ميں آئے دن سُنتا اور پڑھتا رہتا ہوں
“62 سال سے پاکستان کی يہی حالت ہے”
درست کہ اب ہماری کوئی عزت نہيں ۔ ہم تو کيا ہمارے حکمرانوں کی عزت کا يہ حال ہے کہ امريکا کا چھوٹا سا کوئی سرکاری اہلکار بھی آ جائے تو ہمارے صدر صاحب کورنش بجا لاتے ہيں
ميں سوچتا ہوں کہ کيا کبھی يہ لوگ تاريخ پڑھتے ہی نہيں يا جان بوجھ کر دروغ گوئی سے کام ليتے ہيں ۔ ميں گواہ ہوں اس حقيقت کا کہ آج سے 4 دہائياں قبل ہم پاکستانی ايک قوم تھے ۔ ہميں نہ صرف اپنی املاک پياری تھيں بلکہ محلہ داروں کی اور سرکاری املاک بھی پياری تھيں ۔ يہی وجہ تھی کہ دوسرے ممالک ميں بھی ہماری عزت تھی ۔ ميں پہلی بار 1966ء ميں مُلک سے باہر گيا ۔ جہاں بھی گيا معلوم ہونے پر کہ ميں پاکستانی ہوں لوگوں نے ميرے ساتھ اچھا سلوک کيا ۔ ميں جرمنی ميں ايک يونيورسٹی ديکھنے گيا ۔ معلوم ہوا وہاں ايک ہال ہے جس ميں اہم اساتذہ اور طُلباء کی تصاوير لگی ہيں ۔ مگر بتايا گيا کہ وہ حال عام آدمی کيلئے نہيں کھولا جا سکتا ۔ ميرے ساتھی جرمن انجنيئر نے ايک پروفيسر سے جا کر کہا “ميرے ساتھ پاکستانی انجنيئر ہے وہ ديکھنا چاہتا ہے”۔ اس پر پروفيسر خود آئے ۔ ميرے ساتھ مصافحہ کيا اور پاکستان کے متعلق پوچھا پھر ہميں اُس ہال ميں ليجا کر سب سے پہلے علامہ اقبال کی تصورير دکھائی جو وہاں طالبعلم رہے تھے ۔ علامہ اقبال کی بہت تعريف کی اور کہا “وہ ايک فلاسفر تھے”۔ پھر باقی سب کا بتايا
ہاں ايک وقت تھا کہ ہمارے ملک کا صدر اور امريکا کے صدر ميں برابری کے تعلقات تھے ۔ تاريخ کی ورق گردانی کرتے مجھے ايک تصوير مل گئی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے صدر اور امريکا کے صدر ميں مساوات تھی
پاکستان کے صدر محمد ايوب خان اور امريکا کے صدر لنڈن بی جانسن