اس سلسہ کی 6 تحاریر ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“۔ ”انکوائری ۔ تفتیش”۔ ”ہمارے اطوار “ اور ”دوست ۔ آقا نہیں“ لکھ چکا ہوں
میں 1974ء میں اپنے ایک دوست جو سِنیئر سِول جج تھے کے پاس گیا ہوا تھا ۔ کسی صاحب نے اُن کے ساتھ گفتگو کے دوران ”معتبر“ اور ”مُخبر“ کے الفاظ استعمال کئے ۔ وہ صاحب چلے گئے تو میرے دوست نے مجھ سے کہا ”جانتے ہو معتبر کون ہوتا ہے ؟“ میں نے کہا ”کوئی بزرگ جو قابلِ اعتماد ہو“۔ ہنس کر کہنے لگے ”یہ شخص جو ابھی یہاں سے گیا ہے ۔ تھانیدار ہے ۔ پولیس والوں کے معتبر اور مُخبر جیب کُترے اور نشئی ہوتے ہیں“۔ یہ بات تو سِنیئر سِول جج صاحب نے بتائی تھی ۔ اب میرا ذاتی تجربہ
میں جن دنوں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا(مارچ 1983ء تا ستمبر 1985ء)۔ انسٹیٹیوٹ کی ورکشاپ میں ایک مستری تھا جو کام کرتا نہیں تھا ۔ دیر سے آتا اور پھر کام کے وقت میں بھی غائب ہو جاتا ۔ اس کی شکائت میرے پاس آئی تو میں نے اُسے تنبیہہ کی ۔ کئی بار تنبیہہ کا جب کوئی اثر نہ ہوا تو میں نے اواخر 1984ء میں ضابطے کی کاروائی شروع کی اور بالآخر اُسے نوکری سے فارغ کرنے کا نوٹس دے دیا ۔ مجھے میرے باس جو ممبر پی او ایف بورڈ تھے کا ٹیلیفون آیا کہ اُس کی فائل اُنہیں بھیج دوں ۔ ہفتہ بھر فائل واپس نہ آئی ۔ پھر ایک دن میں اُن کے دفتر گیا ہوا تھا تو اس کی فائل مانگی تاکہ میں عمل مکمل کر سکوں ۔ جواب ملا ”وہ سیکیورٹی والوں کا آدمی ہے ۔ کرنل ۔ ۔ ۔ (سیکیورٹی کے سربراہ) آپ سے بات کریں گے“۔
میں واپس اپنے دفتر پہنچا ہی تھا کہ سیکیورٹی کے سربراہ کا ٹیلیفون آیا ۔ اُس کی رام کہانی سننے کے بعد میں نے کہا ”ایک ایسا آدمی جو قواعد و ضوابط کا پابند ہونا تو کُجا قواعد و ضوابط کی دھجیاں اُڑاتا ہے ۔ اُس سے آپ حساس معاملات کا کام لیتے ہیں”۔ بولے ”تو اور کیا میں مولوی بھرتی کروں ؟“ بہر حال وہ شخص ملازمت پر رہا لیکن میں نے اسے رکھنے سے انکار کر دیا تو اُسے کسی فیکٹری میں بھیج دیا گیا
اگست 1992ء سے میں کنٹریکٹ پر بطور ڈائریکٹر ویلفیئر ٹرسٹ کام کر رہا تھا ۔ مارچ 1994ء میں ایک ہیرا پھری کا کیس ہوا ۔ اس میں بسوں کا چَیکر اور ایک سُپروائزر ملوث تھا ۔ سُپروائزر کے خلاف میرے پاس پہلے ہی بہت شکائتیں آ چکی تھیں اور میں نے خود بھی متعدد بار اسے ڈیوٹی سے غیر حاضر پایا تھا ۔ وہ 60 سال کی عمر ہونے پر ریٹائر ہو چکا تھا اور کئی سالوں سے ویلفیئر میں کنٹریکٹ پر کام کر رہا تھا ۔ میں نے چَیکر اور سُپروائزر دونوں کو نوکری سے نکال دیا ۔ سُپر وائزر کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ سیکیورٹی والوں کا آدمی ہے ۔ اُسے نوکری پر بحال تو نہ کیا گیا لیکن چیئرمین پی او ایف بورڈ نے فائل پر لکھ دیا کہ ”افتخار اجمل بھوپال کو موجودہ کنٹریٹ ختم ہونے پر فارغ کر دیا جائے گا”۔ چنانچہ اگست 1994ء کے بعد میری ملازمت ختم ہو گئی ۔ حقیقت یہ تھی کہ میں نے وقت سے قبل ریٹائرمنٹ اگست 1992ء سے لے لی تھی جب میری عمر 53 سال تھی ۔ مجھے مجبور کر کے اس شرط پر رکھا گیا تھا کہ 60 سال کی عمر تک کام کروں گا