Monthly Archives: September 2015

میری 60 سال پرانی ڈائری کا ایک ورق

From my diary of July, 1955
Weep not over precious changes past
Wait not over golden ages on the wane
Each night I burn the records of the day
At sun rise every soul is born again – – – – – – Walter Melone

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Failutre of Modern Society-2 (Majority / Minority Syndrome) “

مُسمان بدنام کیوں ؟

میں اپنی 29 اپریل 2006ء کی تحریر دہرا رہا ہوں ۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ آج اس کی 2006ء سے بھی زیادہ ضرورت ہے

کِسی مُلک کا قانون وہ ہوتا ہے جو کہ اُس مُلک کا مجاز حاکم بناتا ہے اور یہ بھی تمام ممالک کے قوانین کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قانون سے لاعلمی بریّت یا معافی کا جواز نہیں ۔ کوئی ذی شعور آدمی يہ نہيں کہتا کہ قانون وہ ہے جس طرح لوگ کر رہے ہيں ۔ ايک روزمرّہ کی مثال ديتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں قوانين کی کھُلم کھُلا خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ ٹريفِک کے قوانين ہی کو لے ليجئے ۔ مقررہ رفتار سے تيز گاڑی چلانا ۔ غلط طرف سے اوورٹيک کرنا اور چوراہے ميں بتی سُرخ ہوتے ہوئے گذر جانا عام سی بات ہے ۔ يہی لوگ اگر ٹريفک سارجنٹ موجود ہو تو سب ٹريفک قوانين کی پابندی کرنے لگتے ہيں ۔ 90 فيصد لوگ ٹريفک قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہيں مگر کبھی کِسی نے نہيں کہا کہ قانون وہی ہے جيسا لوگ کرتے ہيں ليکن دین اسلام کا معاملہ ہو تو بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ مسلمان کہلوانے والوں کے کردار کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی ملامت کرتے ہيں يا اسے رد کرتے ہيں

اِسلام کے قوانین قرآن الحکیم میں درج ہیں ۔ قرآن شریف میں اللہ کا حُکم ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اِسلئے حدیث اور سنتِ رسول بھی اِسلام کے قوانین کا حصّہ ہيں ۔ قرآن الحکيم اور حديث کا مطالعہ کيا جائے تو اس میں نہ صرف يہ کہ کوئی بُرائی نظر نہيں آتی بلکہ اچھائياں ہی اچھائياں نظر آتی ہيں اور کئی غيرمُسلم مفکّروں نے بھی اسے بہترين قانون قرار ديا ۔ سياسی ليڈروں ميں چين کے ايک وزيراعظم اور بھارت کے ايک صدر نے دو اميرالمؤمنين اور خليفہ ۔ ابوبکر صِدّيق رضی اللہ عنہ اور عُمر رضی اللہ عنہ کی حکومتوں کو انسانوں کے لئے بہترين قرار ديا حالانکہ ان دونوں راوی شخصيات کا مسلک اسلام سے عاری تھا ۔ جسٹس کارنيليئس جو عيسائی تھے مگر اعلٰی پائے کے قانون دان تھے نے آسٹريليا ميں ورلڈ چيف جسٹسز کانفرنس ميں کہا تھا کہ ”دنيا کا بہترين قانون اسلامی قانون ہے اور يہ انتہائی قابلِ عمل بھی ہے“۔ پھر اس کے حق ميں دلائل بھی ديئے ۔ دنيا کے کسی چيف جسٹس نے اُن کے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش نہ کی

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کا کردار ايسا تھا کہ اُن کے دين کے دُشمن بھی اُنہيں صادق ۔ امين اور مُنصِف سمجھتے تھے ۔ اُن کے پاس اپنی امانتيں رکھتے ۔ اُن سے اپنے معاملات ميں فيصلے کرواتے ۔ يہاں تک کہ يہودی اور مُسلمان ميں تنازع ہو جاتا تو يہودی فيصلہ کے لئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے پاس جاتے اور جو فيصلہ وہ کرتے اُسے بخوشی قبول کرتے

خلفائے راشدين کو بھی ديکھئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اميرالمؤمنين اور خليفہ ہيں ۔ ساتويں صدی عيسوی ميں بيت المقدّس پر بازنطینی (عيسائی) حکومت تھی جس نے 636 ء میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا تھا

اب سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر آج مُسلمان بدنام کيوں ہيں ؟ اگر ديکھا جائے تو اپنے دين اسلام کی بدنامی کا باعث بھی ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح کسی مُلک کا قانون وہ نہیں ہوتا جس طرح وہاں کے لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو مجاز حاکم بناتا ہے ۔ اسی طرح اِسلام بھی وہ نہیں ہے جس طرح کوئی عمل کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو اللہ نے قرآن شریف میں اور اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلِہِ و سلّم نے اپنی حدیث اور عمل کے ذریعہ سمجھایا ہے

مُسلمانوں کی بدقسمتی يہ ہے کہ اُنہوں نے دنيا کی ظاہری چکاچوند سے مرغوب ہو کر اپنے دين پر عمل کرنا چھوڑ ديا ہے ۔ ناجائز ذاتی مفاد کيلئے جھوٹی گواہی ديتے ہيں ۔ اپنی خوبی جتانے کيلئے دوسروں کی عيب جوئی کرتے ہيں ۔ نہ تجارت ميں نہ لين دين ميں نہ باہمی سلوک ميں کہيں بھی اسلامی اصولوں کو ياد نہيں رکھا جاتا اور حالت يہ ہو چکی ہے کہ آج کا ايک اچھا مُسلمان تاجر ايک غير مُسلم تاجر پر تو اعتبار کر ليتا ہے مگر مُسلمان تاجر پر نہیں کرتا ۔ مُسلمان اس خام خيالی ميں مبتلا ہو گئے ہيں کہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر ليں گے تو بخش ديئے جائيں گے يا کسی پير صاحب کے پاس جا کر يا کسی قبر پر چڑھاوا چڑھا کر بخشوا ليں گے ۔ ہماری قوم کی اصل بيماری محنت کرنے کا فُقدان ہے ۔ صرف دين ہی نہيں دنيا ميں بھی شارٹ کَٹ ڈھونڈ لئے ہوئے ہيں ۔ امتحان پاس کرنے کيلئے کتابوں کی بجائے نوٹس پڑھ لئے وہ بھی اپنے لکھے ہوئے نہيں فوٹو کاپياں کالجوں ميں بِکتی ہيں ۔ والدين مالدار ہوں تو ممتحن اساتذہ کی جيبيں بھر نے سے بالکل آسانی رہتی ہے ۔ زيادہ مال بنانے کيلئے ہر فعل ہيراپھيری کا کرتے ہيں ۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہيں ۔ اشياء خوردنی ميں ملاوٹ کرتے ہيں ۔ افسوس صد افسوس ۔ بننا تو امريکن چاہتے ہیں ليکن اتنی تکليف نہيں کرتے کے اُن سے محنت کرنا ہی سِيکھ ليں البتہ اُن کی لغويات سيکھ لی ہيں

يہ ہنسنے کی باتيں نہيں پشيمان ہونے اور اپنے آپ کو ٹھيک کرنے کی سوچ کی باتيں ہيں ۔ ہم خود تو اپنے کرتوُتوں سے بدنام ہوئے ۔ ہمارے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے ذريعہ آئے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے دين کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہيں

اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے ۔ اس پر عمل کرنے اور اپنے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ومَا عَلَيْنَا اِلْالّبلَاغ

عید مبارک

کُلُ عام انتم بخیر
میں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے تمام مسلم محترم بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائيوں اور پيارے بچوں بالخصوص قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کی خدمت ميں عيدالاضحٰی کا ہديہِ تبريک پيش کرتا ہوں
اللہ کریم آپ سب کو دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتوں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين ۔

یکم ذوالحجہ کے دن فجر کی نماز سے شروع کر کے ہر نماز کے بعد 13 ذوالحجہ کی ظہر کی نماز تک یہ ورد جاری رکھا جاتا ہے ۔ عید کی نماز کیلئے جاتے ہوئے اور واپسی پر بلند آواز میں پڑھنا بہتر ہے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیراً والحمدُللہِ کثیِراً و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ انتشار کا نیا کھیل ہے ؟

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی سے ایک محترمہ لکھتی ہیں ”پہلا پیراگراف نئی آڈیالوجی ۔ ۔ ۔ اِنتشار کا نیا کھیل ۔ بقیہ عمدہ تحریر “

قبل اس کے کہ میں اس تبصرہ کے سلسلے میں کچھ لکھوں میں اس دنیا میں رائج انسان کے بنائے قوانین کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ کسی مُلک کا دستور یا آئین جب منظور ہو جاتا ہے تو اُس مُلک کے تمام باشندے (صدر اور وزیرِ اعظم سے لے کر ایک عام آدمی یا مزدور تک) اس کے ماننے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ کسی کو اس بات پر کوئی چھُوٹ حاصل نہیں کہ اُس نے پڑھا نہیں تھا یا اُسے معلوم نہیں تھا ۔ دستور یا آئین دراصل ایک قوم یا ایک گروہ کا لائحہءِ عمل ہوتا ہے جس کی پابندی لازم ہوتی ہے ۔ بھُول چُوک پر آدمی سزا کا مستوجب قرار دیا جاتا ہے اور دستور یا آئین کو نہ ماننے والا غدار یا مُنحِرف اور مُنحرف کی سزا عام طور پر ”موت“ ہوتی ہے

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ کا پہلا بند نجیب صاحب کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو نہ تو نئی بات ہے (کُجا کھیل) اور نہ اس سے انتشار کا کوئی پہلو نکلتا ہے ۔ دین کے معنی ہیں دستور ۔ آئین ۔ لائحہءِ عمل ۔ اسلام دین ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جسے اپنے تمام عوامل میں درست سمجھتے ہیں دین کے معاملے میں اسے اختیار کرنے سے احتراز کرتے ہیں

ہو سکتا ہے کہ محترمہ عِلمِ دین کی عالِم فاضل ہوں ۔ میں ایک طالب عِلم ہوتے ہوئے اتنا جانتا ہوں کہ حاکمِ اعلٰی اللہ ہے ۔ سب پر اُس کا حکم چلتا ہے اور اُس کے سامنے انسان یا کسی اور مخلوق کا بس نہیں چلتا ۔ جب اللہ نے دین اسلام کو مکمل کر کے نافذ کر دیا تو پھر اسے کسی اور کے نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ دین اللہ کا بنایا ہوا ہے اور اللہ نے اپنے رسول سیّدنا محمد ﷺ کے ذریعہ نافذ کیا ہے ۔ یہ بات قرآن شریف میں درج اللہ کے فرمان سے ثابت ہے ۔ میں متعلقہ آیت اور اُس کا ترجمہ اس بند کے بعد نیچے نقل کروں گا ۔ پہلے بات مکمل کر لوں ۔ خطبہ حجۃ الوداع سے واضح ہے کہ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ نے دین اسلام کو نافذ کر دیا تھا اور اس پر عمل کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا تھا ۔ رسول اللہﷺ اور خُلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور کے مطالع سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کے کردار و عمل کی وجہ سے پھیلا ۔ کسی حاکم یا سپہ سالار کے حُکم سے نہیں ۔ اگر اسلام انسانی حُکم سے پھیلنا ہوتا تو آج یورپ اور امریکہ جہاں اسلام دشمن حاکم ہیں لوگ اسلام قبول نہ کر رہے ہوتے ۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اگر حکومت بناتے ہیں تو مسلمان حاکم کا فرض ہے کہ مسلمانوں کیلئے اپنے دین پر عمل کو آسان بنانے کیلئے قوانین وضع کرے اور اللہ کے حُکم یعنی دین اسلام کے خلاف تمام قوانین کو ختم کر دے اور یہ حُکم پاکستان کے آئین میں موجود ہے گو اس پر ماضی میں پوری طرح عمل نہیں کیا گیا ۔ عُلماء کا فرض ہے کہ عوام کی درست رہنمائی کریں ۔ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے فرقہ بندی کو روکیں ۔ ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب حاکم اور عالِم پہلے دین کا نفاذ اپنے اُوپر کریں

سورۃ 5 المآئدہ آیۃ 3 ۔ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا

تراجم ۔ (مجھے میسّر تمام تراجم اسلئے نقل کر رہا ہوں کہ شک پیدا نہ ہو میں نے اپنے مطلب کا ترجمہ لکھ دیا ہے)
(جالندھری) ۔ ‏ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا
(محمودالحسن‏) ۔١٤آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا ف۱۵ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین ‏
‏(جوناگڑھی) ۔ ‏ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا
(ابوالاعلٰی مودودی) ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے

(YUSUFALI) – This day have I perfected your religion for you, completed My favour upon you, and have chosen for you Islam as your religion.
(PICKTHAL) – This day have I perfected your religion for you and completed My favour unto you, and have chosen for you as religion al-Islam.
(SHAKIR) – This day have I perfected for you your religion and completed My favor on you and chosen for you Islam as a religion;
(Taqi Usmani) – Today, I have perfected your religion for you, and have completed My blessing upon you, and chosen Islam as Din (religion and a way of life) for you.

اسلام اور ہم

نجیب عالم صاحب نے لکھا ” میرے نزدیک قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے ۔اور نہ ہی یہ کسی مفتی ، کسی عالم ،کسی مولوی ، کسی مسلک یا فرقے کی تحریک کی وجہ سے آئے گا کیونکہ دین اسلام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نافذ کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول کر بھی بتا دیا۔بس اب اس پر عمل درآمد کرنا ہے“ ۔

اس سے مجھے یاد آیا کہ پاکستان معرضِ وجود آنے سے کچھ پہلے کسی نے قائد اعظم سے کہا ”پاکستان میں اسلام نافذ کیا جائے گا“۔
اُنہوں نے جواب دیا ” اسلام تو اللہ کے رسول ﷺ نے 1400 سال قبل نافذ کر دیا تھا ۔ میں کون ہوتا ہوں اسلام نافذ کرنے والا“۔

سڑک پر جا رہے ہوں ۔ ڈاک خانے میں ہوں ۔ کسی بنک میں ہوں یا ٹرین یا بس پر سوار ہو رہے ہوں ۔ اکثر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کا حق مار لے اور پھر اُس پر دوسرا کوئی اعتراض بھی نہ کرے ۔ بات گول مول ہے ؟ چلیئے کچھ وضاحت کر دیتے ہیں ۔ سڑک پر آپ گاڑی میں جا رہے ہیں اور دوسری گاڑی والا زبردستی اپنی گاڑی آپ کی گاڑی کے آگے گھسیڑ دیتا ہے یا آگے نکلنے کیلئے آپ کو اپنی گاڑی ایک طرف کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ آپ پیدل ہیں اور سڑک پار کرنا چاہ رہے ہیں مگر گاڑیوں والے اپنی گاڑیاں مزید تیز کر لیتے ہیں جیسے آپ اگر گذر گئے تو سڑک بند ہو جائے گی ۔ بنک یا ڈاک خانہ میں اکثر بعد میں آ کر پہلے اپنا کام کروانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ٹرین یا بس میں سوار ہوتے ہوئے دوسروں سے قبل چڑھنے کی کوشش میں دھکم پیل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ اگر کوئی مخیّر آدمی کچھ تقسیم کرنا چاہے تو اُسے تقسیم نہیں کرنے دیا جاتا اور صرف دوسروں کا حق مارا نہیں جاتا بلکہ دینے والے سے چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دفاتر میں اپنا غلط کام نکلوانے یا درست کام جلدی کروانے کیلئے رشوت کھُلے دل سے پیش کی جاتی ہے

مندرجہ بالا عوامل میں پڑھے لکھے برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ متذکرہ بالا عوامل کے قوانین موجود ہیں جو گاہے بگاہے بتائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ تعلیمی اداروں اور مساجد میں پڑھایا یا بتایا بھی جاتا ہے ۔ کولہو یا راہٹ پہ جُتے بیل کو بار بار چھڑی نہیں دکھانا پڑتی ۔ بندر ۔ ریچھ ۔ طوطا ۔ کتا ۔ بلی سِدھائے جا سکتے ہیں ۔ ایک حضرتِ انسان ایسا جانور ہے جسے سدھانا بہت مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے ۔ میں نے ٹریفک کے بارے میں ٹریفک پولیس آفیسر سے بات کی تو اُس نے جواب دیا ” سر ۔ کیا کریں ۔ ہم عوام کا تربیتی پروگرام کرتے رہتے ہیں اور ہر چار چھ ہفتے بعد چیکنگ کر کے ہزاروں لوگوں کو بھاری جرمانے کرتے ہیں ۔ اس کا اثر دو چار روز کے بعد ختم ہو جاتا ہے“۔

جن عوامل کا میں نے ذکر کیا ہے اِن کے متعلق سب جانتے ہیں کہ غلط ہیں لیکن انہیں چھوڑتے نہیں ۔ البتہ انہیں اگر بوقتِ غلط عمل ہی پوچھا جائے تو وہ اپنے غلط عمل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اُس کتاب (قرآن شریف) پر عمل کریں جس کا ترجمہ کبھی اُنہوں نے پڑھا نہیں یا پڑھ کر بھُلا دیا ہے ؟

امریکہ ہو ۔ جرمنی یا فرانس ۔ ہالینڈ ہو یا کوئی اور مُلک سب جگہ ٹریفک پولیس موجود نہ بھی ہو تو گاڑی چلانے والا سڑک پر لگے اشاروں کی پابندی کرتا ہے ۔ پیدل چلنے والوں کو گاڑی کھڑی کر کے راستہ دیتا ہے بوڑھوں اور بچوں کا خاص خیال کرتا ہے ۔ اپنے پیارے مُلک پاکستان میں اجارا داری اور ہڑبونگ سے کام لینے والے یہ پڑھے لکھے لوگ ممالکِ غیر یعنی امریکہ اور یورپ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے مگر اپنے مُلک میں اُن کے اچھے اطوار اپنانا اپنے اُوپر حرام کر رکھا ہے ۔ میں نے اُوپر فرنگی ممالک کا نام اسلئے لکھا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ اُن ممالک کی مثال دیتے نہیں تھکتے ۔ میں نے لبیا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی قوانین اور اصولوں کی ایسی ہی پابندی دیکھی

اسلام ایک ضابطہءِ حیات ہے ۔ ایک لائحہءِ عمل ہے ۔ یہ مسجد یا گھر میں بند کرنے کیلئے نہیں ہے اور نہ صرف نماز پڑھتے ہوئے یا کسی کی موت پر یاد آنے والی چیز ہے ۔ اسلام ہمہ وقت ہے اور گھر ۔ گلی ۔ سڑک ۔ بازار ۔ ہسپتال ۔ دفتر ۔ مسجد سب جگہ نافذالعمل ہے ۔ اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے ۔ کسی اور کا نہیں ۔ مگر صورتِ حال یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی بدعملی کا الزام بھی دوسروں پر لگاتے ہیں ۔ حکومت یا مولوی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے تو اپنے ہموطنوں اور اپنے وطن کو بُرا کہیں گے ۔ کچھ تو یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ مُلک ہی رہنے کے قابل نہیں ۔ گویا وہ پاکستان میں پیدا ہی نہیں ہوئے اور نہ یہاں کا اناج کھایا ہے

ہمارے لوگوں کے مزاج کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ لاہوری دیگی چرغہ اُس وقت بھی بہت معروف اور پسندیدہ تھا جب میکڈونلڈ ۔ پِزا ہَٹ اور کے ایف سی کا دنیا میں کہیں نام نہ تھا ۔ 2009ء میں لاہور میں خیابان محمد علی جناح پر ایک دکان پر انگریزی میں لکھا دیکھا ”لاہور بروسٹ“ اور میں نے توجہ نہ دی ۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ وہ لاہوری دیگی چرغے کی دکان ہے تو میں دیگی چرغہ لینے گیا ۔
دکان دار سے پوچھا ” نام کیوں تبدیل کیا ؟“
بولا ”صاحب ۔ بناتے تو ہم دیگی چرغہ ہی ہیں ۔ کیا کریں ۔ اب لاہوری دیگی چرغہ کھانے والے بہت کم رہ گئے ۔ لوگ بروسٹ مانگتے ہیں اسلئے نام لاہور بروسٹ انگریزی میں لکھ دیا اور فروخت جو کم ہو گئی تھی بڑھ گئی ہے“۔