Category Archives: معاشرہ

لڑکے گھورتے ہیں

موضوع اس سے شروع ہوا کہ لڑکے اور مرد لڑکیوں اور خواتین کو گھورتے ہیں اور دیگر نازیبا حرکات کرتے ہیں ۔ یہ حرکات میں نے اپنی زندگی میں اس وقت پہلی بار دیکھی تھیں جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا یعنی 1951ء میں ۔ میں مندرجہ ذیل خواتین و حضرات کی تحاریر اس سلسلہ میں پڑھ چکا ہوں

راشد کامران صاحب نے 3 دسمبر 2007ء کو
فرحت صاحبہ نے 6 دسمبر 2007ء کو
عورت کی مجموعی مظلومیت پر لکھا جو کہ ایک الگ تحقیق طلب ہے
قدیر احمد صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
اپنے آپ کو بدتمیز کہنے والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
میرا پاکستان والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
ماوراء صاحبہ نے 9 دسمبر 2007ء کو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے میرا ذہن کچھ ایسا بنایا ہے کہ اس میں جو بات گھُس جائے اس کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ چنانچہ 1951ء سے میں نے دیکھنا شروع کر دیا کہ جب جوان لڑکی یا عورت گذر رہی ہوتی ہے تو کون کیا کرتا ہے ۔ اس کی عمر کتنی ہے اور بظاہر ماحول کیسا ہے ۔ ہم اس زمانہ میں راولپنڈی شہر کے وسطی علاقہ میں رہتے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ راولپنڈی اور گرد و نواح کے رہنے والے عورتوں پر جُملے کسنا شائد اپنا فرض سمجھتے تھے اور جملہ کسنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھ کر داد و تحسین وصول کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ عورت کے پاس سے ٹکراتے ہوئے گذرنا یا عورت کے جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگانا یا چُٹکی لینا بھی ہوتا تھا ۔ یہ حرکات کرنے والوں میں نوجوان اور شادی شدہ دونوں شامل ہوتے لیکن ان میں زیادہ تر کم پڑھے لکھے ہوتے ۔ پڑھے لکھے لوگوں میں سے بہت ہی کم کو ایسی حرکت کرتے دیکھا گیا

میں گارڈن کالج میں داخل ہوا تو وہاں مخلوط تعلیم تھی مگر لڑکیوں کی ڈین ایک بڑی عمر کی عیسائی خاتون مس خان تھیں جو ہر وقت لڑکیوں کی تربیت اور حفاظت کرتی تھیں ۔ لڑکیاں کیا لڑکے بھی ان سے بہت ڈرتے تھے ۔ اسلئے کالج کے اندر تو ممکن تھا ہی نہیں کہ کوئی لڑکا کوئی نازیبا حرکت کرے ۔ کالج سے باہر بھی پروفیسر صاحبان خیال رکھتے تھے ۔ ہمارے ہمجماعت لڑکے کو ہمارے پروفیسر خواجہ مسعود صاحب نے کسی بس سٹاپ پر لڑکیوں کے پاس کھڑا دیکھا اور کالج میں اس کو اتنا شرمندہ کیا کہ دوبارہ اس نے ایسی حرکت نہ کی ۔ سنا ہے کہ دس بارہ سال بعد گارڈن کالج میں حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ معاشرہ ہی بگڑنا شروع ہو گیا تھا

میں مزید تعلیم کیلئے 1956ء میں لاہور چلاگیا ۔ وہاں انارکلی میں ایسی حرکات ہوتے دیکھیں مگر اس کے مرتکب بالخصوص اسی کام کیلئے آئے ہوتے تھے ۔ ان میں کالجوں کے طلباء بھی شامل ہوتے تھے ۔ دکاندار عزت و احترام کے ساتھ باجی یا خالہ جی کہہ کر پیش آتے ۔ اس کے برعکس راولپنڈی میں کچھ دکان دار بھی ان بُری حرکات میں شامل ہوتے تھے ۔

ایک بات جو کسی نے نہیں لکھی یہ ہے کہ کچھ لڑکیاں ایسی حرکات سے محظوظ ہوتے بھی دیکھیں ۔ کبھی کبھی ایسی لڑکی بھی دیکھی جو خود جان بوجھ کر نوجوان لڑکے کے قریب سے یا سامنے سے گذری

مندرجہ بالا مشاہدات 1962ء تک کے ہیں ۔ اسلام آباد ہو ۔ کراچی ہو یا لاہور ۔ اب تو یہ حال ہے کہ غریب سے لے کر امیر ترین والدین کی اولاد بے راہ روی کا شکار ہے ۔ دولت کی فراوانی نے تو چار چاند لگا دیئے ہیں ۔ کسی ریستوراں میں چلے جائیے یا کسی سیر و تفریح کی جگہ ۔ ہر جگہ فلمی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ یومِ آزادی ہو یا نئے سال کی پچھلی رات ۔ کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں وہ طوفانِ بد تمیزی ہوتا ہے کہ ایک بار دیکھنے کے بعد توبہ کی اور پھر کوئی ضروری کام بھی ہوا تو ایسی رات میں گھر میں دُبکے رہے

ضمیر ۔ میرا مشاہدہ

میں نے اپنی ایک گذشتہ تحریر میں ضمیر کے متعلق اپنا مشاہدہ لکھنے کا وعدا کیا تھا ۔ ضمیر ایک ایسے احساسِ اچھائی و انصاف کا نام ہے جو پیدائش سے پہلے ہی ہر انسان میں اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے رکھ دیا ہے ۔ ہر بچہ زندہ یا فعال ضمیر کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے بچہ سمجھداری کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہر برائی اور گناہ سے پاک ہوتا ۔

میرا مشاہدہ ہے کہ اگر ایک بچہ جو ابھی کھڑا بھی نہ ہو سکتا ہو اسے زمین پر بٹھا کر دودھ کی بوتل اور مٹی کا چھوٹا سا ڈھیلا اس کے قریب اس طرح سے رکھ کر کمرے سے باہر چلے جائیں کہ اسے پتہ نہ چلے یہ چیزیں آپ نے رکھی ہیں ۔ پھر چھُپ کر دیکھتے رہیں کہ بچہ کیا کرتا ہے ۔ اگر بچہ دودھ کی بوتل پکڑ کر منہ سے لگانے لگے اور آپ آ جائیں تو بچے پر کچھ اثر نہیں ہو گا ۔ اگر بچہ مٹی کا ڈھیلا اُٹھا کر منہ میں ڈالنے لگے اور آپ کمرے میں آجائیں تو بچہ ایک دم سے کانپ اُٹھے گا ۔ یہ عمل زندہ یا فعال ضمیر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔

یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ 2 سے 8 سال کا بچہ جس کی غلط تربیت نہ کی گئی ہو ۔ اس سے آپ کوئی بات پوچھیں تو وہ بلا تأمل سچ بات بتا دے گا ۔ بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ دس بارہ سال کا بچہ بھی سچ بول دیتا ہے خواہ وہ سچ اس کے اپنے یا اس کے والدین کے خلاف جاتا ہو ۔

بچے کا ضمیر غلط ماحول اور والدین کی عدم توجہی یا غلط تربیت کے زیرِ اثر مجروح ہوتا رہتا ہے اور اگر بروقت مداوا نہ کیا جائے تو ضمیر داغدار ہو جاتا ہے اور پھر اس کا صحتمند یا فعال ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ بچوں کی نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچہ اگر ایک ماہ کا بھی ہو تو اس کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کرنا چاہیئے جو کسی بڑے یا غیر کے سامنے کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ بچہ اس کا اثر لیتا ہے ۔ کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عورت حاملہ ہو تو کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو وہ اپنے بڑے بچے کے سامنے کرنا پسند نہیں کرتی ۔ والدین کا آپس میں جھگڑنا تو کیا آپس میں بحث کرنا یا اُونچی آواز میں بولنا بچوں پر بُرا اثر ڈالتا ہے جس میں دو ماہ کا بچہ بھی شامل ہے ۔

ضروری نہیں ہوتا کہ کسی شخص کا ضمیر ہمیشہ غیر فعال رہے ۔ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقہِ نے انسان کے ضمیر میں ایسی لچک رکھی ہے کہ انسان کی ذرا سی کوشش سے ضمیر فعال ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس میں نیکی کی رمق باقی ہو ۔ انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخل ہوا تو سالِ اوّل میں مجھے بی ہوسٹل کے ایک بڑے کمرہ میں 2دو دوسرے لڑکوں کے ساتھ جگہ دی گئی ۔ وہ دونوں بھائی تھے جن کی عمر میں 5پانچ چھ سال کا فرق تھا ۔ چھوٹا بھائی میرا ہم عمر تھا ۔ جب ان سے دوستی پکی ہو گئی تو بڑے بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ جب آٹھویں جماعت میں تھا اس کی غلط لڑکوں کے ساتھ دوستی ہو گئی ۔ اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور ان کے ساتھ مل کر ڈاکے ڈالنے شروع کر دیئے ۔ جب بھی وہ گاؤں کی مسجد کے پاس سے گذرتا ۔ امام صاحب کہتے “اوئے ۔ عمر حرام توپ میں نہ گذار کچھ اللہ کا نام لے اور مسجد میں آ کر اللہ کا کلام پڑھ لے” ۔ وہ سُنی اَن سُنی کر کے چلا جاتا مگر مولوی صاحب جب بھی اسے دیکھتے یہی کہتے ۔ ایک دن وہ ڈاکہ مار کر بھاگا تو پیچھے پولیس لگ گئی ۔ اس نے اپنی گھوڑی کو خوب بھگایا ۔ پولیس سے تو بچ گیا مگر گھوڑی مر گئی ۔ اُس نے بتایا “جب میں اگلےدن گاؤں پہنچا تو ابھی فجر کی اذان نہیں ہوئی تھی ۔ میں مسجد کر پاس سے چوروں کی طرح گذر جانا چاہتا تھا کہ اچانک امام صاحب کی آواز آئی ‘اوئے ۔ یہ تیرا جُسہ کس کام آئے گا ۔ مسجد کو بڑا کر رہے ہیں اس میں دو اینٹیں ہی لگا دے شائد یہ مسجد تیری سفارش کر دے ورنہ یہ جُسہ جہنم کا ایندھن ہی بنے گا’ میں رُک گیا اور مسجد کی دیوار بنانا شروع کر دی ۔ میرے دوست آ کر مجھے طعنے دیتے کہ مُلّا کی نوکری کر رہا ہے مگر مولوی صاحب میری ہمت بڑھاتے ۔ مسجد کی دیوار بنانے کے دوران پرانے سارے واقعات مجھے یاد آتے گئے اور مجھے اپنے کردار سے نفرت ہونے لگی ۔ دیوار مکمل ہوئی تو میں مولوی صاحب کا شاگرد بن گیا ۔ نماز سیکھی اور پڑھنا شروع کی اور ساتھ ہی میں نے آٹھویں پھر دسویں اور پھر بارہویں کا امتحان دیا اور اللہ نے انجنیئرنگ کالج کا داخلہ بھی دلوا دیا”۔ 1983ء میں اس نےبطور سپرنٹنڈنگ انجیئر راولپنڈی میں تقرری کے دوران ایم اے عربی کر لیا ۔ میں نے پوچھا “اس عمر میں آپ کو عربی کی کیا سوجھی؟” تو کہنے لگا “تاکہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے ساتھ مطلب بھی سمجھ آئے”۔

سال 1968ء میں دفتری رابطہ کی وجہ سے ایک میجر صاحب سے میرے دوستانہ تعلقات ہو گئے ۔ اس زمانہ میں میرے پاس کار نہ تھی ۔ کہیں جانا تھا تو میں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں ۔ جب ہم واپس آ رہے تھے تو میجر صاحب کہنے لگے ” اجمل ۔ تم نیک آدمی ہو جبکہ میں کھلنڈرا آدمی ہوں ۔ بُرا نہ منانا ۔ آج تم نے کہا تو میں نے انکار بُرا سمجھا ۔ آئیندہ تم میرے ساتھ صرف دفتر کا تعلق رکھو ۔ دفتر سے باہر میرے ساتھ پھرو گے تو مفت میں بدنام ہو جاؤ گے”۔ وہ میجر صاحب ناچتے بھی تھے اور پیتے بھی تھے ۔ 1970ء میں وہ کرنل ہو گئے اور ان کا تبادلہ کھاریاں ہو گیا ۔ اوائل 1972ء میں لاہور جاتے ہوئے ان سے ملنے کھاریاں رُکے تو پتہ چلا کہ ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھے ہیں ۔ انکے گھر پہنچے تو دیکھا داڑھی رکھی ہوئی اور ہاتھ میں تسبیح ۔ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا “میاں صاحب ۔ آپ تو کہا کرتے تھے ۔ چھوٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی ۔ یہ سب کیسے ہو گیا ؟” بولے “وہ بات کچھ اور تھی ۔ اب تو قیامت گذر گئی ہے ہماری قوم پر ہمارے کرتوتوں کی بدولت”۔ ان کا اشارہ پاکستان کا دو ٹکڑے ہونے کی طرف تھا ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اپنا کرم کرتے ہوئے ہماری افواج کے جرنیلوں کا ضمیر بھی زندہ کر دے ۔ آمین ثم آمین

کیا مُلّا یا مَولوی جاہل ہوتے ہیں ؟

میں اس موضوع سے اپنے آپ کو دور لے جا چکا تھا لیکن ابو شامل صاحب کی ایک تحریر نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنا تجربہ اس سلسلہ میں بیان کروں ۔ بطور تمہید اتنا عرض کر دوں مَولوی یا مُلّا دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک اصلی اور دوسرے نام نہاد ۔ ایک عالم ہے اور دوسرا دنیادار ۔ ایک اللہ کی خوشنودی کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا لوگوں کی ۔ بدقسمتی سے عام آدمی کا واسطہ دوسری قسم سے زیادہ پڑتا ہے کیونکہ پہلی قسم والے اپنی اشتہاربازی نہیں کرتے اور اللہ کی خوشنودی کی طرف توجہ رکھتے ہیں ۔ ہماری مسجدوں میں بالخصوص دیہات اور قصبوں میں اکثریت دوسری قسم کی ہے ۔ اس کی وجوہات میں پہلے لکھ چکا ہوں

میں تیرہ سال کی عمر میں مُلّاؤں سے بدزن ہونا شروع ہوا تھا میں اس کی تفصیل بھی پہلے لکھ چکا ہوں ۔ جب گیارہویں جماعت میں تھا میں نے مسجد میں سوائے جمعہ کے نماز پڑھنا چھوڑ دیا تھا اور جمعہ کی نماز بھی محلے کی ایک چھوٹی سی مسجد میں پڑھتا ۔ انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخل ہونے کے چند ماہ بعد میں ہوسٹل میں اپنے کمرہ میں بیٹھا تھا کہ کچھ سینئر طلباء آئے اور تعارف کے بعد کہا “آپ کمرہ میں پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں مسجد میں کیوں نہیں پڑھتے ؟ بہرحال انہوں نے مجھے قائل کیا کہ میں مسجد میں نماز پڑھا کروں ۔ کچھ دن بعد انہی طلباء کے کہنے پر میں محلہ میں قرآن شریف کے ترجمہ تفسیر کیلئے جانے لگا ۔ رفتہ رفتہ مجھ پر عیاں ہوا کہ دنیا وہ نہیں جو میں سمجھتا تھا اور مولوی وہ نہیں جنہیں میں سمجھ بیٹھا تھا ۔ اللہ کی کرم نوازی سے انجنیئرنگ کالج کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ مجھ پر عیاں ہوا کہ اللہ کے باعلم اور باعمل نیک بندے بھی اسی ملک پاکستان میں رہتے ہیں اور عالمِ دین وہ نہیں جنہیں مطلب پرست لوگوں نے مسجد کا امام بنا دیا ہے یا کسی کی قبر پر بٹھا دیا ہے بلکہ عالمِ دین وہ ہے جس نے باقاعدہ علمِ دین حاصل کیا ہو ۔ اور مَولوی یا مُلّا کا لقب ایسے شخص کو ہی دینا چاہیئے نہ کہ جس نے داڑھی رکھی وہ مولوی مُلّا یا مَولانا بن کیا ۔ ایک بات لکھ دوں ۔” مَولانا” کا مطلب ہوتا ہے “میرا مالک” ۔

انجنیئرنگ کی سند لینے کے بعد ملازمت اختیار کی چند سال دین کی تعلیم رکی رہی پھر اللہ کرم ہوا تو کچھ اور رہنما مل گئے جس سے تاریکی سے نکلنے اور بچنے میں مدد ملتی رہی ۔

مزید معلومات کیلئے میری مندرجہ ذیل تحاریر پر نظر ڈالئے
بتاریخ 8 اگست 2005ء
بتاریخ 11 اگست 2005ء
بتاریخ 16 اگست 2005ء
بتاریخ 24 اگست 2005ء
بتاریخ 28 اگست 2005ء
بتاریخ 15 جولائی 2005ء
بتاریخ 19 جولائی 2005ء
بتاریخ 23 جولائی 2005ء
بتاریخ 27 جولائی 2005ء

اردگرد کا ماحول اور ہماری مجبوریاں

شاہ فیصل صاحب کی تحریر کے حوالے سے میں 29 نومبر کو کچھ لکھ چکا ہوں ۔ اب اصل موضوع یعنی “ہمارے اردگرد کا ماحول اور ہماری معاشرتی مجبوریاں” کی طرف آتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں میری مندرجہ ذیل تحاریر ممد ثابت ہو سکتی ہیں ۔

بتاریخ 11 جون 2005ء
بتاریخ 3 جولائی 2005ء
بتاریخ 15 جولائی 2005ء

مجھے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے پاکستان سے باہر کم از کم درجن ممالک میں جانے کا موقع فراہم کیا اور ان کے علاوہ دس دوسرے ملکوں کے باشندوں سے واسطہ پڑا ۔ میں جہاں کہیں گیا یا جن لوگوں سے ملا اولین ترجیح ان کے معاشرہ کے مطالعہ کو دی ۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے معاشرہ کی مثال شائد ہی دنیا میں کسی اور جگہ ہو ۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتی ہے اور حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتی ہے ۔ اپنی بہتری کیلئے محنت اور لگاتار کوشش کو اپنانے کی بجائے آسان اور بعض اوقات غیر قانونی یا غیر اخلاقی طریقے اپنانا عقلمندی یا بردباری گردانتی ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ کچھ تو اس کا سبب ہونا چاہیئے ۔ میں نے اس جستجو میں سالہا سال مغز کھپائی کی مگر وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ اسلئے ہر قاری سے میری استدعا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے علم اور تجربہ سے میری رہنمائی کرے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ میں جس بنیاد پر مدد مانگ رہا ہوں اس کا خاکہ پیش کروں ۔

یہ جانتے ہوئے کہ شادی پر کئے جانے والی کئی رسمیں صرف سچی یا جھوٹی شان دکھانے کیلئے ہوتی ہیں لوگ ان رسموں کو نہ خود ختم کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو ختم کرنے دیتے ہیں ۔ ایک شادی کی تیاریوں میں صاحب خانہ نے مجھ سے مشورہ مانگا تو میں کہا کہ ٹھیک ہے سب کچھ ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ شادی کے دن جو شو شا کرنا چاہتے ہیں کر لیں اور شادی کے پہلے اگر کچھ کرنا ضروری ہی سمجھتے ہیں تو آپ اور آپ کی بیوی کے بہن بھائی بچوں سمیت گھر کے اندر موج میلہ کر لیں اور ایک وقت میں صرف ایک کھانا پکوالیں ۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکے ۔ کہنے لگے کہ عزیز و اقارب مانتے نہیں ۔ کہتے ہیں سب ٹھیک ہے مگر رہنا تو اس دنیا میں ہے ۔

اب تو کسی کے مرنے پر بھی رسومات کے حوالے سے شادی کا سا شک ہونے لگا ہے ۔ ایک صاحب فوت ہو گئے ۔ ان کی سب اولاد باعمل مسلمان کہلاتی ہے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ قُل ۔ جمعراتیں اور چالیسواں کرنے کیلئے رشتہ داروں کو بلانا ٹھیک نہیں ۔ اس سے بہتر ہے کہ غریب بچوں کی تعلیم کا خرچ یا کسی لاچار خاندان کا نان و نفقہ والد صاحب کے ترکہ سے حاصل ہونے والے منافع سے ادا کرتے رہیں گے ۔ جواب ملا لوگ کیا کہیں گے ۔ ہمارے والد غریب تو نہیں تھے ۔ جائیداد چھوڑ کر مرے ہیں تو ہم ان کیلئے اتنا بھی نہ کریں اور سب کچھ کیا گیا ۔

جھوٹ بولنا عیب نہیں سمجھا جاتا اور کئی لوگ تو جھوٹ کو بُردباری کا نام دیتے ہیں ۔ مزید کوئی بات یا واقعہ خود سے تصنیف کر کے دوسرے کے نام سے بیان کیا جاتا ہے ۔ سچ بولنے والے کو ناتجربہ کار ۔ بیوقوف یا اُجڈ سمجھا جاتا ہے ۔ میں خود کئی بار بیوقوف کا خطاب حاصل کر چکا ہوں ۔ میرے سامنے ایک خاتون نے دوسری سے کچھ پوچھا تو اس نے سچ بول دیا جو اُس کے اپنے ہی خلاف جاتا تھا ۔ جب وہ چلی گئی تو پوچھنے والی خاتون بڑبڑائی “ایسا بھی کیا سچ بولنا جس سے اپنا ہی نقصان ہو”۔

دو تین ساتھی بیٹھے ہیں اور کسی غیر حاضر ساتھی کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے یا اس کی برائیاں بیان کی جا رہی ہیں ۔ اتفاق سے وہ آ جاتا ہے اور پہلے والوں میں سے ایک چلا جاتا ہے تو اب جانے والے کی باتوں کا مذاق اُڑانا یا اس کی برائی کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ دفتر میں کام کرتے ہوں تو باس کے سامنے اس کے سب سے زیادہ تابعدار بن جانا اور اور باس کی عدم موجودگی میں اس کی برائیاں کرنا حتٰی کہ گالیوں سے نوازنا ۔ دوسرے کی بات کا منفی یا اپنی مرضی کے مطابق مطلب نکالا جاتا ہے ۔

چھوٹا بچہ ناسمجھ ہوتا ہے ۔ اس کے سامنے کسی نے گالی دی ۔ وہ سیکھ رہا ہے اس نے گالی بھی سیکھ لی ۔ جب وہ دہراتا ہے تو اس پر قہقہے لگائے جاتے ہیں ۔ بچہ سمجھتا ہے کہ اس بات پر سب خوش ہوتے ہیں سو وہ بار بار گالی دہراتا ہے ۔ یہی بچہ جب بڑا ہو کر بہن بھائیوں یا ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو غضب کا شکار ہوتا ہے ۔ مگر پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔

صاحبِ خانہ سے کوئی ملنے آتا ہے اور وہ ملنا نہیں چاہتے ۔ اپنے بچے کو کہتے ہیں کہ جا کرکہہ دو کہ ابا ۔ بابا یا ڈیڈی یا ابو گھر میں نہیں ہیں ۔ یہ بچہ بڑا ہو کر جھوٹ بولتا ہے تو والدین سیخ پا ہوتے ہیں مگر کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا ۔

سولہ سترہ سالہ بیٹا کسی لڑکی کی چھیڑ چھاڑ کر آتا ہے گھر میں شکائت آتی ہے ۔ شکائت کرنے والے کی بے عزتی کی جاتی ہے ۔ جب اسی بچے کی عادات کی وجہ سے والدین پر آفت پڑتی ہے تو کہتے ہیں “کسی نے دشمنی لی یا اللہ کی یہی مرضی تھی”۔ کیا اللہ نے انہیں بچے کی صحیح تربیت سے منع کیا تھا ؟

ہر عمل یا بات میں صرف اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور یہ جانتے ہوئے کہ دوسرا سچا ہے اسے غلط قرار دینا ۔ مزید دوسرے کے مال پر ہوشیاری یا ہیرا پھیری سے قبضہ کرنا اپنی بہادری یا عقلمندی سمجھنا ۔

دوسرے کی تکلیف کو تکلیف نہ سمجھنا اور اپنا رونا ہر حال میں روتے رہنا ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی بیمار عورت کی مزاج پُرسی کیلئے آئی عورتیں بیمار کی کم سُنتی ہیں اور اچھی خاصی صحتمند ہوتے ہوئے اپنی درجن بھر بیماریاں گِنوا دیتی ہیں ۔

اپنے دیس کی بنی مصنوعات پر غیر ملکی مصنوعات کو اور اپنے ہموطنوں پر غیرملکیوں کو ترجیح دینا خواہ اپنی مصنوعات اور اپنے ہموطن غیرملکیوں سے بہتر ہوں ۔ غیرملکی مصنوعات کھا کر یا پہن کر یا گھر میں رکھ کر اس پر فخر کرنا ۔

اپنے آپ کو پکے مسلمان کہتے ہوئے ٹی وی اور مووی فلموں میں سے فیشنوں کو اپنانا جو عام طور پر عُریاں ہوتے ہیں ۔ اگر اعتراض کیا جائے تو جواب ملتا ہے “کیا کریں ۔ ماحول کے مطابق چلنا پڑتا ہے”۔ یہ ماحول بناتا کون ہے ؟

کبھی مجبوری کے تحت یا کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے میکڈانلڈ ۔ کے ایف سی ۔ ہوٹل یا ریستوراں سے کچھ کھا لینے میں تو کوئی ہرج نہیں لیکن اکثریت صرف اپنی بڑائی جتانے کیلئے ایسا کرتی ہے اور بہانے بہانے سے گفتگو میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ آج سے 20 سال قبل گھر کا پکا نہ کھانے والے کو گنوار سمجھا جاتا تھا ۔ اب اسے بڑے لوگوں کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ ان لوگوں نے کبھی سوچا کہ ہمارے ملک میں کم از کم چوتھائی لوگ ایسے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی میسّر نہیں ہے ؟

آخر ہماری قوم کو کب سمجھ آئے گی ؟ کیا طالبان ان سب خرابیوں کا ردِعمل نہیں ہیں ؟

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمکلام ہونے کے اسلوب

میں یہ وضاحت کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ جو مضمون میں خود سے لکھتا ہوں وہ فی البدیع نہیں ہوتا بلکہ حتی الوسع کافی مطالعہ اور چھان بین کے بعد لکھتا ہوں ۔ علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور علم حاصل کرنے کیلئے تَن دہی کے ساتھ مطالعہ ضروری ہوتا ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں علم کے حصول کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہے گھر بیٹھے بٹن دبایا اور مونیٹر کی سکرین پر دنیا جہاں کا علم حاصل کر لیا ۔ کہاں ہمارا زمانہ کہ استاذ نے کتاب بتا دی اور سارے شہر کے کتاب گھر چھان مارے ۔ لائبریریوں پر بھی دستک دی مگر کتاب نہ ملی ۔ پھر پانچ سات ہم جماعت مل کر پیشگی قیمت ادا کر کے مختلف کتابوں کی ایک ایک جلد آرڈر کرتے جو چھ سے آٹھ ہفتے بعد ملتیں ۔ باری باری ہر کتاب پڑھی جاتی اور امتحان کے قریبی دنوں کیلئے ہر لڑکا اپنے نوٹس تیار کر لیتا کہ ہر ایک کو ایک ہی وقت ایک ہی کتاب دستیاب نہ ہو سکتی تھی ۔ آج اتنی سہولیات کے باوجود جب کوئی میرے جیسا کم علم اپنی ادنٰی معلومات یا تجربات کو پیش کرنے کی جرأت کرتا ہے تو ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔ کوئی اتنی بھی کوشش نہیں کرتا کہ پہلے
متعلقہ کتاب یا کُتب کا مطالعہ کر لے ۔

قوموں کی ترقی کا راز کتابیں پڑھنا ہی ہے لیکن صرف فلمی کہانیوں کی نہیں ۔ میں نے اپنی تحریر بعنوان ” اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اب بھی ہمکلام ہوتے ہیں ” اس امید سے لکھی تھی کہ ترقی یافتہ جدید دور کے جواں دماغ میری رہنمائی کریں گے لیکن بغیر دین کی سب سے مستند کتاب ” قرآن شریف ” [جوکہ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ کا اپنا فرمان ہے] کا صحیح طور مطالعہ کئے ۔ فتاوٰی نازل ہونے شروع ہو گئے ۔ میں نے کچھ حوالے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے کلام سے دیئے مگر صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہ آئی ۔

ہمکلام ہونا تین طرح کا ہے ۔ ایک ۔ جس کا نتیجہ مکالمہ ہو یعنی دونوں اطراف سے کلام ہو ۔ اس میں براہِ راست یا آمنے سامنے بات چیت یا آجکل ٹیلیفون پر بات کرنا شامل ہے ۔ دوسرا ۔ یکطرفہ یعنی پیغام کسی ذریعہ سے پہنچا دینا ۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ ایک جس میں صرف پیغام دینا مقصود تھا جواب کی ضرورت نہ تھی ۔ دوسرا ۔ جس کا پیغام وصول کرنے والے نے جواب نہ دیا ۔ اس آخری قسم کی بھی دو شاخیں ہیں ۔ ایک یہ کہ پیغام وصول کرنے والے کو پیغام کی سمجھ ہی نہ آئی ۔ دوسرے یہ کہ سمجھ آئی مگر جواب دینا مناسب نہ تھا ۔ کچھ اور نہ سہی اگر ہم صرف قرآن شریف کا ہی صحیح طرح مطالعہ کر لیں تو یہ ساری صورتیں واضح ہو جاتی ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ نے ہمیں سب کچھ بتا یا ہے اور بار بار غور کرنے کی تلقین بھی کی ہے ۔

میں نے جان بوجھ کر لفظ ” وحی ” کی بجائے ” ہمکلام ” استعمال کیا تھا کہ ” وحی ” لکھنے سے ڈر تھا کہ کوئی طوفان نہ اُٹھ کھڑا ہو اور کہیں میری گردن زدنی کا فتوٰی نہ جاری ہو جائے ۔ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ [Urdu Encyclopedia of Islam] کے مطابق ” وحی ” کے معنی ہیں ۔ لطیف اور مخفی اشارہ ۔ پیغام [رسالت] ۔ دِل میں ڈالنا [الہام] ۔ چھُپا کر بات کرنا [کلامِ خفی] ۔ کتابت [لکھنا] ۔ کتاب یا مکتوب ۔ جو کچھ دوسرے کے دل یا ذہن میں ڈال دیا جائے ۔
اہلِ لغت کے نزدیک ” وحی ” کے معنی یہ ہیں کہ کسی سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کی جائیں کہ کوئی دوسرا سن نہ پائے
عام زبان میں ہم لوگ وحی سے صرف وہ کلام لیتے ہیں جو اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ سے انبیاء علیہم السلام کو پہنچا ۔

لیکن کیا کیا جائے ان الفاظ کا جو پیدا کرنے والے کے ہیں ۔ اپنے مطالعہ اور ہمت کے مطابق قرآن شریف کی چند آیات پیشِ خدمت ہیں [اور بھی کئی ہیں] ۔ ان آیات میں لفظ ” وحی ” لُغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ مذکورہ آیات میں اس کے مفہوم میں مخفی تلقین ۔ فطری تعلیم ۔ لطیف و خفیہ اشارے ۔ فطری حُکم ۔ دِل میں بات ڈالنا اور وَسوَسہ پیدا کرنا شامل ہیں ۔

سورت ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت ۔ 111 ۔ وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَی الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُواْ بِي وَبِرَسُولِي۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أَوْحَيْتُ ” وحی سے بنا ہے]
اور جب میں نے حواریوں کے دل میں [یہ] ڈال دیا کہ تم مجھ پر اور میرے پیغمبر [عیسٰی علیہ السلام] پر ایمان لاؤ

سُورت ۔ 6 ۔ الْأَنْعَام ۔ آیت ۔ 121 ۔ وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَإِنّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَی أَوْلِيَآئِہِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوھُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” لَيُوحُونَ ” وحی سے بنا ہے]
اور تم اس (جانور کے گوشت) سے نہ کھایا کرو جس پر [ذبح کے وقت] اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بیشک وہ [گوشت کھانا] گناہ ہے ۔ اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کے دِلوں میں [وَسوَسے] ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان کے کہنے پر چل پڑے [تو] تم بھی مشرک ہو جاؤ گے

سُورت ۔ 16 ۔ النَّحْل ۔ آیت ۔ 68 ۔
وَأوْحَی رَبُّكَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اور آپ کے رَب نے شہد کی مکھی کے دل میں [خیال] ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور انگور کی بیلوں میں

سُورت ۔ 28 ۔الْقَصَص ۔ آیت ۔ 7 ۔ وَ أَوْحَيْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِيہِ ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أَوْحَيْنَا ” وحی سے بنا ہے]
اور ہم نے موسٰی [علیہ السلام] کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو

سُورت ۔ 41 ۔ فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَہ ۔ آیت ۔ 12 ۔ و اُوْحَی فِي كُلِّ سَمَاءٍ اَمْرَھَا ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” اُوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اور اللہ نے ہر آسمان [کی مخلوق] کو اس کے حُکم بھیجے

سُورت ۔ 99 ۔ الزَّلْزَلَة / الزِّلْزَال ۔ آیات 4 ، 5 ۔ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَھَا ۔ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَی لَہَا ۔ ۔ ۔

[اس آیت میں ” أَوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرگذرے گی ۔ یہ اسلئے کہ آپ کے رَب نے اسے یہی حکم دیا ہے ۔

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صَدَقَ اللہُ العَظِیم ۔ ۔ ۔

ترجمہ : تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے

اعتراض کا جواب

میں نے ایک واقعہ لکھا ۔ خاور صاحب نے پہلے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے میری مذمت کی اور پھر اپنے بلاگ پر میری تحریر کو فتنہ انگیز قرار دیتے ہوئے اسے اعوذباللہ من ذالک نبوت کے دعوٰی سے ملا دیا ۔ خیر ۔ مجھے خاور صاحب سے کوئی شکائت نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں کہ جن کے سامنے کہا جائے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم انسان تھے تو اپنی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ خاور صاحب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ترقی یافتہ ممالک میں گذارا ہے اور اب بھی ایک ترقی یافتہ ملک میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پسماندہ ممالک میں گذارا ہے ۔ مزید شائد کم پڑھا لکھا ہونے یا اُردو زبان سے ناواقفیت کی بناء پر ہو سکتا ہے کہ میں بات واضح نہ کر سکا ۔ میں متعدد بار اقرار کر چکا ہوں کہ میں عالمِ دین نہیں ہوں بلکہ طالب علم ہوں ۔ اللہ مرتے دم تک میرے دل میں علم سیکھنے کی حُب قائم رکھے ۔

خاور صاحب اور ان کے ہم خیال قارئین کیلئے عرض کر دوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا براہِ راست کلام اور وحی صرف انبیاء علیہم السلام کیلئے مخصوص ہے اور وہ سلسلہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے بعد ختم ہو چکا ہے ۔ خواب میں یا غیر محسوس غیر ارادی طور پر کسی انسان کا کوئی فعل کر گذرنا جس سے اسے یا کسی دوسرے کو فائدہ پہنچے ہر انسان کیلئے ہے ۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ انسان متقی پرہیز گار ہو ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اپنی مخلوق کے فرد یا افراد کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے تو وہ کسی سے کچھ بھی کام لے سکتا ہے ۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو روز مرہ کی زندگی میں بھی کچھ ایسے فعل کی مثال مل جاتی ہے جس کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ جواز سمجھ میں نہیں آتی ۔

ثاقب سعود صاحب نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے پوچھا “ اللہ تعالی نے ہر اچھی چیز اپنے انبیاء [علیہم السلام] کو دی ۔ کیا آپ اس طرح کا کوئی واقعہ جو انبیاء [علیہم السلام] کے ساتھ ہوا ہو لکھ سکتے ہیں؟” ثاقب سعود صاحب کیلئے عرض ہے کہ انبیاء [علیہم السلام] اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے منتخب کردہ بہت اعلٰی درجے کے انسان ہوتے ہیں اسلئے ضروری نہیں کہ جو عمل عام انسانوں کیلئے ہو وہ ان کے ساتھ بھی برتا جائے ۔ ویسے اس کی ایک واضح مثال موجود ہے جو نیچے درج کر رہا ہوں ۔ دیکھئیے سُورت ۔ 27 ۔ النَّمْل ۔ آیت 10

میرا صرف ایک سوال ہے ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ الرّحمٰن الرّحیم انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور بغیر حُجت تمام ہوئے کسی کو سزا نہیں دیتا ۔ تو جب کوئی نبی دنیا میں موجود نہ ہو اور جب دنیا میں موجود بھی ہو تو ہر جگہ موجود تو نہیں ہو سکتا ۔ پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کسی انسان کی کس طرح رہنمائی فرماتا ہے اور کس طرح مدد فرماتا ہے ؟ جو واقعہ میں نے بیان کی یہ بھی ان طریقوں میں سے ایک ہے یا ہو سکتا ہے ۔ میرے علم میں ہے کہ کئی قارئین دین کا بہت علم رکھتے ہیں ان سے التماس ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے خیالات سے نوازیں ۔

خاور صاحب نے میرے اسی طرح کے سوال کا جواب ایک اور تحریر میں دیا ہے اور وضاحت کی بجائے معاملہ کو اور بھی پیچیدا کر دیا ہے ۔ وہ بات ضمیر کی کر رہے ہیں ۔ ضمیر ایک ایسے احساسِ نیکی کا نام ہے جو پیدائش سے پہلے ہی ہر انسان میں اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے رکھ دیا ہے ۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر میں انشاء اللہ پھر لکھوں گا ۔ ایک شخص اچھائی سمجھ کر نہیں بلکہ غیر ارادی طور پر ایک کام کر دیتا ہے جس سے دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس فعل کو ضمیر کی آواز کیسے کہا جائے گا جبکہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ اچھائی کی خاطر یا اللہ کی خوشنودی کی خاطر کام کر رہا ہے ؟

ہر ذی شعور قاری کو دعوت ہے کہ اللہ کے کلام یعنی قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرے ۔ انشاء اللہ ۔ اصل صورتِ حال واضح ہوتی جائے گی ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے انسان سے ہمکلام ہونے کے جو طریقے قرآن شریف میں بتائے ہیں ان میں سے سرِ دست میں چند نقل کر رہا ہوں ۔

سورت ۔ 20 ۔ طہ ۔ آیات 9 تا 13
اور تجھے موسٰی [علیہ السلام] کا قصہ بھی معلوم ہے
جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا ۔ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں ۔
جب وہ وہاں پہنچے تو آواز دی گئی ۔ اے موسٰی ۔ یقیناً میں ہی تیرا پروردگار ہوں ۔ تُو اپنی جوتیاں اُتار دے کیونکہ تُو پاک میدان طوٰی میں ہے ۔
اور میں نے تجھے منتخب کر لیا ہے ۔ اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سُن ۔

سُورت ۔ 4 ۔ النِّسَآء ۔ آیات 163 تا 165
بیشک ہم نے آپ کی طرف [اُسی طرح] وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح کی طرف اور ان کے بعد پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب [علیہم السلام] اور [ان کی] اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان [علیہم السلام] کی طرف وحی بھیجی اور ہم نے داؤد [علیہ السلام ] کو بھی زبور عطا کی تھی ۔
اور ہم نے کئی ایسے رسول [بھیجے] ہیں جن کے حالات ہم پہلے آپ کو سنا چکے ہیں اور ایسے رسول بھی [بھیجے] ہیں جن کے حالات ہم نے آپ کو نہیں سنائے اور اﷲ نے موسٰی [علیہ السلام ] سے گفتگو کی
رسول جو خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے [اس لئے بھیجے گئے] تاکہ ان پیغمبروں [کے آجانے] کے بعد لوگوں کے لئے اﷲ پر کوئی عذر باقی نہ رہے، اور اﷲ بڑا غالب حکمت والا ہے

سُورت ۔ 19 ۔ مَرْيَم آیات 2 تا 8
یہ ہے تیرے پروردگار کی اس مہربانی کا ذکر جو اس نے اپنے بندے زکریا [علیہ السلام ] پر کی تھی
جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا دعا کی تھی
کہ اے میرے پروردگار ۔ میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اوربڑھاپے کے باعث سر بھڑک اُٹھا ہے لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا
مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت داروں کا ڈر ہے ۔ میری بیوی بانجھبھی پس تو مجھے اپنی بارگاہ سے وارث عطا فرما
جو میرابھی وارث ہو اور یعقوب [علیہ السلام ] کے خاندان کا بھی ۔ اور اے میرے رب ۔ تو اسے اپنی موبول بندہ بنا لے
اے زکریا ۔ ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا
زکریا [علیہ السلام نے] کہنے لگے ۔ میرے رب ۔ میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں
فرمایا کہ وعدہ اسی طرح ہو چکا ۔ تیرے رب نے فرما دیا کہ مجھ پر تو یہ بالکل آسان ہے اور تو خود جبکہ کچھ نہ تھا میں تجھے پیدا کرچکا ہوں

سُورت ۔ 19 ۔ مَرْيَم آیات 22 تا 26
پس وہ [مریم] حمل سے ہو گئیں اور اسی وجہ سے یکسو ہو کر ایک دور کی جگہ چلی گئیں
پھر دردِ زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا ۔ وہ بولی ۔ کاش میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی
اتنے میں ان کے نیچے کی جانب سے انہیں آواز دی کہ تو رنجیدہ نہ ہو ۔ تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے
اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا وہ ترے سامنے تر و تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گا
اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ ۔ اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا
میں نے اللہ رحمان کے نام کا روزہ مان رکھا ہے ۔ میں آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی

سُورت ۔ 27 ۔ النَّمْل ۔ آیت 10
اور [اے موسٰی] اپنی لاٹھی [زمین پر] ڈال دو ۔ پھر جب [موسٰی علیہ السلام نے لاٹھی کو زمین پر ڈالنے کے بعد] اسے دیکھا کہ سانپ کی مانند تیز حرکت کر رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ [ارشاد ہوا] اے موسٰی ۔ خوف نہ کرو بیشک پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے

105 سُورت ۔ 37 ۔ الصَّافَّات ۔ آیات 100 تا
اے میرے رب ۔مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما
تو ہم نے انہیں ایک بُرد بار بیٹے [اسماعیل علیہ السلام] کی بشارت دی
پھر جب وہ [بچہ] اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس [ابراہیم علیہ السلام] نے کہا ۔ میرے پیارے بچے ۔ میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رجا ہوں اب تو بتا کہ تمہاری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا ۔ ابا ۔ جو حُکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ۔ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس [باپ] نے اس [بیٹے] کو پیشانی کے بل گرا دیا
تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم
یقیناً تم نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں

پَلوَشہ کا خط

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی صاحبزادی 19 سالہ پلوشہ افتخار چوہدری جسے گھر میں پیار سے پنکی کے نام سے پکارا جاتا ہے نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے تمام جج صاحبان کے نام ایک خط میں کہا ہے جس کا متن یہ ہے

مجھ کو آپ پر فخر ہے۔ اس وقت حالات ٹھیک نہیں لیکن یہ ہمارا امتحان ہے۔ ہم کو اس پر فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کی خاطر قربانی کے لئے ہم کو چنا ۔ یہ ایک ایسی قربانی ہے جو ہمیں اپنے لئے نہیں بلکہ اس ملک کی خاطر ایک روایت کے طور پر دینی ہے ۔ ہماری زندگی ایک درخت اور عدلیہ اس کی شاخ ہے ۔ ہمیں اس شاخ کے ساتھ بڑا ہونا ہے ۔ ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ اس شاخ کے ٹکڑے کردے ۔ اگر ہم اس کی حفاظت نہیں کریں گے تو کون کرے گا ۔

چاہے ہم کو اسکول یا یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں ۔ موبائل فون بند کر دیئے گئے ہیں ۔ کسی سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ ہم کو گھروں میں قیدیوں کی طرح بند کر دیا گیا ہے ۔ چاہے ہم سے دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جائے لیکن ہم کو اس کی پرواہ نہیں ۔ کیونکہ ہمیں یہ قربانی دینی ہے ۔ آنے والوں کو یہ بتانے میں فخر محسوس کریں گے کہ بے شک اس وقت حالات کتنے ہی سنگین کیوں نہ تھے ہمارے بزرگ کسی کے سامنے دباؤ میں نہیں آئے اور اسی وجہ سے ہم ہمیشہ اپنے سر اٹھاکرچلیں گے ۔ میں آپ تمام کی اس لافانی تحفہ دینے پر شکرگزار ہوں

مجھے امید ہے کہ آپ کی صحت بہتر ہوگی اور آپ میرا خط پڑھیں گے ۔

آپ سب سے محبت کے ساتھ آپ کی پنکی ۔
پَلوَشہ افتخار چوہدری