Monthly Archives: May 2011

پتھر دل

جی ہاں ۔ مجھے يہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ميں بقلم خود فدوی “پتھر دل آدمی ہوں” ۔

“کل [شبقدر ميں] خُود کُش حملے ميں 80 پاکستانی ہلاک ہوئے اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ آپ اس پہ افسوس یا مذمت کب کریں گے ؟” ۔ يہ تبصرہ ميری تحرير ” افغانستان ۔ پاکستان ۔ اُسامہ بن لادن ۔ تاريخ کا ايک ورق” پر کيا گيا گو وہاں اس طرح کی کوئی بات نہ تھی

ميں نے جواب ميں لکھا “آپ صرف افسوس اور مذمت کی بات کر رہی ہيں ۔ ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”
ميرے اس جواب پر ايک صاحب نے دُکھ کا اظہار کيا
اور سوال کرنے والے کی طرف سے دوسرا سوال آيا ” اگر آپکے پاس رونے کے لئے آنسو نہیں تو ایم کیو ایم پہ بہانے کے لئے کہاں سے آتے ہیں ؟”

مزيد کہا گيا کہ لياری ميں 2 جوئے کے اڈوں پر دستی بم پھينکے گئے ۔ متعدد لوگ مارے گئے ۔ ميں نے اس پر کچھ نہيں لکھا

ميں نہ صحافی ہوں اور نہ کسی اخبار يا ٹی وی چينل کا نمائندہ ۔ پھر ميری ذمہ داری ميں يہ کيسے شامل ہوا کہ ميں ہر خبر پر تبصرہ کروں ؟
ميں تو اپنا روزنامچہ لکھتا ہوں ۔ کوئی پڑھ کر فيض حاصل کرے تو ميری خوش قسمتی ہے ۔ اگر ناراض ہو تو اُس کی خوشی ہے

تعليم يافتہ مسلمان جو اللہ کو بھی بغير تحقيق نہيں چھوڑتے ان کے شہر ميں جوئے کے اڈے شريعت کے مطابق ہی ہوں گے شايد ؟

مجھ سے کوئی قسم کرا لے کہ ميں الطاف حسين يا اُس کے مريدوں پر کبھی رويا ہوں ۔ جن کی مجھے آج تک سمجھ ہی نہ آسکی کہ وہ کہتے کيا ہيں اور چاہتے کيا ہيں ؟ اُن پر رونا سوائے آنکھوں کے ستياناس کے اور کيا ہو سکتا ہے ؟

اب واقعی بے تحاشہ رونا آ رہا ہے ۔ کسی آدمی پر نہيں بلکہ ” اُردو اسپيکنگ” کہلانے والوں کے دماغ ميں اُردو کے مر جانے پر ۔ ميں نے تو محاورہ استعمال کيا تھا اپنے زيادہ غم و اندوہ کے اظہار کيلئے يعنی ” ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”

کہاں ہيں وہ “ديا جلائے رکھنا والے” خرم ابن شبير صاحب جو ہميں اُردو لُغت سمجھاتے رہتے ہيں ؟
اور کہاں ہيں وہ خامہ کی صرير والے محمد وارث صاحب جو اُردو کے اُستاذ ہيں ؟
ان حضرات کو معلوم ہو کہ وارث سوئے ہوئے ہيں اور صرف خامہ ہی خامہ رہ گيا ہے صرير پر
ميری پياری اُردو کے سر پر ايسا چپت ايک اُردو والے نے مارا ہے کہ ميری پياری اُردو بيہوش پڑی ہے
جلدی سے ميری پياری اُردو کو طاقت کا ٹيکہ لگايئے کہيں گذر گئی تو ميں بہاؤں گا کيا ؟ ميرے آنسو تو پہلے ہی خُشک ہو چکے ہيں

ويسے کيا لياری پنجاب ميں ہے ؟ ميں تو آج تک يہی سمجھتا رہا کہ لياری کراچی ميں ہے ۔ قتل لياری ميں ہو يا ناظم آباد ميں ۔ شاہ فيصل کالونی ميں ہو يا لياقت آباد ميں ۔ عزيز آباد يا غريب آباد ميں ہو يا سعدی ٹاؤن يا نارتھ کراچی ميں ۔ ملير ميں ہو يا بولٹن مارکيٹ ميں ۔ وغيرہ وغيرہ ۔ يہ سب ہوتے تو کراچی ميں ہيں

اگر کراچی يا سندھ کی حکومت اس قتال کو نہيں روک سکتی تو اس ميں مجھ نحيف کا کيا قصور ؟ ميں نہ کسی حکومت ميں شامل ہوں نہ کسی سياسی جماعت ميں

سندھ کا گورنر سالہا سال سے ايم کيو ايم کا ۔ وزيرِ اعلٰی 3 سال سے پی پی پی کا ۔ سندھ کے وزراء پی پی پی اور ايم کيو ايم کے ۔ مرکزی حکومت ميں بھی پی پی پی اور ايم کيو ايم دونوں شامل ہيں ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کی حکومت کا تو يہ حال ہے کہ عوام کے قتال کو روکنا تو درکنار سعودی عرب [جس سے درپردہ اب تک امداد لے کر جی رہے ہيں] کے کراچی ميں کونسليٹ پر 11 مئی کو گرينيڈ پھينکے گئے مگر حکومت مست رہی اور [اپنی غفلت سے مجبور] مستقبل کی فکر نہ کی ۔ نتيجہ يہ کہ 16 مئی کو سعودی سفارتکار اپنے قونصلیٹ جار رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور سعودی سفارتکار حسن گابانی جاں بحق ہوگئے ۔ سندھ حکومت اور مرکزی حکومت قتل و دہشتگردی کے ہر واقعہ کو طالبان يا القاعدہ کے ذمہ ڈال کر پھر لوٹ مار ميں مشغول ہو جاتی ۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتيں مل کر اپنے گھر [سندھ بالخصوص کراچی] کی بہتری نہيں کر سکتيں تو ميری طرف سے مذمت و افسوس کيا معنی ؟

وہ کس کے پاس جاتے تھے ؟

ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب (روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین) میں لکھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں ۔ کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے
ایک بار وہ چُپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ايک گاؤں میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے ۔ کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینے کی طرف لوٹ چکے تو عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمے میں داخل ہوئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بُڑھیا 2 چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھیا سے پوچھا ” اے اللہ کی بندی، تم کون ہو ؟”
بڑھیا نے جواب دیا ” میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں ۔ ميرے والدین مجھے اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے کہ میرا اور اِن 2 لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے
عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا ” یہ شیخ کون ہے جو تمہارے گھر میں آتا ہے ؟”
بوڑھی عورت [جو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصلیت نہیں جانتی تھی] نے جواب دیا کہ “میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے ۔ ہمارے لئے کھانا بناتا ہے ۔ ہماری بکریوں کا دُودھ دوہ کر ہمارے لئے رکھتا ہے اور چلا جاتا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ یہ سُن کر رو پڑے اور کہا ” اے ابو بکر ۔ تُو نے اپنے بعد کے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے
محمد سليم صاحب کے بلاگ پر يہ تحرير پڑھ کر ميں اشک بہائے بغير نہ رہ سکا

افغانستان پاکستان اُسامہ ۔ تاريخ کا ايک ورق

مندرجہ ذيل تحرير پڑھنے سے پہلے اگر میرے ایک دہائی سے زیادہ پر محیط مطالعہ اور تحقیق کا نچوڑ افغانستان کی تاريخ کے خلاصے پر نظر ڈال لی جائے تو اس تحرير کو سمجھنے ميں آسانی رہے گی ۔ افغانستان کی تاريخ نہائت مُختصر انداز ميں ان روابط پر موجود ہے ۔ پہلی قسط ۔ ۔ ۔ دوسری قسط ۔ ۔ ۔ تيسری قسط ۔ ۔ ۔ چوتھی قسط ۔ ۔ ۔ پانچويں قسط ۔ ۔ ۔ چھٹی قسط ۔ ۔ ۔ اور ساتويں قسط

جہاد افغانستان کے آخری مراحل میں اُسامہ بن لادن اپنے مال و دولت سمیت پاکستان میں وارد ہوئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور عرب ممالک کھُل کر پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کا ساتھ دے رہے تھے ۔ اس سے پچھلے مراحل میں خود امریکہ بھی محتاط تھا کیونکہ انہوں نے افغانستان کو سوویت یونین کے دائرہ اثر میں دینا قبول کرلیا تھا اور وہ افغانستان میں سوویت یونین کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لئے تیار نہیں تھا

ظاہر شاہ [1933ء تا 1973ء] کے زمانے میں حالت یہ تھی کہ افغانستان کے ایک بااثر وزیر عبدالستار سیرت کے کہنے کے مطابق شمالی افغانستان میں ایک معمولی پولیس افسر بھی ظاہر شاہ کے دور حکومت میں سوویت یونین سے منظوری حاصل کئے بغیر تعینات نہیں کیا جاتا تھا تاکہ سوویت یونین کے کمیونسٹ حکمران ناراض نہ ہوجائیں۔ کابل یونیورسٹی اور کابل کی پالیٹکنک انجینئرنگ یونیورسٹی کمیونسٹ طلباء اور اساتذہ کا گڑھ تھے یہاں تک کہ کابل یونیورسٹی کے شریعت فیکلٹی میں بھی بعض بااثر کمیونسٹ اساتذہ تعینات تھے

اس زمانے میں کابل میں کمیونسٹ طلباء اور اسلامی تحریک سے وابستہ طلباء کی کشمکش شروع ہوئی۔ یہ 1968ء کی بات ہے کہ مسلمان طلباء کی قیادت ایک ایسے نوجوان کے ہاتھ میں آئی جو مافوق العادہ عبقری صلاحیتوں کا مالک تھا۔ عبدالرحیم نیازی نامی اس طالب علم نے مسلمان نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ ان کے ساتھ کابل یونیورسٹی کے اساتذہ میں استاذ غلام محمد نیازی، پروفیسر برہان الدین ربانی اور طلباء میں استاذ عبدالرب الرسول سیاف اور انجینئر گلبدین حکمت یار پیش پیش تھے ۔ عبدالرحیم نیازی کو ایک پراسرار طریقے سے زہر دے کر قتل کیا گیا۔ یہ مشہور کر دیا گیا کہ انہیں کینسر ہے اور علاج کے لئے انہیں دہلی لے جایا گیا ۔ دہلی سے ان کی میت جب کابل ائیرپورٹ پر پہنچی تو پورا کابل شہر تجہیز و تکفین اور جنازے میں شرکت کے لئے اُمڈ آیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ سے ایک ہمہ گیر تحریک شروع ہوئی جس کی قیادت حکمت یار ،حبیب الرحمن شہید ، سیف الدین شہید، استاذ برہان الدین ربانی ، استاذ سیاف اور مولوی محمد یونس خالص کررہے تھے ۔ ان نوجوانوں اور ان کے اساتذہ کی زیر نگرانی یہ تحریک بالآخر جہاد افغانستان میں تبدیل ہوئی

حبیب الرحمن شہید میرے پاس پشاور تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سوویت یونین اور ان کے زیر اثر کمیونسٹ گروہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے دونوں ممالک کو اسلام کے رشتے میں جوڑ کر یک جان اور دوقالب بنا سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کوششیں کرنی چاہئیں ۔ میں انہیں لے کر مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ انہوں نے نوجوان کی حوصلہ افزائی کی لیکن انجینئر حبیب الرحمن شہید جو صرف 24 سالہ نوجوان تھا ۔ واپسی پر داؤد کے زیر عتاب آگیا اس پر فوجی افسران کے ساتھ مل کر سازش کا الزام لگایا گیا اور اسے پھانسی کی سزا ہوئی

ان کے بعد اسلامی تحریک دوسرے نوجوانوں اور پروفیسروں کی قیادت میں آئی ۔ ان کے ساتھ روابط کی تجدید کے لیے میں نے افغانستان کا دورہ کیا۔ 1973ء سے لے کر 1977ء تک میں نے مختلف طریقوں سے افغانستان کے پانچ دورے کئے اور ان مسلسل رابطوں کی وجہ تھی کہ افغانستان سے برہان الدین ربانی ، انجینئر حکمت یار ، مولوی محمد یونس خالص اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی

ظاہر شاہ کے بعد محمد داؤد اور ان کے بعد نور محمد ترکی اور پھر حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب کے دور حکومت کے پورے عرصے میں افغانستان کی اسلامی تحریک کے ساتھ ہمارا بھرپور تعاون جاری تھا۔ نور محمد ترکی کی حکومت تک امریکہ کھل کر جہاد کی پشتیبانی کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور نور محمد ترکی [27 اپريل 1978ء تا 14 ستمبر 1979ء] کی حکومت کو خود امریکہ نے تسلیم کرلیاتھا اور حکومت پاکستان نے بھی امریکہ کے کہنے پر اسے تسلیم کرلیا تھا حالانکہ ہم نے جنرل ضیاء الحق کو کہا تھا کہ یہ حکومت کمزور ہے اور اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ حفیظ اللہ امین [14 ستمبر 1979ء] کی حکومت کو امریکہ اور پاکستان نے تسلیم نہیں کیا اور ان کے زیر اثر عرب ممالک نے پاکستان کی حکومت کو کنڈوٹ [Conduit] بنا کر افغان مجاہدین کی مدد شروع کی

اس دور میں بڑی تعداد میں عرب مجاہدین اور عرب شیوخ مذہبی لباس میں اور مخیر تاجروں کے لباس میں پاکستان آئے جن میں سے ایک اُسامہ بن لادن تھے لیکن دوسرے عرب شیوخ کی طرح ان کی آمد و رفت صرف بڑے ہوٹلوں اور حویلیوں تک محدود نہیں تھی ۔ انہوں نے کسی بڑے ہوٹل یا بڑی حویلی میں قیام کی بجائے مجاہدین کے ساتھ پہاڑوں اور سرنگوں میں رہنا قبول کیا اور شہزادوں کی طرز زندگی چھوڑ کر فقر کی زندگی اختیار کی

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اور روسی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد اُسامہ بن لادن نے واپس سعودی عرب جا کر عیش اور آرام کی زندگی دوبارہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے لئے دوسرے عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کا راستہ اختیار کیا جو اپنے آپ کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کا اکیلا قطب الاقطاب سمجھ بیٹھا تھا اور دنیا کے لوگ بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اب یہ یک محوری دنیا [Unipolarl World] بن گئی ہے۔ اُسامہ بن لادن نے اس مفروضے [myth] کو توڑنے کا تہیہ کیا۔ اس کا یقین تھا کہ جس بے سر و سامانی کی حالت میں افغانوں نے جہاد شروع کیا اس کے بعد اسباب فراہم ہوتے گئے اور بالآخر وہ دن آگیا جب لوگوں کی نظروں میں ناممکن کام ممکن بن گیا اور سوویت یونین کی مسلسل پیش قدمی نہ صرف رُک گئی بلکہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ۔ اسی طرح یہ عین ممکن ہے کہ روحانی طاقت کے مقابلے میں مادی طاقت چاہے کتنی بڑی کیوں نہ ہو بالآخر شکست کھا جائے ۔

اسامہ بن لادن نے جو حکمت عملی اختیار کی اس سے ہمیں اتفاق نہیں ہے خاص طور پر 9 ستمبر 2001ء جسے عرف عام میں 9/11 کہتے ہیں کی ذمہ داری خود قبول کرنا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور مغربی دنیا کو جنگ چھیڑنے اور افغانستان اور پاکستان کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کرنے کا بہانہ بنا

9/11 سے قبل مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ اسلام کے خلاف شیطانی قوتوں کا پروپیگنڈہ بے اثر ہو رہا تھا۔ ساری دنیا کے انصاف پسند دانشور اسلام کو عالم انسانیت کے ایک روشن مستقبل کی نوید سمجھ رہے تھے۔ کمیونزم کی پسپائی کے بعد دنیا کے لوگ اسلام کو عدل و انصاف کے منبع کے طور پر اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن بم دھماکوں ، معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی وجہ سے دشمنوں کو موقع مل گیا کہ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیں ۔ نعوذ باللہ قرآن کریم کو دہشت گردی کی تعلیم کی کتاب ٹھہرا دیں اور غلیظ پروپیگنڈے کے گرد پیچھے امریکہ اور مغربی دنیا کا مکروہ چہرہ چھپا دیں جو پوری دنیا میں فساد پھیلا رہا ہے

اُمت مسلمہ اس گہری نیند سے بیدار ہو رہی ہے ۔ اُمت مسلمہ اسی عالمگیر دعوت کو لے کر اُٹھ رہی ہے۔ جو ساری انسانیت کے لئے نجات کا ذریعہ ہے ۔ ایسے میں کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر غیروں کے آلہٴ کار بن کر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنا کر استعمار کے مکروہ چہرے کو چھپانے کا ذریعہ بن رہے ہیں

فلسطین ، کشمیر اور افغانستان میں استعماری طاقتیں جس قسم کے ظالمانہ ہتھیار استعمال کرتی ہیں، آزاد اور حریت پسند شہریوں کی جس طرح تذلیل کی جارہی ہے بجائے اس کے کہ وہ دنیا کے سامنے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں وہ اُلٹا مسلمانوں کو دہشت گردی کا موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ اُسامہ اور ان کے ساتھیوں نے جان بوجھ کر یہ صورتحال پیدا کی ہے لیکن مخالفین پاکستان کے اندر مساجد اور بازاروں میں معصوم شہریوں کے قتل کی ذمہ داری ان پریا ان کے ہم خیال لوگوں پر ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے اندر کے دھماکوں اور تخریب کاری کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جا سکتی

اگر وہ پاکستان میں ہونے والی تخریب کاری کے ذمہ دار تھے تو وہ پانچ سال تک کاکول کے فوجی گیریژن کی ایک حویلی میں کیسے ٹھہرے رہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کے علم کے بغیر وہ عین فوجی چھاؤنی کے اندر ایک ایسے مکان میں، رہائش پذیر ہوں جس کے دروازوں پر ہر وقت پہرا لگا ہوا ہو ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچ سال تک اس گھر کے بارے میں کوئی شبہ پیدا نہ ہو ؟ جو ادارے اتنے چوکنے ہوں کہ خود میرے جیسے بے ضرر شخص کے مکان کے ہر آنے جانے والے پر ان کی نظر ہو ان کی تیز نظروں سے چھاؤنی کے اندر وسیع وعریض قلعہ بند مکان کیسے اوجھل رہ سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں دل لگتا تجزیہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اوباما ایڈمنسٹریشن افغان جنگ کے اقتصادی بوجھ سے تنگ آچکی ہے اور اس سے نکلنا چاہتی ہے لیکن یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو اس کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا

میری معلومات کی حد تک افغانستان کے طالبان اور بعض دوسرے مجاہدین یہ شرط پوری کرنے کے لئے تیار ہیں اگرچہ ان کی دوسری شرط ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ افغانستان میں انہیں اڈے مہیا کئے جائیں ۔ امریکی افواج کے نکلنے کے لئے زمین تیار کرنے کے لئے پاکستان اور امریکہ میں اتفاق ہوچکا ہے ۔ حال ہی میں وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف اور پاکستان کے سینئر فوجی اور سِول افسران کے بار بار افغانستان کے دورے اور وہاں امریکی فوجی افسروں سے ملاقاتیں بھی خالی از مصلحت نہیں تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس باہمی مشترکہ حکمت عملی میں طے ہوچکا ہو کہ اوباما کو رائے عامہ میں قبولیت حاصل کرنے کے لئے اہم ٹرافی پیش کی جائے ۔ اس کے بدلے میں پاکستان کیا حاصل کرسکتا ہے ؟ اگر امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھارت کی بجائے پاکستان کو افغانستان کی حساس اور اہم جگہوں پر فائز ہونے کے مواقع فراہم کرے تو پاکستان اس خطرے سے بچ سکتا ہے کہ مغربی سرحد اور مشرقی سرحد دونوں جگہ وہ بھارت کے درمیان محصور ہوجائے

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسامہ بن لادن پاکستان کے ساتھ تھا اور پاکستانی اداروں کو اس کا علم تھا تو انہوں نے کاکول جیسے حساس علاقے میں کیوں اسے رکھا اور اگر رکھا تو اسے اس علاقے میں امریکہ کے حوالے کیوں کیا ؟

اس علاقے میں امریکہ کی حالیہ کارروائی سے عوام اپنے ملک کے تحفظ اور خاص طور پر نیوکلیئر تنصیبات کے بارے میں شدید شکُوک و شُبہات کا شکار ہوگئے ہیں ۔ اس بارے میں عوام سے حقائق کو چھپانے کی بجائے حقائق کو سامنے لانا زیادہ مفید ہوگا

ملک کے عوام کی ایک بڑی اکثریت اسامہ بن لادن کو امریکی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھتی ہے ۔ ان کو سمندر بُرد کرنے کو لوگ توہین آمیز سلوک سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے جس طرح جان دی ہے اسے بھی لوگ بہادری کی علامت سمجھتے ہیں لیکن ان کی لاش کو چھپا کے کیوں رکھا گیا ؟ اس بارے میں لوگ شکُوک وشُبہات میں مبتلا ہیں ۔ کیا وہ پہلے شہید ہوچکے تھے اور یہ محض ڈرامہ تھا یا وہ ابھی زندہ ہیں ؟ اس طرح کی قیاس آرائیاں اب چلتی رہیں گی

قاضی حسین احمد کی مندرجہ بالا تحریر 2 اقساط میں 7 اور 8 مئی 2011ء کو شائع ہوئی جو يہاں اور یہاں موجود ہیں

آنے کو ہے ؟؟؟

جی ہاں ۔ توقع کی جا سکتی ہے
پی پی پی کی طرف سے
ايک اور سندھ کارڈ کی
بيگناہوں کے قتال کی
سندھ ميں ہڑتال کی

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اعجاز احمد چوہدری، جسٹس چوہدری افتخار حسین، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پرمشتمل فل بنچ نے ايک ماہ قبل محفوظ کئے گئے 33 صفحات پر مشتمل فیصلے کا آج اعلان کر ديا جس میں توقع ظاہر کی ہے کہ صدر پاکستان جتنی جلدی ممکن ہو خود کو سیاسی عہدے سے الگ کر لیں گے ۔ ایوان صدر کو کسی سیاسی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنانا اس کے تقدس، وقار اور صدارت کی آزاد حیثیت کے خلاف ہے ۔ اس لئے صدر مملکت ایوان صدر کو سیاسی جماعت کی سرگرمیوں اور اجلاسوں کے انعقاد سے روک دیں

بلند رہے پرچم ميرے وطن کا

اس دور ميں جبکہ چاروں طرف مايوسی کے اندھرے چھائے ہوئے ہيں ۔ کہيں نہ کہيں روشنی کی کرن پھوٹتی ہے تو اپنے مريل جسم ميں تازگی کا احساس جاگ اُٹھتا ہے

اسکردو [بلتستان] کے نواحی گاؤں سدپارہ سے تعلق رکھنے والے معروف کوہ پیما حسن سدپارہ نے آکسیجن ٹینک کے استعمال کے بغیر نیپال میں واقع دنیا کی بلندترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر کے دنیا کے بلند ترین مقام پر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا ۔ حسن سدپارہ کی کامیابی پر اسکردو میں آج جشن کا سماں ہے

حسن سدپارہ نے گزشتہ رات 4 بجے کیمپ 4 سے مُہِم شروع کی اور آج صبح 6 بجے انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی پر قدم رکھا ۔ انہوں نے اس مشکل ترین مُہِم کو حوصلے اور جرات سے کامیاب بنایا

حسن سدپارہ نے اپنے پروفشنل کیرئیر کا آغاز 1999ء میں المعروف قاتل پہاڑ نانگا پربت کی کامیاب مُہِم سے کیا تھا ۔ 2004ء میں دنیا کی دوسری بلند ترين چوٹی کے ٹو سر کی اور اس کے بعد براوٹ پیک ۔ گشہ بروم ون اور ٹو کو سرکر کے پاکستان میں واقع 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا منفرد اعزازحاصل کیا

خدمت ۔ عوام دوستی ۔ حق پرستی ؟؟؟

جب پاکستان کی داغ بيل ڈالی جا رہی تھی تو قاعد اعظم محمد علی جناح اور پاکستان بنانے کی سب سے بڑی دُشمن مسلمان جماعت [جو اُن دنوں انگريز حکومت کی پِٹھُو تھی] نے اپنا نام خدائی خدمتگار رکھا ہوا تھا ۔ پھر عوامی ۔ عوام اور حق پرست کے استعارے شروع ہوئے ۔ آج 12 مئی کے حوالے سے ميں ايم کيو ايم کے ايک ايسے نوجوان کی خود نوشت پيش کر رہا ہوں جس کے خاندان نے ايم کيو ايم کيلئے مال و جان کے نظرانے پيش کئے تھے ۔ يہ تحرير دوسری بار شائع کی جا رہی ہے ۔ پہلی بار ميں نے 14 مئی 2007ء کو شائع کی تھی

بدلتے دِل ۔ سانحہ کراچی

دل کو بدلنا آسان کام نہیں لیکن کوئی ایک چھوٹا یا بڑا حادثہ کبھی ایک دل کو اور کبھی بہت سے دلوں کو بدل کے رکھ دیتا ۔ سُنا ۔ پڑھا اور میری زندگی کا تجربہ بھی ہے کہ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے اسلئے انسان کو ہر چیز یا عمل میں بہتر پہلو کو تلاش کرنا چاہیئے ۔ صدر جنرل پرویز نے 9 مارچ سے شروع ہونے والے ہفتہ میں ایسی حماقتیں کیں جن سے سب پریشان ہوئے لیکن ان حماقتوں نے اُس تحریک کو جنم دے دیا جو حزبِ مخالف چلانے میں ناکام رہی تھی ۔ اللہ اس تحریک کو جلد کامیابی سے ہمکنار کرے اور ہمارے وطن میں عوم کا خیال رکھنے والی مضبوط جمہوریت قائم ہو جائے ۔ اور ڈکٹیٹر شپ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خلاصی ہو جائے ۔

12 مئی کو جو کچھ کراچی میں ہوا وہ کراچی والوں سے بہتر کون جانتا ہے ؟ اس کا اچھا پہلو جو میرے علم میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے جانثار خاندانوں کی نئی نسل جس کو 10 مئی تک “قائد صرف ایک [الطاف حسین]” اور “جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے” کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہ تھا اُس نوجوان نسل کے کئی ارکان کے دل 11 اور 12 مئی کے واقعات نے بدل کے رکھ دیئے ہیں ۔

ایک پڑھا لکھا نوجوان جو ایم کیو ایم کے علاقہ کا باسی ہے اور جس کا خاندان الطاف حسین کے جان نثاروں میں شامل ہے ۔ جس کے چچا نے 12 سال قبل الطاف حسین کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا تھا اور اس کو سلام آج بھی اس کے محلے میں ہر طرف لکھا ہوا ہے ۔ اُس نوجوان نے 11 مئی کو دیکھا کہ ایئرپورٹ کو جانے والے تمام راستوں پر ٹرالر ٹرک ۔ ٹینکر اور بسیں کھڑی کر کے ان کے ٹائروں میں سے ہوا نکال دی گئی ہے ۔ پھر شام کو اس نے دیکھا کہ خود کار ہتھیاروں سے لیس جوانوں نے مورچے سنبھال لئے ہیں اور کچھ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 12 مئی کو ہسپتالوں میں چلے جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی ایسا شخص طِبّی امداد نہ لینے پائے جو ایم کیو ایم کا نہ ہو ۔

دوسرے دن یعنی 12 مئی کو صبح 10 بجے اس نے ڈرگ روڈ اسٹیشن کے قریب دیکھا کہ اس کے ساتھی ریپیٹر اور کلاشِن کوف قسم کے خود کار ہتھیار الخدمت فاؤنڈیشن کی ایمبولینس میں بھر کر لے جا رہے ہیں ۔ اس نے دیکھا کہ شاہراہ فیصل سب کیلئے بند ہے مگر ایم کیو ایم کے جوان ہتھیار لئے آزادی سے گھوم رہے ہیں ۔پھر اس نے دیکھا کہ ایک جوان شخص گِڑگڑا کر التجائیں کر رہا ہے کہ مجھے جانے دو ۔ وہ اپنے بچے کی لاش ہسپتال سے گھر لے کر جا رہا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا خدا کیلئے مجھے جانے دو تا کہ میں اپنے اس معصوم بچے کے کفن دفن کا بندوبست کر سکوں ۔ ایک لمحہ آیا کہ ایم کیو ایم کے اس پڑھے لکھے نوجوان کے جسم نے ہلکی سی جھرجھری لی اور وہ وہاں سے چلا گیا ۔ 12 بجے کے قریب پہلی فارنگ ہوئی اور وہ خلافِ معمول گھر چلا گیا اور ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر بعد اُس کے دل نے اچانک اس کی ملامت شروع کردی کہ آج تک تیرا خاندان جو دلیری دکھاتا رہا وہ دراصل ایک مجبوری اور ضرورت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی درندگی تھی ۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے گا جس کیلئے اس کے چچا نے جان دی تھی وہ انسان نہیں درندہ ہے ۔ وہ قاتلوں کا قائد ہے مہاجروں کا نہیں ۔ رات تک اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ مرنے والے پختونوں کے علاوہ سب اُس کی طرح مہاجروں کے بچے ہیں جن کا قصور یہ ہے کہ وہ الطاف حسین کی درندگی کی حمائت نہیں کرتے ۔

یہ کہانی یا افسانہ نہیں حقیقت ہے ۔ یہ ایم کیو ایم کے گڑھ میں رہنے والے صرف ایک نوجوان کی آپ بیتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے کئی اور پڑھے لکھے نوجوان ہوں گے جو اس پراگندہ ماحول اور خونی سیاست سے تنگ آ کر 12 مئی کو تائب ہوئے ہوں گے لیکن وہ اس کا برملا اظہار کرتے ہوئے شائد ڈر رہے ہوں مگر اس نوجوان نے اپنی دلیری کا رُخ بدلتے ہوئے نہ صرف ایم کیو ایم کے لیڈران کو تحریری طور پر اپنے دل کی تبدیلی کی اطلاع کر دی ہے بلکہ الطاف حسین کو 12 مئی کے قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ اس نوجوان ۔ اس جيسے دوسرے جوانوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ میری محبِ وطن قارئین سے بھی التماس ہے کہ وہ بھی اُن کے لئے خصوصی دعا کریں