قبل ازیں باد نما ۔ وطن اور افسانہ یا حقیقت لکھ چکا ہوں
جن دنوں ميں نويں دسويں جماعت ميں پڑھتا تھا ميں اور ميرے 3 دوست جمعہ کو مرکزی جامع مسجد راولپنڈی ميں نمازِ جمعہ پڑھنے کے بعد بانسانوالا بازار ۔ راجہ بازار ۔ لياقت روڈ ۔ مری روڈ اور سرکلر روڈ سے ہوتے ہوئے گھروں کو چلے جايا کرتے تھے ۔ ميں جھنگی محلہ ميں اپنے گھر اور باقی اپنے اپنے ۔ ايک دن نماز کے بعد جب ہم لوگ لياقت روڈ پر سنيما کے سامنے سے گذر رہے تھے تو ہم نے ديکھا کہ ايک جوان جو مسجد میں نماز پڑھ کر نکلا تھا سنيما کا ٹکٹ لينے کيلئے قطار ميں کھڑا ہے
انہی دنوں چُست لباس کا فيشن چلا اور لباس چُست ہوتے قميض جسم کے ساتھ يوں چِپکی کہ جيسے جسم پر رکھ کے سِی گئی ہو ۔ شلوار کا گھير نہائت مختصر ہو گيا اور دوپٹہ سُکڑ کر اور بَل کھا کے رَسی کی صورت اختيار کر گيا ۔ اس لباس کو ٹیڈٰی لباس (Teddy Dress) کا نام دیا گیا تھا ۔ شاید ٹائڈی (Tidy) کو ٹیڈی بنا دیا گیا ہو
شام کے وقت گھر ميں بيٹھا تھا کہ ميرا دماغ گھومنے لگا ۔ ميں نے کاغذ پنسل پکڑی اور لکھنے لگ گيا ۔ يہ نظم ميرے ساتھيوں نے کسی رسالے ميں بھی چھپوا دی تھی جس کا نام اس وقت ميرے ذہن ميں نہيں
ہر موڑ پہ تُم رنگِ زماں ديکھتے جاؤ ۔ ۔ ۔ خاموش يہ سب سَيلِ رواں ديکھتے جاؤ
تھئيٹر کو جاتے ہيں مسجد سے نکل کر ۔ ۔ ۔ اسلام کے يہ روحِ رواں ديکھتے جاؤ
ہونٹوں پہ لِپ سٹِک تو رُخسار پہ پاؤڈر ۔ ۔ ۔ يہ دُخترِ مِلت ہے رواں ديکھتے جاؤ
نازک ہوئی دخترِ مِلت کی طبيعت ۔ ۔ ۔ دوپٹہ بھی ہوا اس پہ گراں ديکھتے جاؤ
اندھے ہوئے مغربی فيشن کے جنوں سے ۔ ۔ ۔ انساں ہيں بنے ٹَيڈی ديکھتے جاؤ
ہے اَوجِ ترقی کی طرف جاتا زمانہ ۔ ۔ ۔ اجمل کھڑے رفتارِ زماں ديکھتے جاؤ