Yearly Archives: 2012

ثقافت ۔ ۔ ۔ ؟

ثقافت کے بارے میں اخبارات ۔ رسائل اور ٹی وی پر لوگوں کے خیالات پڑھے یا سنے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے کہ ثقافت کیا ہوتی ہے اور تہذيب کس بلا کا نام ہے

پچھلی دو صدیوں میں لکھی گئی کُتب کی طرف رُخ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت کسی قوم ۔ ملت یا قبیلہ کی مجموعی بود و باش سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک عادت یا عمل سے ۔ نہ کچھ لوگوں کی عادات سے ۔ مزید یہ کہ ثقافت میں انسانی اصولوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا عمل دخل لازم ہے ۔ ثقافت کے متعلق محمد ابراھیم ذوق ۔ الطاف حسین حالی ۔ علامہ اقبال ۔ اکبر الٰہ آبادی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میں اسے دہرانے کی بجائے صرف لُغت سے استفادہ کروں گا

فیروز اللُغات کے مطابق ” ثقافت ” کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔ تہذیب
ایک انگریزی سے اُردو ڈکشنری کے مطابق کلچر [Culture] کا مطلب ہے ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔ کاشت کرنا

چند مشہور انگریزی سے انگریزی ڈکشنریوں کے مطابق ثقافت یا کلچر [Culture] کے معنی ہیں

مریم ویبسٹر ڈکشنری
1 ۔ شعوری اور اخلاقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعہ
2 ۔ شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت اور عُمدہ پسندیدگی
3 ۔ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماوراء فنونِ لطیفہ ۔ انسانیات اور سائنس کی وسیع ہیئت سے شناسائی
4 ۔ انسانی معلومات کا مرکب مجسمہ ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی مُنتقلی پر ہو
5 ۔ کسی گروہ کے رسم و رواج ۔ باہمی سلوک اور مادی اوصاف

کومپیکٹ آکسفورڈ ڈکشنری
1 ۔ خیالی یاشعوری فَن یا ہُنر کے ظہُور جو اجتمائی نشان ہو یا اس کی ایک خالص فِکر یا قدر دانی
2 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کی رسوم ۔ ادارے اور کامرانی

کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری
1 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
2 ۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر

اینکارٹا ورلڈ انگلش ڈکشنری
کسی قوم یا گروہ کی / کے مشترکہ
1 ۔ مجموعی طور پر فن یا ہُنر جس میں فنونِ لطیفہ ۔موسیقی ۔ ادب ۔ ذہنی چُستی شامل ہوں
2 ۔ آگہی ۔ آمیزش اور بصیرت جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو
3 ۔ رائے ۔ وصف ۔ رسم و رواج ۔ عادات ۔ باہمی طور طریقے
4 ۔ شعور یا ہُنرمندی یا فنی مہارت کی نشو و نما

چنانچہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تربیت پر ہو ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا

ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان میں بھی صرف چند فیصد لوگ ہی کرتے ہیں ۔ ہاں شائستہ (classical) موسیقی یعنی بھجن ان کی پوجا پاٹ کا حصہ ہے اور یہ وہ ناچ گانا نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے

مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے کچھ ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے اپنی ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں اور ثبوت کے طور پر ہندوانہ رسم و رواج کا حوالہ دیتے ہیں یا پھر اس دور کی مثال دیتے ہیں جب اسلام کا ظہور نہیں ہوا تھا

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے ۔ اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ اسی طرح شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا کونہ بائیں کندھے اور بائیں والا کونہ داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

ثقافت کے متذکرہ بالا اجزاء میں جو مادی اوصاف ہیں وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی بہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے مگر ثقافت پر اثر انداز ہونے والی اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی بہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ ان کو تبدیل کرنا انسانی تمدن کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ۔ آج کمپیوٹر کا دور ہے ۔ کمپیوٹر متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اپنی اقدار کو نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں عبادت ۔ تعلیم ۔ سلوک ۔ عدل ۔ انتظام ۔ وغیرہ

تہذیب کے بارے میں مضمون اِن شاء اللہ عنقریب

منافق سے دُشمن بہتر

منافقت (Hypocrisy) اور دُشمنی میں واضح فرق ہے
منافق (Hypocrite) دراصل دوست یا خیر خواہ کے بھیس میں دُشمن ہوتا ہے
تھوڑی یا زیادہ کوشش سے کوئی بھی شخص دُشمن کو جان جاتا ہے
لیکن منافق کو پہچاننا بہت مُشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے
چنانچہ منافق دُشمن سے زیادہ خطرناک ہے

لڑکپن کی باتيں قسط 6 ۔ چھوٹی سی بات

قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت ۔ رنگِ زماں اور تاش لکھ چکا ہوں

آدھی صدی پیچھے کی بات ہے جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ ایک دن اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ایک دوسرے ہوسٹل کا لڑکا “خ” آیا اور کہنے لگا “جہاں سے تم ڈرائينگ شیٹس [Drawing Sheets] لاتے ہو مجھے وہاں لے چلو” ۔ میں نے کہا “میرا بائیسائکل کوئی لے گیا ہے”۔ وہ گیا اور ایک اور بائیسائکل لے کر آ گیا ۔ میں بائیسائکل پر چڑھنے لگا تو ہوا کم تھی اتر کر پیدل چلنے لگا ۔ وہ آگے جا کر رُک گیا اور پیدل چلنے کی وجہ پوچھی ۔ میرے بتانے پر کہنے لگا “سائیکل مرمت کی دکان ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے ۔ وہاں تک سوار ہو جاؤ ۔ بائیسائکل خراب ہو گا تو تمہارا نقصان نہیں”۔ میں نے اُسے کہا “میں دوسرے کی چیز کا اپنی چيز سے زیادہ خیال رکھتا ہوں”۔ اُس نے کہا “سائیکل میرے دوست کا ہے اور میں تمہیں کہہ رہا ہوں”۔ میرے نہ ماننے پر وہ بھی منہ بنا کر میرے ساتھ چلنے لگا

چند ماہ بعد ایک لڑکا “خ” کے ہوسٹل سے میرے پاس آیا اور کہنے لگا ” “خ” کو تم نے کیا کِیا ہے ؟ ”
میں نے کہا “میں نے تو اُسے کچھ نہیں کیا۔ اُس نے کیا کہا ہے میرے متعلق ؟”
جواب ملا “وہ کہتا ہے کہ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے ۔ میں اب تک جانور تھا”
پھر اُس نے بتایا کہ “خ” کتاب لیتا تو واپس نہ کرتا یا واپس کرتا تو پھٹی ہوئی ہوتی ۔ پچھلے ہفتے اس نے مجھ سے ایک ہفتے کیلئے ایک کتاب مانگی میں نہیں دینا چاہتا تھا مگر اُس کے منت کرنے پر دے دی ۔ کل وہ واپس کر کے گیا تو اُس پر موٹا کاغذ چڑھا ہوا تھا اور کوئی ورق دوہرا تک نہیں کیا ہوا تھا ۔ میں نے کہا کہ تم تو انسان بن گئے ہو تو کہنے لگا کہ ‘میں اکیلی اولاد ہونے کے سبب بہت لاڈلا ہوں مزید ماموں کی اکلوتی اولاد بیٹی سے منگنی ہو گئی اور وہ بھی میری ہر ضد پوری کرتے رہے ۔ نتیجہ میں خودسَر ہو گیا ۔ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے’ ۔ پھر سار واقعہ بائیسائکل والا سنایا”

ڈرتے ڈرتے

متعلقہ مضامین پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے
پنجابی کوئی زبان نہیں
پنجابی قوم نہیں
اُردو سپیکنگ

ڈھائی سال قبل میں نے لکھا تھا “پنجابی کوئی زبان نہیں“۔ چونکہ متعلقہ کُتب و دیگر علمی مواد میرے سامنے نہ تھا اور میں یاد داشت کی بنیاد پر لکھ رہا تھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا

یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد کے کچھ حصوں اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی

پچھلے دنوں ایک نقشہ دیکھنے کو مل گیا جس پر ستمبر 1872ء تاریخ درج ہے ۔ اس کے مطابق پنجاب میں 6 ڈویژن (Division) تھیں جن کے یہ نام تھے
1 ۔ دہلی ۔ 2 ۔ جالندھر ۔ 3 ۔ لاہور ۔ 4 ۔ راولپنڈی ۔ 5 ۔ پشاور ۔ 6 ۔ ڈیرہ جٹ

جانتے ہیں ڈیرہ جٹ کس علاقے کا نام تھا ؟
موجودہ خیبر پختونخوا ۔ پنجاب اور سندھ کے وہ علاقے جہاں سرائیکی بولنے والے اور بلوچ رہتے ہیں ۔ (مزاری ۔ زرداری وغیرہ سب بلوچ ہیں)

اُس دور کے پنجاب میں 31 اضلاع تھے جن میں سب سے زیادہ یعنی 7 دہلی میں اور سب سے کم یعنی 3 پشاور میں تھے

ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں نے جب بنگال کو سر کر لیا تو پنجاب اُنہیں سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوا ۔ چنانچہ ایک طرف دہلی اور اس کے مشرقی علاقے کو پنجاب سے کاٹ کر الگ کیا ۔ دوسری طرف پشاور اور ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی علاقے کو نارتھ ویسٹرن فرنٹیر (North Western Frontier) کا نام دیا جسے ماضی قریب میں خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا ہے ۔ تیسری طرف ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی اور بلوچ علاقے کو دیبل وغیرہ میں شامل کر کے سندھ کا نام دیا ۔ پاکستان بنتے وقت باقی رہ جانے والے پنجاب میں سے بھی آدھا بھارت کے حوالے کر دیا

موجودہ حکومت کو نجانے اس بچے کھچے پنجاب سے جو اصلی پنجاب کا شاید پانچواں حصہ ہے کیا خطرات لاحق ہوئے ہیں کہ اس کا مزید تیا پانچا کرنا چاہتی ہے
۔ ”حیف ایسی قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہو اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو ایک الگ قوم سمجھے“۔ خلیل جبران

خلائی جہاز ۔ ریلوے اور گھوڑے کی پیٹھ

عنوان دیکھ کر عام قاری راقم الحروف کی دماغی صحت پر شُبہ کرے گا کہ “گھوڑے کی پیٹھ کی ریلوے اور خلائی جہاز سے کیا نسبت ؟” لیکن حقیقت جاننے کے بعد شاید وہ اُن(٭) کی عقل پر حیران ہو جن کے صبح شام قصیدے پڑھے جاتے ہیں
(٭ امریکیوں)

خلائی جہاز کو لانچِنگ پیڈ پر اِستادہ تو دیکھا ہی ہو گا ۔ اس کے ایندھن (feul) کے ٹینک کے دونوں اطراف 2 بڑے بڑے بُوسٹر لگے ہوتے ہیں ۔ یہ ریاست اُوتاہ (Utah) میں ایک تھیوکال (Thiokol) نامی کمپنی بناتی ہے

ان بُوسٹروں کو ڈیزائن کرنے والے انجنیئروں نے ضرور سوچا ہو گا کہ انہیں کچھ بڑا بنایا جائے لیکن مجبوری آڑے آ گئی ہو گی کیونکہ انہیں فیکٹری سے لانچ والی جگہ (launch site) ٹرین پر لے جایا جاتا ہے ۔ فیکٹری سے لانچ والی جگہ جانے کیلئے ریلوے لائن پہاڑ کے اندر بنے ایک غار میں سے گذرتی ہے ۔ اس غار کی چوڑائی ریلوے لائن سے کچھ زیادہ ہے ۔ چنانچہ انجنیئرز کو بُوسٹرز کی چوڑائی اسی حساب سے رکھنا پڑی ۔ ریلوے کی چوڑائی 4 فٹ ساڑھے 8 انچ ہے جو نہائت نامعقول محسوس ہوتی ہے

سوال ۔ ایسی چوڑائی کیوں رکھی گئی ؟
جواب ۔ اسلئے کہ انگلستان سے آئے ہوئے لوگوں نے یہ ریلوے لائن ڈیزائن کی تھی کیونکہ انگلستان میں یہ ایسے ہی بنائی جاتی تھی

سوال ۔ انگلستان میں ایسے بے تُکے سائز کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟
جواب ۔ کیونکہ پہلی ریلوے اُن ہی لوگوں نے بنائی جنہوں نے ٹرام وے (tramways) بنائی تھی ۔ اسی لئے اُنہوں نے ریلوے کا سائز وہی رکھا جو ٹرام وے کا تھا

سوال ۔ ٹرام وے کیلئے اُنہوں نے ایسا فضول سائز کیوں اختیار کیا ؟
جواب ۔ کیونکہ اُنہوں نے وہی اوزار (jigs and tools) استعمال کئے تھے جو وہ بگی بنانے کیلئے استعمال کرتے تھے

Picture – Wagon

سوال ۔ بگی کے پہیوں کے درمیان ایسا فاصلہ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ اگر وہ اس کی بجائے مختلف فاصلہ رکھتے تو انگلستان کے کئی علاقوں میں بگی کے پہیئے ٹوٹنے کا خدشہ تھا کیونکہ وہاں پرانے زمانے کی سڑکیں تھیں جن پر دو متوازی گہری پگڈنڈیاں بنی ہوئی تھیں

سوال ۔ یہ پگڈنڈیاں کس نے بنائی تھیں ؟
جواب ۔ انگلستان سمیت یورپ میں رومیوں نے سڑکیں بنوائیں تھیں ۔ سڑکیں کچی تھیں اور ان پر رومی فوجیوں کے رتھ چلنے سے گہری پگڈنڈیاں بن گئیں ۔ یہ رتھ رومی حکومت کیلئے بنائے گئے تھے اسلئے سب کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ ایک ہی تھا اور یہ فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ تھا

سوال ۔ لیکن آخر رتھ کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ کیونکہ رتھ کو 2 گھوڑے چلاتے تھے اور پہیوں کا درمیانی فاصلہ 2 گھوڑوں کی پیٹھ کی کُل چوڑائی سے کچھ زیادہ رکھا گیا تھا جو 4 فٹ ساڑھے 8 انچ بنتا تھا

چنانچہ ریلوے اور خلائی جہاز جیسے اہم منصوبوں کیلئے گھوڑے کی پیٹھ اہم بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر گھوڑے کی پیٹھ کا ذکر آئے تو اسے نظر انداز نہ کیجئے

پس ثابت ہو ا کہ سائنسدان خواہ کتنی ہی ترقی کر جائیں بے بس ہیں نوکر شاہی (Bureoucracy) کے آگے جو تبدیلی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے

عوام ۔ غلطياں اور غلط فہمياں

شايد آج کی پوری دنيا کا ہی الميہ ہے مگر بالخصوص ہمارے ہاں غلط يا تراشيدہ [manufactured] باتوں کو جتنا عام کيا جاتا ہے اور جتنا ان پر بحث کو وقت ديا جاتا ہے اتنی حقائق کی طرف توجہ نہيں دی جاتی ۔ قانون اور الفاظ دونوں ہی کے اصل کی بجاۓ غلط معروف ہیں

چند نمونے

طلب سے بنا طالب یعنی طلب رکھنے والا ۔ علم کی طلب رکھنے والا ہوا طالب علم جسے مختصر طور پر طالب کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع ہوئی طُلباء ۔ لیکن چند سالوں سے اخبارات اور ٹی وی چنلز والوں نے طلبہ لکھنا شروع کر دیا ہے اور شاید ان کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی طلبہ لکھنے لگے ہیں ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ معمولی سا غور کرنا بھی شاید گوارا نہیں کرتے کہ طلب سے طلبہ بنا تو اس کا مطلب کیا ہوا اور یہ کس اصول کے تحت بنا ؟ کیا یہ اتنی سُوجھ بُوجھ بھی نہیں رکھتے کہ ذاکر مذکر ہے تو ذاکرہ اس کی مؤنث ہوئی ۔ طلب تو ہے ہی مؤنث تو اس کی مزید مؤنث کیا طالب علم کی جمع بن جائے گا ؟

لفظ ”عوام الناس“ تھا ۔ مطلب عام یا سب آدمی یا انسان ۔ استعمال سے ”الناس“ گھِس گيا يا راستے ميں کہيں گِر گيا اور رہ گیا عوام الناس کی زبان پر صرف ”عوام“

فارسی کا ايک مصدر ہے ”آمدن“ جس کا صيغہ حاضر جمع ہے ”آمدَيد“اور ”خوش“ کا مطلب ہے ”اچھا يا بھلا“ ان دو لفظوں سے بنا تھا ”خوش آمدَيد“۔ جديد ہواؤں نے ” د “ کی ”زَبَر“ کو نيچے گرا ديا اور وہ بن گئی ” زَير “۔ اور ”خوش آمدَيد“ کا بن گيا ”خوش آمدِيد“
فارسی ہی کا مصدر ہے ”دِيدن“ جس کا صيغہ ماضی ہے ”دِيد“ جس کا مطلب ہے ”ديکھا“ چنانچہ ”خوش آمدِيد“ کا مطلب بنا ”اچھا آم ديکھا“۔ اس کی وجہ يہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے لوگ آم کھانا پسند کرتے ہيں :lol:

سب سے اہم بلکہ قومی سانحہ
ہمارے ہاں کيا حکمران کيا عوام 1973ء کے آئين کی تعريفيں کرتے نہيں تھکتے ۔ ان ميں سے 90 فيصد سے زائد ايسے ہوں گے جنہوں نے کبھی آئين کو پڑھا ہی نہيں ۔ راقم الحروف نے پہلی بار اس آئينی دستاويز کو 1974ء کی آخری چوتھاتی ميں صرف پڑھا ہی نہيں بلکہ اس کا مطالعہ کيا کيونکہ ميں اُن دنوں سينئر منيجمنٹ کورس پر تھا اور آئين پر مباحثہ ميں حصہ لينا تھا ۔ مباحثہ ميں دلائل کے ساتھ يہ حقيقت آشکار ہوئی تھی کہ آئين کامل نہيں اور قابلِ عمل بنانے کيلئے کچھ تراميم کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر تعزيراتِ پاکستان ميں انقلابی تبديلياں لانا ہوں گی

ايک اہم حقيقت سامنے آئی تھی جو اب تک جوں کی توں موجود ہے کہ يہ آئين جمہوری تو ہے مگر اختيارات سارے حکمران کے ہاتھ ميں ہيں ۔ وہ چاہے تو ملک کو اپنی ملکیت سمجھ کر بيچ دے يا قوم کو غلام سمجھ کر بيچ دے ۔ ملک کا کوئی ادارہ دھرن تختہ کر دے تو الگ بات مگر آئينی يا قانونی طريقہ سے حکمران کا کچھ نہيں بگاڑا جا سکتا جب تک ايوان ميں اُسے اکثريت کی حمائت حاصل رہے اور يہ ہمارے ہاں رہتی ہے ۔ اس سلسلے میں عدالتِ عظمٰی کو بھی کاروائی کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی شخص جو حکمران نہ ہو بھی اگر مُلک سے غداری کرے تو حُکمران کے باقاعدہ حُکم کے بغير اُس کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہيں کی جا سکتی ۔ 1973ء کے آئين کے تحت 1976ء ميں ايک قانون بنايا گيا جسے 1956ء سے مؤثر قرار ديا گيا ۔ اس قانون کے متعلقہ اقتباس سے صاف واضح ہے کہ ”جو چاہے سو حکمران کرے ۔جمہوریت کو فقط بدنام کیا

Criminal Law Amendment (Special Court) Act 1976.

An offence of simple treason punishable under the Pakistan Penal Code and an offence under The High Treason (Punishment) Act 1973 whether committed before or after the commencement of the 1976 statute shall be tried by the special court in accordance with the provisions of this legislation.
It is necessary to provide for the punishment of persons found guilty of acts of abrogation or subversion of a Constitution or of high treason . . . A person, who is found guilty (a) of having committed an act of abrogation or subversion of a Constitution in force in Pakistan at any time since the 23rd day of March 1956, or (b) of high treason as defined in Article 6 of the Constitution; (c) be punishable with death or imprisonment for life.

No court shall take cognisance of an offence punishable under this Act except upon a complaint in writing made by a person designated by the federal government in this behalf. The government may assign this job to the attorney general or appoint a prosecutor general to represent it in the high treason trial.

انسانی حقوق کے خودساختہ پوجاری

امریکا نے “حقیقت” کے نئے معنی دریافت کر کے کئی سال قبل نافذ کر دیئے تھے “حقیقت وہ ہے جو ہم کہیں (Reality is what we say)” یہ الفاظ امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بُش نے خود ایک نشریئے میں کہے تھے یعنی اگر امریکا نہ کہے کہ ولادی میر پیوٹن پیدا ہوا ہے تو گویا ولادی میر پیوٹن روس کا صدر ہے ہی نہیں ۔ امریکی نظریہ کے مطابق “انسانی حقوق اور امن” وہ ہوتے ہیں جو امریکی حکمرانوں کو پسند ہو چاہے امریکا کے علاوہ باقی دنیا تباہ ہو جائے

امریکی کردار تو صدیوں قبل افریقیوں کے اغواء اور اُنہیں غلام بنا کر تشدد کرنے سے شروع ہوا تھا جس کی ایک جھلک الَیکس ہَیلی کی کتاب دی رُوٹس (The Roots by Alex Haley) میں موجود ہے لیکن بین الاقوامی 1959ء میں ویتنام پر دھاوا بولنے سے ہوا اور پھر پھیلتا ہی گیا ۔ کہیں امن سے پیار اور کہیں انسانی حقوق کی محبت میں ہزاروں یا لاکھوں بے قصور انسانوں کو ہلاک اور معذور کیا کیا جاتا ہے جن میں عورتیں بوڑھے اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور کہیں بغیر مقدمہ چلائے سینکڑوں یا ہزاروں مردوں اور عورتوں کو جن میں نابالغ بھی شامل ہوتے ہیں پابندِ سلاسل کر کے بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے ۔ صرف نام مختلف رکھے جاتے ہیں ۔ عراق ہو تو “لامتناہی تباہی کے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction)” ۔ افغانستان ہو تو کبھی “ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی” کبھی “اسامہ بن لادن” کبھی “القائدہ”۔ کبھی عورتوں کے حقوق”۔ لبیا ہو تو “اسلامی انقلاب”۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ ہو تو “افغانستان میں دہشتگردوں کی امداد”۔ اور کچھ نہ سمجھ آئے تو “خظرے کے پیشگی احساس کے نام پر درندگی کو بھی ژرمندہ کیا جاتا ہے ۔ خود اپنے ملک میں اپنے ہی امریکیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اس کی مثالیں بھی آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں

حکمرانوں کی کیا بات امریکی عدالتیں بھی انصاف صرف اپنی پسند کا کرتی ہیں

امریکی سپریم کورٹ نے نومسلم امریکی شہری جوز پڑیلا کی درخواست سننے سے انکار کردیا جس میں اس نے 2007ء میں گرفتاری کے بعد جیل میں بدترین تشدد کی شکایت کی تھی اور وہ سابقہ و موجودہ حکومتی حکام کے خلاف نالش (sue) کرنا چاہتا تھا

اس کو 4 برس تک بغیر الزام جیل میں قید رکھا گیا ۔ بعدازاں مقامی القاعدہ سیل کی مدد کے الزام میں 17 برس قید کی سزا سنادی گئی جس پر امریکن سول لبرٹیز یونین اور پڑیلا کی والدہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حکام کو قومی سلامتی کے نام پر کسی بھی شخص سے بدسلوکی اور بدترین تشدد کرنے کیلئے بلینک چیک دے دیا ہے

دوسرا واقعہ نہچے ربط پر کلِک کر کے پڑھیئے
اصل مجرم