ذہانت ایسی خُو ہے جس کا بنیادی مادّہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کے دماغ میں رکھا ہے البتہ ذہانت کی نشو و نما کیلئے اس کا درُست متواتر استعمال ضروری ہے ورنہ اِسے زنگ لگ جاتا ہے ۔ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے سے بھی ذہانت کا استعمال کم ہو جاتا ہے ۔ زنگ لگ جانے کی صورت میں معمولی باتیں بھی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ دورِ حاضر میں جس طرح عام آدمی [common man] میں عمومی سُوجھ بُوجھ [common sense] کم ہی ملتی ہے اسی طرح وکالاتِ ذہانت [intelligence agencies] کے اہلکار ذہانت کا استعمال کم ہی کرتے ہیں ۔ عام آدمی محدود وسائل اور فکرِ معاش میں مبتلا ہونے کے باعث کسی اور طرف توجہ نہیں دے سکتا لیکن وکالاتِ ذہانت کے ارکان ذرائع اور اختیارات کی فراوانی کی وجہ سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ عقلِ کُل ہیں ۔ ایسا رویّہ اُن کی ذہانت پر بُری طرح اثرانداز ہوتا ہے ۔ فرسودہ نظامِ تفتیش رہی سہی کسر پوری کر دیتا ہے
غُوغا تو جدیدیت کا بہت ہے لیکن تفتیش کیلئے فی زمانہ بھی ہزاروں سال پرانے طریقے ہی استعمال کئے جاتے ہیں صرف اوزار جدید ہیں جو نفسیاتی اثر رکھنے کی وجہ سے زمانہ قدیم سے زیادہ تشدد کا سبب بنتے ہیں اور زیرِ تفتیش شخص کا ذہنی توازن مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ گونٹاناموبے میں امریکی جیل میں مُلزمان سے کیا جانے والا سلوک اس کی ایک ادنٰی سی مثال ہے
دورِ حاضر میں تفتیش کا طریقہ جو قدیم زمانہ میں نہ تھا یہ ہے کہ وکالات ذہانت کے اہلکار اپنی مرضی کے چُنے ہوئے شواہد پر ایک کہانی مرتّب کرتے ہیں اور اس میں مفروضہ مُلزِم یا مُلزِموں کو کردار عطا کرتے ہیں ۔ اس کہانی کا ہیرو گرفتار شدہ یا نامزد ملزم ہوتا ہے ۔ اگر گرفتار ملزم تفتیش کاروں کی پٹڑی پر چڑھ جائے تو اُسے وِلیئن [villain] کا کردار بھی دیا جا سکتا ہے ۔ اسے مناسب معاوضہ دے کر کسی اور تک پہنچا جاتا ہے
طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ گرفتار ملزم کو تیار شدہ کہانی سنائی جاتی ہے ۔ اگر وہ اقرار نہ کرے تو اس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا ہے ۔ جب ملزم نڈھال ہو جائے تو اسے پھر اُسی کہانی کا کردار بننے کو کہا جاتا ہے ۔ یہ عمل ہر بار پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دُہرایا جاتا ہے اور ذہنی اذیت کے طریقے بدل بدل کر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اگر ملزم کی کوئی دُکھتی رگ تفتیش کاروں کے عِلم میں آجائے تو وہ ملزم سے سب کچھ منوا لیتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک پچاس پچپن سالہ عزّت دار مرد کو کہا جائے کہ “اگر تم تعاون نہیں کرو گے تو تمہاری جوان بیٹی کو ہم یہاں لے آئیں گے ۔ اُس کے سامنے تمہیں ننگا کریں گے اور تفتیش کریں گے “۔ تو وہ شخص تمام ناکردہ جرائم اپنے سر لینے کے لئے تیار ہو جائے گا تاکہ اس کی بیٹی اُسے ننگا ديکھنے اور تفتیش کی اذیت سے بچ جائے
جدید آلات کا استعمال اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ پہلے مفروضہ مُلزمان کے بیانات ریکارڈ کر لئے جاتے ہیں ۔ تفتش کاروں کے پاس اُجرتی آواز نقل کرنے والا شخص ہوتا ہے ۔ وہ نقال ٹیپ سُن سُن کر آواز کی نقل کی مشق کر لیتا ہے ۔ پھر اُسے ایک خود ساختہ بیان لکھ کر دیا جاتا ہے جو نقال اُس آواز میں پڑھ دیتا ہے اور اُسے ریکارڈ کر لیا جاتا ہے ۔ اس بیان میں مفروضہ ملزمان میں سے ایک کا اقبالِ جُرم ہوتا ہے ۔ اس مصنوعی بیان کی ٹیپ پھر دوسرے ملزمان کے سامنے چلا کر اُنہیں جُرم قبول کرنے کیلئے ہر طرح کا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور جُرم قبول نہ کرنے کی صورت میں مختلف طریقوں سے ڈرایا جاتا ہے اور ذہنی اذیت بھی دی جاتی ہے ۔ اس طرح بھی گرفتار آدمی ناکردہ جُرم اپنے سر پر لینے پر مجبور ہو جاتا ہے
مندرجہ بالا سطور میں جو سادہ سا خاکہ پیش کیا گیا ہے حقائق اس سے بہت زیادہ بھیانک ہیں ۔ یہ طریقے صرف وطنِ عزیز یا بھارت میں ہی نہیں بلکہ امریکہ اور کئی مغربی ممالک میں بھی زیرِ استعمال ہیں ۔ چنانچہ وکالاتِ ذہانت [intelligence agencies] کے گرفتار کئے ہوئے کسی شخص کا بیان درست ہے یا غلط یہ وہ خود جانتا ہے یا پھر اللہ جانتا ہے
ہمارے متعلقہ مُلکی ادارے کیا تھے ۔ اب کیا ہیں اور کیا ہونا چاہیئے اس کیلئے میری اگلی تحریر اِن شاء اللہ جلد