Category Archives: روز و شب

بہتر کون ؟

آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے

لیکن

سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے شاید ایسے لوگوں کو پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی

معتبر اور مُخبر ؟

اس سلسہ کی 6 تحاریر ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“۔ ”انکوائری ۔ تفتیش”۔ ”ہمارے اطوار “ اور ”دوست ۔ آقا نہیں“ لکھ چکا ہوں

میں 1974ء میں اپنے ایک دوست جو سِنیئر سِول جج تھے کے پاس گیا ہوا تھا ۔ کسی صاحب نے اُن کے ساتھ گفتگو کے My Id Pakدوران ”معتبر“ اور ”مُخبر“ کے الفاظ استعمال کئے ۔ وہ صاحب چلے گئے تو میرے دوست نے مجھ سے کہا ”جانتے ہو معتبر کون ہوتا ہے ؟“ میں نے کہا ”کوئی بزرگ جو قابلِ اعتماد ہو“۔ ہنس کر کہنے لگے ”یہ شخص جو ابھی یہاں سے گیا ہے ۔ تھانیدار ہے ۔ پولیس والوں کے معتبر اور مُخبر جیب کُترے اور نشئی ہوتے ہیں“۔ یہ بات تو سِنیئر سِول جج صاحب نے بتائی تھی ۔ اب میرا ذاتی تجربہ

میں جن دنوں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا(مارچ 1983ء تا ستمبر 1985ء)۔ انسٹیٹیوٹ کی ورکشاپ میں ایک مستری تھا جو کام کرتا نہیں تھا ۔ دیر سے آتا اور پھر کام کے وقت میں بھی غائب ہو جاتا ۔ اس کی شکائت میرے پاس آئی تو میں نے اُسے تنبیہہ کی ۔ کئی بار تنبیہہ کا جب کوئی اثر نہ ہوا تو میں نے اواخر 1984ء میں ضابطے کی کاروائی شروع کی اور بالآخر اُسے نوکری سے فارغ کرنے کا نوٹس دے دیا ۔ مجھے میرے باس جو ممبر پی او ایف بورڈ تھے کا ٹیلیفون آیا کہ اُس کی فائل اُنہیں بھیج دوں ۔ ہفتہ بھر فائل واپس نہ آئی ۔ پھر ایک دن میں اُن کے دفتر گیا ہوا تھا تو اس کی فائل مانگی تاکہ میں عمل مکمل کر سکوں ۔ جواب ملا ”وہ سیکیورٹی والوں کا آدمی ہے ۔ کرنل ۔ ۔ ۔ (سیکیورٹی کے سربراہ) آپ سے بات کریں گے“۔

میں واپس اپنے دفتر پہنچا ہی تھا کہ سیکیورٹی کے سربراہ کا ٹیلیفون آیا ۔ اُس کی رام کہانی سننے کے بعد میں نے کہا ”ایک ایسا آدمی جو قواعد و ضوابط کا پابند ہونا تو کُجا قواعد و ضوابط کی دھجیاں اُڑاتا ہے ۔ اُس سے آپ حساس معاملات کا کام لیتے ہیں”۔ بولے ”تو اور کیا میں مولوی بھرتی کروں ؟“ بہر حال وہ شخص ملازمت پر رہا لیکن میں نے اسے رکھنے سے انکار کر دیا تو اُسے کسی فیکٹری میں بھیج دیا گیا

اگست 1992ء سے میں کنٹریکٹ پر بطور ڈائریکٹر ویلفیئر ٹرسٹ کام کر رہا تھا ۔ مارچ 1994ء میں ایک ہیرا پھری کا کیس ہوا ۔ اس میں بسوں کا چَیکر اور ایک سُپروائزر ملوث تھا ۔ سُپروائزر کے خلاف میرے پاس پہلے ہی بہت شکائتیں آ چکی تھیں اور میں نے خود بھی متعدد بار اسے ڈیوٹی سے غیر حاضر پایا تھا ۔ وہ 60 سال کی عمر ہونے پر ریٹائر ہو چکا تھا اور کئی سالوں سے ویلفیئر میں کنٹریکٹ پر کام کر رہا تھا ۔ میں نے چَیکر اور سُپروائزر دونوں کو نوکری سے نکال دیا ۔ سُپر وائزر کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ سیکیورٹی والوں کا آدمی ہے ۔ اُسے نوکری پر بحال تو نہ کیا گیا لیکن چیئرمین پی او ایف بورڈ نے فائل پر لکھ دیا کہ ”افتخار اجمل بھوپال کو موجودہ کنٹریٹ ختم ہونے پر فارغ کر دیا جائے گا”۔ چنانچہ اگست 1994ء کے بعد میری ملازمت ختم ہو گئی ۔ حقیقت یہ تھی کہ میں نے وقت سے قبل ریٹائرمنٹ اگست 1992ء سے لے لی تھی جب میری عمر 53 سال تھی ۔ مجھے مجبور کر کے اس شرط پر رکھا گیا تھا کہ 60 سال کی عمر تک کام کروں گا

جیت گیا آ آ آ آ آ آ آ آ پاکستان

جیت گیا پاکستان اور میں جیت گیاMy Id Pak
ہار گیا نکتہ دان اور دشمن ہار گیا

کسی نے کہا تھا

سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

ہمارا حلقہ ہے اسلام آباد این اے 48 ۔ بہت پہلے سے معلوم تھا کہ مقابلہ تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ ن کے انجم عقیل میں ہو گا ۔ سیاسی جماعتوں کے موجودہ قائدین میں سے میں میاں محمد نواز شریف کو سب سے اچھا سمجھتا ہوں ۔ میں نے اُس اصول کے مطابق جس کی تلقین پچھلے ایک ماہ سے میں بار بار کر رہا تھا ووٹ میاں محمد اسلم کو ووٹ دیا ۔ میں جانتا تھا کہ وہ ہار جائے گا لیکن میں نے کبھی اپنا اصول نہیں توڑا ۔ میاں محمد اسلم دیانتدار ہے ۔ خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور آسانی سے اُس کے ساتھ ملاقات کی جا سکتی ہے ۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق ہمارے حلقہ میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی جیت رہے ہیں

قومی اسمبلی کے اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق صورتِ حال یہ ہے

مسلم لیگ ن ۔ 129
پاکستان تحریکِ انصاف ۔ 34
پی پی پی پی ۔ 31
ایم کیو ایم ۔ 12
جمیعت علماء اسلام ف ۔ 10
جماعت اسلامی ۔ 3
پی ایم ایل کیو ۔ 1
اے این ۔ صفر
بقایا سیاسی جماعتیں
آزاد اُمیدوار ۔ 27

خاص باتیں
1 ۔ پہلی بار کراچی سے مسلم لیگ ن کا اُمید وار پی پی پی پی کے اُمیدوار کو ہرا کر جیت گیا ہے
2 ۔ اے این پی کا صفایا ہو گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سیکولر جماعتوں سے دور ہو گئے ہیں
3 ۔ پی پی پی پی کو اُن لوگون کے ووٹ ملے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو شہید اور پیر سمجھتے ہین اور اُن کا دعوٰی ہے کہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی شہیدوں پیروں کو ووٹ دیں گی
4 ۔ اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی کو ملنے والے ووٹوں میں 60 فیصد سے زیادہ ووٹ عورتوں اور لڑکیوں کے ہیں اور 40 فیصد سے کم مردوں اور لڑکوں کے ہیں ۔ گویا عمران خان صنفِ نازک کا ہیرو ہے
5 ۔ جہاں جہاں سوشل میڈیا کا دور دورا ہے وہاں عمران خان کی واہ واہ ہوئی اور تحریکِ انصاف کے اُمیدوار جیتے ہیں ۔ جہاں لوگ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں وہاں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار جیتے ہیں

11 مئی ۔ میں نے کیا دیکھا

پولنگ سٹیشن ہمارے گھر کے ساتھ ہی ہے لیکن اُس کا دروازہ دوسری سڑک پر ہے ۔ My Id Pakہم حسبِ سابق صبح سوا آٹھ بجے ووٹ ڈالنے کیلئے روانہ ہوئے ۔ ماضی میں مجھ سے پہلے 2 سے 5 آدمی ووٹ دالنے کیلئے موجود ہوا کرتے تھے ۔ آج پہنچا تو مجھ سے پہلے اٹھارہ بیس آدمی قطار میں کھڑے تھے ۔ ایک صاحب جو 30 سال سے اُوپر تھے اور پڑھے لکھے لگتے تھے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کا بڑا سا جھنڈا پولنگ سٹیشن کے اندر لے کر آئے ہوئے تھے ۔ تحریکِ انصاف کا پرچار کرنے والے نوجوان ووٹ ڈالنے آئے ہوئے تھے اور ان کے پاس پولنگ سٹیشن کے اندر موبائل فون بھی تھے جو کہ الیکشن کمیشن کے حُکم کی خلاف ورزی تھی

بہر حال ہم ووٹ ڈال کر ساڑھے نو بجے گھر واپس پہنچ گئے

سیالکوٹ کے حلقہ 110 میں پی پی پی کی اُمید وار فردوس عاشق اعوان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار عثمان ڈار کے حق میں دستبردار ہو گئی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف حلقہ 11 میں فردوس عاشق اعوان کو سپورٹ کرے گی ۔ یہ محاذ مسلم لیگ ن کے اُمیدوار خواجہ آصف کے خلاف بنایا گیا ہے ۔ عثمان ڈار کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتا

راولپنڈی میں عمران خان اور شیخ رشید نے مسلم لیگ ن کے خلاف اشتراک کر رکھا ہے ۔ شیخ رشید نے 2002ء کے الیکشن میں یہ کہہ کر ووٹ حاصل کئے تھے کہ جیت کر نشست نواز شریف کے حوالے کر دوں گا لیکن آمر پرویز مشرف کا دستِ راست بن گیا تھا

میری دعا ہے کہ اگر عمران خان کی جماعت جیت جائے تو اللہ کریم عمران خان کو توفیق دے کہ تحریکِ انصاف میں شامل پِنڈاروں کو قابو کر کے اُنہیں دیانتدار بنا کر اُن سے قومی کی بہتری کا کام لے سکے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ طبیعت

دنیا کو اپنی خوشگوار اور دیانتدار طبیعت کو نہ بدلنے دیجئےMy Id Pak
بلکہ
اپنی خوشگوار طبیعت ۔ دیانت اور تحمل سے دُنیا کو بدل ڈالیئے

کل آپ کا امتحان ہے ۔ اپنی خوشگوار اور تحمل والی طبیعت اور دیانت کا ثبوت پیش کیجئے

سیاست ۔ جھوٹ ۔ تبدیلی ؟

صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں ساری دنیا میں سیاستدانوں کی تقاریر اور وعدوں پر نظر ڈالی جائے اکثریت جھوٹ بولتی محسوس ہوتی ہے ۔ الیکشن 2013ء کے سلسلہ میں زیادہ تر سیاسی جماعتیں تبدیلی کی بات کر رہی ہیں ۔ تبدیلی کیسے آئے گی ؟

تبدیلی لانے کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ عوام میں اچھے اور بُرے کا شعور پیدا کیا جائے اور سمجھایا جائے کہ اپنی اور مُلک و قوم کی ترقی کیلئے مَل جُل کر خلوصِ نیت سے محنت کے ساتھ کام کیا جائے ۔ حکمرانی کے ذریعہ تبدیلی لانے کیلئے لازم ہے کہ تبدیلی لانے والی سیاسی جماعتقومی اسمبلی کی کم از کم 172 نشِستیں حاصل کرے ۔ پھر اس کے پاس کم از کم ایک درجن باشعور مخلص اور محنتی وزراء ہوں

تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے فاروق عالم انصاری کی ایک تحریر میں بھی دکھائی دی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں

گوجرانوالہ ایشیا کا گندہ ترین شہر سہی لیکن تحریک ِ انصاف کی ٹکٹوں کی کہانی میرے شہر کی گندگی سے بھی بڑھ کر ہے۔ دوگنی، چوگنی اور کتنے گنا ہوگی؟ بھئی انت شمار سے باہر ہے۔ ہمارے چیئرمین تحریک ِ انصاف کہہ رہے ہیں کہ ہم سے ٹکٹو ں کے معاملے میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ یہ بے خبری اور بھولپن کی انتہا ہے کہ اسے ”محض“ سمجھا جائے۔ کیا یہ غلطی ہے؟ خود ہی جواب تلاش کریں۔ میں صرف چند واقعات لکھ کر بری الذمہ ہوتاہوں۔ وما علینا الا البلاغ المبین
(1) گوجرانوالہ میں چیئرمین کے 2مئی کے منسوخ شدہ جلسہ کے لئے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی سے چندہ مانگا گیا تو وہ کہنے لگا کہ 42 لاکھ دے کر ٹکٹ لیا ہے اب مجھ سے اور کیا مانگتے ہو ؟
(2) وزیرآباد سے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی اسی جلسہ کے لئے چندہ مانگنے پر پھٹ پڑا ”جتنے روپے آپ مانگ رہے ہیں اس کے آگے کئی صفرے لگانے پر وہ رقم بنتی ہے جو دے کر میں نے ٹکٹ خریدا ہے، اب مجھ میں ادائیگی کی اور کوئی سکت نہیں رہی“ یاد رہے کہ اس سے چیئرمین کے جلسہ کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا
(3) گوجرانوالہ پی ٹی آئی کے سابق ضلعی صدر اظہر چیمہ کو ایک امیدوار نے بتایا کہ اس نے یہ ٹکٹ 50لاکھ روپے میں خریدا ہے۔ اظہر چیمہ بڑے بھولپن سے پوچھ بیٹھا کہ ”آپ تو پی ٹی آئی کے ممبر بھی نہیں تھے“ اس نے جواب دیا ”پی ٹی آئی کی ممبرشپ انتخابی ٹکٹ کے
ساتھ خود بخود ہی مل جاتی ہے۔“ اب یہ خبر جو میں ابھی بتانے والا ہوں پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوگی۔ خبریوں ہے کہ اس موقع پر اظہر چیمہ کف افسوس ملتے ہوئے بولا ”مجھے علم نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ فروخت ہو رہے ہیں ورنہ میں اس ٹکٹ کا ایک کروڑ روپے بھی ادا کرنے کو تیار تھا“
(4) میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ موضع کوہلو والہ تحصیل گوجرانوالہ کے بلال سانسی کو پچاس لاکھ روپے لے کر پہنچنے کاحکم ملا۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلا بھرا اور اسلام آباد کی طرف چل پڑا۔ میریٹ ہوٹل کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر سپاہی نے ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئے پوچھا ”اس تھیلے میں کیا ہے؟ بلال سانسی نے جواب دیا”کرنسی نوٹ ہیں“ سپاہی بے ساختہ بولا ”اچھا تو آپ بھی میریٹ ہوٹل جارہے ہیں؟ وہاں جوبھی جارہا ہے نوٹوں سے لدا پھندا جارہا ہے نجانے وہاں کیا کاروبار ہو رہاہے؟“ اب بلال سانسی کی بدقسمتی کہ اس کے حلقے کا ٹکٹ اس کے پہنچنے سے پہلے فروخت کیا جاچکا تھا
(5) ایک امیرزادہ بڑا کایاں نکلا اسے رقم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اس نے بیک وقت ملتان کے دونوں سیاسی آڑھتیوں کو رقم کی ادائیگی کردی زیادہ سے زیاد ہ کیا ہوا؟ ٹکٹ تو دوگنی قیمت کا ہو گیا لیکن اس کاملنا تو یقینی ہوگیا
(6) میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ٹکٹ کی مد میں ہمارے عزت مآب ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن خان صاحب سے بھی ایک معقول رقم بٹوری گئی ہے اس بیچارے کو آخری دم تک خواجہ محمد صالح کے بھوت سے ڈرایا جاتا رہا تھا
(7) گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا سنٹرل پنجاب پی ٹی آئی کا ایک نوجوان عہدیدار ٹکٹوں کے بیوپار میں مالامال ہوگیا ہے۔ ٹکٹوں کی دلالی کوئلوں کی دلالی نہیں کہ اس میں منہ کالا ہو جائے بڑا صاف ستھرا کام ہے۔ اس نفیس کام میں رنگت کچھ اور نکھر آتی ہے۔ اسے تین ضلعوں کے ٹکٹوں کے سودے کروانے کی سعادت نصیب ہوئی
(8) پی ٹی آئی کاایک امیدوار مجھے یہ کہتے ہوئے بات ختم کرنے کی تلقین کرنے لگا کہ ضلع گوجرانوالہ میں کون ہے جسے تحریک ِ انصاف کا ٹکٹ مفت ہاتھ آیا ہو؟
میں اس بات کاحلف دینے کو تیار ہوں کہ میرے اس کالم میں کوئی ایک بات بھی کسی شخص سے غلط طور پر منسوب نہیں کی گئی۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے امیدوار جو اپنے وافر مال منال کے باعث پی ٹی آئی کے ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہوگئے
ہیں اگر منتخب ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے تو بھلا کیا تبدیلی آجائے گی
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا

ذمہ داری پوری کیجئے

اگر آپ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری نہیں کرتے تو آپ کو اپنے حقوق کی بات کرنے کا حق نہیں ہےMy Id Pak

ملک کے 18 کروڑ عوام جن میں بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ مرد ۔ لڑکیاں اور لڑکے سب شامل ہیں کی قسمت کا اختیار کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ گویا نہ صرف اپنے ماں ۔ باپ ۔ بہن ۔ بھائی ۔ خاوند یا بیوی ۔ بیٹا ۔ بیٹی بلکہ خود اپنی گردن بھی کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ اسلئے یاد رکھیئے کہ

انتخابات کھیل تماشہ نہیں اور نہ ہی چھٹی آرام کرنے کیلئے دی جاتی ہے ۔ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں ۔ آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیے

فرشتے تلاش نہ کیجئے ۔ آپ کے علاقہ کے اُمید واروں میں سے جو کردار کے لحاظ سے سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دیجئے

تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اُسے دیجئے جس کا ماضی باقی اُمیدواروں کے مقابلے میں زیادہ دیانتدار ہو اور بے لوث عوامی خدمت کرتا ہو

ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ۔ ووٹ اسے دیجئے جس کا ماضی زیادہ دیانتدار ہو اور بے لوث عوامی خدمت کرتا ہو

جس آدمی سے آپ ڈرتے ہوں اسے بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کہہ دیجئے ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے احباب کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش کیجئے

ورنہ اگلے 5 سال بھی پچھتانے میں گذریں گے