Category Archives: معلومات

پاکستان کیوں بنا ؟ کیسے بنا ؟

my-id-pak
آئیندہ کل یعنی 14 اگست کو پاکستان میں چھیاسٹھواں یومِ آزادی منایا جائے گا ۔ پاکستان میں آنے والے علاقے کی آزادی کا اعلان 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر کیا گیا تھا ۔ اُس رات ہند و پاکستان میں رمضان المبارک 1366ھ کی ستائیسویں تاریخ تھی اور اتفاق سے 14 اور 15 اگست 2012ء کو میں دبئی میں ہوں اور یہاں رمضان المبارک 1433ھ کی ستائسویں تاریخ ہو گی

آج کے دور میں کچھ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی

اب مستند تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟

برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات

ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے

ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے عوام کے دباؤ کے تحت بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير ميں فوج کشی بھی کی گئی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا

حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا

صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟ (Mr. Jinnah! Is it not a step forward for a greater Pakistan?)”۔
قائد اعظم نے کہا ” بالکل ۔ آپ درست سمجھے (Exactly, you have taken the point)”
مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا

کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔

کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی خواہ وہ سرحدی گاندھی کہلانے والے عبدالغفار خان کی اولاد کی جماعت ہو یا قائد اعظم کی مخالفت کرنے والے شاہنواز بھٹو کی اولاد کی یا کانگرسی مولوی مفتی محمود کی اولاد کی یا بھارت جا کر برملا کہنے والے الطاف حسین کی کہ “پاکستان بنانا فاش غلطی تھی”۔

ڈرتے ڈرتے

متعلقہ مضامین پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے
پنجابی کوئی زبان نہیں
پنجابی قوم نہیں
اُردو سپیکنگ

ڈھائی سال قبل میں نے لکھا تھا “پنجابی کوئی زبان نہیں“۔ چونکہ متعلقہ کُتب و دیگر علمی مواد میرے سامنے نہ تھا اور میں یاد داشت کی بنیاد پر لکھ رہا تھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا

یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد کے کچھ حصوں اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی

پچھلے دنوں ایک نقشہ دیکھنے کو مل گیا جس پر ستمبر 1872ء تاریخ درج ہے ۔ اس کے مطابق پنجاب میں 6 ڈویژن (Division) تھیں جن کے یہ نام تھے
1 ۔ دہلی ۔ 2 ۔ جالندھر ۔ 3 ۔ لاہور ۔ 4 ۔ راولپنڈی ۔ 5 ۔ پشاور ۔ 6 ۔ ڈیرہ جٹ

جانتے ہیں ڈیرہ جٹ کس علاقے کا نام تھا ؟
موجودہ خیبر پختونخوا ۔ پنجاب اور سندھ کے وہ علاقے جہاں سرائیکی بولنے والے اور بلوچ رہتے ہیں ۔ (مزاری ۔ زرداری وغیرہ سب بلوچ ہیں)

اُس دور کے پنجاب میں 31 اضلاع تھے جن میں سب سے زیادہ یعنی 7 دہلی میں اور سب سے کم یعنی 3 پشاور میں تھے

ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں نے جب بنگال کو سر کر لیا تو پنجاب اُنہیں سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوا ۔ چنانچہ ایک طرف دہلی اور اس کے مشرقی علاقے کو پنجاب سے کاٹ کر الگ کیا ۔ دوسری طرف پشاور اور ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی علاقے کو نارتھ ویسٹرن فرنٹیر (North Western Frontier) کا نام دیا جسے ماضی قریب میں خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا ہے ۔ تیسری طرف ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی اور بلوچ علاقے کو دیبل وغیرہ میں شامل کر کے سندھ کا نام دیا ۔ پاکستان بنتے وقت باقی رہ جانے والے پنجاب میں سے بھی آدھا بھارت کے حوالے کر دیا

موجودہ حکومت کو نجانے اس بچے کھچے پنجاب سے جو اصلی پنجاب کا شاید پانچواں حصہ ہے کیا خطرات لاحق ہوئے ہیں کہ اس کا مزید تیا پانچا کرنا چاہتی ہے
۔ ”حیف ایسی قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہو اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو ایک الگ قوم سمجھے“۔ خلیل جبران

خلائی جہاز ۔ ریلوے اور گھوڑے کی پیٹھ

عنوان دیکھ کر عام قاری راقم الحروف کی دماغی صحت پر شُبہ کرے گا کہ “گھوڑے کی پیٹھ کی ریلوے اور خلائی جہاز سے کیا نسبت ؟” لیکن حقیقت جاننے کے بعد شاید وہ اُن(٭) کی عقل پر حیران ہو جن کے صبح شام قصیدے پڑھے جاتے ہیں
(٭ امریکیوں)

خلائی جہاز کو لانچِنگ پیڈ پر اِستادہ تو دیکھا ہی ہو گا ۔ اس کے ایندھن (feul) کے ٹینک کے دونوں اطراف 2 بڑے بڑے بُوسٹر لگے ہوتے ہیں ۔ یہ ریاست اُوتاہ (Utah) میں ایک تھیوکال (Thiokol) نامی کمپنی بناتی ہے

ان بُوسٹروں کو ڈیزائن کرنے والے انجنیئروں نے ضرور سوچا ہو گا کہ انہیں کچھ بڑا بنایا جائے لیکن مجبوری آڑے آ گئی ہو گی کیونکہ انہیں فیکٹری سے لانچ والی جگہ (launch site) ٹرین پر لے جایا جاتا ہے ۔ فیکٹری سے لانچ والی جگہ جانے کیلئے ریلوے لائن پہاڑ کے اندر بنے ایک غار میں سے گذرتی ہے ۔ اس غار کی چوڑائی ریلوے لائن سے کچھ زیادہ ہے ۔ چنانچہ انجنیئرز کو بُوسٹرز کی چوڑائی اسی حساب سے رکھنا پڑی ۔ ریلوے کی چوڑائی 4 فٹ ساڑھے 8 انچ ہے جو نہائت نامعقول محسوس ہوتی ہے

سوال ۔ ایسی چوڑائی کیوں رکھی گئی ؟
جواب ۔ اسلئے کہ انگلستان سے آئے ہوئے لوگوں نے یہ ریلوے لائن ڈیزائن کی تھی کیونکہ انگلستان میں یہ ایسے ہی بنائی جاتی تھی

سوال ۔ انگلستان میں ایسے بے تُکے سائز کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟
جواب ۔ کیونکہ پہلی ریلوے اُن ہی لوگوں نے بنائی جنہوں نے ٹرام وے (tramways) بنائی تھی ۔ اسی لئے اُنہوں نے ریلوے کا سائز وہی رکھا جو ٹرام وے کا تھا

سوال ۔ ٹرام وے کیلئے اُنہوں نے ایسا فضول سائز کیوں اختیار کیا ؟
جواب ۔ کیونکہ اُنہوں نے وہی اوزار (jigs and tools) استعمال کئے تھے جو وہ بگی بنانے کیلئے استعمال کرتے تھے

Picture – Wagon

سوال ۔ بگی کے پہیوں کے درمیان ایسا فاصلہ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ اگر وہ اس کی بجائے مختلف فاصلہ رکھتے تو انگلستان کے کئی علاقوں میں بگی کے پہیئے ٹوٹنے کا خدشہ تھا کیونکہ وہاں پرانے زمانے کی سڑکیں تھیں جن پر دو متوازی گہری پگڈنڈیاں بنی ہوئی تھیں

سوال ۔ یہ پگڈنڈیاں کس نے بنائی تھیں ؟
جواب ۔ انگلستان سمیت یورپ میں رومیوں نے سڑکیں بنوائیں تھیں ۔ سڑکیں کچی تھیں اور ان پر رومی فوجیوں کے رتھ چلنے سے گہری پگڈنڈیاں بن گئیں ۔ یہ رتھ رومی حکومت کیلئے بنائے گئے تھے اسلئے سب کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ ایک ہی تھا اور یہ فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ تھا

سوال ۔ لیکن آخر رتھ کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ کیونکہ رتھ کو 2 گھوڑے چلاتے تھے اور پہیوں کا درمیانی فاصلہ 2 گھوڑوں کی پیٹھ کی کُل چوڑائی سے کچھ زیادہ رکھا گیا تھا جو 4 فٹ ساڑھے 8 انچ بنتا تھا

چنانچہ ریلوے اور خلائی جہاز جیسے اہم منصوبوں کیلئے گھوڑے کی پیٹھ اہم بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر گھوڑے کی پیٹھ کا ذکر آئے تو اسے نظر انداز نہ کیجئے

پس ثابت ہو ا کہ سائنسدان خواہ کتنی ہی ترقی کر جائیں بے بس ہیں نوکر شاہی (Bureoucracy) کے آگے جو تبدیلی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے

لڑکپن کی باتيں قسط 5 ۔ تاش

قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت اور رنگِ زماں لکھ چکا ہوں

ميں نے مارچ 1953 ميں پنجاب يونيورسٹی کا ميٹرک کا امتحان ديا ۔ [1954 عيسوی تک ميٹرک کا امتحان پنجاب يونيورسٹی ليتی تھی] ۔ کسی وجہ سے نتيجہ شائع ہونے ميں دير ہو گئی ۔ لاہور اور مری وغيرہ کی سير کے بعد وقت گذارنے کيلئے جو ذرائع ميں نے استعمال کئے اُن ميں ايک تاش کے کھيل بنانا بھی تھا ۔ مجھے جو اپنے پرانے کاغذات ملے ہيں اُن ميں سے ایک کھيل درج ذیل ہے ۔

A ۔ یکہ ۔ ۔ K ۔ بادشاہ ۔ ۔ Q ۔ ملکہ ۔ ۔ J ۔ غلام ۔ ۔ S ۔ حُکم ۔ ۔ H ۔ پان ۔ ۔ D ۔ اینٹ ۔ ۔ C ۔ چڑیا

تاش کے 52 پتّے ليکر پہلے حُکم کا يکّہ نيچے اس طرح رکھيئے کہ سيدھی طرف اوُپر ہو پھراُس پر مندجہ ذيل ترتيب ميں پتّے سيدھے رکھتے جائيے

SA, C4, S2, H3, S10, S3, DQ, DJ, H9, S4, H4, D9, C8, HQ, S5, C5, H5, C10, SJ, D4, S6, D7, D6, DK, H6, H10, C6, S7, CK, DA, CQ, C9, SQ, H7, D8, S8, HK, CA, D2, C2, HJ, C7, H8, D5, S9, C3, CJ, SK, HA, D10, H2, D3

دی ہوئی ترتيب سے سب پتّے رکھ چُکيں تو ان کو اکٹھا اُٹھا کر اُلٹا رکھ ليجئے ۔ پھر جب کسی کو کرتب دِکھانا ہو تو اُوپر سے ايک پتّا اُٹھائيے اور بغير ديکھے ايک کہہ کر نيچے سیدھا رکھ دیجیئے ۔ يہ حُکم کا يکّہ ہو گا ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا اُٹھا کر دو کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی دُکّی ہو گی ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا دو کہہ کر اٹھائيے اور سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے پھر تيسرا پتّا اُٹھا کر تين کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی تِکّی ہو گی ۔ يہ عمل دوہراتے جائیے حتٰی کہ حُکم کے 13 پتے ختم ہو جائیں ۔ یہي عمل پھر پان کے پتوں کے ساتھ دوہرائیے پھر چڑیا کے پتوں کے ساتھ اور آخر میں اینٹ کے پتوں کے ساتھ ۔

معیشت کی بربادی اور کراچی میں قتل و غارتگری کا اصل سبب

یومیہ 5 ارب روپے کا نقصان
چیئرمین نیب ایڈمرل فصیح بخاری کے مطابق مُلکی معیشت کے صرف 3 شعبوں ہی میں کرپشن سے5 ارب یومیہ یعنی ایک کھرب 50 ارب روپے ماہانہ یا18 کھرب (1800000000000) روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے

اس انکشاف سے ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کی توثیق ہو گئی ہے جس میں کہاگیاتھا کہ پاکستان کے 94 ارب ڈالرز وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے 4سالہ حکومت میں ہونے والی بد انتظامی ،کرپشن اور ٹیکس چوری کی نذر ہو چکے ہیں

مزید یہ کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مُلکی معیشت کوگذشتہ 4 برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یومیہ 3ارب یعنی ماہانہ 90 ارب یا سالانہ 10 کھرب 50 ارب سے زائد کا نقصان ہوا ہے

چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ کرپشن پر قابو پانے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ سویلین بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے تاکہ سرکاری ملازمین بغیر کسی خوف و لالچ کے اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں

چیئرمین نیب نے حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے 4 سیکریٹریوں کی برطرفی کا ذکر کیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا ایجنڈا پیش کیا تھا اور یہ بات قائم علی شاہ جو ناگوار گذری ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر کارروائی کرینگے تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا

فصیح بخاری نے وضاحت کی کہ نیب کی اختیارات بڑے پیمانے پر محدود کر دیئے گئے ہیں ایک اندازے کے مطابق نیب کی جو طاقت پرویز مشرف کے دور میں تھی وہ اب صرف30فیصد ہی رہ گئی ہے

مفاہمت کے باعث مجرموں کی سرکوبی نہیں ہوتی
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق بدھ کو چیف منسٹر ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں نے بالآخر وہ بات کہہ دی جو وہ کسی باقاعدہ اجلاس میں اب تک نہیں کہہ سکے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض افسروں نے یہ کہہ دیا کہ مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی سرکوبی نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں مشاورت کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضح پالیسی دی جائے تا کہ وہ جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جاسکے

بعض افسروں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شرپسندوں کو گرفتار کرتے ہیں لیکن بعدازاں سیاسی دباؤ پر انہیں چھڑا لیا جاتا ہے ۔ اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور کارروائی سے گریزاں رہتے ہیں

عوام کے غمخوار

مُسلم لیگ میں سچے مسلمان کتنے ہیں معلوم کرنا بہت مُشکل کام ہے ۔ مُلک میں وفاقی اور 3 صوبوں کی حکومتیں جس جماعت کے پاس ہیں اُس کا نام ہے پاکستان پیپلز پارٹی یعنی پاکستانی عوام کی جماعت ۔ اس حکومت کی عوام دوستی کے جھنڈے ہر طرف گڑے ہیں ۔ اس کی کارستانیوں میں سے ایک چھوٹی سی بات جس کا اثر عوام کی بہت سی ضروریات پر پڑتا ہے وہ ہے پٹرولیم مصنوعات جن کی قیمت میں اضافے سے 65 فیصد پاکستانی شدید متاثر ہوتے ہیں

12 اکتوبر 1999ء کو جب مسلم لیگ کی حکومت ختم کی گئی تو پٹرول کی قیمت فی لیٹر 22 روپے 30 پیسے تھی ۔ 25 مارچ 2008ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اقتدار سنبھالنے پرپٹرول کی قیمت فی لیٹر 62 روپے 81 پیسے تھی جو اپریل 2012ء میں 103 روپے 68 پیسے ہو چکی ہے یعنی پی پی پی کی حکومت کے 4 سالہ دور میں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے 87 پیسے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ پرویز مشرف کے ساڑھے 8 سال میں 40 روپے 51 پیسے اضافہ ہوا تھا

حکومت پٹرول پر فی لیٹر 46 روپے 18 پیسے ٹیکس لے رہی ہے یعنی عوام فی لیٹر 46 روپے 18 پیسے ٹیکس کی مد میں ادا کر رہے ہیں

حکومت بلاواسطہ ٹیکسوں کا 50 فیصد، ڈومیسٹک جنرل سیلز ٹیکس کا 47 فیصد، درآمدی جنرل سیلز ٹیکس کا 36 فیصد اور امپورٹ ڈیوٹی کا 11 فیصد پٹرولیم مصنوعات پرٹیکس لگا کر حاصل کرتی ہے

موجودہ حکومت نے صرف 2010 ۔ 2011ء میں پٹرولیم پراڈکٹس پر5کھرب 3 ارب 50 کروڑ کے ٹیکس وصول کئے جس کی کچھ تفصیل یہ ہے ۔ ڈومیسٹک جنرل سیلز ٹیکس ایک کھرب 53 ارب 30کروڑ ۔ درآمدی جنرل سیلز ٹیکس ایک کھرب 10ارب 50کروڑ ۔ درآمدی ڈیوٹی 21 ارب 40کروڑ اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 5 ارب 10کروڑ جبکہ دیگر 5 ٹیکسوں کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں

یوں پٹرولیم پراڈکٹس پر (سوائے ود ہولڈنگ ٹیکس) 2010 ۔ 2011ء میں 503 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس وصول کئے گئے اس طرح ملک کا نصف بلاواسطہ (indirect) ٹیکس ریونیو پٹرولیم پراڈکٹس سے حاصل ہوتا ہے

رانا بھگوان داس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2002 ۔ 2009ء (7 سال) میں اُس وقت کی حکومت نے 10 کھرب 23 ارب روپے پٹرولیم پراڈکٹس پرٹیکس کی مد وصول کئے تھے یعنی سالانہ 146 ارب سے کچھ زائد جبکہ موجودہ حکومت نے ایک سال میں پٹرولیم پراڈکٹس پرٹیکس کی مد 503 ارب روپے سے زائد وصول کئے

بشکریہ ۔ جنگ

تعصب کی تلاش

میرے زمینی حقائق بیان کرنے پر چند قارئین نے کبھی کبھار مجھے پنجابی قرار دے کر مجھ پر تعصب کا سرنامہ (Label) لگایا کہ پنجابی ہوتے ہی متعصب ہو

جب پہلی بار 4 سال قبل مجھ پر سرنامہ لگایا گیا تو میں اس امر اور اس کی وجوہات کی کھوج میں لگ گیا ۔ ایک دلچسپ حقیقت آشکار ہوئی کہ عام طور پر دوسروں پر تعصب کا سرنامہ چسپاں کرنے والے شاید غیرارادی طور پر خود تعصب کا شکار ہوتے ہیں جس کا سبب اُن کا ماحول ۔ معاندانہ انتظامِ نشر و اشاعت (Biased propaganda) یا طرزِ تربیت ہوتا ہے یا پھر اُن کو کسی ایک شخص سے زِک پہنچی ہوتی ہے اور اس بناء پر وہ اُس کی پوری برادری پر سرنامہ لگا دیتے ہیں

درحقیقت تعصب کی بنیاد کا اصل سبب دین سے دُوری اور خودپسندی ہوتے ہیں ۔ دین میرِٹ کی تلقین کرتا ہے اور اگر دین سے مُبرّا بھی غور کیا جائے تو میرٹ ہی ایک جواز ہے کسی کے اعلٰی عہدے پر پہنچنے کا ۔ ہمارے مُلک میں میرٹ کی بجائے اقرباء پروری زوروں پر ہے لیکن یہ حقیقت نطر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پنجاب میں کئی اہم تعلیمی ادارے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے پہلے سے موجود تھے ۔ نتیجہ ظاہر ہے یہی ہو گا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عہدیدار باقی صوبوں کے رہائشیوں کی نسبت زیادہ ہوں گے

جملہ معترضہ ۔ اگر جموں کشمیر سارا 1947ء میں پاکستان میں شامل ہوتا تو آج اعلٰی عہدوں پر ہر طرف جموں کشمیر کے باشندے نظر آتے کیونکہ 1947ء میں جموں کشمیر میں شرح خواندگی 80 فیصد سے زائد تھی

یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب کی آبادی ملک کی کُل آبادی کا 65 فیصد سے زائد ہے مزید یہ کہ پنجاب میں بسنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جو پنجاب کے رہائشی نہ تھے ۔ اُردو بولنے والے کچھ 1947ء میں بھارت سے ہجرت کر کے آئے اور پنجاب کو رہائش کیلئے منتخب کیا ۔ پشتو یا سندھی بولنے والے اور باقی اُردو بولنے والے 1972ء کے بعد بالخصوص 1990ء کے بعد سندھ ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر پنجاب میں آباد ہوئے ۔ ان لوگوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ اکثریت نے پنجابی زبان اور ثقافت کو ایسا اپنا لیا ہوا ہے کہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ کسی اور صوبے یا مُلک سے آئے تھے

دسمبر 2011ء میں خبر شائع ہوئی کہ وفاقی اعلٰی عہدیداروں میں پنجابیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ ان کا تعلق وفاق سے ہونے کے باعث پنجاب کی حکومت کو کوئی دسترس حاصل نہیں ۔ وفاقی اداروں میں تعیناتی کے ذمہ دار صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی بنتے ہیں ۔ گو گیلانی صاحب پنجاب کے رہنے والے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے اپنے آپ کو پنجابی کی بجائے سرائیکی کہتے ہیں ۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ اختیارات زرداری صاحب کے پاس ہیں جو کہ پنجابی نہیں ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ زرداری صاحب کیسے لوگوں کو اعلٰی عہدوں سے نوازتے ہیں ۔ رحمٰن ملک اور بابر عوان جو دونوں پنجابی ہیں اہم مثال ہیں

اللہ کوشش کا پھل دیتا ہے میں اپنی سی کوشش کر رہا تھا کہ 27 مارچ 2012ء کو پنجاب میں تعینات اعلٰی عہدیداروں کے اعداد و شمار شائع ہوئے جن کے مطابق پنجاب میں دوسرے صوبوں کے 13 اعلٰی عہدیدار تعینات ہیں
مندرجہ ذیل فہرست پر نظر ڈالنے کے بعد قارئین و قاریات بتائیں کہ دوسری صوبائی حکومتوں نے کتنے اعلٰی عہدیدار پنجابی تعینات کئے ہوئے ہیں ۔ اُن کو شامل نہ کیجئے گا جو وفاقی حکومت نے تعینات کئے ہوئے ہیں ۔ وفاقی حکمرانوں کا اپنا ذاتی نظام العمل (agenda) ہے جس کا ایک مظہر روشنیوں کے شہر کراچی کا موجودہ حال ہے سُنا تھا “بغل میں چھُری منہ میں رام رام”

فاٹا سے ایک
شیر عالم محسود ۔ کمشنر ۔ سوشل سکیوریٹی

آزاد جموں کشمیر سے ایک
محمد دین وانی ۔ سیکریٹری انفارمیشن

بلوچستان سے پانچ
نور الامین مینگل ۔ڈی سی او ۔ لاہور
داؤد برائچ ۔ سپیشل سیکریٹری ہیلتھ
ثاقب عزیز ۔ سپیشل سیکریٹی ۔ لوکل گورنمنٹ
اسلم ترین ۔ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل
اسفندیار ۔ ایڑیشنل سیکریٹری ہیلتھ

خیبر پختونخوا سے تین
شوکت علی ۔ کمشنر ۔ سرگودھا
جودت ایاز ۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر ۔ لیپ ٹاپ پروجیکٹ
اکرام اللہ خان ۔ ایڈیشنل ہوم سیکریٹری

سندھ سے تین
ساجد یوسفانی ۔ چیف ایگزکٹو آفیسر ۔ پنجاب انویسٹمنٹ بورڈ
ہارون احمد خان ۔ ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی ۔ پنجاب
مؤمن آغا ۔ چیف ایگزکٹو آفیسر ۔ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم