ہمیں متعلقہ کام میں کامیاب فرمایا

لبیا بھی مجھے حکومت نے ہی بھیجا تھا جس کی کچھ اسی طرح کی کہانی ہے لیکن اُس میں مجھے نقصان یہ ہوا کہ مئی 1976ء سے مارچ 1983ء تک میری عدم موجودگی کو بہانہ بنا کر مجھے ترقی نہ دی گئی اور مجھ سے جونیئر 14 افسران کو ترقی دے کر مجھ سے سینیئر کر دیا گیا ۔ یہ خلافِ قانون تھا ۔ شاید اسی لئے مجھے اس کی خبر نہ ہونے دی گئی ۔ واپس آ کر میں نے اس کے خلاف اپیل کی مگر تحریری یاد دہانیوں کے باوجود سال بھر کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے سیکریٹری کو اپیل بھیجی ۔ منسٹری نے ہمارے ادارے سے پوچھا جس جواب سال بعد دیا گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔ پھر میں نے سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کر دیا جس کا فیصلہ 5 سال بعد 1991ء میں اس وقت ہوا جب میں ایل پی آر پر تھا ۔ ہمارے مُلک کا قانون ہے کہ ایل پی آر کے دوران مالی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں دوبارہ سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کروں تو پنشن میں فائدہ ہو جائے گا ۔ لیکن مجھ میں پھر 8 سال کے چکر میں پڑنے کی ہمت نہ تھی کیونکہ میرے والد صاحب پر فالج کا حملہ دوسری بار ہو چکا تھا اور مجھے سوائے ان کی تیمار داری کے کسی کا ہوش نہ تھا

میں پاگل ؟

کیا میں پاگل ہوں ؟

بتایئے جلدی بتایئے

کیا کہا ؟ ”نہیں“

اگر میں پاگل نہیں تو کیا وفاقی وزیرِ داخلہ ۔ وزیرِ داخلہ سندھ اور سارے پولیس والے پاگل ہیں
اگر وہ پاگل نہیں تو پھر یہ کیا ہے ؟

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس نعمت اللہ پر مشتمل بنچ کے سامنے 21 فروری 2013ء کو انسداد منشیات کی خصوصی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے دو قیدیوں کو پیش کیا گیا جنہوں نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی ۔ سماعت جاری تھی کہ اسی مقدمے میں مفرور مجرم معروف خان عدالت میں پیش ہوا اور سزا کیخلاف اپیل دائر کی ۔ عدالت کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ آئی جی آفس میں بطور پولیس اہلکار طویل عرصے سے کام کررہا ہے جس پر عدالت نے فوری طور پر اس کی گرفتاری کا حکم دیا

گھر کی مرغی ؟

اس سلسلہ کی 2 تحاریر ”گفتار و کردار“ اور ”پارسل“ لکھ چکا ہوں

سوال ہے کہ ” تعلیم یافتہ ذہین اور زِیرک جوان مُلک کیوں چھوڑ جاتے ہیں ؟“

محاورہ ہے ”گھر کی مرغی دال برابر“۔ ہونا چاہیئے تھا ”گھر کی دال باہر کی مُرغی کے برابر“۔
اپنے مُلک کے حکومتی نظام کو پَرکھیں تو گھر کی مُرغی دال سے بھی بہت کمتر درجہ میں چلی جاتی ہے ۔ 30 سالہ سرکاری اور 5 سالہ غیرسرکاری ملازمت میں میرے ساتھ کئی حوصلہ شکن واقعات پیش آئے ۔ بات سمجھنے کیلئے اُمید ہے کہ صرف ایک واقعہ کافی ہو گا

پس منظر
پاکستان نے 1966ء میں جرمن مشین گن المعروف مشین گن 42 بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی منصوبہ بندی ۔ نشو و نما اور پیداوار (Planning, development and production) کیلئے مجھے مقرر کیا گیا ۔ منصوبہ بندی کے دوران زمینی حقائق (ground realities) کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ جرمن مشین گن کی نالی کے سوراخ (Barrel bore) میں جھَریاں (grooves) بنی تھیں جن پر سخت کروم پلیٹنگ (hard chrome plating) کی جاتی تھی جس سے اس کی برداشتی زندگی (endurance life) زیادہ سے زیادہ 16000 کارتوس تک ہو جاتی تھی ۔ اگر سخت کروم پلیٹنگ نہ کی جائے تو برداشتی زندگی زیادہ سے زیادہ 6000 رہ جاتی تھی ۔ سوراخ میں کروم پلیٹنگ کرنا نہائت مشکل کام ہوتا ہے اور اس میں جرمنی کی ایک دوسری کمپنی مہارت رکھتی تھی جسے نالیاں تیار کرنے کے بعد بھیج دی جاتی تھیں ۔ مشین گن کی تیار نالیاں (finished barrels) کروم پلیٹنگ کے بعد 30 فیصد تک ناکارہ (reject) ہو جاتی تھیں ۔ سب سے بڑی بات کہ یہ کمپنی سوراخ میں کروم پلیٹنگ کی ٹیکنالوجی بیچنے کو تیار نہ تھی

ہم اگر ان کا پلانٹ پاکستان میں لگاتے تو ہر وقت اُن کے رحم و کرم پر ہوتے ۔ مزید یہ کہ کسی خرابی کی صورت میں اُن کے ماہرین کو جرمنی سے بُلانا پڑتا ۔ اس طرح خرچہ بھی بہت ہوتا اور وقت بھی ضائع ہوتا ۔ میں نے جرمن انجنئیروں سے بات کی کہ وہ کیوں دوسری کمپنی کے محتاج بنے ہوئے ہیں اور اس کا کوئی بہتر حل نہیں نکالتے ؟ اُنہوں نے بتایا کہ 25 سے 30 فیصد بنی بنائی نالیاں بیکار ہونا اُنہیں بہت کھلتا ہے اسلئے وہ پچھلے 5 سال سے سوراخ کا ڈیزائین بدل بدل کر تجربے کر چکے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوئی البتہ کوشش جاری ہے

میں نے الله سُبحانُهُ و تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت اور عِلم کو استعمال کرتے ہوئے سوراخ کا ایک ڈیزائن بنایا جس میں جھریوں کے کنارے ختم ہو گئے ۔ اس ڈیزائین کا نام میں نے پولی گون پروفائل (Polygon Profile) رکھا ۔ یہ ڈرائینگ میں نے جرمنی بھیجی کہ اس کے مطابق ایک کھونٹی (Mandrel) بنا کر بھیج دیں ۔ کچھ ماہ بعد اُنہوں نے کھونٹی بنا کر بھیجی اور اس سے بنی ہوئی چند نالیاں بھیجیں کہ ہم اُنہیں مشین گن میں لگا کر امتحانی فائرنگ (Test firing) کریں ۔ ہم نے خود بھی اس کھونٹی کے مطابق چند نالیاں بنائیں اور ان سب نالیوں کی امتحانی فائرنگ کروائی

امتحان لینے والے سینئر انسپکٹنگ آفیسر (ایس آئی او) میجر منیر اکبر ملک تھے جو مکینیکل انجنیئر تھے ۔ 2 روز بعد بہت خوش خوش آئے ۔ بڑے تپاک سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور بولے ” آپ کو تو سونے میں تولا جانا چاہیئے ۔ وَنڈر فُل وَنڈر فُل ۔ اچھا بتاؤ کتنے کارتوس فائر کئے ہوں گے ؟”۔ میں جو اس وقت شَشدر کھڑا تھا ڈرتے ڈرتے بولا ”12000 ؟” میجر صاحب بولے ”بس س س ؟؟؟ ادھر آؤ ۔ گلے ملو“۔ مجھے بھینچ کر فارغ ہوئے تو بولے ”18000 پلس“۔ اللہ کے فضل سے بغیر سخت کروم پلیٹنگ کے ہم نالی کی 3 گنا زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو کرومیئم پلیٹِڈ سے بھی 2000 زیادہ تھی

جرمنی کی جس کمپنی سے پاکستان نے مشین گن بنانے کا لائسنس لیا تھا اُن کے سربراہ اور ٹیکنیکل چیف جرمنی کی حکومت کے متعلقہ وزیر کو ساتھ لئے پاکستان پہنچ گئے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین جنرل اُمراؤ خان اُنہیں ساتھ لئے میرے پاس آئے اور مجھے کہا ” بھوپال یہ آپ کو لینے آئے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ کے پاس تو کئی ایسے آدمی ہیں ۔ ہمارے پاس صرف ایک ہے وہ بھی آپ لیجائیں گے تو ہم کیا کریں گے ۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟“ میں کہا ” آپ نے درست کہا ہے ۔ میں کہیں نہیں جاؤں گا“۔ میرا بنا ہوا ڈیزائین ہمیں لائسنس دینے والی کمپنی نے بھی اپنا لیا اور جرمن افواج کو میرے بنائے ڈیزائین کی مشین گن سپلائی ہونے لگی

اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے

میں نے کمانڈنٹ آئی ڈی اے (Inspection Depot Armament) کے نام معرفت سینئر انسپکٹنگ آفیسر خط لکھا ۔ جس میں ساری روئیداد لکھ کر درخواست کی کہ چیف انسپکٹر آرمامنٹ سے اس ڈرائینگ کی منظوری حاصل کی جائے ۔ کمانڈنٹ آئی ڈی اے نے اس خط کو زبردست قسم کی سفارش (recommendation) کے ساتھ آگے بھیجا ۔ ہفتہ بعد ایس آئی او ”جاہل نالائق” اور پتہ نہیں کیا کیا بولتے ہوئے بڑے پریشان میرے دفتر میں داخل ہوئے ۔ میں نے کھڑے ہو کر پوچھا ”خیریت ؟ کیا ہوا ؟ کسے گالیاں دے رہے ہیں ؟“۔ جواب ملا ”وہی جاہل جو آجکل چیف انسپکٹر آرمامنٹ ہے“۔ پھر ایس آئی او نے بتایا کہ ڈرائینگ اس اعتراض کے ساتھ واپس آ گئی تھی کہ صرف جرمنی کی کمپنی جن سے لائسنس لیا ہے کی ڈرائینگ کی منظوری دی جائے گی

ایک طرف میری محنت یا عزت تھی اور دوسری طرف ملک و قوم کا مفاد ۔ میں نے وہ ڈرائینگ جرمنی بھیج دی کہ اپنی طرف سے مجھے بھیجیں ۔ 2 ہفتے بعد جرمنی سے ایک انجنیئر پاکستان آ گیا ۔ وہ مجھے ملنے آیا اور کہا ”یہ ڈیزائین آپ نے بنایا ہے تو اسے اپنے نام سے کیوں رجسٹر نہیں کراتے ؟” میں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھایا تو اُس نے اپنی کمپنی کے نام سے بنی ہوئی وہی ڈرائینگ مجھے دے کر کہا ” کاش آپ جرمنی میں پیدا ہوئے ہوتے”۔

سال کے آخر میں میرے باس نے میری سالانہ رپورٹ میں لکھا
Not yet fit for promotion

پارسل

اس سلسہ کی پہلی تحریر ”گفتار و کردار“ لکھ چکا ہوں

بات ہے 1964ء کی ۔ میں اس زمانہ میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ ایک پروجیکٹ کی ڈویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ مجھے پروڈکشن کنٹرول کا کام بھی دے دیا گیا جن میں ایک دساور سے آنے والے سامان کو کھُلوانا اور سامان کی فہرست تیار کر کے اسے سٹور کے حوالے کرنا ہوتا تھا ۔ یہ کام میں نے ہر ورکشاپ کے فورمین صاحبان کے ذمہ لگا رکھا تھا ۔ سامان کی فہرست پر دستخط میں ہی کرتا تھا البتہ کوئی اہم بات ہو تو فورمین صاحبان بتا دیتے یا مجھے بُلا لیتے

ایک دن ایک اسسٹنٹ فورمین پریشان میرے پاس آیا اور سرگوشی میں بتایا کہ ”سامان میں سے شراب کی چند بوتلیں بھی نکلیں ہیں“۔ میں نے متعلقہ ورکشاپ میں جا کر فورمین سے پوچھا تو اُس نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ میں نے جا کر ورکس منیجر کو بتا دیا ۔ چند دن بعد مجھے ورکس منیجر نے کہا ”جرمن انجیئر جو آئے ہوئے ہیں اُن کی تھیں”۔ مگر میرا شک دُور نہ ہوا

کچھ ماہ بعد اسسٹنٹ سٹور ہولڈر جو براہِ راست میرے ماتحت کام کرتا تھا میرے پاس آیا ۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی ۔ میں نے خیریت پوچھی تو بولا ”صاحب ۔ ذرا میرے ساتھ میرے دفتر چلیئے“۔ میں اُس کے ساتھ چل پڑا ۔ اُس نے دفتر کا تالا کھولا ۔ ہم داخل ہوئے تو اس نے اندر سے کُنڈی لگا دی اور ڈبے کا ڈھکنا اُٹھایا ۔ اس میں بہت خوبصورت تہہ ہونے والی میز اور چار کرسیاں تھیں ۔ مال جرمنی سے آیا تھا ۔ میں نے حسبِ سابق ورکس منیجر صاحب کو بتا دیا ۔ کچھ دن بعد اُنہوں نے بتایا ”وہ میز کرسیاں ٹیکنیکل چیف کیلئے ہیں ۔ میں خود اُنہیں پہنچا دوں گا“۔ وہ جانیں اُن کا کام

تمام ادارے کی سالانہ جمع بندی (stock taking) ہوا کرتی تھی ۔ لکڑ شاپ (Wood Working Shop) میں کئی سو مکعب فٹ اچھی قسم کی بگھاری ہوئی (seasoned) دیودار لکڑی کم پائی گئی ۔ حسبِ دستور انکوائری ہوئی ۔ انکوائری کمیٹی میں ایک افسر میرا ہمسایہ اور میرا بَیچ فَیلو تھا ۔ انکوائری ہو چکی تو ایک دن میں نے پوچھا ”اتنی زیادہ لکڑی کہاں چلی گئی ؟“۔ سرگوشی میں بولا ”سرکاری ٹرکوں پر گئی ۔ اور کیسے جاتی ۔ ٹیکنیکل چیف کا مکان راولپنڈی میں بن رہا ہے ۔ خدمتگاروں نے بچی کھچی ناکارہ لکڑی (Scrap Wood) بتا کر گیٹ سے نکلوا دی“۔ میں نے پوچھا ”پھر آپ نے کیا لکھا ہے ؟“ بولے میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ سچ لکھ کر نوکری نہیں گنوا سکتا تھا“۔

پاکستان نہیں بننا چاہیئے تھا؟

دنیا کا سب سے بڑا مذہب غربت ہے ۔ یقین نہیں آتا تو اس عورت کا تعاقب کر کے دیکھیں جو سامنے ایک بھارتی شہر کے ریلوے سٹیشن پر گھوم رہی ہے ۔ وہ ایک مسلمان عورت ہے جس کا نام بیگم ہے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ریلوے اسٹیشن کے ٹوائلٹ میں داخل ہوگی اور جب باہر آئے گی تو اس کا نام بیگم کی بجائے لکشمی ہو گا، ماتھے پر سندور ہوگا ، ہاتھ میں چوڑیاں ،گلے میں منگل سوتر اور بدن پر ساڑھی…اللہ کے نام والا تعویز اس کے بازو پر نہیں ہوگا۔ اب وہ ایک روایتی شادی شدہ ہندو عورت ہے لیکن صرف صبح 9 سے شام 5 بجے تک ۔گھر واپس جا کر وہ دوبارہ اپنے مذہب میں ”داخل“ ہو جائے گی ۔ بیگم سے لکشمی تک کا سفر میرے اور آپ کے لئے تو شائد حیرت اور تکلیف کا باعث ہو مگر اس مسلمان عورت کے لئے نہیں جو ”سیکولر“ بھارت میں رہتی ہے اور جسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے ایک نوکری کی تلاش ہے ۔کئی برس ٹھوکریں کھانے کے باوجود جب بطور مسلمان اسے نوکری نہیں ملی تو اس کے غریب ذہن نے سمجھایا کہ اب ذرا ہندو بن کر بھی کوشش کرو ، اس نے یہی کیا اور کام بن گیا ۔ آج کل وہ ایک ہسپتال میں آیا ہے ۔ حال ہی میں ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے کہا ہے کہ” انہیں چند مزید لڑکیوں کی بھی ضرورت ہے مگر وہ مسلمان نہ ہوں ۔ اگر انہیں پتہ چل گیاکہ میں مسلمان ہوں تو وہ فوراً مجھے نوکری سے نکال دیں گے“۔

اس کے باوجود ہمارے سیکولر طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

جس ملک میں عورتیں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی مجبور ہوں کہ اپنا ہونے والا بچہ ”ایڈوانس“ پکڑ کر بیچ دیں اور یہ آپشن وہ تب استعمال کرتی ہوں جب ان کا اپنا خریدار کوئی نہ رہے،اس ملک میں کسی مسلمان عورت کا معمولی سی نوکری کی خاطر بھیس بدلنا تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں مسلمان صرف 3 فیصد ہیں ،انڈین فارن سروس میں 1.8 فیصد اور انڈین پولیس سروس میں 4 فیصد ۔ بھارتی ریلویز میں 14لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں صرف 64,000 مسلمان ہیں جو 4.8 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی 98.7 فیصد وہ ہیں جو نچلے درجے کے ملازمین میں شمار ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ،پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

حال ہی میں بھارت نے ایک مسلمان سید آصف ابراہیم کو انٹیلیجنس بیورو کا چیف مقرر کیا ۔ اس اقدام نے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کو بھنگڑے ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم دیا اور ان کی زنبیل میں ایک اور دلیل کا اضافہ ہو گیا ۔ بھارت کا (سابقہ) صدر مسلمان ، آئی بی کا چیف مسلمان ، فلم انڈسٹری کا بادشاہ مسلمان ۔ ”اب بھی کہتے ہو کہ پاکستان بننا چاہئیے تھا۔ you loosers “

بھارتی صدر تو خیر ایک رسمی سا عہدہ ہے جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ بھارت اس عہدے کو اپنا سیکولر امیج بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ بھارت کے جاسوسی ادارے میں مسلمان سربراہ کی تعیناتی 125 سال میں پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے اور اس کا مسلمانیت سے کتنا تعلق ہے ، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں میں 90 لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں دفاع کی تینوں ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔ ان میں سے جب 5 لاکھ 20 ہزار افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ ان ایجنسیوں میں مسلمان عہدے داروں کا تناسب فقط 3.6 فیصد ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین میں سے 4.6 فیصد مسلمان ہیں ۔ اوررہی بات فلم انڈسٹری کی تو جو لوگ شاہ رخ خان ،عامر خان اور سلمان خان کو سچ مچ کا مسلمان سمجھتے ہیں ان کے حق میں علامہ طاہر القادری سے دعا ہی کروائی جا سکتی ہے

اگراب بھی کسی سیکولر بھائی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا تو انہیں چاہئیے کہ فوراً ممبئی میں اپنا ایک فلیٹ بک کروا لیں لیکن خیال رکھیں کہ اس فلیٹ میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو کیونکہ ودیا بالن کے بھارت کی کل آبادی لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ہے جن میں سے نصف کو ٹوائلٹ کی سہولت ہی میسر نہیں ا ور مسز بالن اس ضمن میں بہت پریشان ہیں ۔ انہوں نے بھارتیوں کو شرم دلانے کے لئے ایک مہم بھی چلائی مگر بے سود ۔ بھارت ماتا میں 60کروڑ لوگ بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارتے ہیں ۔ جھارکنڈ، اڑیسہ اور بہار میں یہ شرح 75فیصد سے بھی زیادہ ہے اور ان تینوں ریاستوں کی کل آبادی پورے پاکستان کے برابر ہے ۔ بنگلور جسے بھارت کی سِلیکون ویلی کہا جاتا ہے ، بھارت کے ماتھے کا سندور ہے ۔ رات گئے جب 60 لاکھ آبادی کا یہ شہر سو جاتا ہے تو نچلی ذات کے ہندو جنہیں اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے 15000 کی تعداد میں نکلتے ہیں اور 60 لاکھ شہریوں کا گند صاف کرتے ہیں ۔ پورے بھارت مہان میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد سرکار کے مطابق 3 لاکھ جبکہ اصل میں 10 لاکھ کے قریب ہے اور یہ لوگ اوسطً 4 ڈالر یومیہ سے بھی کم کماتے ہیں ۔ بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی غربت ان اچھوتوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ بھارت کے وہ چھوٹے دیہات جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے (اکثریت نہیں ہے) ان میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی سکول ہی نہیں ہے ۔ اور ایسے بڑے دیہات جہاں مسلمان بستے ہیں ، ان میں سے 40 فیصد میں کسی بھی قسم کی کوئی صحت کی سہولت میسر نہیں ۔ یہ بیان مجھ جیسے کسی تنگ نظر مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کی مشہور زمانہ سچر کمیشن رپورٹ کا نتیجہ ہے ۔مگر کیا کریں . پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا ؟

پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنا مقصد ہے اور نہ مجھے اس بات پر ڈھول بجانے کا شوق ہے کہ اگر ہمارے ہاں 22.6 فیصد افراد 73 پنس یومیہ سے بھی کم آمدن رکھتے ہیں تو کیا ہوا، بھارت میں یہی شرح 41.6 فیصد ہے ۔ یہاں اگر بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر مرتے ہیں تو بھارت میں یہ شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لہذا ہمیں گھوڑے بیچ کر سو جانا چاہئے ۔ اگر پاکستان میں بچے 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں تو بھارت میں سالانہ 21 لاکھ بچے ایسے ہیں جو under weight پیدا ہوکر مرجاتے ہیں لہذا ہم پھر جیت گئے

جی نہیں ، ایسی جیت پر لعنت اور ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر پاکستان بنا کیا وہ نظریہ درست تھی ؟ نظریہ بڑا سادہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہے تو بطور اقلیت انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے ۔ اس بات کا تعین کرنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا بھارت کا ایک عام مسلمان پاکستانی مسلمان سے بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے ؟ پاکستان کی تمام جملہ خرابیوں کے باوجود ،جن میں زیادہ تر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہے اورجو فوجی آمریتوں کی دین ہے ، ایک عام پاکستانی کے حالات بھارتی مسلمان سے کہیں بہتر ہیں ۔ ہمیں صرف بھارتی فلم اور میڈیا کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے، یہ پتہ نہیں چلتا کہ سیکولر بھارت میں فقط ہندو ہی ”دبنگ“ ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم دھنیا پی کر سو جائے

جتنا جذبہ ہم بھارت کو کرکٹ کے میدان میں ہرانے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگر اس کا 10 فیصد بھی ہم دیگر شعبوں میں استعمال کریں تو
ہمارا بین الاقوامی امیج بھارت سے بہتر ہو جائے گا۔ بھارت کا امیج اس کی ”The Dirty Picture“کی وجہ سے بہتر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کی dirtiest pictureپینٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے وجود پر معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتے ہیں ، لاحول ولا۔

تحریر ۔ یاسر پیرزادہ

ایک پریشانی جوانی کی

پچھلے دنوں ارتقاءِ حیات پر استنجہ کے متعلق پڑھا تو مجھے پرانی بات یاد آئی

شروع مارچ 2012ء میں میرے ایک محترم قاری نے مجھے باعِلم اور بااعتماد ہونے کا اعزاز بخشا (جس کیلئے میں اُن کا ممنونِ احسان ہوں) اور اپنی ذاتی پریشانی سے متعلق مشورہ مانگا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُسے کامل شفاء و صحت عطا فرمائے

محترم قاری کی پریشانی
مجھے ایک عرصے سے ایک شک سا ہے جو دُور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا مطالعہ زیادہ ہے اس لیے تکلیف دے رہا ہوں۔ کبھی کبھار جنسی تحریک کی وجہ سے سفید رنگ کی رطوبت کا اخراج ہو جائے، میں منی کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہاں آخری لائن میں یہی سوال ہے ۔ سفید رنگ یا شفاف کہہ لیں قسم کا مادہ جو دودھیا نہیں ہوتا، کسی بھی قسم کے ارادی فعل کی وجہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ غیر ارادی انداز میں، غالباً اس کی وجہ کمزوری ہوتی ہے۔ کیا اس کے اخراج کے بعد غسل کرنا واجب ہے؟

میں نے جواب لکھا
“میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ ۔ سکول کالج وغیرہ میں سائنس پڑھی ہے ۔ اسلئے میں ہر معاملے کو سائنسی لحاظ سے پرکھتا ہوں ۔ کسی چیز یا معاملہ کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے یا محرکات کا ادراک ۔ منی کے خارج ہونے پر نہانا واجب ہے ۔ جس مادے کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا محرک وہی ہے جو منی خارج ہونے کا ہے پھر اس مادے کے اخراج پر نہانا واجب نہ ہو ۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے حرام اشیاء کا بتاتے ہوئے بتایا ہے “اور وہ چیز جس سے گھِن آ جائے” یعنی جی خراب ہو وہ بھی حرام ہے ۔ تو اس اصول سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ احتیاط لازم ہے ۔ اللہ مجھے سیدھی راہ پر قائم کرے”

جواب دینے کے بعد ایک نئے قاری نے میری ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر مدعو کیا جو اسی قسم کے دین کے متعلق وضاحتی سوالات و جوابات تھے ۔ میں نے موصوف کو متذکرہ بالا سوال لکھ بھیجا تو اُن کا مندرجہ ذیل جواب آیا جو وہ قبل ازیں کسی اور سائل کیلئے اپنی ویب سائٹ پر لکھ چکے تھے

موصوف کا جواب
ایک بھائی نے پہلے بھی مذی سے متعلق سوال کیا تھا۔ وہی آپ کو بھیج رہا ہوں۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذی یا ودی کے نکلنے سے غسل لازم نہیں ہوتا۔ صرف عضو تناسل کو دھونا اور وضو کرنا ہی لازم آتا ہے۔ غسل صرف اسی صورت میں واجب ہوتا ہے جب مادہ منویہ شہوت کے ساتھ نکلے

سوال جو اُن سے کیا گیا تھا ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات پیشاب کے بعد عضو سے ایک خاص قسم کی رطوبت جسے غالباً مذی کہا جاتا ہے خارج ہونے لگتی ہے اور یہ سلسلہ کچھ دیر تک وقفہ وقفہ سے جاری رہتا ہے جب دیکھ لیتا ہوں تو اسی وقت دھونے لگ جاتا ہوں مگر بعض اوقات معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہی رطوبت خارج ہوجاتی ہے اور پھر جلد ہی خشک ہوجاتی ہے تو براہ کرم اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ جب رطوبت خشک ہوجائے تو اس کو دھونے کی حاجت پڑتی ہے یا نہیں؟ میں اپنے اجتہاد کی بدولت خشک رطوبت جو کسی بھی صورت نظر نہیں آتی دھونے کی زحمت نہیں کرتا اور بار بار ڈریس بدلنے کی تکلیف سے جان چھڑانے کیلئے خشک ہونے کے بعد نہیں دھوتااور پھر مجھےمعلوم بھی نہیں ہوتا کہ رطوبت کہاں کہاں پر لگی ہے ۔۔۔۔براہ کرم آپ اس سلسلہ میں اپنا نقطہ نظر بیان فرمادیں

موصوف نے جو جواب دیا تھا ۔ یہ بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اسے مذی نہیں بلکہ ودی کہتے ہیں۔ مذی شہوت کے ساتھ نکلتی ہے جبکہ ودی پیشاب کے بعد آتی ہے۔ یہ دونوں ناپاک ہوتی ہیں۔ اس مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ آپ اپنے انڈر ویئر کے اندر مخصوص مقام پر ایک ٹشو پیپر یا چھوٹا سا کپڑا رکھ لیا کریں۔ جو ودی نکلے گی، وہ اس میں جذب ہوتی رہے گی اور آپ کا لباس محفوظ رہے گا۔ ہر نماز سے پہلے آپ اسے نکال دیں۔ اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”۔

میں نے اُنہیں لکھا
مندرجہ ذیل استدلال میرے دماغ میں نہیں گھُس رہا
“اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”
میرے مطالعہ اور تعلیم کے مطابق
اوّل ۔ مٹی کا استعمال اس وقت کافی ہے جب پانی میسّر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے صحت بگڑنے کا اندیشہ ہو
دوم ۔ مٹی کے ڈھلے سے خود صاف کرنے اور سامنے ٹِشُو پیپر رکھ دینے میں فرق ہے ۔ ٹِشُو رطوبت کو چُوس کر عضوء کی بیرونی سطح پر پہنچا دے گا جس کے باعث دھونا واجب ہو جاتا ہے ۔ یہ ٹِشُو جب گیلا ہو گا تو انڈر ویئر کو بھی گیلا نہیں کرے گا اس کا کیا ثبوت ہے ؟

موصوف کا جواب آیا
دین میں اتنی سختی نہیں ہے کہ انسان کی زندگی مشکل بن جائے۔ عہد رسالت میں پانی ذرا مشکل سے دستیاب ہوتا تھا اس وجہ سے عام طور پر لوگ استنجا کے لیے ڈھیلے ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ پانی سے دھونا ایک اضافی چیز تھی جسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اگر ٹشو سے احتمال ہو کہ یہ نجاست کو پھیلا دے گا تو پھر میں آپ سے متفق ہوں کہ دھونا ضروری ہے۔ ویسے اب اس قسم کے ٹشو آ گئے ہیں جو نجاست کو پھیلاتے نہیں ہیں بلکہ اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ انڈر ویئر کو گیلا کرنے کے معاملے میں بھی احتیاط کی جا سکتی ہے۔ مذی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ پیشاب کی طرح ہر چیز کو گیلا کر دے۔ ایک آدھ قطرہ ہی ہوتا ہے جو اگر مناسب انداز میں تہہ کیے ہوئے ٹشو ہوں تو انڈر ویئر کو متاثر نہیں کرتے۔ اس معاملے میں میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ دیگر اہل علم سے بھی ڈسکس کر لیجیے اور پھر جس رائے پر آپ کا ذہن مطمئن ہو، اسے اختیار کر لیجیے۔ اصل چیز ہمارا اطمینان ہے۔ اگر میری رائے سے آپ کا اطمینان نہیں ہو رہا تو آپ بلا تکلف وہ رائے اختیار کیجیے جس پر آپ کا اطمینان ہو۔ ہم میں سے کوئی بھی معصوم پیغمبر نہیں ہے اور غلطی کر سکتا ہے”۔

میں نے لکھا
قبل اس کے کہ میں مزید کچھ لکھوں میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں
میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ . میں طالب علم ہوں اور پچھلی سات دہائیوں سے علم سیکھنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہوں . میں عملی زندگی میں یقین رکھتا ہوں اور دوسرے فرد سے وہی کہتا ہوں جس پر میں خود عمل کروں
میں آپ سے اختلاف کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ مجھ سے پوچھے جانے والے یا اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جواب ڈھونڈ رہا ہوں
بلا شُبہ دین میں سختی نہیں ہے . سختی کی تعریف ذرا مُشکل ہے . آدمی سے آدمی تک بدل سکتی ہے اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق بھی بدلی جاتی ہے
میں ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں . مجھے سات سال قبل زمین پر بیٹھنے اور جھُکنے سے منع کر دیا گیا . میں نے فرض کے سامنے اس عُذر کو چھوٹا سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کیا اور تکلیف برداشت کرتا رہا جو میری برداشت سے باہر نہ تھی ۔ ساڑھے تین سال قبل میں نے زمین پر بیٹھنا اور جھُکنا چھوڑ دیا ۔ تب سے میں کُرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں ۔ ایسا میں نے “دین میں سختی نہیں ہے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا
اب آتے ہیں ٹِشو پیپر کے استعمال کی طرف
ٹِشو پیپر جہاں آدمی رکھے گا کیا وہ بعین ہی وہیں رہے گا ؟
درست کہ آجکل بہت اچھے جاذب ٹشو پیپر ملتے ہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ٹی وی کے اشتہار والا وہ پیمپر بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتا جو سوتے بچے کا سارا پیشاب یوں جذب کر لیتا ہے کہ بچہ گیلا نہیں ہوتا
مٹی سے صاف کرنے کے بعد پانی سے دھونا اضافی کیسے ہوا ؟ از راہِ کرم اس کا حوالہ قرآن یا حدیث یا صحابہ کرام یا تابعین سے دیجئے
مذی یا مدی کی مقدار جس کا ذکر ہوا وہ اتنی تھی کہ کپڑوں کو لگ جائے
آپ کے اس استدال سے میں متفق ہوں کہ وہی اختیار کیا جائے جس سے اطمینان ہو

موصوف کا جواب آیا
مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا تو معروف عمل ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی “کتاب الطہارۃ” دیکھ لیجیے۔ اس پر بہت سی احادیث مل جائیں گی جن میں پتھروں سے استنجا کا عمل بیان ہوا ہے۔ ان سب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربوں کے ہاں عام پریکٹس تھی۔

میں نے اُنہیں لکھ بھیجا
میں نے صرف مجموعہ حدیث مسلم سے چند حوالے دیئے ہیں ۔ مزید مسلم میں اور بخاری میں بہت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مٹی صرف مجبوری کی حالت میں استعمال کی جائے

References From Hadith Muslim
Chapter# 45, Book 7, Number : 2941
Kuraib, the freed slave of Ibn Abbas, narrated from Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) that he had heard him saying: Allah’s Messenger (may peace be upon him) proceeded from Arafa, and as he approached the creek of a hill he got down (from his camel) and urinated, and then performed a light ablution. I said to him: Prayer, whereupon he said: The prayer awaits you (at Muzdalifa) So he rode again, and as he came to Muzdalifa, he got down and performed ablution well. Then Iqima was pronounced for prayer and he ‘observed the sunset prayer. Then every person made his camel kneel down there, and then Iqama was pronounced for ‘Isha’ prayer and he observed it, and he (the Holy Prophet) did not observe any prayer (either Sunan or Nawifil) in between them (He observed the Fard of sunset and ‘Isha’ prayers successively

Book 7, Number: 2943
Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) narrated: Allah’s Messenger (may peace be upon him) was on his way back from ‘Arafat and as he reached the creek (of a hillock) he got down and urinated (Usama did not say that he poured water), but said: He (the Holy Prophet) called for water and performed ablution, but it was not a thorough one. I said: Messenger of Allah, the prayer! Thereupon he said: Prayer awaits you ahead (at Muzdalifa). He then proceeded, until he reached Muzdalifa and observed sunset and ‘Isha’ prayers (together) there.

Book 4, Number: 1671
Ibn ‘Abbas reported: I spent a night with my maternal aunt (sister of my mother) Maimuna. The Apostle of Allah (may peace be upon him) got up during the night and relieved himself, then washed his face and hands and went to sleep. He then got up again, and came to the water skin and loosened its straps, then performed good ablution between the two extremes. He then stood up and observed prayer. (I also stood up and stretched my body fearing that he might be under the impression that I was there to find out what he did at night). So I also performed ablution and stood up to pray, but I stood on his left. He took hold of my hand and made me go round to his right side. The Messenger of Allah (may peace be upon him) completed thirteen rak’abs of his night prayer. He then lay down and slept and snored (and it was his habit to snore while asleep). Then Bilal came and he informed him about the prayer. He (the Holy Prophet) then stood up for prayer and did not perform ablution, and his supplication included there words:” O Allah, place light in my heart, light in my sight, light in my hearing, light on my right hand light on my left hand, light above me, light below me, light in front of me light behind me, and enhance light for me.” Kuraib (the narrator) said There are seven (words more) which are in my heart (but I cannot recall them and I met some of the descendants of ‘Abbas and they narrated these words to me and mentioned in them: (Light) in my sinew, in my flesh, in my blood, in my hair, in my skin, and made a mention of two more things”.

اُنہوں نے جواب دیا

Thanks for sharing Ahadith. I shall look into them and if found convincing evidence, will change my views. Anyway, thanks for sharing.

اُس وقت حدیث کا حوالہ تھا تو حدیث سے ہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن شریف کو بیچ میں لانا مناسب نہ سمجھا تھا ۔ اب یہ 2 حوالے ضروری سجمھتا ہوں

سورت 4 النّسآء ۔ آیت 43 ۔ اے ایمان والو ۔ تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے
سورت 6 المآئدۃ ۔ آیت 6 ۔ اے ایمان والو! جب نماز کیلئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ۔ پس اس سے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کر لو ۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ

تبصرہ بلاگر ۔ سورت المآئدہ کی آیت 6 کے آخر میں اللہ کا فرمان ہے ”اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے“۔ لیکن اس سے پہلے جو اللہ کا فرمان ہے اس پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ نرمی بحالتِ مجبوری ہے نہ کہ اپنی مرضی سے جو چاہا نرمی کے تحت کر لیا