بجٹ 2011ء ۔ 2012ء ۔ عام آدمی کی نظر ميں

عام آدمی سے مراد جنہوں نے ساری عمر محنت کی اور جو مل گيا اُس پر صبر شکر کيا ۔ دوسرے کی جيب کی بجائے اپنے فرائض کی طرف نظر رکھی

پہلے ايک اچھوتی خبر ۔ وفاقی وزيرِ ماليات نے اپنی بجٹ تقرير ميں خبر دی جس پر ميں ابھی تک فيصلہ نہيں کر سکا کہ ہنسوں يا روؤں ۔ اُنہوں نے کہا “ہماری اچھی منيجمنٹ کے نتيجہ ميں روزانہ ضرورت کی اشياء کی قيمتوں ميں کمی ہوئی ہے”

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کو ملا کر اب تک پاکستان کے 64 بجٹ پيش ہو چکے ہيں ۔ پہلا بجٹ فروری 1948ء ميں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے منظور کيا تھا ۔ يہ خسارے [Deficit] کا بجٹ تھا ۔ صورتِ حال يہ تھی کہ ہندوستان پر قابض رہنے والے انگريز جاتے ہوئے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ضلع گورداسپور کو تقسيم کر کے پاکستان کيلئے جموں کشمير مسئلہ کا ناسور ہميشہ کيلئے دے گئے بلکہ ہندوستان کے سارے اثاثے بھارت کے حوالے کر کے چلے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے لاکھوں مسلمانوں کو بے خانمہ کر کے پاکستان کی طرف دھکيل ديا

پاکستان کا دوسرا بجٹ فروری 1949ء کو منظور ہوا جو فاضل بجٹ [Surplus] تھا ۔ اس کے بعد 1960ء سميت 12 فاضل بجٹ تھے ۔ پھر 4 بجٹ جو 1969ء ۔ 1998ء ۔ 1999ء اور 2000ء ميں منظور ہوئے فاضل بجٹ تھے ۔ باقی 48 بجٹ خسارے کے بجٹ تھے يا ہيں

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کا کُل حجم 27 کھرب 60 ارب 2760000000000 روپے ہے ۔ اس بجٹ ميں 9 کھرب 75 ارب يعنی 975000000000 روپے خسارہ شامل ہے جو کہاں سے پورا ہو گا ؟ اس کے متعلق بتايا گيا ہے کہ ايک کھرب 25 ارب صوبوں کے اضافی بجٹ سے پورا ہو گا ۔ باقی 8 کھرب 50 ارب يعنی 8500000000 روپيہ کہاں سے آئے گا ؟ اس کا کچھ پتہ نہيں

تعليم کيلئے اس بجٹ ميں 3 ارب 95 کروڑ 13 لاکھ يعنی 3951300000 روپے رکھے گئے ہيں

صحت کے پورے شعبہ کيلئے اس بجٹ ميں 2 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ يعنی 2646000000 روپے رکھے گئے ہيں

سرکاری ملازم کی تنخواہ ميں 15 فيصد اور پنشن ميں 15 سے 20 فيصد اضافہ کی تجويز ہے

وزيرِ اعظم صاحب نے 4 جون 2011ء کويعنی بجٹ پيش ہونے کے ايک دن بعد ايک حکم نامہ کے ذريعہ مندرجہ ذيل افراد کی تنخواہوں ميں اضافہ کر ديا ہے
عہدہ ملازم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی تنخواہ
اٹارنی جنرل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 200000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 606811
ايڈيشنل اٹارنی جنرل ۔ 150000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 548845
ڈپٹی اٹارنی جنرل ۔ ۔ ۔ ۔ 100000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 150000
ايڈووکيٹ آن ريکارڈ ۔ ۔ 75000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000

جس ملک نے اگلے سال ميں بيرونی قرضوں کی قسط 10 کھرب 34 ارب يعنی 1034000000000 روپے ادا کرنا ہے ۔ جس کے 50 فيصد عوام تنگی سے زندگی گذار رہے ہيں ۔ پيٹ کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کُشياں کر رہے ہيں اور بچے فروخت کر رہے ہيں اس کے صدر اور وزيرِ اعظم صاحبان کی تنخواہوں اور ديگر لوازمات کچھ يوں ہيں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزير اعظم

سالانہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12960000
غير مُلکی دورے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 486320000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1570000000
اندرونِ ملک ٹرانسپورٹ وغيرہ ۔ ۔ ۔ 27700000 ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 24600000
ذاتی ملازمين کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 482000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 996000000
باغبانی کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14300000
ڈسپنسری کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامعلوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10200000
کُل اخراجات سالانہ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1008090000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2628060000
اوسط ماہانہ اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84007500 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 219005000

صدر صاحب کو قوم 8 کروڑ 40 لاکھ 7 ہزار 500 روپے ماہانہ خرچ اور وزيرِ اعظم کو 21 کروڑ 90 لاکھ 5 ہزار روپے ماہانہ خرچ ديتی ہے ۔ اس کے ساتھ بجلی ۔ پانی ۔ قدرتی گيس اور ٹيليفون جتنا بھی استعمال کريں وہ مُفت ہے ۔ اس کے بدلے ميں يہ دونوں حضرات قوم کو کيا ديتے ہيں ؟

پچھلے سال صدر کے بيرونِ ملک دوروں کيلئے 31 کروڑ يعنی 310000000 روپے بجٹ ميں رکھے گئے تھے مگر صدر صاحب نے 36 کروڑ 55 لاکھ 56 ہزار يعنی 365556000 روپے خرچ کر ڈالے

کہا گيا ہے کہ تين سرکاری اداروں کو سبسڈی دی جاتی ہے جو کہ تين سال ميں ختم کی جائے گی ۔ يہ ادارے ہيں ۔ اليکٹرک پاور سپلائی ۔ پاکستان سٹيل اور پی آئی اے جن کا سالانہ خسار 4 کھرب يعنی 400000000000 روپے ہے ۔ اليکٹرک پاور سپلائی کا فضيحتا يہ ہے کہ لگ بھگ 30 فيصد بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والے حکمران يا اُن کے اپنے لوگ ہيں ۔ شہروں ميں سب سے زيادہ بجلی چوری کراچی ميں ہوتی ہے جس کا مقابلہ دوسرا کوئی پورا صوبہ بھی نہيں کر سکتا ۔ مضافات ميں سب سے زيادہ بجلی کی چوری قبائلی علاقوں ميں ہوتی ہے ۔ پاکستان سٹيل ميں 2 سے 3 ہزار ملازمين ايسے ہيں جو ہر ماہ ميں ايک دن صرف تنخواہ لينے کيلئے پاکستان سٹيل جاتے ہيں مگر کسی کی مجال نہيں جو اُن کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے ۔ اس کے ساتھ ہی نااہل افراد کی سياسی بھرتيا ں بڑی بڑی تنخواہوں پر کی گئی ہيں ۔ پی آئی اے کے خسارے کا واحد سبب نااہل افراد کی بڑی بڑی تنخواہوں پر بھرتی ہے ۔ حکمران چوروں اور لُٹيروں سے جان نہيں چھڑانا چاہتے کيونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہيں چنانچہ عام آدمی پر ان کا مزيد بوجھ ڈالنے کی منصوبہ بندی آئی ايم ايف کے مطالبہ کے تحت کی جا رہی ہے کيونکہ ايسا نہ کرنے کی صورت ميں مزيد قرضے ملنا بند ہو سکتے ہيں

وفاقی وزيرِ ماليات ڈاکٹر عبدالحفيظ شيخ جو ريوينيو ايڈوائزری کونسل کے چيئرمين بھی ہيں نے بتايا ہے مُلک ميں ايسے دولتمند لوگ ہيں جن کے اربوں روپے کہ اندرونِ مُلک اور بيرونِ مُلک اثاثے بشمول بينک بيلنس ہيں مگر ٹيکس نہيں ديتے يا نہ ہونے کے برابر ديتے ہيں ۔ ريوينيو ايڈوائزری کونسل نے مضبوط سفارش کی تھی کہ ايسے لوگوں کے اثاثوں پر ايک فيصد عبوری ٹيکس اس طرح لگايا جائے کہ جو ٹيکس وہ ادا کر رہے ہيں اُسے اس ايک فيصد ٹيکس سے منہا کر کے مزريد کچھ ٹيکس بنتا ہو تو وصول کيا جائے ۔ حکومت نے اس سفارش کو نہيں مانا اور بجٹ سے نکال ديا

آ بُلبلا مل کر کريں گريہ و زاری
تُو پُکار ہائے گُل ميں پُکاروں ہائے دِل

This entry was posted in تجزیہ, سیاست, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “بجٹ 2011ء ۔ 2012ء ۔ عام آدمی کی نظر ميں

  1. Pingback: بجٹ 2011ء ۔ 2012ء ۔ عام آدمی کی نظر ميں | Tea Break

  2. احمد عرفان شفقت

    اس لیے تو مجھے رونا اور ہنسی آتی ہے ان لوگوں پر جو صرف ایک ہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ ان کو نہ جانے یہ دوسری سائیڈ نظر کیوں نہیں آتی کہ ٹیکس کے پیسے کا استعمال کیا اور کن لوگوں پر ہو رہا ہے۔ جس شد و مد سے یہ رونا رویا جاتا ہے کہ لو گ ٹیکس نہیں دیتے اس سے نصف دھیان بھی اگر اس بات پر دیا جائے کے سرکاری لوگ ہمارے ٹیکس پر کیسے گلچھرے اڑاتے ہیں اور اس سلسلے کو ختم ہوتا چاہیے تو معاشی مسائل از خود حل ہو جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.