اس سلسہ میں 9 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“ ۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“ ۔ ”انکوائری ۔ تفتیش” اور ” ہمارے اطوار “ لکھ چکا ہوں
میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں ملازمت شروع کی ۔ 6 ماہ کیلئے مختلف فیکٹریوں میں تربیت حاصل کی ۔ پہلے 4 ہفتے سمال آرمز گروپ میں تربیت کے تھے ۔ مجھے کام سیکھنے کا شوق تھا اسی لئے ٹیکنیکل کالج راولپنڈی میں سینئر لیکچرر کی پوسٹ چھوڑ کر پی او ایف میں آیا تھا ۔ اس زمانہ میں سمال آرمز گروپ میں کوئی اسلحہ نہیں بن رہا تھا ۔ اینفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کے چند سپیئر پارٹ بن رہے تھے ۔ میں مشینوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان پرزوں کی پروڈکشن کا بھی مطالعہ کرتا رہا ۔ جب 2 ہفتے گذر چکے تھے تو ایک فورمین صاحب جو پوری پی او ایف میں گھاک مانے جاتے تھے مجھے کہنے لگے ”ہماری مدد کریں ۔ ایک پرزہ ہے جس میں ٹیپر (taper) آ رہا ہے ۔ میں نے انکساری سے کہا ”آپ تو کام کے ماہر ہیں ۔ جو بات آپ کو سمجھ نہیں آئی وہ مجھے کیسے سمجھ آئے گی ؟“ بولے ”میں آپ کے عِلم سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہوں“۔ میں اُن کے ساتھ ورکشاپ میں گیا۔ ورکر نے پرزہ بنا کر دکھایا ۔ مستری بھی موجود تھا ۔ میں نے فورمین صاحب اور مستری سے پوری تاریخ معلوم کرنے کے بعد کچھ ھدایات دیں جن پر عمل کرنے سے پُرزے درست بننے شروع ہوگئے ۔ ایک دن بعد فورمین صاحب ایک اور پرزے کا مسئلہ لے آئے ۔ مطالعہ کے بعد ھدایات دیں تو اللہ کے کرم سے وہ پرزہ بھی درست بننے لگا۔ فورمین صاحب نے منیجر صاحب کو بتایا جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا ”کوئی بڑی بات نہ تھی آپ بھی اسے کر سکتے تھے“۔ میرے پاؤں کے نیچے سے اُس وقت زمین سِرکتی محسوس ہوئی جب منیجر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں الیکٹریکل انجنیئر ہوں“۔
دوسرا واقعہ اُس دور کا ہے جب سمال آرمز گروپ بڑھ کر ویپنز فیکٹری بن چکا تھا اور میں پروڈکشن منیجر تھا ۔ ایک صاحب کسی دوسری فیکٹری سے تبدیل کر کے جنرل منیجر ویپنز فیکٹری تعینات کئے گئے ۔ میں اُنہیں پروڈکشن کے معاملات سمجھانے میں دقت محسوس کرتا رہا ۔ آدمی بہت اچھے تھے ۔ میں چند ماہ میں اُن سے بے تکلف ہو گیا ۔ ایک دن اُنہیں ایک بات سمجھ نہیں آ رہی تھی تو میں نے کہا ”انجیئرنگ کالج لاہور کے پڑھے مکینیکل انجنیئر کو تو یہ بات سمجھ لینا چاہیئے”۔ وہ بولے ”میں دراصل سِول انجنیئر ہوں“۔
ایک سینیئر انجیئر صاحب سے کچھ بے تکلفی تھی ۔ میں نے ان سے ذکر کیا ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ابتداء میں پی او ایف کی پلاننگ اور انتظام انگریزوں کے پاس تھا ۔ اُنہوں نے حکومت سے منظوری لی کہ بھرتی پبلک سروس کمیشن کی بجائے خود کریں گے ۔ اخبار میں اشتہار دے دیا کہ بٰی ایس سی انجنیئر چاہئیں ۔ پھر مکینکل ۔ الیکٹریکل اور سول انجنئر بھرتی کر کے سب کو مزید تعلیم و تربیت کی غرض سے 3 سال کیلئے برطانیہ بھیج دیا ۔ واپس آنے پر کام زیادہ نہ تھا جس سے بے اطمینانی پیدا ہوئی ۔ کئی انجنیئر شور کرنے لگے کہ ”ہمیں ملازمت چھوڑنے کی اجازت دی جائے“۔ چیئرمین نے کہا ”جو جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے“۔ اُن دنوں ملک میں انڈسٹری ترقی پا رہی تھی ۔ سب قابل اور ذھین انجنیئر چھوڑ کر چلے گئے ۔ پیچھے کچھ سول اور الیکٹریکل انجنیئر اور برطانیہ سے فیل ہو کر آنے والے مکینیکل انجنیئر رہ گئے ۔ البتہ 3 سول انجنیئرز میں سے 2 سمجھدار اور محنتی تھے اور محنت کرنے والے کی قدر اور حمائت کرتے تھے ۔ انجنیئرنگ فیکٹریز میں محنتی لوگوں میں سے زیادہ کی رپورٹیں خراب ہوتی رہیں اور نالائق مگر چاپلوس اور ذاتی خدمتگار ترقیاں پاتے رہے ۔ اس کے ذمہ دار وہ مکینکل انجنیئر تھے جو برطانیہ سے ناکام واپس لوٹے تھے یا پھر جو مکینیکل انجنئر نہ تھے سوائے 2 متذکرہ بالا سول انجنیئرز کے ۔ اس کے بر عکس ایکسپلوسِوز فیکٹری میں سارے انجینئر موجود رہے ۔ وہ سب برطانیہ سے کامیاب ہو کر واپس آئے تھے ۔ ایکسپلوسِوز فیکٹری میں کبھی کسی محنتی آفیسر کی رپورٹ خراب نہ ہوئی
ایک اور قابلِ ذکر حقیقت ہے کہ ازل سے برطانیہ اور امریکا نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کسی بھی اسلحہ میں خود کفیل ہو سکے ۔ ہو سکتا ہے غلط بھرتی کی یہی وجہ ہو ۔ جب 1962ء میں کم از کم بنیادی اسلحہ میں خود کفیل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ ابتداء جرمن رائفل جی 3 سے ہونا تھی ۔ امریکا نے اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ایک لاکھ ایم 1 رائفلز دینے کی پیش کش کی ۔ افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل موسٰی خود کفالت کے حق میں تھے فیصلہ سربراہِ مملکت جنرل محمد ایوب خان نے کرنا تھا جس نے کہا ” ہمیں دوست چاہیئں ۔ آقا نہیں“۔ موجودہ صحافی ہمایوں گوہر کے والد الطاف گوہر صاحب نے اسی عنوان (Friends, Not Masters) سے جنرل ایوب خان کی طرف سے کتاب لکھی تھی