میری 15 اکتوبر کی تحریر پر کیا گیا ایک تبصرہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں کیونکہ میں اس تبصرے کا محرک جاننے میں ناکام رہا ہوں ۔ ہرچند میری متذکرہ تحریر اس تبصرہ کی متحمل نہ تھی بایں ہمہ تبصرہ کے اُس حصہ سے بھی چشم پوشی کرتے ہوئے [جو میرا پاکستان اور مجھے مخاطب کر کے لکھا گیا ہے] میں مبصّر سے معذرت خواہ ہوں کہ میری تحریر پڑھ کر مبصّر پر جذباتی کیفیت طاری ہوئی
میرا پاکستان اور دیگر اس قسم کے بیانات پڑھ کر میں تو سوچتی ہوں کہ بھئی جس کا وقت لگے وہ اس ملک سے نکل جائے۔ یہاں تو اسلام کا بول بالا ہو کر رہے گا ۔ وہ نہیں جو رسول اللہ لائے تھے بلکہ وہ جو ہمارے مظلوم، مسکین اور سورما قسم کے طالبان لائے ہیں اور انشاللہ [اِنشاء اللہ ہونا چايئے] لا کر رہیں گے۔ یہ الگ بات کہ میرا پاکستان جو اس وقت بھی امریکی حدوں کے اندر ہیں وہ اسوقت بھی امریکی شہری ہو جائیں گے اور اسی طرح اپنے جہادی مسلمان بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہیں گے۔
میں تو خود اس خیال سے متفق ہوں کہ ایک دفعہ ان جہادی طالبان کی حکومت کو قائم ہوجانا چاہئیے۔ لیکن ٹہر کر مجھے کہیں کی امیگریشن تو مل جائے۔ مجھے انکے ہاتھوں نہ ذبح ہونا پسند ہے اور نہ یہ کہ وہ میری دس سالہ بیٹی کی شادی کسی ساٹھ سال کے بڈھے سے کر دیں اور نہ یہ کہ وہ میری بیٹی کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین بنا کر اور جہادیوں کو اس دنیا میں لانے کا ذریعہ بنا دیں اور ہاں میرا غاروں میں جا کر رہنے کا بھی پلان نہیں اور نہ ہی یہ خواہش کہ میرے شوہر اور بیٹے ہر وقت تلوار سونت کر دنیا سے کافروں کا قلع قمع کرتے پھریں یا خود کو بارودی جیکٹوں سے اڑاتے پھریں۔
میں بھی اسی مدینے میں رہنا چاہتی ہوں جہاں تمام مذاہب کے لوگ رہتے تھے اور ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ جہاں اس عہد کے مسائل کو اسوقت کے ذرائع کے لحاظ سے حل کیا جاتا تھا اور جہاں ہر ایک کو جینے کے بنیادی حقوق حاصل تھے۔
لیکن اب ان تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کتنا تاریک ہے۔ اور اگر مجھے بیرون ممالک کا ویزہ حاصل کرنے میں تین مہینے لگ جاتے ہیں تو قصور دراصل کس کا ہے۔ خدا آپ سب پر رحم فرمائیں، یا اللہ آپ لوگوں کی آنکھوں کو کھول کر دیکھنے کی قوت دے، خدا ہمیں اس مرد دانا یا اس زن دانا کے وجود سے آشنائ دے جو آپ سب کے دلوں کو نرمی دے اور اسے انسانوں کے دل میں تبدیل کر دے۔
تب تک میں اپنے گھر والوں کے پیچھے پڑتی ہوں، خدا کے لئیے جب ہم اہلیت رکھتے ہیں تو کیوں اس ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں یہ ملک تو طالبان اور انکے حامیوں کے لئیے بنایا گیا ہے۔ اس میں ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کا کیا کام جو ایک انسان کو ذبح نہیں کر سکتے، جو دوسروں کو اس عمل کے لئیے تیار نہیں کر سکتے کہ وہ مزید انسانوں کو مارنے کے لئے خود کو بم سے اڑادیں۔ جو ہر وقت ہر کسی پہ کفر کے فتوے نہیں لگا سکتے۔ آخر ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کو اس ملک کو کیا ضرورت۔
جن کی ضرورت ہے وہ ملک سے باہر بیٹھے ہیں تو میرا پاکستان صاحب تشریف لائیں اور ایک آدھ کو ذبح کرنے کی سعادت آپ بھی حاصل کریں اور اپنے بچوں کو اسلحے کی تربیت کہاں باہر بیٹھ کر دے پائیں گے۔ اسلحہ تو مسلمان کا زیور ہے ۔ انہیں بھی لائیے تاکہ وہ بھی صحیح سے مسلمان ہوں۔
یہی درخواست میں اجمل صاحب سے بھی کرونگی۔ اپنے تمام اہل خانہ کو پاکستان بلائیے ایک ایسے وقت میں جب عقبی اتنی سستی مل رہی ہو آپ نے کیوں انہیں کفار کی دنیا میں بھیجا ہوا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کاذ سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میں پاکستان کی بقا سمجھتے ہیں انہیں عملی طور پر اپنے اہل عیال کے ساتھ اس میں شامل ہونا چاہئیے۔ یقین جانیں اگر آپ سب اکٹھا اس سر زمین پر ہونگے تو ہم جیسے بے عملوں کو ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم اس پاک سرزمین کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کریں۔ جیت تو ویسے بھی حق کی ہوتی ہے۔ اور باطل مٹ جانے کے لئے