Category Archives: سیاست

ميرا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے

امريکا کے عراق ۔ پھر افغانستان اور اُس کے بعد لبيا پر حملوں کا جواز انسانی ہمدردی اور جمہوری ترجيح کو بتايا جاتا ہے ليکن حقيقت ميں يہ سب کچھ صرف مال جمع کرنے کے لالچ سے زيادہ کچھ نہيں اور يہ کوئی نئی بات نہيں امريکا ہميشہ سے ايسا ہی کرتا آيا ہے

ميرے اس خيال کا ايک اور ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالی نے مہياء کر ديا ہے ۔ پڑھنا جاری رکھيئے

امریکا میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جسے اس روئے زمین کا سب سے زیادہ ”خطرناک اور حساس “ انکشاف قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکا نے 1930ء میں برطانیہ پر کیمیائی ہتھیاروں اور بمباری کا بڑا منصوبہ بنایا تھا

برطانیہ کے خلاف جنگ کا یہ خفیہ منصوبہ چینل 5 پر پہلی بار ڈاکیو منٹری کی صورت میں سامنے آیا ہے جسے امریکی فوج کا اب تک کا سب سے خفیہ اور حساس منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ خفیہ دستاویز کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کیلئے 570 ملين [5 کروڑ 70 لاکھ] ڈالر کی رقم بھی مختص کی گئی تھی جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی

سُرخ مملکت پر جنگ [General Douglas MacArthur] کے نام سے بنائے گئے اس منصوبے میں کینیڈا اوردیگر اہم جگہوں پر موجود برطانوی فوجی اڈوں اور صنعتی اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنانا شامل تھا ۔ دستاویز کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی منصوبے کا حصہ تھا

اس خفیہ منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر کسی چھوٹے موٹے فوجی افسر کے نہیں بلکہ اس زمانے کے افسانوی غازی [Legend] سمجھے جانے والے جنرل ڈگلس ميک آرتھر [War on the Red Empire] کے دستخط ہیں

امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق 1930ء میں امریکی معیشت کی اَبتری اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کے باعث امریکی حکام ایسا منصوبہ بنانے پرمجبورہوئے

تفصيل يہاں کلِک کر کے پڑھيئے

آزاد دنيا اور اس کا ميڈيا

6 ہفتے قبل ايک غير مُسلم گورے نے اوسلو [ناروے] ميں پہلے بم دھماکہ کيا اور پھر ڈيڑھ گھنٹہ فائرنگ کرتا رہا جس کے نتيجہ ميں 93 افراد ہلاک ہوئے ۔ اُس کے متعلق ميڈيا نے کيا کہا

رائٹر نے کہا ۔ حملہ آور [an ‘Assailant’, ‘Attacker’]
بی بی سی نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
سی اين اين نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
الجزيزہ نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
امريکا کا سرکاری بيان ۔ زيادتی کا عمل[an ‘Act of Violence’]

26 دن قبل امريکی ریاست اوہائیو کے کوہلی ٹاؤن شپ کے علاقے میں ایک مسلح شخص [غير مُسلم گورے] نے پہلے اپنی گرل فرینڈ کو گولی ماری ۔ اس کے بعد وہ اپنے محلے میں واقع ایک گھر میں داخل ہوا جہاں اس نے اپنی گرل فرینڈ کے بھائی سمیت 6 افراد کو ہلاک کيا ۔ ملزم فائرنگ کرتے ہوئے ایک اور گھر میں داخل ہوا جہاں فائرنگ سے اس نے ایک اور شخص کو ہلاک کر ديا ۔ ہلاک ہونے والوں ميں ايک 11 سالہ لڑکا بھی شامل ہے ۔ اسے کسی نے دہشتگردی تو کيا انتہاء پسندی بھی نہيں کہا ۔ پولیس کے مطابق واقعہ گھریلوں تنازع کا شاخسانہ ہے اور ميڈيا نے بھی اسے ذاتی معاملہ قرار ديا

25 دن قبل جو فساد برطانيہ ميں شروع ہوا اُسے بھی کسی نے دہشگردی يا انتہاء پسندی نہيں کہا

کيا دہشتگرد کا لفظ صرف مسلمانوں کيلئے مخصوص ہے ؟
کيا يہ صريح منافقت نہيں ہے ؟

اس نام نہاد آزاد دنيا کی چکا چوند ميں عقل کھونے والے مسلمانوں ۔ ہوش ميں آؤ

نئے صوبے ۔ چند حقائق

جب 1965ء کی جنگ ميں پورے پاکستان کے مسلمانوں نے ثابت کر ديا کہ ہم ايک ہيں نہ کوئی بنگالی ہے نہ پنجابی نہ کوئی سندھی ہے نہ بلوچی نہ کوئی پختون ہے نہ کشميری تو مطلب پرست لوگوں نے بنگالی اور پنجابی کا فتنہ کھڑا کيا اور نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام کے بھی ايک بڑے حصے کی عقل پر پانی پھر گيا اور لطيفے جو پہلے سکھوں کے ہوتے تھے بنگاليوں کے بنانے شروع کئے اور جرائد ميں چھپنے بھی شروع ہو گئے ۔ جائز مطالبات کو پسِ پُشت ڈال کر زور دار سے گٹھ جوڑ کيا گيا اور نتيجہ بنگلہ ديش کی صورت ميں نکلا

اس سے سبق سيکھنے کی بجائے مزيد قدم آگے بڑھنے لگے اور سندھی ۔ مہاجر ۔ پنجابی ۔ پختون اور بلوچ کے نعرے بلند کئے جانے لگے ۔ صوبہ سرحد جس ميں رہنے والوں کی اکثريت پختون نہيں ہے کو ذاتی مقاصد کيلئے پختون خوا کا نام دے کر لسانيت کو اُجاگر کيا گيا ۔ ہوس کی پياس پھر بھی نہ بُجھی تو سرائيکی اور ہزارہ کے نعرے بلند کرنا شروع کر ديئے

کچھ لوگ بڑے کرّ و فر سے پنجاب ميں کئی صوبے بنانے کا غوغا کرتے رہتے ہيں جس کيلئے بڑی بڑی دليليں دی جاتی ہيں جن ميں ايک “پنجاب کھا گيا” بھی ہے ۔ ماہِ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے وفاقی حکومت کے ترجمان نے صدرِ پاکستان کی طرف سے سرائيکی صوبہ کے حوالے سے خوشخبری کی پيشين گوئی کی تھی اور چند روز قبل اسی سلسلہ ميں صوبہ پنجاب کی اسمبلی ميں حزبِ اختلاف نے ہنگامہ کيا ۔ کوئی اتنا بھی نہيں سوچتا کہ نہ صرف پاکستان کا آئين تبديل کرنا ہو گا بلکہ اس سے قبل لازم ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثريت سے منظوری دے

پنجاب کے ٹکڑے کرنے کے بعد کيا ہو گا اس پر کسی نے نہ سوچا ہے اور نہ سوچيں گے کيونکہ ہماری اکثريت کو ناک سے آگے ديکھنے کی کبھی فرصت ہی نہيں ملی ۔ کسی وجہ سے کوئی نعرہ زبان پر چڑھ جائے تو اسےلے اُڑتے ہيں ۔ دوسرے ممالک 50 سالہ منصوبہ بندی کرتے ہيں اور ترقی کا زينہ طے کرتے بلندی پر پہنچ گئے ہيں يا پہنچنے کے قريب ہيں ۔ وہ ممالک بھی جو 4 دہائياں قبل پاکستان کے دستِ نگر تھے آج پاکستان سے بہت آگے ہيں ۔ ان ميں شمالی کوريا قابلِ ذکر ہے ۔ ہم کم از کم پچھلی 4 دہائيوں سے “ڈھنگ ٹپاؤ” سے آگے نہيں بڑھے کيونکہ ہماری سوچ اپنے پيٹ اور دوسرے کی جيب سے آگے نہيں بڑھ پاتی ۔ پچھلے 6 ماہ ميں نئے صوبوں کے سلسلہ ميں کئی مضامين نظر سے گذرے ۔ ان ميں سے 2 سے اقتباسات نقل کر رہا ہوں

ايک خيال

تسلیم کرلیتے ہیں کہ بہاولپور کو اس کے تاریخی ماضی کے حوالے سے ون یونٹ کی پہلی والی سطح پر بحال کردینا درست اور جائز مطالبہ ہے لیکن پھر اسی سے ملتی جلتی بنیاد پر پختونخوا اور بلوچستان کی ان ضم شدہ ریاستوں کا کیا بنے گا جو قیام پاکستان کے وقت اپنا جداگانہ تشخص رکھتی تھیں اور ون یونٹ بن جانے کے بعد بھی 1971ء تک بیشتر کسی نہ کسی طور زندہ رہیں

اگر بہاولپور ایک الگ صوبے کے طور پر بحال ہوتا ہے تو بلوچستان میں بھی قلات ۔ مکران ۔ خاران اور لس بیلہ کی سابق ریاستوں کا جُداگانہ تشخص بحال کرکے انہیں صوبوں کا درجہ دینا ہوگا ۔ دریچہ کھُل گیا تو اسی طرح کا مطالبہ سوات ۔ چترال ۔ دیر وغیرہ کی ضم شدہ ریاستوں کے حوالے سے بھی اٹھے گا کہ ان کے ”شاہی پسماندگان“ بھی موجود ہیں ۔ قلات کے مرحوم والی میر احمد یار خان کے پوتے نواب سلیمان داؤد نے تو لندن میں باقاعدہ جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے

اگر پاکستان میں واقعی کسی ایک بھی نئے صوبے کی تشکیل ضروری ہے تو وہ وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقے پر مشتمل ہونا چاہئے جس میں کرم ۔ خیبر ۔ اورک زئی ۔ مہمند ۔ باجوڑ ۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان نامی سات ایجنسیاں شامل ہیں ۔ یہ ”وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ“ [FATA] کہلاتا ہے ۔ قائد اعظم نے ان قبائلیوں کو بڑی ٹھوس اور واضح ضمانت دی تھی کہ ان کے رسم و رواج ۔ ان کی تہذیب و ثقافت ۔ ان کے قبائلی نظم اور ان کے جُداگانہ تشخص کا تحفظ کیا جائے گا ۔ 6 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔ کسی کو بابائے قوم کا یہ عہد یاد نہیں آیا ۔ وہاں کے قبائلی ایک کروڑ آبادی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ یہ مبالغہ ہوتو بھی 27000 مربع کلومیٹر پر محیط 7 قبائلی ایجنسیوں میں بسنے والوں کی تعداد 70 لاکھ کے لگ بھگ ضرور ہے ۔ یہ بلوچستان کی آبادی سے کچھ ہی کم ہوگی ۔ تمام آبادی ایک ہی زبان بولتی ہے ۔ سب کی بود و باش اور ثقافت ایک ہے اور وہ منفرد تشخص کا استحقاق رکھتے ہیں

جو اے ۔ این ۔ پی پنجاب میں سرائیکی صوبے کی بینڈ ویگن پر سوار ہے وہ ”فاٹا“ کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا موقف رکھتی ہے ۔ خیبر پختون خوا میں ایک اور عجوبہ بھی موجود ہے جس کا نام ہے”پاٹا“ [PATA]۔ یہ صوبائی حکومت کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ جات ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ علاقے تحلیل ہورہے ہیں لیکن آج بھی پورا مالاکنڈ ڈویژن ”پاٹا“ کا حصہ ہے ۔ خیبر پختونخوا کے تیسرے عجوبے کا نام ”فرنٹیئر ریجنز“ ہے جسے عُرف عام میں ایف ۔ آر [FR] کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ علاقے ہیں جو صوبائی حکومت کے زیر انتظام اور قبائلی علاقوں کے درمیان ”بفرزون [Buffer Zone]“ کی حیثیت سے موجود ہیں ۔ ایف آر پشاور ۔ ایف آر بنوں ۔ ایف آر لکی مروت ۔ ایف آر ٹانک اور ایف آر ڈیرہ اسمٰعیل خان ایسے منطقے ہیں جو نہ فاٹا کے ذیل میں آتے ہیں نہ صوبائی حکومت کے ۔ ہاں وفاقی حکومت کا مقرر کردہ ایک اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ بھی بیٹھتا ہے اور صوبائی حکومت کا تعینات کردہ ڈپٹی کمشنر بھی ۔ یہ ایف ۔ آرز جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہاں پولیس کا کوئی گزر نہیں ۔ 63 سال سے یہ تماشا جاری ہے اور آج بھی صوبے اور مرکز کے فیصلہ سازوں کا دھیان فاٹا ۔ پاٹا اور ایف ۔ آرز کے بجائے پنجاب کے حصے بخرے کرنے پر مرکوز ہے

پیپلزپارٹی کے راہنما اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپيکر فیصل کریم کنڈی نے تجویز دی ہے “چونکہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سرائیکی بولی جاتی ہے اسلئے اسے خیبر پختونخوا سے کاٹ کر سرائیکی صوبے کا حصہ بنادیا جائے ۔ اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو سندھ اور پنجاب میں مقیم بلوچوں کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا جو بعض شہروں میں اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جیکب آباد تو بلوچستان کی سرحد سے جڑا ہے اور شکارپور ۔ جیکب آباد سے ۔ نواب شاہ اور سانگھڑ میں بھی قابل ذکر تعداد میں بلوچ بستے ہیں ۔ بگٹی اور مری قبائل کی ہزاروں ایکڑ زمینیں بھی انہی علاقوں میں ہیں ۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی بلوچ غالب تعداد میں بستے ہیں۔ بات آگے چلے تو شاید ایک سندھی سرائیکی صوبہ بھی بنانا پڑے

مسلم لیگ (ق) کے راہنما چوہدری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے اور صدر زردای کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں جماعتیں پنجاب میں سرائیکی صوبہ قائم کریں گی۔ چوہدری صاحب کو شاید علم نہیں کہ موجودہ صوبوں کی جغرافیائی حدود میں کسی طرح کے ردوبدل کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ اگر پارلیمینٹ کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے پنجاب کے اندر ایک نیا صوبہ بنانے کی ترمیم منظور کرلیتے ہیں تو بھی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی توثیق کے بغیر ایسی ترمیم دستور کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ آئین کا آرٹیکل 239(4) بڑی وضاحت سے کہتا ہے

A Bill to amend the Constitution which would have the effect of altering the limits of a Province shall not be presented to the President for assent unless it has been passed by the Provincial Assembly of that Province by the votes of not less than two-thirds of its total membership.
ترجمہ ۔ آئین میں ترمیم کا ایسا کوئی بل جو کسی صوبے کی حدود میں تبدیلی کررہا ہو ۔ اس وقت تک صدر کی منظوری کے لئے پیش نہیں کیا جائے گا جب تک متعلقہ صوبائی اسمبلی اپنے مجموعی ارکان کی دو تہائی اکثریت سے اس بل کو منظور نہ کرلے

یہ مہم اس وقت تک خواب ہی رہے گی جب تک پنجاب اسمبلی کے 371 ارکان میں سے کم از کم 248 ارکان اس کی توثیق نہیں کرتے

دوسرا خيال

جن اصولوں پر پنجاب تقسیم ہوگا ۔ انہی اصولوں پر سندھ ۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو بھی تقسیم کرنا ہوگا ۔ جو تقسیمِ پنجاب کی حمایت کرتا ہے اسے زیب نہیں دیتا کہ تقسیم سندھ کی مخالفت کرے ۔ جو ہزارہ صوبے کا حامی ہے اسے بہاولپور کی بھی حمایت کرنی ہوگی لیکن یہاں تو عجیب تماشہ ہے ۔ ایم کیو ایم ہزارہ ۔ بہاولپور اور سرائیکی صوبوں کی حامی ہے لیکن سندھ میں نئے صوبوں کے مطالبے پر سیخ پا ہوجاتی ہے ۔ پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کی تو مدعی بن گئی لیکن جب کراچی کی تجویز آئی تو برہم ہوکر غنڈہ گردی پر اترآئی ۔ مسلم لیگ (ن) نے بلاجواز پختونخوا نام کی مخالفت کرکے ہزارہ میں نئے صوبے کی تحریک کے لئے ماحول بنایا لیکن اب بہاولپور اور سرائیکی صوبوں کی تحریکوں سے پریشان ہے ۔ اے این پی نے سرائیکی صوبے کے قیام کو اپنے منشور اور دستور کا حصہ بنارکھا ہے لیکن ہزارہ صوبے کی بھی مخالف ہے اور خیبرپختونخوا کے سرائیکیوں کے سرائیکی صوبے کے ساتھ الحاق کی بھی ۔ جس طرح دیگر ایشوز پر سیاست ۔ اسی طرح یہاں بھی ہدف مسئلے کا حل نہیں ۔ اپنی اپنی سیاست کو چمکانا اور اپنے اپنے حلقے کے ووٹرز کو بے وقوف بنانا ہے

سوال یہ ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کی بنیاد کیا ہو ؟ بہاولپور کا مطالبہ تاریخی بنیاد پر ہورہا ہے لیکن یہ کُلیہ صرف بہاولپور تک محدود نہیں رہے گا ۔ پھر اس کے دعویداروں کو سوات ۔ دیر ۔ چترال اور قلات وغیرہ کو بھی الگ صوبوں کی حیثیت دینی ہوگی ۔ ہزارہ کا مطالبہ لسانی بنیادوں پر کیا جارہا ہے لیکن ہزارہ کی حمایت کرنے والوں کو پھر لسانی بنیادوں پر سندھ ۔ بلوچستان اور پنجاب کی تقسیم کی بھی حمایت کرنی ہوگی ۔ اگر جواز یہ ہو کہ چونکہ رقبہ بہت زیادہ ہے ۔ ملتان اور بہاولپور لاہور سے یا پھر ایبٹ آباد پشاور سے دُور ہے ۔ اسلئے ان کو الگ صوبوں کی حیثیت ملنی چاہئے تو پھر اندرون سندھ کے لوگ کراچی سے اور مکران یاسوئی وغیرہ کے لوگ کوئٹہ سے بہت زیادہ دور ہیں ۔ پھر بہالپور ۔ ملتان اور ہزارہ سے پہلے بلوچستان اور سندھ میں نئے صوبے بنانے ہوں گے

اگر آبادی کو معیار بنا لیا جائے تو پھر سب سے زیادہ صوبے پنجاب میں بنیں گے لیکن دوسرے نمبر پر بہر حال سندھ آئے گا ۔ پھر سندھ میں بھی 3 سے زیادہ صوبے بنانے ہوں گے ۔ اگر سرائیکیوں کو الگ صوبہ قومیت یا لسانی بنیادوں پر دیا جائے گا تو پھر خیبر پختونخواہ کے سرائیکیوں کو بھی حق دینا ہوگا کہ وہ سرائیکی صوبے کے ساتھ مل جائیں ۔ پھر سندھ اور پنجاب میں رہنے والے بلوچوں کو بلوچستان کے بلوچوں کے ساتھ ملانا ہوگا ۔ پھر بلوچستان کے پختونوں کو نہ صرف الگ صوبہ دینا ہوگا بلکہ ان کے صوبے کو خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کے ساتھ ایک نئے صوبے کی صورت میں ضم کرنا ہوگا

اگر بنیاد یہ ہے کہ صوبوں کے اندر وسائل منصفانہ بنیادوں پر تقسیم نہیں ہو رہے ہیں اور پنجاب کا زیادہ تر فنڈ وسطی پنجاب میں خرچ ہوجاتا ہے تو کیا سندھ ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسا نہیں ہوتا ۔ کیا سندھ کا جتنا بجٹ کراچی اور حیدر آباد میں خرچ ہوجاتا ہے اتنا ہی بجٹ سانگھڑ اور تھرپارکر کے حصے میں بھی آتا ہے ؟ کیا خیبر پختونخوا میں لاہور اور فیصل آباد کی طرح وادی پشاور کو یہ فوقیت حاصل نہیں؟ کیا یہاں چترال ۔ دیر ۔ کوہستان اور ڈيرہ اسماعيل خان کو وہی توجہ دی جاتی ہے جو پشاور ۔ مردان اورایبٹ آباد کو ملتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بلوچستان میں کوئٹہ کے شہریوں کو جو سہولیات میسر ہیں ۔ سبی اور کوہلو وغیرہ کے شہری اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے؟

شوق ہے تو بسم اللہ کیجئے ۔ نئے صوبے بنا دیجئے لیکن کُلیہ ایک ہی ہوگا۔ “میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو” والا معاملہ نہیں چلے گا ۔ اگر پنجاب کو کیک کی طرح کاٹ کر تقسیم کیا جائے گا تو پھر سندھ بھی کیک بنے گا بلوچستان بھی اور خیبر پختونخوا بھی ۔ اور اگر سندھ یا خیبر پختونخوا میں نئے صوبوں کی بات کو گالی بنا دیا جائے گا تو پھر پنجاب کی سرحدوں کو بھی اسی طرح مقدس سمجھنا ہوگا

یقینا بڑے انتظامی یونٹ مسائل کا باعث بنتے ہیں ۔ ا نتظامی یونٹ جتنے چھوٹے ہوں ۔ اتنے بہتر انداز میں چلائے جاسکیں گے ۔ یقینا آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا بہت بڑا ہونا باقی ملک کے لئے نہیں بلکہ خود پنجابیوں کے لئے بھی مسئلہ ہے ۔ اسی وجہ سے چھوٹے صوبے احساس محرومی کے شکار رہتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے پنجاب کو گالی پڑتی رہتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نئے صوبے کس اصول کے تحت بنائے جائیں ۔ میرے نزدیک بہتر راستہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کا ہوگا ۔ ایک ممکنہ فارمولا قیام پاکستان کے وقت کے ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کا ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اس سے نفرتیں جنم نہیں لیں گی ۔ ہندوستان ۔ ایران اور افغانستان میں نئے صوبے بنے ہیں لیکن لسانی یا تاریخی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر بنے ہیں ۔ امریکا کی درجنوں ریاستوں میں کوئی ایک بھی ان بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی

ایک اور بات ہمارے سیاستدانوں کو یہ مدنظر رکھنی چاہئیے کہ اپنی روح کے لحاظ سے بہت اچھے کام بھی اگر غلط وقت پر کرنے کی کوشش کی جائے تو فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بنتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ وقت کیا نئے صوبوں کے قیام کے ایشو کو چھیڑنے کے لئے مناسب ہے ؟

آخر میں سرائیکی صوبے کا شوشہ چھوڑنے والے آصف علی زرداری صاحب سے یہ سوال کہ “جناب عالی ۔ اگر آپ کو واقعی نئے صوبوں کی فکر نے بے چین کررکھا ہے تو اس نیک کام کا آغاز آپ قبائلی علاقہ جات کو نیا صوبہ بنانے سے کیوں نہیں کرتے ؟ وہ قبائلی علاقے جن کے آپ براہ راست چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ جن کے تقریبا سو فی صد شہری الگ صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ جن کی اس وقت کوئی آئینی حیثیت واضح نہیں ۔ ملتان ۔ ہزارہ اور بہاولپور کے لوگوں کو تو صرف مالی اور انتظامی معاملات میں محرومی کا شکوہ ہے لیکن شہریت کے لحاظ سے انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو اسلام آباد ۔ لاہور یا کراچی کے شہریوں کو حاصل ہيں تاہم فاٹا کے عوام کو تو ان کے بنیادی آئینی حقوق بھی حاصل نہیں ۔ اس خطے پر مُلکی قوانین کا اطلاق نہيں ہوتا ۔ نہ پارلیمنٹ ان کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے اور نہ وہ اپنے خلاف روا رکھے گئے کسی ظُلم کے خلاف کسی پاکستانی عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں ۔ ہمت اور اخلاص موجود ہے تو بسم اللہ کیجئے ۔ قبائلی علاقہ جات کو صوبے کی حیثیت دے دیجئے ۔ نہیں تو خدارا سیاسی مقاصد کے لئے ڈرامہ بازی کا یہ سلسلہ ترک کردیجئے

ذرا سوچئے ۔ اگر میاں شہباز شریف نے پچھلے 3 سالوں میں پنجاب کی ایک انچ زمین پر بھی قدم نہ رکھا ہوتا تو کیا تماشہ لگتا لیکن صدر محترم آصف علی زرداری نے صدر بننے کے بعد فاٹا کی ایک انچ زمین پر بھی قدم نہیں رکھا حالانکہ وہ اسی طرح فاٹا کے چیف ایگزیکٹیو ہیں جس طرح میاں شہباز شریف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ پنجاب میں تو پھر بھی اسمبلی شہباز شریف کے ساتھ شریک اقتدار ہے لیکن فاٹا کے تنہا مختار صدر مملکت ہوتے ہیں۔ جس علاقے کے وہ چیف ایگزیکٹو ہیں اسے آج تک صدر صاحب نے دیکھا ہی نہیں ۔ یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ لیکن ظاہر ہے اس طرح کے تماشے صرف پاکستان میں ہی ہوسکتے ہیں

پوشاکيں اور نيمِ دروں

سائنس بہت ترقی کر گئی ۔ انسان بہت پڑھ لکھ گيا اور جديد ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
طور طريقے ميں پرانے جاہليت کے زمانہ ميں چلے گئے ہيں

لگ بھگ 6 دہائياں پرانی بات ہے کہ بچوں کے رسالے ميں ايک کارٹون چھپا تھا کہ ايک آدمی ننگ دھڑگ صرف جانگيہ يا کاچھا يا چڈی پہنے ہوئے بيری [بير کا درخت] پر چڑھا تھا اور بير توڑ کے کھا رہا تھا
ايک راہگذر ا نے پوچھا “صاحب ۔ کيا ہو رہا ہے ؟”
درخت پر چڑھے آدمی نے جواب ديا “اپنے تو 2 ہی شوق ہيں ۔ پوشاکيں پہننا اور پھل فروٹ کھانا”

ہماری موجودہ حکومت کے بھی 2 ہی شوق ہيں ۔ “جمہوريت پہننا اور مفاہمت کھانا”
:lol:

ميری بات کا يقين نہ ہو تو يہ خبريں پڑھ ليجئے

جمعہ [22 جولائی 2011ء] کے روز قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ
کراچی ميں بدامنی برداشت نہیں کریں گے

President Zardari expressed concerned over the violent situation of the city

نيمِ دروں

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ فرماں روائے مغليہ شہنشاہِ محبت شاہجہان کی بيٹی محل کی کھڑکی سے باہر ديکھ رہی تھی ۔ اُس کی نظر ايک گدھے اور گدھی پر پڑی تو منہ سے نکل گيا “نيمِ دروں نيمِ بروں”
باپ نے پوچھا “بيٹی کيا ہوا ؟

بيٹی شاعرہ تھی شعر کہہ ديا
“در ہيبتِ شاہِ جہاں ۔ لَرزَد زمين و آسماں
اُنگُشت در دَنداں نہاں نيمِ درُوں نيمِ برُوں”

درست کہا تھا اُس نے ۔ عشرت العباد “درُوں”۔ اور ايم کيو ايم “برُوں”

[“دروں” معنی “اندر” اور “بروں” معنی “باہر”]

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء ۔ عام آدمی کی نظر ميں

عام آدمی سے مراد جنہوں نے ساری عمر محنت کی اور جو مل گيا اُس پر صبر شکر کيا ۔ دوسرے کی جيب کی بجائے اپنے فرائض کی طرف نظر رکھی

پہلے ايک اچھوتی خبر ۔ وفاقی وزيرِ ماليات نے اپنی بجٹ تقرير ميں خبر دی جس پر ميں ابھی تک فيصلہ نہيں کر سکا کہ ہنسوں يا روؤں ۔ اُنہوں نے کہا “ہماری اچھی منيجمنٹ کے نتيجہ ميں روزانہ ضرورت کی اشياء کی قيمتوں ميں کمی ہوئی ہے”

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کو ملا کر اب تک پاکستان کے 64 بجٹ پيش ہو چکے ہيں ۔ پہلا بجٹ فروری 1948ء ميں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے منظور کيا تھا ۔ يہ خسارے [Deficit] کا بجٹ تھا ۔ صورتِ حال يہ تھی کہ ہندوستان پر قابض رہنے والے انگريز جاتے ہوئے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ضلع گورداسپور کو تقسيم کر کے پاکستان کيلئے جموں کشمير مسئلہ کا ناسور ہميشہ کيلئے دے گئے بلکہ ہندوستان کے سارے اثاثے بھارت کے حوالے کر کے چلے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے لاکھوں مسلمانوں کو بے خانمہ کر کے پاکستان کی طرف دھکيل ديا

پاکستان کا دوسرا بجٹ فروری 1949ء کو منظور ہوا جو فاضل بجٹ [Surplus] تھا ۔ اس کے بعد 1960ء سميت 12 فاضل بجٹ تھے ۔ پھر 4 بجٹ جو 1969ء ۔ 1998ء ۔ 1999ء اور 2000ء ميں منظور ہوئے فاضل بجٹ تھے ۔ باقی 48 بجٹ خسارے کے بجٹ تھے يا ہيں

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کا کُل حجم 27 کھرب 60 ارب 2760000000000 روپے ہے ۔ اس بجٹ ميں 9 کھرب 75 ارب يعنی 975000000000 روپے خسارہ شامل ہے جو کہاں سے پورا ہو گا ؟ اس کے متعلق بتايا گيا ہے کہ ايک کھرب 25 ارب صوبوں کے اضافی بجٹ سے پورا ہو گا ۔ باقی 8 کھرب 50 ارب يعنی 8500000000 روپيہ کہاں سے آئے گا ؟ اس کا کچھ پتہ نہيں

تعليم کيلئے اس بجٹ ميں 3 ارب 95 کروڑ 13 لاکھ يعنی 3951300000 روپے رکھے گئے ہيں

صحت کے پورے شعبہ کيلئے اس بجٹ ميں 2 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ يعنی 2646000000 روپے رکھے گئے ہيں

سرکاری ملازم کی تنخواہ ميں 15 فيصد اور پنشن ميں 15 سے 20 فيصد اضافہ کی تجويز ہے

وزيرِ اعظم صاحب نے 4 جون 2011ء کويعنی بجٹ پيش ہونے کے ايک دن بعد ايک حکم نامہ کے ذريعہ مندرجہ ذيل افراد کی تنخواہوں ميں اضافہ کر ديا ہے
عہدہ ملازم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی تنخواہ
اٹارنی جنرل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 200000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 606811
ايڈيشنل اٹارنی جنرل ۔ 150000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 548845
ڈپٹی اٹارنی جنرل ۔ ۔ ۔ ۔ 100000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 150000
ايڈووکيٹ آن ريکارڈ ۔ ۔ 75000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000

جس ملک نے اگلے سال ميں بيرونی قرضوں کی قسط 10 کھرب 34 ارب يعنی 1034000000000 روپے ادا کرنا ہے ۔ جس کے 50 فيصد عوام تنگی سے زندگی گذار رہے ہيں ۔ پيٹ کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کُشياں کر رہے ہيں اور بچے فروخت کر رہے ہيں اس کے صدر اور وزيرِ اعظم صاحبان کی تنخواہوں اور ديگر لوازمات کچھ يوں ہيں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزير اعظم

سالانہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12960000
غير مُلکی دورے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 486320000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1570000000
اندرونِ ملک ٹرانسپورٹ وغيرہ ۔ ۔ ۔ 27700000 ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 24600000
ذاتی ملازمين کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 482000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 996000000
باغبانی کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14300000
ڈسپنسری کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامعلوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10200000
کُل اخراجات سالانہ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1008090000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2628060000
اوسط ماہانہ اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84007500 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 219005000

صدر صاحب کو قوم 8 کروڑ 40 لاکھ 7 ہزار 500 روپے ماہانہ خرچ اور وزيرِ اعظم کو 21 کروڑ 90 لاکھ 5 ہزار روپے ماہانہ خرچ ديتی ہے ۔ اس کے ساتھ بجلی ۔ پانی ۔ قدرتی گيس اور ٹيليفون جتنا بھی استعمال کريں وہ مُفت ہے ۔ اس کے بدلے ميں يہ دونوں حضرات قوم کو کيا ديتے ہيں ؟

پچھلے سال صدر کے بيرونِ ملک دوروں کيلئے 31 کروڑ يعنی 310000000 روپے بجٹ ميں رکھے گئے تھے مگر صدر صاحب نے 36 کروڑ 55 لاکھ 56 ہزار يعنی 365556000 روپے خرچ کر ڈالے

کہا گيا ہے کہ تين سرکاری اداروں کو سبسڈی دی جاتی ہے جو کہ تين سال ميں ختم کی جائے گی ۔ يہ ادارے ہيں ۔ اليکٹرک پاور سپلائی ۔ پاکستان سٹيل اور پی آئی اے جن کا سالانہ خسار 4 کھرب يعنی 400000000000 روپے ہے ۔ اليکٹرک پاور سپلائی کا فضيحتا يہ ہے کہ لگ بھگ 30 فيصد بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والے حکمران يا اُن کے اپنے لوگ ہيں ۔ شہروں ميں سب سے زيادہ بجلی چوری کراچی ميں ہوتی ہے جس کا مقابلہ دوسرا کوئی پورا صوبہ بھی نہيں کر سکتا ۔ مضافات ميں سب سے زيادہ بجلی کی چوری قبائلی علاقوں ميں ہوتی ہے ۔ پاکستان سٹيل ميں 2 سے 3 ہزار ملازمين ايسے ہيں جو ہر ماہ ميں ايک دن صرف تنخواہ لينے کيلئے پاکستان سٹيل جاتے ہيں مگر کسی کی مجال نہيں جو اُن کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے ۔ اس کے ساتھ ہی نااہل افراد کی سياسی بھرتيا ں بڑی بڑی تنخواہوں پر کی گئی ہيں ۔ پی آئی اے کے خسارے کا واحد سبب نااہل افراد کی بڑی بڑی تنخواہوں پر بھرتی ہے ۔ حکمران چوروں اور لُٹيروں سے جان نہيں چھڑانا چاہتے کيونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہيں چنانچہ عام آدمی پر ان کا مزيد بوجھ ڈالنے کی منصوبہ بندی آئی ايم ايف کے مطالبہ کے تحت کی جا رہی ہے کيونکہ ايسا نہ کرنے کی صورت ميں مزيد قرضے ملنا بند ہو سکتے ہيں

وفاقی وزيرِ ماليات ڈاکٹر عبدالحفيظ شيخ جو ريوينيو ايڈوائزری کونسل کے چيئرمين بھی ہيں نے بتايا ہے مُلک ميں ايسے دولتمند لوگ ہيں جن کے اربوں روپے کہ اندرونِ مُلک اور بيرونِ مُلک اثاثے بشمول بينک بيلنس ہيں مگر ٹيکس نہيں ديتے يا نہ ہونے کے برابر ديتے ہيں ۔ ريوينيو ايڈوائزری کونسل نے مضبوط سفارش کی تھی کہ ايسے لوگوں کے اثاثوں پر ايک فيصد عبوری ٹيکس اس طرح لگايا جائے کہ جو ٹيکس وہ ادا کر رہے ہيں اُسے اس ايک فيصد ٹيکس سے منہا کر کے مزريد کچھ ٹيکس بنتا ہو تو وصول کيا جائے ۔ حکومت نے اس سفارش کو نہيں مانا اور بجٹ سے نکال ديا

آ بُلبلا مل کر کريں گريہ و زاری
تُو پُکار ہائے گُل ميں پُکاروں ہائے دِل

ورلڈ ٹريڈ سينٹر اور اينتھراکس ۔ تاريخ کا ايک ورق

11 ستمبر 2001ء کے چونکا دينے والے ناجائز واقعہ کے بعد 30 گھنٹے بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ سارے امريکا بلکہ دنيا کی ٹی وی سکرينيں 2 پائلٹوں کی تصويروں سے سيراب ہونا شروع ہو گئيں ۔ يہ 2 سعودی بھائيوں امير بخاری اور عدنان بخاری کی تصاوير تھيں ۔ يہ تصاوير ٹی وی سکرينوں پر بار بار کوندتی رہيں امريکی حکومت کے اس مسلک کے ساتھ کہ امريکی سواريوں والے ہوائی جہاز اغواء کر کے نيويارک ميں واقعہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے دونوں پائلٹوں کی شناخت کر لی گئی تھی اور وہ سعودی بھائی امير بخاری اور عدنان بخاری تھے

بعد ميں يہ حقيقت منظرِ عام پر آئی کہ امير بخاری ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے حادثہ سے ايک سال قبل قضائے الٰہی سے مر گيا تھا اور اس کا بھائی عدنان بخاری زندہ اور صحتمند تھا جبکہ اگر وہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے ہوائی جہاز ميں ہوتا تو جل کر خاک ہو چکا ہوتا ۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ جب عدنان بخاری کی تصوير بطور ہائی جيکر اور مُجرم ساری دنيا کے ٹی وی چينل دکھا رہے تھے اُس وقت عدنان بخاری اپنے خلاف ہونے والی بہتان تراشی کی ترديد يا اپنا دفاع نہيں کر سکتا تھا کيونکہ وہ ايک امريکی خفيہ ايجنسی کی حراست ميں تھا

عدنان بخاری کو اُس وقت رہا کيا گيا جب امريکی حکومت اُس کا ناکردہ جُرم دنيا پر درست ثابت کر چکی تھی ۔ پھر وہ بولا بھی ليکن حقائق کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہی گئی

11 ستمبر کے واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد دنيا کو يہ بھی بتايا گيا کہ امريکی حکومت نے باقی ہائی جيکروں کی شناخت بھی کر لی ہے ۔ وہ 19 مسلمان تھے جن ميں سے 11 سعودی تھے ۔ پھر اُن کے کوائف مع اُن کی تصاوير کے ذرائع ابلاغ کے ذريعہ نشر کئے گئے اور تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر ان کی تصاوير چسپاں کر دی گئيں

کمال يہ تھا کہ جن کی تصاوير چسپاں کی گئيں ان ميں سے کئی افراد نے امريکی استدلال کو رد کرتے ہوئے بيانات ديئے اور اخبارات سے رابطہ کر کے بتايا کہ وہ زندہ ہيں ۔ اگر ہوائی جہاز ميں ہوتے تو مر چکے ہوتے ۔ 10 دن ميں يہ حقيقت واضح ہو گئی کہ جن لوگوں کو ہوائی جہازوں کے ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا 11 ستمبر 2001ء کے بعد ان ميں سے کم از کم 8 زندہ تھے

نواں آدمی جسے 11 ستمبر 2001ء کا ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا امريکی حکومت نے اس کا پاسپورٹ بطور ثبوت پيش کيا تھا ۔ بتايا گيا تھا کہ يہ پاسپورٹ ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے قريب سے ايک راہگير کو ملا تھا ۔ کمال يہ ہے کہ ٹکر مارنے والے جہاز ۔ جہازوں کے اندر بيٹھے لوگ اور ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارت جل کر خاک اور ملبہ کا انبار بن گئے ۔ کسی انسان کا کچھ بھی نہ مل سکہ مگر کئی دن بعد وہاں سے سڑک پر پڑا پاسپورٹ ايک راہگير کو صحيح سلامت مل گيا ۔ کيسے ؟

متذکرہ حقائق کے باوجود امريکا کی تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر مردہ قرار ديئے گئے زندوں کی تصاوير طويل عرصہ تک سجی رہيں ۔ ذرائع ابلاغ نے چُپ سادے رکھی ۔ سچ کے علمبردار يہ عالمی ذرائع ابلاغ جھوٹ مُشتہر کرتے رہے

ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر 11 ستمبر 2001ء کے حملے کے بعد ابھی ايک ماہ بھی نہ گذرا تھا کہ اينتھراکس والے خطوط امريکی کانگرس کے ارکان اور امريکی صحافيوں کو بھيجے گئے جن پر لکھا تھا “اسرائيل مردہ باد ۔ امريکا مردہ باد ۔ اللہ اکبر”۔ اس پر امريکی سياستدانوں اور صحافيوں نے يہ دعوٰی کيا کہ “دہشتگردوں [مسلمانوں] نے بائيولوجيکل ہتھيار بنانے کی صلاحيت حاصل کر لی ہے اور انہيں استعمال کرنا بھی شروع کر ديا ہے ۔ اس دعوے نے امريکا کے ہر گھر ميں خوف و دہشت کی فضا قائم کر دی ۔ لوگ اس کے بچاؤ کيلئے متعلقہ ويکسين لگوانا شروع ہو گئے اور يہ ويکسين ناپيد ہو گئی

بھيد اُس وقت کھُلا جب بائيولوجيکل ہتھياروں کی ايک معروف ماہر باربرا روزنبرگ [Barbara Rosenberg] نے انکشاف کيا کہ متذکرہ بالا اينتھکراکس پاؤڈر دراصل امريکا کی ملٹری ليبارٹری ميں تيار کيا گيا تھا ۔ يہ حقيقت امريکا کے اس وقت کے صدر جارج واکر بُش کی حکومت کو اوّل روز سے معلوم تھی

امريکی حکومت جو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے سلسلے ميں سعودی پائلٹوں کا جھُوٹ بول چکی تھی حقائق کو چھپاتے ہوئے اُس کے يہ جھانسا دينے کے پيچھے کيا مزموم مقاصد تھے ؟
اور امريکی حکومت کے اُن سعودی باشندوں جو ابھی زندہ تھے کو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کو گرانے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے پيچھے کيا مقاصد پنہاں تھے ؟

اگر امريکی حکومت کا استدلال درست تھا تو اسے ثابت کرنے کيلئے جھوٹ کا سہارا کيوں ليا گيا ؟

يہ سب کچھ اسلئے کيا گيا کہ امريکی حکومت مسلمانوں کی عزت کو کوئی اہميت نہيں ديتی اور مسلمان مُلکوں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنے کيلئے جھوٹ اور منافقت سے بھرپور کام لے رہی ہے

يہ ايک کتاب “سعودی عرب ميں مذہبی آزادی” سے ايک مختصر اقتباس کا ترجمہ ہے

نيچے ورلڈ ٹريد سينٹر کے ساتھ جو کچھ 11 ستمبر 2001ء کو ہوا اس کی چند تصاوير ہيں جنہيں غور سے ديکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُوپر کے حصہ ميں جہاں جہاز ٹکرائے وہاں سے کالا دھوآں نکل رہا ہے جبکہ کئی منزليں نيچے سفيد دھوئيں کے بادل ايکدم چاروں طرف سے نکلتے ہيں ۔ يہ نچلی منزلوں سے نکلنے والا دھوآں اور آگ جہاز کے ٹکرانے سے پيدا نہيں ہو سکتا بلکہ وہاں عمارت گرانے والے ايکسپلوسِوز پہلے سے نصب کئے گئے تھے جو جہاز ٹکرانے سے قبل ہی بلاسٹ کر ديئے گئے تھے ۔ امريکا کے زلزلہ پيما مرکز نے اس زبردست دھماکے کی خبر ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ہوائی جہاز ٹکرانے سے پہلے دے دی تھی







صدرِ پاکستان کا استقبال

ميں اس سلسلے ميں ايک تحرير بعنوان ” کيا ہم ہميشہ بے عزتے تھے ؟” لکھ چکا ہوں

اب ڈاکٹر وہاج الدين احمد صاحب [جو امريکا کے معروف نيورولوجسٹ رہ چکے ہيں اور آجکل امريکا ہی ميں ريٹائرڈ زندگی گذار رہے ہيں] نے ايک وڈيو فلم کا ربط بھيجا ہے ۔ يہ وڈيو فلم بعد ميں پہلے موجودہ صورتِ حال

صدر آصف علی زرداری حال ہی ميں روس گئے تو وہاں پر ان کا استقبال نائب وزيرِ خارجہ [Deputy Foregn Minister] نے کيا

اب ديکھئے کہ ماضی ميں صدرِ پاکستان کا استقبال کيسے ہوتا تھا ۔ ميں نے اس وڈيو کو اپنے اس بلاگ پر شائع  کرنے کی بہت کوشش کی مگر کاميابی نہ ہو سکی اسلئے اسے صدرِ پاکستان کا استقبال پر کلک کر کے ديکھئے ۔ وڈيو فلم کا دورانيہ 21 منٹ کے قريب ہے اسلئے جب وقت دے سکتے ہوں تو ديکھيئے گا

صدرِ پاکستان کا استقبال