منافقت (Hypocrisy) اور دُشمنی میں واضح فرق ہے
منافق (Hypocrite) دراصل دوست یا خیر خواہ کے بھیس میں دُشمن ہوتا ہے
تھوڑی یا زیادہ کوشش سے کوئی بھی شخص دُشمن کو جان جاتا ہے
لیکن منافق کو پہچاننا بہت مُشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے
چنانچہ منافق دُشمن سے زیادہ خطرناک ہے
Monthly Archives: June 2012
لڑکپن کی باتيں قسط 6 ۔ چھوٹی سی بات
قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت ۔ رنگِ زماں اور تاش لکھ چکا ہوں
آدھی صدی پیچھے کی بات ہے جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ ایک دن اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ایک دوسرے ہوسٹل کا لڑکا “خ” آیا اور کہنے لگا “جہاں سے تم ڈرائينگ شیٹس [Drawing Sheets] لاتے ہو مجھے وہاں لے چلو” ۔ میں نے کہا “میرا بائیسائکل کوئی لے گیا ہے”۔ وہ گیا اور ایک اور بائیسائکل لے کر آ گیا ۔ میں بائیسائکل پر چڑھنے لگا تو ہوا کم تھی اتر کر پیدل چلنے لگا ۔ وہ آگے جا کر رُک گیا اور پیدل چلنے کی وجہ پوچھی ۔ میرے بتانے پر کہنے لگا “سائیکل مرمت کی دکان ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے ۔ وہاں تک سوار ہو جاؤ ۔ بائیسائکل خراب ہو گا تو تمہارا نقصان نہیں”۔ میں نے اُسے کہا “میں دوسرے کی چیز کا اپنی چيز سے زیادہ خیال رکھتا ہوں”۔ اُس نے کہا “سائیکل میرے دوست کا ہے اور میں تمہیں کہہ رہا ہوں”۔ میرے نہ ماننے پر وہ بھی منہ بنا کر میرے ساتھ چلنے لگا
چند ماہ بعد ایک لڑکا “خ” کے ہوسٹل سے میرے پاس آیا اور کہنے لگا ” “خ” کو تم نے کیا کِیا ہے ؟ ”
میں نے کہا “میں نے تو اُسے کچھ نہیں کیا۔ اُس نے کیا کہا ہے میرے متعلق ؟”
جواب ملا “وہ کہتا ہے کہ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے ۔ میں اب تک جانور تھا”
پھر اُس نے بتایا کہ “خ” کتاب لیتا تو واپس نہ کرتا یا واپس کرتا تو پھٹی ہوئی ہوتی ۔ پچھلے ہفتے اس نے مجھ سے ایک ہفتے کیلئے ایک کتاب مانگی میں نہیں دینا چاہتا تھا مگر اُس کے منت کرنے پر دے دی ۔ کل وہ واپس کر کے گیا تو اُس پر موٹا کاغذ چڑھا ہوا تھا اور کوئی ورق دوہرا تک نہیں کیا ہوا تھا ۔ میں نے کہا کہ تم تو انسان بن گئے ہو تو کہنے لگا کہ ‘میں اکیلی اولاد ہونے کے سبب بہت لاڈلا ہوں مزید ماموں کی اکلوتی اولاد بیٹی سے منگنی ہو گئی اور وہ بھی میری ہر ضد پوری کرتے رہے ۔ نتیجہ میں خودسَر ہو گیا ۔ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے’ ۔ پھر سار واقعہ بائیسائکل والا سنایا”
ڈرتے ڈرتے
متعلقہ مضامین پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے
پنجابی کوئی زبان نہیں
پنجابی قوم نہیں
اُردو سپیکنگ
ڈھائی سال قبل میں نے لکھا تھا “پنجابی کوئی زبان نہیں“۔ چونکہ متعلقہ کُتب و دیگر علمی مواد میرے سامنے نہ تھا اور میں یاد داشت کی بنیاد پر لکھ رہا تھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا
یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد کے کچھ حصوں اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی
پچھلے دنوں ایک نقشہ دیکھنے کو مل گیا جس پر ستمبر 1872ء تاریخ درج ہے ۔ اس کے مطابق پنجاب میں 6 ڈویژن (Division) تھیں جن کے یہ نام تھے
1 ۔ دہلی ۔ 2 ۔ جالندھر ۔ 3 ۔ لاہور ۔ 4 ۔ راولپنڈی ۔ 5 ۔ پشاور ۔ 6 ۔ ڈیرہ جٹ
جانتے ہیں ڈیرہ جٹ کس علاقے کا نام تھا ؟
موجودہ خیبر پختونخوا ۔ پنجاب اور سندھ کے وہ علاقے جہاں سرائیکی بولنے والے اور بلوچ رہتے ہیں ۔ (مزاری ۔ زرداری وغیرہ سب بلوچ ہیں)
اُس دور کے پنجاب میں 31 اضلاع تھے جن میں سب سے زیادہ یعنی 7 دہلی میں اور سب سے کم یعنی 3 پشاور میں تھے
ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں نے جب بنگال کو سر کر لیا تو پنجاب اُنہیں سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوا ۔ چنانچہ ایک طرف دہلی اور اس کے مشرقی علاقے کو پنجاب سے کاٹ کر الگ کیا ۔ دوسری طرف پشاور اور ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی علاقے کو نارتھ ویسٹرن فرنٹیر (North Western Frontier) کا نام دیا جسے ماضی قریب میں خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا ہے ۔ تیسری طرف ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی اور بلوچ علاقے کو دیبل وغیرہ میں شامل کر کے سندھ کا نام دیا ۔ پاکستان بنتے وقت باقی رہ جانے والے پنجاب میں سے بھی آدھا بھارت کے حوالے کر دیا
موجودہ حکومت کو نجانے اس بچے کھچے پنجاب سے جو اصلی پنجاب کا شاید پانچواں حصہ ہے کیا خطرات لاحق ہوئے ہیں کہ اس کا مزید تیا پانچا کرنا چاہتی ہے
۔ ”حیف ایسی قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہو اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو ایک الگ قوم سمجھے“۔ خلیل جبران
خلائی جہاز ۔ ریلوے اور گھوڑے کی پیٹھ
عنوان دیکھ کر عام قاری راقم الحروف کی دماغی صحت پر شُبہ کرے گا کہ “گھوڑے کی پیٹھ کی ریلوے اور خلائی جہاز سے کیا نسبت ؟” لیکن حقیقت جاننے کے بعد شاید وہ اُن(٭) کی عقل پر حیران ہو جن کے صبح شام قصیدے پڑھے جاتے ہیں
(٭ امریکیوں)
خلائی جہاز کو لانچِنگ پیڈ پر اِستادہ تو دیکھا ہی ہو گا ۔ اس کے ایندھن (feul) کے ٹینک کے دونوں اطراف 2 بڑے بڑے بُوسٹر لگے ہوتے ہیں ۔ یہ ریاست اُوتاہ (Utah) میں ایک تھیوکال (Thiokol) نامی کمپنی بناتی ہے
ان بُوسٹروں کو ڈیزائن کرنے والے انجنیئروں نے ضرور سوچا ہو گا کہ انہیں کچھ بڑا بنایا جائے لیکن مجبوری آڑے آ گئی ہو گی کیونکہ انہیں فیکٹری سے لانچ والی جگہ (launch site) ٹرین پر لے جایا جاتا ہے ۔ فیکٹری سے لانچ والی جگہ جانے کیلئے ریلوے لائن پہاڑ کے اندر بنے ایک غار میں سے گذرتی ہے ۔ اس غار کی چوڑائی ریلوے لائن سے کچھ زیادہ ہے ۔ چنانچہ انجنیئرز کو بُوسٹرز کی چوڑائی اسی حساب سے رکھنا پڑی ۔ ریلوے کی چوڑائی 4 فٹ ساڑھے 8 انچ ہے جو نہائت نامعقول محسوس ہوتی ہے
سوال ۔ ایسی چوڑائی کیوں رکھی گئی ؟
جواب ۔ اسلئے کہ انگلستان سے آئے ہوئے لوگوں نے یہ ریلوے لائن ڈیزائن کی تھی کیونکہ انگلستان میں یہ ایسے ہی بنائی جاتی تھی
سوال ۔ انگلستان میں ایسے بے تُکے سائز کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟
جواب ۔ کیونکہ پہلی ریلوے اُن ہی لوگوں نے بنائی جنہوں نے ٹرام وے (tramways) بنائی تھی ۔ اسی لئے اُنہوں نے ریلوے کا سائز وہی رکھا جو ٹرام وے کا تھا
سوال ۔ ٹرام وے کیلئے اُنہوں نے ایسا فضول سائز کیوں اختیار کیا ؟
جواب ۔ کیونکہ اُنہوں نے وہی اوزار (jigs and tools) استعمال کئے تھے جو وہ بگی بنانے کیلئے استعمال کرتے تھے
سوال ۔ بگی کے پہیوں کے درمیان ایسا فاصلہ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ اگر وہ اس کی بجائے مختلف فاصلہ رکھتے تو انگلستان کے کئی علاقوں میں بگی کے پہیئے ٹوٹنے کا خدشہ تھا کیونکہ وہاں پرانے زمانے کی سڑکیں تھیں جن پر دو متوازی گہری پگڈنڈیاں بنی ہوئی تھیں
سوال ۔ یہ پگڈنڈیاں کس نے بنائی تھیں ؟
جواب ۔ انگلستان سمیت یورپ میں رومیوں نے سڑکیں بنوائیں تھیں ۔ سڑکیں کچی تھیں اور ان پر رومی فوجیوں کے رتھ چلنے سے گہری پگڈنڈیاں بن گئیں ۔ یہ رتھ رومی حکومت کیلئے بنائے گئے تھے اسلئے سب کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ ایک ہی تھا اور یہ فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ تھا
سوال ۔ لیکن آخر رتھ کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ کیونکہ رتھ کو 2 گھوڑے چلاتے تھے اور پہیوں کا درمیانی فاصلہ 2 گھوڑوں کی پیٹھ کی کُل چوڑائی سے کچھ زیادہ رکھا گیا تھا جو 4 فٹ ساڑھے 8 انچ بنتا تھا
چنانچہ ریلوے اور خلائی جہاز جیسے اہم منصوبوں کیلئے گھوڑے کی پیٹھ اہم بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر گھوڑے کی پیٹھ کا ذکر آئے تو اسے نظر انداز نہ کیجئے
پس ثابت ہو ا کہ سائنسدان خواہ کتنی ہی ترقی کر جائیں بے بس ہیں نوکر شاہی (Bureoucracy) کے آگے جو تبدیلی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے
عوام ۔ غلطياں اور غلط فہمياں
شايد آج کی پوری دنيا کا ہی الميہ ہے مگر بالخصوص ہمارے ہاں غلط يا تراشيدہ [manufactured] باتوں کو جتنا عام کيا جاتا ہے اور جتنا ان پر بحث کو وقت ديا جاتا ہے اتنی حقائق کی طرف توجہ نہيں دی جاتی ۔ قانون اور الفاظ دونوں ہی کے اصل کی بجاۓ غلط معروف ہیں
چند نمونے
طلب سے بنا طالب یعنی طلب رکھنے والا ۔ علم کی طلب رکھنے والا ہوا طالب علم جسے مختصر طور پر طالب کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع ہوئی طُلباء ۔ لیکن چند سالوں سے اخبارات اور ٹی وی چنلز والوں نے طلبہ لکھنا شروع کر دیا ہے اور شاید ان کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی طلبہ لکھنے لگے ہیں ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ معمولی سا غور کرنا بھی شاید گوارا نہیں کرتے کہ طلب سے طلبہ بنا تو اس کا مطلب کیا ہوا اور یہ کس اصول کے تحت بنا ؟ کیا یہ اتنی سُوجھ بُوجھ بھی نہیں رکھتے کہ ذاکر مذکر ہے تو ذاکرہ اس کی مؤنث ہوئی ۔ طلب تو ہے ہی مؤنث تو اس کی مزید مؤنث کیا طالب علم کی جمع بن جائے گا ؟
لفظ ”عوام الناس“ تھا ۔ مطلب عام یا سب آدمی یا انسان ۔ استعمال سے ”الناس“ گھِس گيا يا راستے ميں کہيں گِر گيا اور رہ گیا عوام الناس کی زبان پر صرف ”عوام“
فارسی کا ايک مصدر ہے ”آمدن“ جس کا صيغہ حاضر جمع ہے ”آمدَيد“اور ”خوش“ کا مطلب ہے ”اچھا يا بھلا“ ان دو لفظوں سے بنا تھا ”خوش آمدَيد“۔ جديد ہواؤں نے ” د “ کی ”زَبَر“ کو نيچے گرا ديا اور وہ بن گئی ” زَير “۔ اور ”خوش آمدَيد“ کا بن گيا ”خوش آمدِيد“
فارسی ہی کا مصدر ہے ”دِيدن“ جس کا صيغہ ماضی ہے ”دِيد“ جس کا مطلب ہے ”ديکھا“ چنانچہ ”خوش آمدِيد“ کا مطلب بنا ”اچھا آم ديکھا“۔ اس کی وجہ يہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے لوگ آم کھانا پسند کرتے ہيں
سب سے اہم بلکہ قومی سانحہ
ہمارے ہاں کيا حکمران کيا عوام 1973ء کے آئين کی تعريفيں کرتے نہيں تھکتے ۔ ان ميں سے 90 فيصد سے زائد ايسے ہوں گے جنہوں نے کبھی آئين کو پڑھا ہی نہيں ۔ راقم الحروف نے پہلی بار اس آئينی دستاويز کو 1974ء کی آخری چوتھاتی ميں صرف پڑھا ہی نہيں بلکہ اس کا مطالعہ کيا کيونکہ ميں اُن دنوں سينئر منيجمنٹ کورس پر تھا اور آئين پر مباحثہ ميں حصہ لينا تھا ۔ مباحثہ ميں دلائل کے ساتھ يہ حقيقت آشکار ہوئی تھی کہ آئين کامل نہيں اور قابلِ عمل بنانے کيلئے کچھ تراميم کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر تعزيراتِ پاکستان ميں انقلابی تبديلياں لانا ہوں گی
ايک اہم حقيقت سامنے آئی تھی جو اب تک جوں کی توں موجود ہے کہ يہ آئين جمہوری تو ہے مگر اختيارات سارے حکمران کے ہاتھ ميں ہيں ۔ وہ چاہے تو ملک کو اپنی ملکیت سمجھ کر بيچ دے يا قوم کو غلام سمجھ کر بيچ دے ۔ ملک کا کوئی ادارہ دھرن تختہ کر دے تو الگ بات مگر آئينی يا قانونی طريقہ سے حکمران کا کچھ نہيں بگاڑا جا سکتا جب تک ايوان ميں اُسے اکثريت کی حمائت حاصل رہے اور يہ ہمارے ہاں رہتی ہے ۔ اس سلسلے میں عدالتِ عظمٰی کو بھی کاروائی کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی شخص جو حکمران نہ ہو بھی اگر مُلک سے غداری کرے تو حُکمران کے باقاعدہ حُکم کے بغير اُس کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہيں کی جا سکتی ۔ 1973ء کے آئين کے تحت 1976ء ميں ايک قانون بنايا گيا جسے 1956ء سے مؤثر قرار ديا گيا ۔ اس قانون کے متعلقہ اقتباس سے صاف واضح ہے کہ ”جو چاہے سو حکمران کرے ۔جمہوریت کو فقط بدنام کیا“
Criminal Law Amendment (Special Court) Act 1976.
An offence of simple treason punishable under the Pakistan Penal Code and an offence under The High Treason (Punishment) Act 1973 whether committed before or after the commencement of the 1976 statute shall be tried by the special court in accordance with the provisions of this legislation.
It is necessary to provide for the punishment of persons found guilty of acts of abrogation or subversion of a Constitution or of high treason . . . A person, who is found guilty (a) of having committed an act of abrogation or subversion of a Constitution in force in Pakistan at any time since the 23rd day of March 1956, or (b) of high treason as defined in Article 6 of the Constitution; (c) be punishable with death or imprisonment for life.
No court shall take cognisance of an offence punishable under this Act except upon a complaint in writing made by a person designated by the federal government in this behalf. The government may assign this job to the attorney general or appoint a prosecutor general to represent it in the high treason trial.
انسانی حقوق کے خودساختہ پوجاری
امریکا نے “حقیقت” کے نئے معنی دریافت کر کے کئی سال قبل نافذ کر دیئے تھے “حقیقت وہ ہے جو ہم کہیں (Reality is what we say)” یہ الفاظ امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بُش نے خود ایک نشریئے میں کہے تھے یعنی اگر امریکا نہ کہے کہ ولادی میر پیوٹن پیدا ہوا ہے تو گویا ولادی میر پیوٹن روس کا صدر ہے ہی نہیں ۔ امریکی نظریہ کے مطابق “انسانی حقوق اور امن” وہ ہوتے ہیں جو امریکی حکمرانوں کو پسند ہو چاہے امریکا کے علاوہ باقی دنیا تباہ ہو جائے
امریکی کردار تو صدیوں قبل افریقیوں کے اغواء اور اُنہیں غلام بنا کر تشدد کرنے سے شروع ہوا تھا جس کی ایک جھلک الَیکس ہَیلی کی کتاب دی رُوٹس (The Roots by Alex Haley) میں موجود ہے لیکن بین الاقوامی 1959ء میں ویتنام پر دھاوا بولنے سے ہوا اور پھر پھیلتا ہی گیا ۔ کہیں امن سے پیار اور کہیں انسانی حقوق کی محبت میں ہزاروں یا لاکھوں بے قصور انسانوں کو ہلاک اور معذور کیا کیا جاتا ہے جن میں عورتیں بوڑھے اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور کہیں بغیر مقدمہ چلائے سینکڑوں یا ہزاروں مردوں اور عورتوں کو جن میں نابالغ بھی شامل ہوتے ہیں پابندِ سلاسل کر کے بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے ۔ صرف نام مختلف رکھے جاتے ہیں ۔ عراق ہو تو “لامتناہی تباہی کے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction)” ۔ افغانستان ہو تو کبھی “ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی” کبھی “اسامہ بن لادن” کبھی “القائدہ”۔ کبھی عورتوں کے حقوق”۔ لبیا ہو تو “اسلامی انقلاب”۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ ہو تو “افغانستان میں دہشتگردوں کی امداد”۔ اور کچھ نہ سمجھ آئے تو “خظرے کے پیشگی احساس کے نام پر درندگی کو بھی ژرمندہ کیا جاتا ہے ۔ خود اپنے ملک میں اپنے ہی امریکیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اس کی مثالیں بھی آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں
حکمرانوں کی کیا بات امریکی عدالتیں بھی انصاف صرف اپنی پسند کا کرتی ہیں
امریکی سپریم کورٹ نے نومسلم امریکی شہری جوز پڑیلا کی درخواست سننے سے انکار کردیا جس میں اس نے 2007ء میں گرفتاری کے بعد جیل میں بدترین تشدد کی شکایت کی تھی اور وہ سابقہ و موجودہ حکومتی حکام کے خلاف نالش (sue) کرنا چاہتا تھا
اس کو 4 برس تک بغیر الزام جیل میں قید رکھا گیا ۔ بعدازاں مقامی القاعدہ سیل کی مدد کے الزام میں 17 برس قید کی سزا سنادی گئی جس پر امریکن سول لبرٹیز یونین اور پڑیلا کی والدہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حکام کو قومی سلامتی کے نام پر کسی بھی شخص سے بدسلوکی اور بدترین تشدد کرنے کیلئے بلینک چیک دے دیا ہے
دوسرا واقعہ نہچے ربط پر کلِک کر کے پڑھیئے
اصل مجرم
لڑکپن کی باتيں قسط 5 ۔ تاش
قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت اور رنگِ زماں لکھ چکا ہوں
ميں نے مارچ 1953 ميں پنجاب يونيورسٹی کا ميٹرک کا امتحان ديا ۔ [1954 عيسوی تک ميٹرک کا امتحان پنجاب يونيورسٹی ليتی تھی] ۔ کسی وجہ سے نتيجہ شائع ہونے ميں دير ہو گئی ۔ لاہور اور مری وغيرہ کی سير کے بعد وقت گذارنے کيلئے جو ذرائع ميں نے استعمال کئے اُن ميں ايک تاش کے کھيل بنانا بھی تھا ۔ مجھے جو اپنے پرانے کاغذات ملے ہيں اُن ميں سے ایک کھيل درج ذیل ہے ۔
A ۔ یکہ ۔ ۔ K ۔ بادشاہ ۔ ۔ Q ۔ ملکہ ۔ ۔ J ۔ غلام ۔ ۔ S ۔ حُکم ۔ ۔ H ۔ پان ۔ ۔ D ۔ اینٹ ۔ ۔ C ۔ چڑیا
تاش کے 52 پتّے ليکر پہلے حُکم کا يکّہ نيچے اس طرح رکھيئے کہ سيدھی طرف اوُپر ہو پھراُس پر مندجہ ذيل ترتيب ميں پتّے سيدھے رکھتے جائيے
SA, C4, S2, H3, S10, S3, DQ, DJ, H9, S4, H4, D9, C8, HQ, S5, C5, H5, C10, SJ, D4, S6, D7, D6, DK, H6, H10, C6, S7, CK, DA, CQ, C9, SQ, H7, D8, S8, HK, CA, D2, C2, HJ, C7, H8, D5, S9, C3, CJ, SK, HA, D10, H2, D3
دی ہوئی ترتيب سے سب پتّے رکھ چُکيں تو ان کو اکٹھا اُٹھا کر اُلٹا رکھ ليجئے ۔ پھر جب کسی کو کرتب دِکھانا ہو تو اُوپر سے ايک پتّا اُٹھائيے اور بغير ديکھے ايک کہہ کر نيچے سیدھا رکھ دیجیئے ۔ يہ حُکم کا يکّہ ہو گا ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا اُٹھا کر دو کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی دُکّی ہو گی ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا دو کہہ کر اٹھائيے اور سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے پھر تيسرا پتّا اُٹھا کر تين کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی تِکّی ہو گی ۔ يہ عمل دوہراتے جائیے حتٰی کہ حُکم کے 13 پتے ختم ہو جائیں ۔ یہي عمل پھر پان کے پتوں کے ساتھ دوہرائیے پھر چڑیا کے پتوں کے ساتھ اور آخر میں اینٹ کے پتوں کے ساتھ ۔