11 ستمبر 2001ء کے چونکا دينے والے ناجائز واقعہ کے بعد 30 گھنٹے بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ سارے امريکا بلکہ دنيا کی ٹی وی سکرينيں 2 پائلٹوں کی تصويروں سے سيراب ہونا شروع ہو گئيں ۔ يہ 2 سعودی بھائيوں امير بخاری اور عدنان بخاری کی تصاوير تھيں ۔ يہ تصاوير ٹی وی سکرينوں پر بار بار کوندتی رہيں امريکی حکومت کے اس مسلک کے ساتھ کہ امريکی سواريوں والے ہوائی جہاز اغواء کر کے نيويارک ميں واقعہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے دونوں پائلٹوں کی شناخت کر لی گئی تھی اور وہ سعودی بھائی امير بخاری اور عدنان بخاری تھے
بعد ميں يہ حقيقت منظرِ عام پر آئی کہ امير بخاری ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے حادثہ سے ايک سال قبل قضائے الٰہی سے مر گيا تھا اور اس کا بھائی عدنان بخاری زندہ اور صحتمند تھا جبکہ اگر وہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے ہوائی جہاز ميں ہوتا تو جل کر خاک ہو چکا ہوتا ۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ جب عدنان بخاری کی تصوير بطور ہائی جيکر اور مُجرم ساری دنيا کے ٹی وی چينل دکھا رہے تھے اُس وقت عدنان بخاری اپنے خلاف ہونے والی بہتان تراشی کی ترديد يا اپنا دفاع نہيں کر سکتا تھا کيونکہ وہ ايک امريکی خفيہ ايجنسی کی حراست ميں تھا
عدنان بخاری کو اُس وقت رہا کيا گيا جب امريکی حکومت اُس کا ناکردہ جُرم دنيا پر درست ثابت کر چکی تھی ۔ پھر وہ بولا بھی ليکن حقائق کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہی گئی
11 ستمبر کے واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد دنيا کو يہ بھی بتايا گيا کہ امريکی حکومت نے باقی ہائی جيکروں کی شناخت بھی کر لی ہے ۔ وہ 19 مسلمان تھے جن ميں سے 11 سعودی تھے ۔ پھر اُن کے کوائف مع اُن کی تصاوير کے ذرائع ابلاغ کے ذريعہ نشر کئے گئے اور تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر ان کی تصاوير چسپاں کر دی گئيں
کمال يہ تھا کہ جن کی تصاوير چسپاں کی گئيں ان ميں سے کئی افراد نے امريکی استدلال کو رد کرتے ہوئے بيانات ديئے اور اخبارات سے رابطہ کر کے بتايا کہ وہ زندہ ہيں ۔ اگر ہوائی جہاز ميں ہوتے تو مر چکے ہوتے ۔ 10 دن ميں يہ حقيقت واضح ہو گئی کہ جن لوگوں کو ہوائی جہازوں کے ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا 11 ستمبر 2001ء کے بعد ان ميں سے کم از کم 8 زندہ تھے
نواں آدمی جسے 11 ستمبر 2001ء کا ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا امريکی حکومت نے اس کا پاسپورٹ بطور ثبوت پيش کيا تھا ۔ بتايا گيا تھا کہ يہ پاسپورٹ ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے قريب سے ايک راہگير کو ملا تھا ۔ کمال يہ ہے کہ ٹکر مارنے والے جہاز ۔ جہازوں کے اندر بيٹھے لوگ اور ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارت جل کر خاک اور ملبہ کا انبار بن گئے ۔ کسی انسان کا کچھ بھی نہ مل سکہ مگر کئی دن بعد وہاں سے سڑک پر پڑا پاسپورٹ ايک راہگير کو صحيح سلامت مل گيا ۔ کيسے ؟
متذکرہ حقائق کے باوجود امريکا کی تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر مردہ قرار ديئے گئے زندوں کی تصاوير طويل عرصہ تک سجی رہيں ۔ ذرائع ابلاغ نے چُپ سادے رکھی ۔ سچ کے علمبردار يہ عالمی ذرائع ابلاغ جھوٹ مُشتہر کرتے رہے
ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر 11 ستمبر 2001ء کے حملے کے بعد ابھی ايک ماہ بھی نہ گذرا تھا کہ اينتھراکس والے خطوط امريکی کانگرس کے ارکان اور امريکی صحافيوں کو بھيجے گئے جن پر لکھا تھا “اسرائيل مردہ باد ۔ امريکا مردہ باد ۔ اللہ اکبر”۔ اس پر امريکی سياستدانوں اور صحافيوں نے يہ دعوٰی کيا کہ “دہشتگردوں [مسلمانوں] نے بائيولوجيکل ہتھيار بنانے کی صلاحيت حاصل کر لی ہے اور انہيں استعمال کرنا بھی شروع کر ديا ہے ۔ اس دعوے نے امريکا کے ہر گھر ميں خوف و دہشت کی فضا قائم کر دی ۔ لوگ اس کے بچاؤ کيلئے متعلقہ ويکسين لگوانا شروع ہو گئے اور يہ ويکسين ناپيد ہو گئی
بھيد اُس وقت کھُلا جب بائيولوجيکل ہتھياروں کی ايک معروف ماہر باربرا روزنبرگ [Barbara Rosenberg] نے انکشاف کيا کہ متذکرہ بالا اينتھکراکس پاؤڈر دراصل امريکا کی ملٹری ليبارٹری ميں تيار کيا گيا تھا ۔ يہ حقيقت امريکا کے اس وقت کے صدر جارج واکر بُش کی حکومت کو اوّل روز سے معلوم تھی
امريکی حکومت جو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے سلسلے ميں سعودی پائلٹوں کا جھُوٹ بول چکی تھی حقائق کو چھپاتے ہوئے اُس کے يہ جھانسا دينے کے پيچھے کيا مزموم مقاصد تھے ؟
اور امريکی حکومت کے اُن سعودی باشندوں جو ابھی زندہ تھے کو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کو گرانے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے پيچھے کيا مقاصد پنہاں تھے ؟
اگر امريکی حکومت کا استدلال درست تھا تو اسے ثابت کرنے کيلئے جھوٹ کا سہارا کيوں ليا گيا ؟
يہ سب کچھ اسلئے کيا گيا کہ امريکی حکومت مسلمانوں کی عزت کو کوئی اہميت نہيں ديتی اور مسلمان مُلکوں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنے کيلئے جھوٹ اور منافقت سے بھرپور کام لے رہی ہے
يہ ايک کتاب “سعودی عرب ميں مذہبی آزادی” سے ايک مختصر اقتباس کا ترجمہ ہے
نيچے ورلڈ ٹريد سينٹر کے ساتھ جو کچھ 11 ستمبر 2001ء کو ہوا اس کی چند تصاوير ہيں جنہيں غور سے ديکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُوپر کے حصہ ميں جہاں جہاز ٹکرائے وہاں سے کالا دھوآں نکل رہا ہے جبکہ کئی منزليں نيچے سفيد دھوئيں کے بادل ايکدم چاروں طرف سے نکلتے ہيں ۔ يہ نچلی منزلوں سے نکلنے والا دھوآں اور آگ جہاز کے ٹکرانے سے پيدا نہيں ہو سکتا بلکہ وہاں عمارت گرانے والے ايکسپلوسِوز پہلے سے نصب کئے گئے تھے جو جہاز ٹکرانے سے قبل ہی بلاسٹ کر ديئے گئے تھے ۔ امريکا کے زلزلہ پيما مرکز نے اس زبردست دھماکے کی خبر ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ہوائی جہاز ٹکرانے سے پہلے دے دی تھی