Category Archives: تجزیہ

خفیہ کے ادارے ۔ خوبی یا قباحت

میں نے 20 اگست 2009ءکو جو طریقہ تفتیش کی جھلکیاں پیش کی تھیں ان سے یہ تاءثر پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ خُفیہ ادارے نظامِ حکومت کا مُضر عضو ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ تفتیش کرنے والے اداروں کا اصل کردار عوام سے مخفی رہتا ہے جو اندیشوں کا سبب بنتا ہے ۔ ان اداروں میں عام طور پر سب سے گھناؤنا کردار پولیس کا محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں بھی اچھے یعنی مفید پہلو موجود ہیں ۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں پولیس کے ملازمین نے وطن یا ہموطنوں کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دی ۔ پولیس کی خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ قابض انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے شہریوں کی بہتری کی بجائے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے بنایا تھا اور اسے آج تک عوام دوست بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ان یا دوسرے اداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے لوگ یہ بھُول جاتے ہیں کے ان میں کام کرنے والے لوگ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں جس کا نقاد خود ہے

پولیس کے تین خُفیہ ادارے ہیں ۔ فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی[ایف آئی اے] انٹیلی جینس بیورو [آئی بی] اور کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ [سی آئی ڈی] ۔ مسلحہ افواج کے ادارے ہیں ملٹری انٹیلی جنس [ایم آئی] انٹر سروسز انٹیلی جنس [آئی ایس آئی] ۔ سروسز انویسٹیگیشن بیورو [ایس آئی بی] اور فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ [ایف آئی یو] ۔ یہ سب ادارے قومی بہتری کیلئے بنائے گئے تھے اور انہوں نے عام طور پر خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے ۔ حَکمرانوں نے ان اداروں کے افراد کو غلط کاموں پر لگا کر ان کا چہرہ مسخ کیا اور بعض اوقات ان سے قوم دُشمن کام بھی لئے ۔ پولیس کو تو عام طور پر اپنا کام نہیں کرنے دیا جاتا ۔ مسلحہ افواج کا ایک ادارہ جو ایف آئی یو کہلاتا ہے اسے بھی بعض اوقات غلط استعمال کیا گیا ۔ یہ بھولنا نہیں چاہیئے کہ معاشرہ بھی بتدریج بہت بگڑا اور یہ لوگ بھی معاشرے کا حصہ ہیں

میرا پہلا واسطہ ایک خفیہ ادارے سی آئی ڈی سے اُس وقت پڑا جب میں 1962ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرنے کیلئے درخواست دی ۔ ایک دن سہ پہر کو میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک پولیس والا آیا اور والد صاحب کا پوچھا وہ گھر پر نہیں تھے تو کہنے لگا “آپ اُن کے بیٹے ہیں ؟” میرے ہاں کہنے پر بولا “ایس ایس پی صاحب نے بُلایا ہے ۔ آپ سے کوئی بات کرنا ہے”۔ میں چلا گیا ۔ ایسی ایس پی صاحب کا گھر قریب ہی تھا ۔ میرا نام اور کام پوچھنے کے بعد کہنے لگے “تم انجنیئر ہو نا ؟” میرے ہاں کہنے پر بولے “آپ نے جو نوکری شروع کرنا ہے وہاں سے آپ کے متعلق انکوائری آئی ہے ۔ میں نے آپ کے متعلق اُس وقت انکوائری کی تھی جب آپ انجنیئرنگ کالج لاہور داخل ہوئے تھے ۔ کسی نے درخواست دی تھی کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے نہیں ہیں بلکہ بھوپال کے رہنے والے ہیں اور آپ نے جموں کشمیر کی بنیاد پر داخلہ لیا تھا ۔ مجھے تفتیش کے بعد معلوم ہوا تھا کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے ہیں اور داخلہ آپ نے میرٹ پر لیا تھا ۔ میرے پاس آپ اور آپ کے خاندان کی سب معلومات موجود ہیں اسلئے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بھوپال صاحب کو بتا دینا کہ میں نے بُلایا تھا ۔ سب ٹھیک ہے”۔ میں واپس گھر آیا تو محلہ میں شور برپا تھا کہ اجمل بابو کو پولیس والا لے گیا

اس کے بعد ملازمت کے دوران مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے آئی ایس آئی سے اتنا واسطہ پڑتا رہا کہ کئی فوجی افسران سے دوستی ہو گئی ۔ میں نے عام طور پر اُنہیں معقول پایا ۔ کبھی کبھی سرپھروں سے بھی واسطہ پڑا اور میرا خاصہ اُن کے ساتھ دنگل پڑا لیکن اللہ کی کرم نوازی کہ اخیر فتح سچ کی ہوتی رہی

جب ان اداروں میں سیاسی بلکہ ذاتی بنیاد پر عہدیدار ڈالے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ حُب الوطنی کی بجائے خودغرضی اپنا لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ پھر اصل کی بجائے وہ معلومات اکٹھی کرتے ہیں جن سے وہ صاحب خوش ہوں جنہوں نے اُنہیں وہاں تعینات کیا ہے ۔ بدنامی کی بڑی وجہ ان اداروں کا سیاسی استعمال ہے ۔ ان اداروں سے یہ کام صرف ملک کے فوجی آمروں ہی نے نہیں بلکہ جمہوری طریقہ سے منتخب شدہ سربراہوں نے بھی لیا

میرے مشاہدہ کے مطابق مختلف ادوار میں کئی بار آئی ایس آئی کے عہدیداران نے بہت حُب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی محنت اور عقلمندی سے معاملات نمٹائے اور غیرمحسوس طریقہ سے بڑے بڑے کام کئے ۔ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود آئی ایس آئی کا ادارہ وطنِ عزیز کی صحت کیلئے ایک امرت دھارے کا کام کرتا ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس ادارے میں خدمات انجام دینے والے سب فرشتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کی اکثریت محبِ وطن ہے ۔ یہ ملکی صحت کیلئے ایک فعال اور ضروری ادارہ ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اس ادارے نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی متعدد بار اپنے ملک کی ساکھ کو مضبوط بنایا ہے اور کچھ ممالک میں پاکستان دُشمنی کو پاکستان دوستی میں بدلا ہے ۔ میں ہوائیاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں

مہنگائی کیوں ؟

بچپن میں یعنی چار دہائیاں قبل تک ہم سُنا کرتے تھے کہ رزق کی قدر کرنا چاہیئے یعنی اسے ضائع نہیں کرنا چاہيۓ ۔ پانی ضائع کرنے پر بھی سرزنش ہوتی تھی گو اس زمانہ میں آج کی طرح پانی کی قلت نہ تھی ۔ عام دعوت ہوتی یا شادی کی دعوت ، لوگ اس طرح کھاتے کہ پلیٹ یا پیالے میں کچھ باقی نہ چھوڑتے کئی لوگ پلیٹ کو بھی اچھی طرح صاف کر لیتے جیسے اس میں کچھ ڈالا ہی نہ گیا تھا ۔ ہڈی پر کوئی گوشت کا ریشہ نہ چھوڑتا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس زمانہ میں تھوڑے میں بھی بہت برکت ہوتی تھی اور لوگ خوشحال نظر آتے تھے

دورِ حاضر میں کسی دعوت کے بعد پلیٹوں میں گوشت ۔ چاول یا روٹی اتنی زیادہ پڑی پائی جاتی ہے کہ انہیں اکٹھا کرنا دوبھر ہو جاتا ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تھوڑا کھانا ہو تو زیادہ ڈالا ہی کیوں جاتا ہے ۔ اگر اپنے پیٹ کا ہی اندازہ نہیں تو پہلے تھوڑا لیا جائے پھر اگر مزید بھوک ہو تو اور ڈال لے لیا جائے

عام سی بات ہے کہ جس کی عزت یا احترام نہ کیا جائے وہ دُور ہو جاتا ہے ۔ یہی حال اناج کا ہے ۔ آجکل اس کی قدر نہیں کی جاتی اسلئے یہ عوام سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ پانی کی بات کریں تو اس کی بہت قلت ہے لیکن جہاں پینے کا صاف پانی ہے وہاں سڑکوں پر بہتا نظر آتا ہے

بجائے اپنے آپ کو سُدھارنے کے دھواں دار تقاریر معمول بن چکا ہے ۔ ہر دم دوسروں احتساب کرنے والے کب اپنا احتساب کر کے اپنے اندر موجود برائیوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوں گے ؟

عمر صاحب کے استفسارات اور جوابات

تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ سب شرارت منظرنامہ کی ہے جنہوں نے بلاگستان کا شوشہ چھوڑا ۔ عمر احمد بنگش صاحب نے میری تحریر اور تشریح کے بعد مندرجہ ذیل اظہارِ خیال کیا ہے جو مزید وضاحت مانگتا ہے ۔ میں اللہ کی عطا کردہ سمجھ ۔ تحقیقی کتب کے مطالعہ اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں

1 ۔ چیک پوائنٹ‌حلال اور حرام کی تمیز ہے۔ اس کو جانچنے کا‌آلہ انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے
2 ۔ سیدھی راہ کا تعین نہایت ضروری ہے، جو میرے خیال میں‌صرف اور صرف علم کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے
3 ۔ اور یہ راہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے “اک آگ کا دریا ہے ، اور ڈوب کے جانا ہے
اس کے علاوہ اگر کچھ میں‌سمجھنے میں‌ناکام رہا ہوں‌تو میری کوتاہی ۔ یہاں‌تک تو بات ٹھیک ہے ۔ لیکن دو ایک چیزیں‌ہیں‌جو مجھے کافی پریشان رکھتی ہیں
4 ۔ علم کا اصل منبع کیا ہے اور عملی طور پر علم کی کیا حیثیت ہے؟
5 ۔ ضمیر کا ماخذ‌کیا ہے؟، دماغ‌، قلب یا دونوں
6 ۔ پروفیشنل اور ذاتی زندگی دونوں صورتوں میں حق کو کیسے پہچانا جائے؟
7 ۔ کہنے کو یہ باتیں نہایت سادہ ہیں، کیونکہ تدریسی عمل میں ہم میں سے ہر ایک شخص نے بارہا یہ پڑھی ہیں۔ لیکن میرا مقصد ان کو زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے سے ہے۔ اس طور ضرور روشنی ڈالیے

1 ۔ انسان میں اچھے بُرے کی تمیز پیدائشی ہے ۔ میں نفسیات بالخصوص بچوں کی نفسیات کا طالب علم رہا ہوں ۔ میں انسانوں اور بچوں پر ہلکے پھُلکے تجربات کرتا رہا ہوں ۔ میں نے 6 سے 10 ماہ کے بچوں پر آزما کے دیکھا ہے کہ اُنہیں بھی اچھے بُرے کی پہچان ہوتی ہے ۔ بعد میں جب ماحول ان پر حاوی ہو جاتا ہے تو یہ پہچان معدوم یا مجروح ہو جاتی ہے ۔ نفسیات کے ماہرین لکھتے ہیں کہ رحمِ مادر میں بھی بچہ باہر کے ماحول سے متاءثر ہوتا ہے

آپ ایک ايسے بچے کے پاس جو بیٹھتا ہے مگر کھڑا نہیں ہوتا اور کبھی مٹی کے پاس نہیں گیا اس کے دودھ کی بوتل یا بسکٹ جو وہ کھاتا رہتا ہے رکھ دیجئے اور قریب ہی مٹی کا ڈھلا رکھ دیجئے اور کمرے سے باہر نکل جایئے ۔ اگر بچہ مٹی اٹھائے اور عین اس وقت آپ کمرے میں آ جائیں تو بچہ ڈر جائے گا ۔ اگر بچے نے دودھ کی بوتل یا بسکٹ اٹھایا ہو تو اس پر آپ کی آمد کا کچھ اثر نہیں ہو گا

2 ۔ سیدھی یا اچھی راہ کا تعیّن از خود ہو جاتا ہے اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا

3 ۔ سیدھی راہ آگ کا دریا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو وہ تراوٹ بخشتی ہے جو کسی مادی چیز سے حاصل نہیں ہوتی ۔ اللہ پر یقین شرط ہے

4 ۔ “علم کا منبع” میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ علم تو بذاتِ خود منبع ہے ۔ علمِ نافع انسان کو سیدھی راہ پر چلا کر کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جبکہ علمِ باطل انسان کو سبز باغ دکھا کر تباہی کی طرف لے جاتا ہے جس کا احساس بعض اوقات بہت دیر سے ہوتا ہے ۔ وہ علم بیکار ہے جس کا عملی زندگی سے تعلق نہ ہو ۔ اسے المیہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں علم نہیں اسناد حاصل کرنے کا رجحان ہے ۔ عالِم یا اچھا انسان بننے کیلئے بہت کم لوگ علم حاصل کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی کثیر تعداد ایم بی بی ایس کر کے طِب کا پیشہ اختیار نہیں کرتیں ۔ اس طرح ایک تو وہ اپنا عِلم ضائع کرتی ہیں دوسرے ان طلباء اور طالبات کا حق مارتی ہیں جو اِن کی وجہ سے ایم بی بی ایس کے داخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ ملک میں اطِباء کی قلت ہے

5 ۔ ضمیر نہ دل میں ہے نہ دماغ میں ۔ یہ ایک احساس ہے جو اللہ تعالٰی نے ہر ذی ہوش انسان میں رکھا ہے ۔ بُرے سے بُرے آدمی کا ضمیر کسی وقت جاگ کر اسے سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے ۔ ایسے کچھ لوگ میرے مشاہدے میں آ چکے ہیں جو میرے ہمجماعت یا دفتر کے ساتھی تھے

6 ۔ حق کا سب کو علم ہوتا ہے لیکن خودغرضی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ بات وہیں پر آ جاتی ہے جیسا میں اُوپر لکھ چکا ہوں کہ ” اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا”

7 ۔ وہ علم بیکار ہے جس پر عمل نہ کیا جائے یا جس پر عمل نہ ہو سکے ۔ جو لوگ حاصل کردہ علم سے استفادہ کرتے ہیں یا اس پر عمل کرتے ہیں اللہ اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔ وقتی تکالیف تو ہر شخص پر آتی ہیں چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق اختیار کرے ۔ تکلیف کی نوعیت فرق ہو سکتی ہے

علم انسان کو اللہ سے قریب کرتا ہے ۔ آئزک نیوٹن نے کہا تھا کہ ہاتھ کے انگوٹھے کی ایک پور کا مطالعہ ہی خالق کو پہچاننے کیلئے کافی ہے

تلخ حقیقت

تلخ حقیقت یہ ہے کہ خودمُختار ہونا تو دُور کی بات ہے پاکستان کو ایک ھرکارے کی صورت میں پہنچا دیا گیا ہے ۔ مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان خودمُختار ریاست نہیں رہ گیا بلکہ یہ ایک غلام مُلک ہے جس کی کٹھ پتلی حکومت امریکا کی بنائی ہوئی ہے ۔ ہماری افواج کے سربراہان کیوں ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتے ؟ وہ مُلک کی مغربی سرحدوں پر اپنے ہی ہموطنوں کے خلاف جنگ کر کے یقینی طور پر نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں لیکن ۔ ۔ ۔

یہ ہے ایک چھوٹا سا اقتباس ایک ہوشرُبا مضمون سے جو يہاں کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

حکومت کی پسند کا اسلام کیوں ؟

امریکی تھِنک ٹَینک پاکستان میں حکومت کی پسند کا اسلام کیوں لانا چاہتے ہیں ؟
یہاں کلِک کر کے یا درج ذیل ربط کو براؤزر میں لکھ کر پڑھیئے ایک ہوشرُبا تجزیہ
http://iabhopal.wordpress.com/2009/06/30/state-sponsored-sufism-the-power-to-salve-why-are-u-s-think-tanks-pushing-for-state-sponsored-islam-in-pakistan/#respond

محترمہ بینظیر بھٹو منہاج القرآن کی رُکن کیوں بنیں ؟

سرکار ۔ اذيّت کار

جن ممالک میں شناختی کارڈ رائج ہیں وہاں صرف غیر مُلکیوں کو جاری کردہ شناختی کارڈ محدود مدت کیلئے ہوتے ہیں اور مدت پوری ہونے پر تجدید کروانا پڑتی ہے لیکن اپنے لوگوں کیلئے ایک ہی بار شناختی کارڈ کا اجراء کیا جاتا ہے جو عمر بھر کیلئے کافی ہوتا ہے ۔ کچھ ممالک میں جن میں لبیا بھی شامل ہے بچے کے پیدا ہوتے ہی اُسے ایک شناختی نمبر دے دیا جاتا ہے ۔ یہ نمبر درسگاہ میں داخلہ سے لے کر علاج ، ملازمت اور پاسپورٹ حاصل کرنے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے

وطنِ عزیز میں بھی شناختی کارڈ کا ایک بار ہی عمر بھر کیلئے اجراء ہوا کرتا تھا اور بآسانی مل بھی جایا کرتا تھا ۔ 2001ء میں حکومتی لال بجھکڑوں کو نمعلوم کیا سوجھی کہ ایک نئی قسم کا سلسلہ شروع کیا اور اس کیلئے جو سانچہ اور سافٹ ویئر خریدے گئے وہ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں لبیا میں ڈرائیونگ لائسنس کے لئے استعمال ہوتے تھے اور 1980ء سے قبل ہی مسترد کر دیئے گئے تھے ۔ ڈرائیونگ لائسنس تو سمجھ میں آتا ہے کہ محدود مدت کیلئے ہونا چاہیئے لیکن قومی شناختی کارڈ کیوں ؟ مجھے لبیا میں جو ڈرائیونگ لائسنس 1976ء میں ملا اس کی معیاد 3 سال تھی ۔ 1979ء تک میرا کوئی چلان نہ ہوا تھا سو مجھے جو ڈرائیونگ لائسنس 1979ء میں دیا گیا اُس کی معیاد 10 سال تھی اور اس کا سانچہ اور سافٹ ویئر بدل چکی تھی ۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ اس کی نقل نہیں بنائی جا سکتی تھی

نادرا کا کمال یہ ہے کہ ابھی تک یعنی 8 سال گذرنے کے بعد بھی تمام بالغ پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کا اجراء نہیں ہو سکا اور ايسے ہزاروں یا لاکھوں شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں جن میں متعلقہ لوگوں کے کوائف درست نہیں لکھے گئے ۔ اس پر طرّہ یہ کہ جن شناختی کارڈوں کی صلاحیت 7 سال رکھی گئی تھی وہ قابلِ تجدید يعنی دوسرے لفظوں میں ناکارہ ہو چکے ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہے

بطور نمونہ ملاحظہ ہو میرے خاندان کی صورتِ حال
ہم نے دسمبر 2001 میں 6 افراد کی درخوستیں جمع کرائیں
ہمیں 6 مارچ 2002ء کے اجراء کے ساتھ یہ شناختی کارڈ مارچ 2002ء کے آخر میں ملے
ان میں سے ايک کی مدت صلاحیت 28 فروری 2010ء کو ختم ہو گی
ايک کی 2011ء میں
ایک کی 2013ء میں
ايک کی 2014ء میں
اور 2 کی 2015ء میں
اپنے خاندان کے ساتویں فرد کا شناختی کارڈ 12 اگست 2003ء کو بنا تھا اور اس کی صلاحیت 31 جولائی 2010ء تک ہے
اس گورکھدندھے کی کیا منطق ہے وہ آج تک نادرا سمیت کسی کے علم میں نہیں ہے ۔ میں نے کچھ سال قبل نادرا کے ایک اعلٰی عہدیدار سے پوچھا تو اس نے جواب دیا “کچھ سال بعد لوگوں کی شکلیں بدل جاتی ہیں ۔ اسلئے تجدید ضروری ہے”
ميرا دوسرا سوال تھا کہ “آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ میری شکل 8 سال بعد بدلے گی جبکہ میرے خاندان کے ایک فرد کی شکل 9 سال ، ایک کی 11 سال ، ایک کی 12 سال اور دو کی 13 سال بعد شکل بدلے گی؟”
اس سوال پر وہ پریشان تو ہوئے مگر خاموش رہے

موجودہ شناختی کارڈ سے قبل جو شناختی کارڈ تھا اس میں میرے گھرانے کا ايک ہی خاندان نمبر تھا
اب میرا ، میری بیوی کا ، بیٹی کا اور چھوٹے بیٹے کا خاندان نمبر ايک ہے
بڑے بیٹے اور اس کی بیوی کا خاندان نمبر کچھ اور ہے
اور چھوٹے بیٹے کی بیوی کا خاندان نمبر کچھ اور
اس کا عملی پہلو یہ ہے کہ نادرا سے قبل جو رجسٹریشن کا دفتر تھا وہاں جا کر اپنے خاندان میں سے صرف ایک کے شناختی کارڈ کا نمبر بتائیں تو وہ پورے خاندان کا احوال بتا دیتے تھے ۔ اب اگر نادرا والوں کو کسی خاندان کے تمام افراد کی فہرست چاہیئے ہو تو کئی دن یا ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں

شناختی کارڈ کی تجدید کا مسئلہ ملک بھر میں اس سال کے شروع ہونے کے ساتھ ہی عوام کے لئے شدید مشکلات اور ناقابل بیان دردسری کا سبب بنا ہوا ہے کیونکہ جن شہریوں کو اپنے شناختی کارڈوں کی تجدید کے لئے نادرا کے دفاتر جانا پڑتا ہے شدید گرمی اور لُو کے موسم میں انہیں اپنی باری کا صرف ٹوکن لینے کے لئے ہی کئی گھنٹے باہر دھوپ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور جب وہ ٹوکن لے کر نادرا کے متعلقہ اہلکاروں کے پاس پہنچتے ہیں یا تو کھانے وغیرہ کا وقفہ ہو چکا ہوتا ہے یا بجلی بند ہونے یا کسی دوسری وجہ سے کمپیوٹر کام نہیں کر رہے ہوتے ۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے تو پھر تجدید کے لئے بھی اعتراضات لگا کر لوگوں کو نئی تاریخ دے دی جاتی ہے

جب شناختی کارڈ شروع ہی میں پوری تصدیق اور تائید کے بعد بنائے جاتے ہیں تو ہر چند سال کے بعد ان کی تجدید کا ڈرامہ رچا کر لوگوں کو بلاوجہ پریشان کیوں کیا جاتا ہے ؟ اگر تجدید کا عمل بھی امریکی امداد کا حصہ ہے کہ مُلک کا حاکمِ اعلٰی بھی جس کی نفی کرنے سے قاصر ہے تو شناختی کارڈ اور کمپیوٹر میں موجود ڈاٹا میں کوئی فرق نہ ہونے کی صورت میں نادرا کی موبائل ٹیمیں شہریوں کے گھروں پربھجوا کر ان کی رہائش اور ضروری کوائف کی تصدیق کر کے انہیں موقع پر تجدید شدہ شناختی کارڈ فراہم کیا جا نا چاہیئے

۔سب سے زیادہ بہتر اور اصولی طریقہ ایک ہی ہے کہ جب ایک مرتبہ تفتیش اور تصدیق کے بعد کسی پاکستانی شہری کو شناختی کارڈ جاری کر دیا جاتا ہے تو پوری عمر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حُکمران عوام کو کسی نہ کسی بہانے سرکاری دفتروں کے سامنے قطاروں میں کھڑا کرکے ان کی بے بسی اور پریشانی کا نظارہ کرنے کی بے حد شوقین ہیں اور جب تک وہ عام شہریوں کو کسی نہ کسی اذیت یا مصیبت میں مبتلا نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا

ايسا کيوں ہوا ؟

ميری تحرير ” جنہوں نے مجھے انسان بنایا” پڑھ کر کچھ قارئین کرام نے تقاضہ کیا ہے کہ میں اپنے تاریخی مشاہدات کے حوالے سے وجوہات لکھوں کہ “ہم بحیثیت قوم اخلاق اور کردار کے بحران میں کیوں مبتلا ہیں؟”

وقتاً فوقتاً مُختلف موضوعات کے تحت میں قومی انحطاط کی وجوہات لکھتا رہا ہوں ۔ سب تحاریر تلاش کرنا بہت وقت مانگتا ہے ۔ جو تلاش کر سکا ہوں مندرجہ ذیل ہیں ۔ وقت ملے تو انہیں بھی پڑھ لیجئے
کچھ بات تنزّل کی
کسوٹی
معاشرہ ۔ ماضی اور حال
نیا سال ۔ معاشرے کی ترقی
اِرد گِرد کا ماحول اور ہماری مجبوریاں
اِنتخابات سے پہلے [اگر سب اِس اصول پر عمل کریں]

اب صرف اساتذہ کے تعلق سے لکھنا مقصود ہے ۔ جب میری تعلیم کا آغاز ہوا تو اُستاذ خواہ وہ پہلی جماعت کا ہو بڑے سے بڑا عہديدار بھی اس کا احترام کرتا تھا ۔ اس کی بہت سی مثالیں میرے مشاہدہ میں آئیں ۔ میں صرف اپنے ساتھ پیش آنے والا ايک واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ میں نے 1962ء میں بی ایس سی انجیئرنگ کرنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کیا ۔ کچھ دن بعد میں بائیسائکل پر جا رہا تھا کہ پولیس والے نے میرا چالان کر دیا ۔ دوسرے دن میں ضلع کچہری پہنچا ۔ کسی نے بتایا کہ اے ڈی ایم صاحب کے پاس جاؤں ۔ میں ان کے دفتر گیا تو پتہ چلا کہ ڈی سی صاحب کے دفتر گئے ہیں ۔ میں ڈی سی صاحب کے دفتر چلا گيا ۔ چپڑاسی نے کہا “چِٹ پر اپنا نام اور کيا کام کرتے ہيں لکھ ديں”۔ چپڑاسی نے واپس آ کر اندر جانے کا کہا ۔ ڈی سی اور اے ڈی ایم صاحبان نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا ۔ میرے بتانے پر ڈی سی صاحب بولے “جناب ۔ آپ اُستاذ ہیں ۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ آپ کو یہاں آنے کی زحمت کرنا پڑی ۔ آئیندہ کوئی کام ہو تو ٹیلیفون کر دیں یا کسی کو بھیج دیں ۔ ويسے آپ تشریف لائیں ہمیں آپ سے مل کر خوشی ہو گی”

ایک اس سے بھی پرانہ واقعہ ہے 1953ء کا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہمارے سيکشن میں غلام مرتضٰے نامی ایک لڑکا بہت شرارتی تھا اور پڑھائی کی طرف بھی بہت کم توجہ دیتا تھا ۔ اس کے متعلق عام خیال یہی تھا کہ وہ کسی اُستاذ کی عزت نہیں کرتا ۔ ایک دن کوئی باہر کا آدمی سکول میں پرائمری کے ایک اُستاذ سے ملنے آیا اور اس کے ساتھ جھگڑنے لگا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی ۔ غلام مرتضٰے گولی کی طرح کمرے سے نکلا اور باہر سے آنے والے آدمی کو دبوچ کر دھکے دیتے ہوئے سکول سے باہر لے گیا ۔ اتنی دیر میں کچھ اساتذہ پہنچ گئے ۔ غلام مرتضٰے نے جو دیکھا تھا بیان کیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ “تم نے ایسا کیوں کیا”۔ غلام مرتضٰے بولا “اُستاذ پر کوئی ہاتھ اُٹھائے ۔ میں بے غيرت نہیں ہوں کہ دیکھتا رہوں”

میرے طالب علمی کے زمانہ میں صورتِ حال ایسے تھی کہ نہ صرف میرے بلکہ سب طلباء کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے ۔ اُستاذ کسی طالب علم کی پٹائی کرے تو طالب علم کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اسکے گھر والوں تک بات نہ پہنچے کيونکہ اسکی مزید پٹائی والدین سے ہونے کا خدشہ ہوتا تھا کہ اُستاذ نے کسی غلط حرکت کی وجہ ہی سے پٹائی کی ہو گی ۔ نہ صرف طلباء بلکہ اُن کے والدین بھی ساری عمر اپنے اور اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت و احترام کرتے تھے

پھر ايک دور آیا جسے “عوامی” کا نام دیا گیا ۔ اُس دور میں سب کو یہ سکھایا گیا کہ مُلکی نظامِ تعلیم کے پیروکار تعلیمی اداروں کے اساتذہ نیچ ہیں اور قابلِ سرزنش ہیں ۔ اساتذہ کے ساتھ گستاخی کے واقعات ہونے لگے ۔ کسی غلط عمل پر طالب علم کی سرزنش کرنا اساتذہ کے لئے مُشکل ہو گیا ۔ اسی پر بس نہ ہوا ۔ تعلیمی ترقی کے نام پر غیرسرکاری درسگاہیں ماسوائے غیرمُلکیوں کی ملکیت کے قومی تحویل میں لے کر اکثر اساتذہ کو کم تعلیم یافتہ ہونے کے بہانے سے چلتا کیا گیا ۔ اُن دنوں سرکاری درسگاہیں بہت کم تھیں مگر اکثر غير سرکاری درسگاہوں میں تعلیم کا معیار بلند تھا ۔ قومی تحویل میں لی گئی درسگاہوں میں حکومت کے منظورِ نظر تعینات ہوئے جن کو حکومت سے وفاداری کا زیادہ اور بچوں کی تعلیم کا کم خیال تھا جس کے نتیجہ میں تعلیمی انحطاط شروع ہوا

عوامی حکومت کی منصوبہ بندی کے نتیجہ میں مہنگائی یکدم بڑھی تو حکومت کے منظورِ نظر اساتذہ نے ٹیوشن سینٹر کھول لئے اور درسگاہوں ہی میں ان ٹیوشن سینٹروں کی اشتہار بازی کرنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے او اور اے لیول کے جھنڈے بلند ہونا شروع ہوئے ۔ ذرائع ابلاغ نے اپنی کمائی کے لئے اُن کی بھرپور اشتہاربازی کی ۔ ان او لیول والوں کی قابلیت کا مُختصر ذکر میں نے اپنی 16 مئی 2007ء کی تحریر میں کیا تھا

حکومت نے جلسوں اور جلوسوں کو بھرنے کے لئے درسگاہوں میں سیاست کو عام کیا اور درسگاہیں سياسی کٹھپتلیاں بن کر رہ گئے ۔ طُلباء اور طالبات میں محنت کا رحجان کم ہوا تو اسناد بکنے لگیں ۔ پرانے زمانہ میں دوران امتحان کبھی کبھار کوئی نقل کرتا پکڑا جاتا تو منہ چھپاتا پھرتا پھر برسرِعام نقل ہونے لگی اور امتحانی مراکز بکنے لگے ۔ سفید پوش والدین کے محنتی اور دیانتدار بچے مُشکلات کا شکار ہونے لگے مگر مجبور تھے کہ ان کے پاس بھاری فیسوں کیلئے رقوم نہ تھیں

کسی زمانہ میں خاندان کی بڑھائی کا نشان تعليمی قابلیت ۔ شرافت اور دیانتداری ہوتے تھے پھر بڑھائی یہ ہونے لگی کہ “ميرا بيٹا امریکن سکول یا سِٹی سکول ۔ یا گرامر سکول یا بيکن ہاؤس میں پڑھتا ہے۔ اور او لیول یا اے لیول کر رہا ہے”۔ استاذ کی خُوبیوں کی بجائے دولت اور اعلٰی عہديداروں سے تعلق کی عزت ہونے لگی

جس استاذ نے مجھے آٹھویں جماعت میں انگریزی پڑھائی تھی وہ خود دس جماعت پاس تھے مگر جیسا اُنہوں نے پڑھایا ويسا پڑھانا تو کُجا دورِ حاضر کا ایم اے انگلش ويسا لکھ بھی نہیں سکتا