پارسل

اس سلسہ کی پہلی تحریر ”گفتار و کردار“ لکھ چکا ہوں

بات ہے 1964ء کی ۔ میں اس زمانہ میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ ایک پروجیکٹ کی ڈویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ مجھے پروڈکشن کنٹرول کا کام بھی دے دیا گیا جن میں ایک دساور سے آنے والے سامان کو کھُلوانا اور سامان کی فہرست تیار کر کے اسے سٹور کے حوالے کرنا ہوتا تھا ۔ یہ کام میں نے ہر ورکشاپ کے فورمین صاحبان کے ذمہ لگا رکھا تھا ۔ سامان کی فہرست پر دستخط میں ہی کرتا تھا البتہ کوئی اہم بات ہو تو فورمین صاحبان بتا دیتے یا مجھے بُلا لیتے

ایک دن ایک اسسٹنٹ فورمین پریشان میرے پاس آیا اور سرگوشی میں بتایا کہ ”سامان میں سے شراب کی چند بوتلیں بھی نکلیں ہیں“۔ میں نے متعلقہ ورکشاپ میں جا کر فورمین سے پوچھا تو اُس نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ میں نے جا کر ورکس منیجر کو بتا دیا ۔ چند دن بعد مجھے ورکس منیجر نے کہا ”جرمن انجیئر جو آئے ہوئے ہیں اُن کی تھیں”۔ مگر میرا شک دُور نہ ہوا

کچھ ماہ بعد اسسٹنٹ سٹور ہولڈر جو براہِ راست میرے ماتحت کام کرتا تھا میرے پاس آیا ۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی ۔ میں نے خیریت پوچھی تو بولا ”صاحب ۔ ذرا میرے ساتھ میرے دفتر چلیئے“۔ میں اُس کے ساتھ چل پڑا ۔ اُس نے دفتر کا تالا کھولا ۔ ہم داخل ہوئے تو اس نے اندر سے کُنڈی لگا دی اور ڈبے کا ڈھکنا اُٹھایا ۔ اس میں بہت خوبصورت تہہ ہونے والی میز اور چار کرسیاں تھیں ۔ مال جرمنی سے آیا تھا ۔ میں نے حسبِ سابق ورکس منیجر صاحب کو بتا دیا ۔ کچھ دن بعد اُنہوں نے بتایا ”وہ میز کرسیاں ٹیکنیکل چیف کیلئے ہیں ۔ میں خود اُنہیں پہنچا دوں گا“۔ وہ جانیں اُن کا کام

تمام ادارے کی سالانہ جمع بندی (stock taking) ہوا کرتی تھی ۔ لکڑ شاپ (Wood Working Shop) میں کئی سو مکعب فٹ اچھی قسم کی بگھاری ہوئی (seasoned) دیودار لکڑی کم پائی گئی ۔ حسبِ دستور انکوائری ہوئی ۔ انکوائری کمیٹی میں ایک افسر میرا ہمسایہ اور میرا بَیچ فَیلو تھا ۔ انکوائری ہو چکی تو ایک دن میں نے پوچھا ”اتنی زیادہ لکڑی کہاں چلی گئی ؟“۔ سرگوشی میں بولا ”سرکاری ٹرکوں پر گئی ۔ اور کیسے جاتی ۔ ٹیکنیکل چیف کا مکان راولپنڈی میں بن رہا ہے ۔ خدمتگاروں نے بچی کھچی ناکارہ لکڑی (Scrap Wood) بتا کر گیٹ سے نکلوا دی“۔ میں نے پوچھا ”پھر آپ نے کیا لکھا ہے ؟“ بولے میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ سچ لکھ کر نوکری نہیں گنوا سکتا تھا“۔

This entry was posted in تاریخ, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

7 thoughts on “پارسل

  1. میرا پاکستان

    “ بولے میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ سچ لکھ کر نوکری نہیں گنوا سکتا تھا“ یہی خوف ہر آدمی کو برائی کا مقابلہ کرنے سے روکتا ہے۔ ہر آدمی کو اگر تحفظ مل جائے تو کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ ویسے سوچنے والی بات ہے کرپشن ہوتے دیکھ کر آنکھیں بند کرنے والے کیا مجرم نہیں‌ہوتے اور کیا وہ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گے۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    افضل صاحب
    آپ نے ایک ہی سانس میں دو بالکل متضاد رائے دی ہیں ۔ دیکھنے والوں میں میں بھی شامل ہوں جس سے افسران زیادہ تر ناراض ہی رہے ۔ اللہ کا شُکر ہے کہ اُس نے میرا یقین اپنے پر کامل رکھا کہ رازق وہی ہے اور میں نے ایسے معاملات میں صرف زبانی ہی نہیں لکھ کر بھی رخنہ ڈالا ۔ میں نمونے کیلئے اپنے ساتھ پیش آئے ہوئے واقعات میں سے ہر قسم کا صرف ایک واقعہ اور وہ بھی خاص قسم کا لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ دیکھتے جایئے ۔ ویسے علامہ نے فرمایا ہے
    کافر ہے تو کرتا ہے شمشیر پہ بھروسہ
    مسلم ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
    کوئی اللہ پر بھوسہ کر کے تو دیکھے

  3. نورمحمد

    میں نے پوچھا ”پھر آپ نے کیا لکھا ہے ؟“ بولے میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ سچ لکھ کر نوکری نہیں گنوا سکتا تھا“۔

    پاکستانی صاحب ۔ ۔ ۔

    بیچارہ کر بھی کیا سکتا تھا۔۔ اگر وہ کہیں اس بارہ میں شکایت بھی کرتا تو کیا اس شکایت پر کچھ ایکشن لیا جاتا ۔۔ ۔ یا ۔۔ ۔۔ شکایت کنندہ کو ہی ایکشن کا جواب ملتا ؟‌؟‌‌؟

  4. وہاج الدین احمد

    ‘میں بال بچے دار آدمی ہوں’
    اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ، ۔۔” اے ایمان والو تمھاری ازواج اور اولاد میں سے کچھ تمھارے دشمن ہیں سو ان سے بچ کے رہو۔۔۔۔” آیہ 14 سورہ منافقون اور آیہ 15 میں مال اور اولاد کو ‘فتنہ کہا ہے
    میرا خیا ل یہی ہے کہ ازواج اور اولاد کا خیال ہمیں اللہ کے بتاءے ہوئے راستے سے کترانے پر مجبور کرتا ہے اسی لئے انھیں دشمن اور فتنہ یعنی آزمائش کہا جا رہا ہے،پھر سورہ تغابن میں بھی ایسا ہی مضمون ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.