Category Archives: طنز

نیا پاکستان بمقابلہ پرانا پاکستان

جون 2018ء سے پہلے کا یعنی پرانا پاکستان
بمقابلہ عمران خان کا نیا پاکستان

پرانا پاکستان
یہ میرا پاکستان ہے ۔ یہ تیرا پاکستان ہے
اس پر دل قربان ۔ اِس پہ جان بھی قربان ہے

نیا پاکستان
یہ نہ میرا پاکستان ہے ۔ نہ تیرا پاکستان ہے
یہ اسکا پاکستان ہے جو وزیر اعظم پاکستان ہے

پرانا پاکستان
یہ وطن ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے
اس کا ہر اک ذرّہ ہمیں جان سے پیارا ہے

نیا پاکستان
یہ وطن ہمارا ہے جسے ہم نے بگاڑا ہے
اسکا ہرذرّہ اب آئی ایم ایف سےاُدھارا ہے

پرانا پاکستان
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے

نیا پاکستان
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب مجھ سے ہے
اس کی زمین کا ہر ذرہ آفتاب مجھ سے ہے
(مجھ یعنی وزیر اعظم)

ہمارے پسندیدہ وزیر اعظم

پاکستانی معیارات پر انیل مسرت سے زیادہ توجہ طلب آدمی کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ وہ برطانیہ کے 500 امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی تصاویر پاکستانیوں کے ساتھ کم اور ہندوستانیوں کے ساتھ زیادہ ہیں اور نہ جانے کیوں جب بھی ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو مجھے منصور اعجاز یادآجاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پر جن لوگوں نے ماضی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے، ان میں یہ صاحب سرفہرست ہیں ۔ وہ برطانیہ میں گھر بنانے کا کاروبار کرتے ہیں اور بنیادی طور پر ہزاروں گھر بنانے کا منصوبہ ان کے مشورے پر ہی شروع کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد عمران خان صاحب کے ساتھ یہی انیل مسرت تھے جو سرکاری میٹنگوں تک میں بٹھائے گئے ۔ سوچتا ہوں انیل مسرت جیسا شخص آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کے چہیتے ہوتے اور وہ اس برطانوی شہری کو اسی طرح سرکاری میٹنگوں میں شریک کرواتے تو نہ جانے اب تک پاکستان میں کیا قیامت برپا ہوچکی ہوتی ۔ اب تک غداری کے کتنے فتوے لگ چکے ہوتے اور فرمائشی ٹاک شوز میں محب وطن اینکرز اور تجزیہ نگار ان دونوں کو غدار ثابت کرنے کے لئے اب تک کیا کچھ کر چکے ہوتے لیکن عمران خان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے اور نہ ہوگا ۔ ظاہر ہے ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا تھا تو خود عمران خان، ایک ٹی وی ٹاک شو میں فرمانے لگے کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں ، ان سے پاکستان کا یا پاکستان کے نیب کا کیا لینا دینا ۔لیکن پھرچشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ خاتون اول کو وزیراعظم کی حلف برداری میں بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس لانے کی ذمہ داری اس برطانوی شہری (بقول وزیراعظم) کو تفویض کی گئی ۔ اور تو اور اب اس زلفی بخاری کو وزیرمملکت بنا دیا گیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے امور یہ برطانوی شہری نمٹائیں گے جنہیں برطانیہ میں عمران خان نیازی کی مہمان نوازی کے سوا نہ سیاست کا کوئی تجربہ ہے اورنہ سفارت کا ۔ حیران ہوں اس غلطی کا ارتکاب آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے اور نیب کو مطلوب اس برطانوی شہری کو وزیرمملکت بنانے کی غلطی ان سے سرزد ہوچکی ہوتی تو کب سے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھ چکے ہوتے اور نہ جانے عدالتوں کو کتنے جواب دینے پڑتے لیکن عمران خان کی حب الوطنی پر کوئی حرف آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ظاہر ہے ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق صرف تزویراتی اور اقتصادی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے محافظین نے اس کو ایک تقدس بھی عطا کردیا ہے ۔ پاکستان میں چین کے ساتھ تعلقات یا لین دین کا تنقیدی جائزہ بھی اس خوف سے نہیں لیاجاسکتا کہ کہیں حب الوطنی مشکوک نہ ہوجائے ۔ سی پیک کے بعد تو چین کے دشمن پاکستان کے بھی دشمن بن گئے ہیں ، اس لئے چین کے حوالے سے کسی بھی طرح کا تنازع کھڑا کرنا قومی مفاد کے خلاف سنگین قدم تصور کیا جاتا ہے ۔ سی پیک کے سودوں اور منصوبوں کے حوالے سے اے این پی اور بی این پی تو کیا پی پی پی کو بھی شدید تحفظات تھے لیکن ہر کوئی اس خوف سے ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکا کہ کہیں ملکی مفاد کے منافی کام کرنے کا الزام نہ لگ جائے
تاہم عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی چینیوں کی درخواستوں کے باوجو د وفاقی کابینہ کی سطح پر سی پیک کے منصوبوں کو رِی اَوپن کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ اس فیصلے کی میڈیا میں بھی تشہیر کی گئی ۔ چینی وزیرخارجہ اس معاملے پر اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کے لئے پاکستان آئے تو خلاف روایت ان کا استقبال ائیرپورٹ پر وزارت خارجہ کے پروٹوکول آفیسر سے کروایا گیا حالانکہ انہی دنوں میں جب سعودی وزیر اطلاعات پاکستان آرہے تھے تو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا اور پھر وہیں سے ان کو رخصت کیا ۔ ابھی چینی وزیرخارجہ اپنے ملک واپس نہیں پہنچے تھے کہ عمران کابینہ کے ایک اہم رکن عبدالرزاق داؤد نے مغربی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک پر ایک سال تک کام رکوانے کا شوشہ چھوڑ دیا ۔ چنانچہ چینیوں کی تشویش اور بے چینی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کو دور کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود چین کا دورہ کرنا پڑا جہاں ان کو چینی صدر نے بھی اپنا مہمان بنایا ۔حالانکہ عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہمارے سفارتخانے نے پوری کوشش کی تھی کہ چینی صدر ان کو مبارکباد کا فون کرے لیکن ان کی بجائے صرف چینی وزیراعظم کے فون پر اکتفا کیا گیا۔ گویا اب چینیوں کا سارا تکیہ صرف اور صرف پاکستانی فوج پر ہے ۔چینی دوستوں اور سی پیک کے ساتھ یہ واردات اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے تو نہ جانے کب سے امریکی ایجنٹ ڈکلیئر ہوچکے ہوتے اور شاید ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا بھی آغاز ہوچکا ہوتا لیکن عمران خان پاک چین تعلقات اور سی پیک کے ساتھ اس سے بھی بڑا کھلواڑ کردیں، انہیں کوئی امریکی ایجنٹ نہیں کہے گا ۔ ظاہر ہے وہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
ان کی ٹیم کے ایک اہم رکن انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے خفیہ دورے پر گئے اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کرکے تسلیاں دیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کا برا منایا گیا اور نہ چین کے ساتھ حالیہ سلوک کو امریکہ کے ساتھ کسی خفیہ گٹھ جوڑ سے جوڑ ا جائے گا ۔ ظاہر ہے وہ آصف علی زرداری ہیں اور نہ میاں نوازشریف بلکہ وہ لاڈلے وزیراعظم ہیں اور پاکستان میں لاڈلوں کو بہت کچھ کرنے کی اجازت ہوتی ہے
آصف علی زرداری پر بیرون ملک اثاثے رکھنے کا الزام ہے ۔ میاں نوازشریف کے صاحبزادے برطانیہ اور سعودی عرب میں کاروبار کررہے ہیں ۔ ان دونوں پر اس حوالے سے تنقید بالکل جائز تھی اور وہ اگر پاکستان میں سیاست کرتے ہیں تو دونوں سے یہ مطالبہ ہونا چاہیئے کہ وہ اپنے سرمائے اور اولاد کو پاکستان منتقل کردیں ۔ اب ہمارے نئے وزیراعظم کی اولاد جناب گولڈ اسمتھ کے گھر میں مقیم ہے ۔ پہلے تو وہ چھوٹے تھے لیکن اب تو جوان ہوگئے ہیں اور ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کا مستقبل برطانیہ سے وابستہ ہے یا پھر پاکستان آکر اپنے والد کے سیاسی جانشین بنیں گے ۔ کل اگر کسی معاملے پر پاکستان اور برطانیہ کے مفادات باہم متصادم ہوں تو وہ وزیراعظم کیوں کر برطانیہ کے خلاف جاسکیں گے، جن کے بچے وہاں کے بااثر ترین خاندان کے افراد ہوں ۔ اس خاندان کے ساتھ یہ رشتہ کس قدر مضبوط ہے اس کا مظاہرہ ہم لندن کے مئیر کے انتخاب کے موقع پر دیکھ چکے ہیں جب ہمارے موجودہ وزیراعظم نے وہاں پاکستانی محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلائی ۔ ذرا سوچئے اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف ، پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلاچکے ہوتے یا پھر اگر ان دونوں کی اولاد وہاں پر ایک عیسائی گھرمیں مقیم ہوتی تو کب کا ہم انہیں ایجنٹ قرار دے چکے ہوتے لیکن عمران خان پر اس حوالے سے کوئی تنقید نہیں ہو رہی۔ ظاہر ہے پہلے ہمارے پسندیدہ لیڈر تھے اور اب پسندیدہ وزیراعظم ہیں
بے نظیر بھٹو کی ہندوستان میں دوستیاں تھیں اور نہ اس سے ان کو کوئی ہمدردی تھی ۔ وہ جو کچھ کررہی تھیں پاکستان کے مفاد میں کررہی تھیں لیکن ہم نے انہیں ہندوستانی ایجنٹ مشہور کروا دیا۔ سارک کانفرنس کے موقع پر صرف کشمیر ہاؤس کے بورڈ کو ہٹائے جانے کا اتنا بڑا قضیہ بنادیا گیا ۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے لئے نواسی کی شادی میں نریندرا مودی کی آمد مصیبت بن گئی اور وہ مودی کے یار مشہور کردیئے گئے ۔ عمران خان نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں کسی دوسرے اسلامی یا دوست ملک سے کسی کو مدعو نہیں کیا سوائے انڈین دوستوں کے ۔ اب بغیر کوئی رعایت حاصل کئے مودی کو مذاکرات کی دعوت دے دی اور خود ہی یواین جنرل اسمبلی کے موقع پر ہندوستانی وزیرخارجہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کی تجویز دے دی ۔ لیکن وہ پھر بھی غازی ، بہادر اور ہندوستان مخالف سمجھے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ، کب تک ہمارے پسندیدہ رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کو ممکنہ حد تک ڈھیل دی جائے گی کیونکہ ان کی ناکامی صرف ان کی نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کی بھی ناکامی سمجھی جائے گی ۔ ہماری تو دعا ہے کہ وہ پانچ سال تک پسندیدہ ہی رہیں اور کبھی بے نظیر بھٹو یا میاں نوازشریف نہ بنیں ۔اناڑی اور نام کے سہی لیکن بہرحال وزیراعظم تو ہیں
تحریر ۔ سلیم صافی

سیاست اور ہم

سیاست کا ذکر اور مباحث تو عام ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ میرے ہموطنوں میں سیاست کا بہت شعور ہے ۔ بغور مطالعہ کیا جائے تو آشکار ہوتا ہے کہ جسے ہم سیاست سمجھے بیٹھے ہیں وہ بیان بازی سے آگے کچھ نہیں ۔ جو سیاسی لیڈر اپنی تقریر میں زیادہ طنز و مزاح اور مخالفین کی ہِجُو شامل کرے اُس کے جلسے میں بہت لوگ شامل ہوتے ہیں اور جو اپنے سیاسی مخالفین کے لیڈر کو چور کہے تو وہ دیانتدار سمجھا جاتا ہے

سیاست کے لفظ سے میرا پہلا تعارف اُن دِنوں ہوا جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا (1952ء)۔
واقعہ یوں ہے کہ بزرگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ زیرِ بحث ایک غیر حاضر بزرگ کا کردار تھا جس نے سب بزرگوں کو حیران کیا ہوا تھا
ایک بزرگ نے کہا کہ ”وہ سب کچھ کرتا ہے لیکن اُسے کوئی کچھ نہیں کہتا“۔
دوسرے بزرگ جو بہت سیانے سمجھے جاتے تھے بولے ”بھائی ۔ تم نہیں جانتے وہ بڑا سیاسہ والا ہے“۔
بزرگوں کی محفل میں کوئی جوان موجود نہ تھا صرف ایک بچہ یعنی میں موجود تھا اور بزرگوں کی باتیں غور سے سُن رہا تھا ۔ یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی لیکن بزرگوں کے ادب کا تقاضہ خاموشی تھا اسلئے چُپ رہا

جب میں دسویں پاس کر کے کالج میں داخل ہوا تو ایک دن اُن بزرگ کے ہاں کوئی پیغام پہنچانے گیا ۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے میں نے اُنہیں اُس دن کی یاد دلائی ۔ بزرگ سیانے تھے فوراً سمجھ گئے مُسکراتے ہوئے بولے ” تم اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دو ۔ یہ ابھی تمہاری ضرورت نہیں ہے“۔

میری عادت بُری ہے کہ جب تک تہہ تک نہ پہنچ جاؤں چین نہیں آتا ۔ ماہ و سال گذرتے گئے اور میں الحمدللہ انجیئر بن گیا ۔ اُن بزرگ کی شاباش اور دعائیں اکٹھی کرنے اُن کی خدمت میں پیش ہوا ۔ میرے انجنیئر بنے کی خبر سے بہت خوش ہوئے اور ہنستے ہوئے کہا ” بیٹھ جاؤ آج چائے پیئے بغیر نہیں جانا ۔ پہلے ایسے ہی بھاگ جایا کرتے ہو”۔ ساتھ ہی ایک بچے کو بُلا کر حُکم دیا ”بیکری سے یہ یہ لے کر آؤ اور امی سے کہو چائے بنائے“۔
میں نے دیکھا کہ بزرگ بہت خوش ہیں تو چائے کے ساتھ کیک وغیرہ کھاتے ہوئے میں نے موقع غنیمت جانا اور اُنہیں اُن کے کئی سال پہلے کہے الفاظ یاد دلاتے ہوئے عرض کیا ” اب میں عملی زندگی میں داخل ہو رہا ہوں ۔ اب تو بتا دیجئے“۔
بولے ”سیاسہ والا یعنی سیاستدان مطلب تھا ۔ جس شخص کے متعلق کہا تھا وہ اتنا ہوشیار ہے کہ سب کچھ کر گذرتا ہے لیکن پکڑائی نہیں دیتا“۔

تو جناب ۔ سیاستدان بنتا وہی ہے جو بطخ کی طرح پانی میں ڈُبکی لگائے اور پَر بھی گیلے نہ ہوں

پوشاکيں اور نيمِ دروں

سائنس بہت ترقی کر گئی ۔ انسان بہت پڑھ لکھ گيا اور جديد ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
طور طريقے ميں پرانے جاہليت کے زمانہ ميں چلے گئے ہيں

لگ بھگ 6 دہائياں پرانی بات ہے کہ بچوں کے رسالے ميں ايک کارٹون چھپا تھا کہ ايک آدمی ننگ دھڑگ صرف جانگيہ يا کاچھا يا چڈی پہنے ہوئے بيری [بير کا درخت] پر چڑھا تھا اور بير توڑ کے کھا رہا تھا
ايک راہگذر ا نے پوچھا “صاحب ۔ کيا ہو رہا ہے ؟”
درخت پر چڑھے آدمی نے جواب ديا “اپنے تو 2 ہی شوق ہيں ۔ پوشاکيں پہننا اور پھل فروٹ کھانا”

ہماری موجودہ حکومت کے بھی 2 ہی شوق ہيں ۔ “جمہوريت پہننا اور مفاہمت کھانا”
:lol:

ميری بات کا يقين نہ ہو تو يہ خبريں پڑھ ليجئے

جمعہ [22 جولائی 2011ء] کے روز قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ
کراچی ميں بدامنی برداشت نہیں کریں گے

President Zardari expressed concerned over the violent situation of the city

نيمِ دروں

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ فرماں روائے مغليہ شہنشاہِ محبت شاہجہان کی بيٹی محل کی کھڑکی سے باہر ديکھ رہی تھی ۔ اُس کی نظر ايک گدھے اور گدھی پر پڑی تو منہ سے نکل گيا “نيمِ دروں نيمِ بروں”
باپ نے پوچھا “بيٹی کيا ہوا ؟

بيٹی شاعرہ تھی شعر کہہ ديا
“در ہيبتِ شاہِ جہاں ۔ لَرزَد زمين و آسماں
اُنگُشت در دَنداں نہاں نيمِ درُوں نيمِ برُوں”

درست کہا تھا اُس نے ۔ عشرت العباد “درُوں”۔ اور ايم کيو ايم “برُوں”

[“دروں” معنی “اندر” اور “بروں” معنی “باہر”]

دورِ حاضر کی شاعری

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے ۔ ۔ ۔ مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے ۔ ۔ ۔ جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں
گویئے امیروں کے نورِ نظر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی