جب 1965ء کی جنگ ميں پورے پاکستان کے مسلمانوں نے ثابت کر ديا کہ ہم ايک ہيں نہ کوئی بنگالی ہے نہ پنجابی نہ کوئی سندھی ہے نہ بلوچی نہ کوئی پختون ہے نہ کشميری تو مطلب پرست لوگوں نے بنگالی اور پنجابی کا فتنہ کھڑا کيا اور نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام کے بھی ايک بڑے حصے کی عقل پر پانی پھر گيا اور لطيفے جو پہلے سکھوں کے ہوتے تھے بنگاليوں کے بنانے شروع کئے اور جرائد ميں چھپنے بھی شروع ہو گئے ۔ جائز مطالبات کو پسِ پُشت ڈال کر زور دار سے گٹھ جوڑ کيا گيا اور نتيجہ بنگلہ ديش کی صورت ميں نکلا
اس سے سبق سيکھنے کی بجائے مزيد قدم آگے بڑھنے لگے اور سندھی ۔ مہاجر ۔ پنجابی ۔ پختون اور بلوچ کے نعرے بلند کئے جانے لگے ۔ صوبہ سرحد جس ميں رہنے والوں کی اکثريت پختون نہيں ہے کو ذاتی مقاصد کيلئے پختون خوا کا نام دے کر لسانيت کو اُجاگر کيا گيا ۔ ہوس کی پياس پھر بھی نہ بُجھی تو سرائيکی اور ہزارہ کے نعرے بلند کرنا شروع کر ديئے
کچھ لوگ بڑے کرّ و فر سے پنجاب ميں کئی صوبے بنانے کا غوغا کرتے رہتے ہيں جس کيلئے بڑی بڑی دليليں دی جاتی ہيں جن ميں ايک “پنجاب کھا گيا” بھی ہے ۔ ماہِ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے وفاقی حکومت کے ترجمان نے صدرِ پاکستان کی طرف سے سرائيکی صوبہ کے حوالے سے خوشخبری کی پيشين گوئی کی تھی اور چند روز قبل اسی سلسلہ ميں صوبہ پنجاب کی اسمبلی ميں حزبِ اختلاف نے ہنگامہ کيا ۔ کوئی اتنا بھی نہيں سوچتا کہ نہ صرف پاکستان کا آئين تبديل کرنا ہو گا بلکہ اس سے قبل لازم ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثريت سے منظوری دے
پنجاب کے ٹکڑے کرنے کے بعد کيا ہو گا اس پر کسی نے نہ سوچا ہے اور نہ سوچيں گے کيونکہ ہماری اکثريت کو ناک سے آگے ديکھنے کی کبھی فرصت ہی نہيں ملی ۔ کسی وجہ سے کوئی نعرہ زبان پر چڑھ جائے تو اسےلے اُڑتے ہيں ۔ دوسرے ممالک 50 سالہ منصوبہ بندی کرتے ہيں اور ترقی کا زينہ طے کرتے بلندی پر پہنچ گئے ہيں يا پہنچنے کے قريب ہيں ۔ وہ ممالک بھی جو 4 دہائياں قبل پاکستان کے دستِ نگر تھے آج پاکستان سے بہت آگے ہيں ۔ ان ميں شمالی کوريا قابلِ ذکر ہے ۔ ہم کم از کم پچھلی 4 دہائيوں سے “ڈھنگ ٹپاؤ” سے آگے نہيں بڑھے کيونکہ ہماری سوچ اپنے پيٹ اور دوسرے کی جيب سے آگے نہيں بڑھ پاتی ۔ پچھلے 6 ماہ ميں نئے صوبوں کے سلسلہ ميں کئی مضامين نظر سے گذرے ۔ ان ميں سے 2 سے اقتباسات نقل کر رہا ہوں
ايک خيال
تسلیم کرلیتے ہیں کہ بہاولپور کو اس کے تاریخی ماضی کے حوالے سے ون یونٹ کی پہلی والی سطح پر بحال کردینا درست اور جائز مطالبہ ہے لیکن پھر اسی سے ملتی جلتی بنیاد پر پختونخوا اور بلوچستان کی ان ضم شدہ ریاستوں کا کیا بنے گا جو قیام پاکستان کے وقت اپنا جداگانہ تشخص رکھتی تھیں اور ون یونٹ بن جانے کے بعد بھی 1971ء تک بیشتر کسی نہ کسی طور زندہ رہیں
اگر بہاولپور ایک الگ صوبے کے طور پر بحال ہوتا ہے تو بلوچستان میں بھی قلات ۔ مکران ۔ خاران اور لس بیلہ کی سابق ریاستوں کا جُداگانہ تشخص بحال کرکے انہیں صوبوں کا درجہ دینا ہوگا ۔ دریچہ کھُل گیا تو اسی طرح کا مطالبہ سوات ۔ چترال ۔ دیر وغیرہ کی ضم شدہ ریاستوں کے حوالے سے بھی اٹھے گا کہ ان کے ”شاہی پسماندگان“ بھی موجود ہیں ۔ قلات کے مرحوم والی میر احمد یار خان کے پوتے نواب سلیمان داؤد نے تو لندن میں باقاعدہ جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے
اگر پاکستان میں واقعی کسی ایک بھی نئے صوبے کی تشکیل ضروری ہے تو وہ وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقے پر مشتمل ہونا چاہئے جس میں کرم ۔ خیبر ۔ اورک زئی ۔ مہمند ۔ باجوڑ ۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان نامی سات ایجنسیاں شامل ہیں ۔ یہ ”وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ“ [FATA] کہلاتا ہے ۔ قائد اعظم نے ان قبائلیوں کو بڑی ٹھوس اور واضح ضمانت دی تھی کہ ان کے رسم و رواج ۔ ان کی تہذیب و ثقافت ۔ ان کے قبائلی نظم اور ان کے جُداگانہ تشخص کا تحفظ کیا جائے گا ۔ 6 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔ کسی کو بابائے قوم کا یہ عہد یاد نہیں آیا ۔ وہاں کے قبائلی ایک کروڑ آبادی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ یہ مبالغہ ہوتو بھی 27000 مربع کلومیٹر پر محیط 7 قبائلی ایجنسیوں میں بسنے والوں کی تعداد 70 لاکھ کے لگ بھگ ضرور ہے ۔ یہ بلوچستان کی آبادی سے کچھ ہی کم ہوگی ۔ تمام آبادی ایک ہی زبان بولتی ہے ۔ سب کی بود و باش اور ثقافت ایک ہے اور وہ منفرد تشخص کا استحقاق رکھتے ہیں
جو اے ۔ این ۔ پی پنجاب میں سرائیکی صوبے کی بینڈ ویگن پر سوار ہے وہ ”فاٹا“ کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا موقف رکھتی ہے ۔ خیبر پختون خوا میں ایک اور عجوبہ بھی موجود ہے جس کا نام ہے”پاٹا“ [PATA]۔ یہ صوبائی حکومت کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ جات ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ علاقے تحلیل ہورہے ہیں لیکن آج بھی پورا مالاکنڈ ڈویژن ”پاٹا“ کا حصہ ہے ۔ خیبر پختونخوا کے تیسرے عجوبے کا نام ”فرنٹیئر ریجنز“ ہے جسے عُرف عام میں ایف ۔ آر [FR] کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ علاقے ہیں جو صوبائی حکومت کے زیر انتظام اور قبائلی علاقوں کے درمیان ”بفرزون [Buffer Zone]“ کی حیثیت سے موجود ہیں ۔ ایف آر پشاور ۔ ایف آر بنوں ۔ ایف آر لکی مروت ۔ ایف آر ٹانک اور ایف آر ڈیرہ اسمٰعیل خان ایسے منطقے ہیں جو نہ فاٹا کے ذیل میں آتے ہیں نہ صوبائی حکومت کے ۔ ہاں وفاقی حکومت کا مقرر کردہ ایک اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ بھی بیٹھتا ہے اور صوبائی حکومت کا تعینات کردہ ڈپٹی کمشنر بھی ۔ یہ ایف ۔ آرز جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہاں پولیس کا کوئی گزر نہیں ۔ 63 سال سے یہ تماشا جاری ہے اور آج بھی صوبے اور مرکز کے فیصلہ سازوں کا دھیان فاٹا ۔ پاٹا اور ایف ۔ آرز کے بجائے پنجاب کے حصے بخرے کرنے پر مرکوز ہے
پیپلزپارٹی کے راہنما اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپيکر فیصل کریم کنڈی نے تجویز دی ہے “چونکہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سرائیکی بولی جاتی ہے اسلئے اسے خیبر پختونخوا سے کاٹ کر سرائیکی صوبے کا حصہ بنادیا جائے ۔ اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو سندھ اور پنجاب میں مقیم بلوچوں کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا جو بعض شہروں میں اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جیکب آباد تو بلوچستان کی سرحد سے جڑا ہے اور شکارپور ۔ جیکب آباد سے ۔ نواب شاہ اور سانگھڑ میں بھی قابل ذکر تعداد میں بلوچ بستے ہیں ۔ بگٹی اور مری قبائل کی ہزاروں ایکڑ زمینیں بھی انہی علاقوں میں ہیں ۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی بلوچ غالب تعداد میں بستے ہیں۔ بات آگے چلے تو شاید ایک سندھی سرائیکی صوبہ بھی بنانا پڑے
مسلم لیگ (ق) کے راہنما چوہدری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے اور صدر زردای کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں جماعتیں پنجاب میں سرائیکی صوبہ قائم کریں گی۔ چوہدری صاحب کو شاید علم نہیں کہ موجودہ صوبوں کی جغرافیائی حدود میں کسی طرح کے ردوبدل کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ اگر پارلیمینٹ کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے پنجاب کے اندر ایک نیا صوبہ بنانے کی ترمیم منظور کرلیتے ہیں تو بھی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی توثیق کے بغیر ایسی ترمیم دستور کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ آئین کا آرٹیکل 239(4) بڑی وضاحت سے کہتا ہے
A Bill to amend the Constitution which would have the effect of altering the limits of a Province shall not be presented to the President for assent unless it has been passed by the Provincial Assembly of that Province by the votes of not less than two-thirds of its total membership.
ترجمہ ۔ آئین میں ترمیم کا ایسا کوئی بل جو کسی صوبے کی حدود میں تبدیلی کررہا ہو ۔ اس وقت تک صدر کی منظوری کے لئے پیش نہیں کیا جائے گا جب تک متعلقہ صوبائی اسمبلی اپنے مجموعی ارکان کی دو تہائی اکثریت سے اس بل کو منظور نہ کرلے
یہ مہم اس وقت تک خواب ہی رہے گی جب تک پنجاب اسمبلی کے 371 ارکان میں سے کم از کم 248 ارکان اس کی توثیق نہیں کرتے
دوسرا خيال
جن اصولوں پر پنجاب تقسیم ہوگا ۔ انہی اصولوں پر سندھ ۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو بھی تقسیم کرنا ہوگا ۔ جو تقسیمِ پنجاب کی حمایت کرتا ہے اسے زیب نہیں دیتا کہ تقسیم سندھ کی مخالفت کرے ۔ جو ہزارہ صوبے کا حامی ہے اسے بہاولپور کی بھی حمایت کرنی ہوگی لیکن یہاں تو عجیب تماشہ ہے ۔ ایم کیو ایم ہزارہ ۔ بہاولپور اور سرائیکی صوبوں کی حامی ہے لیکن سندھ میں نئے صوبوں کے مطالبے پر سیخ پا ہوجاتی ہے ۔ پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کی تو مدعی بن گئی لیکن جب کراچی کی تجویز آئی تو برہم ہوکر غنڈہ گردی پر اترآئی ۔ مسلم لیگ (ن) نے بلاجواز پختونخوا نام کی مخالفت کرکے ہزارہ میں نئے صوبے کی تحریک کے لئے ماحول بنایا لیکن اب بہاولپور اور سرائیکی صوبوں کی تحریکوں سے پریشان ہے ۔ اے این پی نے سرائیکی صوبے کے قیام کو اپنے منشور اور دستور کا حصہ بنارکھا ہے لیکن ہزارہ صوبے کی بھی مخالف ہے اور خیبرپختونخوا کے سرائیکیوں کے سرائیکی صوبے کے ساتھ الحاق کی بھی ۔ جس طرح دیگر ایشوز پر سیاست ۔ اسی طرح یہاں بھی ہدف مسئلے کا حل نہیں ۔ اپنی اپنی سیاست کو چمکانا اور اپنے اپنے حلقے کے ووٹرز کو بے وقوف بنانا ہے
سوال یہ ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کی بنیاد کیا ہو ؟ بہاولپور کا مطالبہ تاریخی بنیاد پر ہورہا ہے لیکن یہ کُلیہ صرف بہاولپور تک محدود نہیں رہے گا ۔ پھر اس کے دعویداروں کو سوات ۔ دیر ۔ چترال اور قلات وغیرہ کو بھی الگ صوبوں کی حیثیت دینی ہوگی ۔ ہزارہ کا مطالبہ لسانی بنیادوں پر کیا جارہا ہے لیکن ہزارہ کی حمایت کرنے والوں کو پھر لسانی بنیادوں پر سندھ ۔ بلوچستان اور پنجاب کی تقسیم کی بھی حمایت کرنی ہوگی ۔ اگر جواز یہ ہو کہ چونکہ رقبہ بہت زیادہ ہے ۔ ملتان اور بہاولپور لاہور سے یا پھر ایبٹ آباد پشاور سے دُور ہے ۔ اسلئے ان کو الگ صوبوں کی حیثیت ملنی چاہئے تو پھر اندرون سندھ کے لوگ کراچی سے اور مکران یاسوئی وغیرہ کے لوگ کوئٹہ سے بہت زیادہ دور ہیں ۔ پھر بہالپور ۔ ملتان اور ہزارہ سے پہلے بلوچستان اور سندھ میں نئے صوبے بنانے ہوں گے
اگر آبادی کو معیار بنا لیا جائے تو پھر سب سے زیادہ صوبے پنجاب میں بنیں گے لیکن دوسرے نمبر پر بہر حال سندھ آئے گا ۔ پھر سندھ میں بھی 3 سے زیادہ صوبے بنانے ہوں گے ۔ اگر سرائیکیوں کو الگ صوبہ قومیت یا لسانی بنیادوں پر دیا جائے گا تو پھر خیبر پختونخواہ کے سرائیکیوں کو بھی حق دینا ہوگا کہ وہ سرائیکی صوبے کے ساتھ مل جائیں ۔ پھر سندھ اور پنجاب میں رہنے والے بلوچوں کو بلوچستان کے بلوچوں کے ساتھ ملانا ہوگا ۔ پھر بلوچستان کے پختونوں کو نہ صرف الگ صوبہ دینا ہوگا بلکہ ان کے صوبے کو خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کے ساتھ ایک نئے صوبے کی صورت میں ضم کرنا ہوگا
اگر بنیاد یہ ہے کہ صوبوں کے اندر وسائل منصفانہ بنیادوں پر تقسیم نہیں ہو رہے ہیں اور پنجاب کا زیادہ تر فنڈ وسطی پنجاب میں خرچ ہوجاتا ہے تو کیا سندھ ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسا نہیں ہوتا ۔ کیا سندھ کا جتنا بجٹ کراچی اور حیدر آباد میں خرچ ہوجاتا ہے اتنا ہی بجٹ سانگھڑ اور تھرپارکر کے حصے میں بھی آتا ہے ؟ کیا خیبر پختونخوا میں لاہور اور فیصل آباد کی طرح وادی پشاور کو یہ فوقیت حاصل نہیں؟ کیا یہاں چترال ۔ دیر ۔ کوہستان اور ڈيرہ اسماعيل خان کو وہی توجہ دی جاتی ہے جو پشاور ۔ مردان اورایبٹ آباد کو ملتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بلوچستان میں کوئٹہ کے شہریوں کو جو سہولیات میسر ہیں ۔ سبی اور کوہلو وغیرہ کے شہری اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے؟
شوق ہے تو بسم اللہ کیجئے ۔ نئے صوبے بنا دیجئے لیکن کُلیہ ایک ہی ہوگا۔ “میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو” والا معاملہ نہیں چلے گا ۔ اگر پنجاب کو کیک کی طرح کاٹ کر تقسیم کیا جائے گا تو پھر سندھ بھی کیک بنے گا بلوچستان بھی اور خیبر پختونخوا بھی ۔ اور اگر سندھ یا خیبر پختونخوا میں نئے صوبوں کی بات کو گالی بنا دیا جائے گا تو پھر پنجاب کی سرحدوں کو بھی اسی طرح مقدس سمجھنا ہوگا
یقینا بڑے انتظامی یونٹ مسائل کا باعث بنتے ہیں ۔ ا نتظامی یونٹ جتنے چھوٹے ہوں ۔ اتنے بہتر انداز میں چلائے جاسکیں گے ۔ یقینا آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا بہت بڑا ہونا باقی ملک کے لئے نہیں بلکہ خود پنجابیوں کے لئے بھی مسئلہ ہے ۔ اسی وجہ سے چھوٹے صوبے احساس محرومی کے شکار رہتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے پنجاب کو گالی پڑتی رہتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نئے صوبے کس اصول کے تحت بنائے جائیں ۔ میرے نزدیک بہتر راستہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کا ہوگا ۔ ایک ممکنہ فارمولا قیام پاکستان کے وقت کے ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کا ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اس سے نفرتیں جنم نہیں لیں گی ۔ ہندوستان ۔ ایران اور افغانستان میں نئے صوبے بنے ہیں لیکن لسانی یا تاریخی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر بنے ہیں ۔ امریکا کی درجنوں ریاستوں میں کوئی ایک بھی ان بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی
ایک اور بات ہمارے سیاستدانوں کو یہ مدنظر رکھنی چاہئیے کہ اپنی روح کے لحاظ سے بہت اچھے کام بھی اگر غلط وقت پر کرنے کی کوشش کی جائے تو فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بنتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ وقت کیا نئے صوبوں کے قیام کے ایشو کو چھیڑنے کے لئے مناسب ہے ؟
آخر میں سرائیکی صوبے کا شوشہ چھوڑنے والے آصف علی زرداری صاحب سے یہ سوال کہ “جناب عالی ۔ اگر آپ کو واقعی نئے صوبوں کی فکر نے بے چین کررکھا ہے تو اس نیک کام کا آغاز آپ قبائلی علاقہ جات کو نیا صوبہ بنانے سے کیوں نہیں کرتے ؟ وہ قبائلی علاقے جن کے آپ براہ راست چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ جن کے تقریبا سو فی صد شہری الگ صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ جن کی اس وقت کوئی آئینی حیثیت واضح نہیں ۔ ملتان ۔ ہزارہ اور بہاولپور کے لوگوں کو تو صرف مالی اور انتظامی معاملات میں محرومی کا شکوہ ہے لیکن شہریت کے لحاظ سے انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو اسلام آباد ۔ لاہور یا کراچی کے شہریوں کو حاصل ہيں تاہم فاٹا کے عوام کو تو ان کے بنیادی آئینی حقوق بھی حاصل نہیں ۔ اس خطے پر مُلکی قوانین کا اطلاق نہيں ہوتا ۔ نہ پارلیمنٹ ان کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے اور نہ وہ اپنے خلاف روا رکھے گئے کسی ظُلم کے خلاف کسی پاکستانی عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں ۔ ہمت اور اخلاص موجود ہے تو بسم اللہ کیجئے ۔ قبائلی علاقہ جات کو صوبے کی حیثیت دے دیجئے ۔ نہیں تو خدارا سیاسی مقاصد کے لئے ڈرامہ بازی کا یہ سلسلہ ترک کردیجئے
ذرا سوچئے ۔ اگر میاں شہباز شریف نے پچھلے 3 سالوں میں پنجاب کی ایک انچ زمین پر بھی قدم نہ رکھا ہوتا تو کیا تماشہ لگتا لیکن صدر محترم آصف علی زرداری نے صدر بننے کے بعد فاٹا کی ایک انچ زمین پر بھی قدم نہیں رکھا حالانکہ وہ اسی طرح فاٹا کے چیف ایگزیکٹیو ہیں جس طرح میاں شہباز شریف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ پنجاب میں تو پھر بھی اسمبلی شہباز شریف کے ساتھ شریک اقتدار ہے لیکن فاٹا کے تنہا مختار صدر مملکت ہوتے ہیں۔ جس علاقے کے وہ چیف ایگزیکٹو ہیں اسے آج تک صدر صاحب نے دیکھا ہی نہیں ۔ یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ لیکن ظاہر ہے اس طرح کے تماشے صرف پاکستان میں ہی ہوسکتے ہیں