Yearly Archives: 2010

“عقل” اور “سمجھ”

آج ميں اپنی 10 جون 2009ء کو شائع شدہ تحرير کو مزيد وضاحت کے ساتھ دوبارہ شائع کر رہا ہوں ۔ اس وقت ميری عمر 70 سال سے زيادہ ہے اور يہ تحریر میری زندگی کے مطالعہ اور مشاہدوں کا نچوڑ ہے اسلئے اُميد رکھتا ہوں کہ قاريات اور قارئين اسے تحمل کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کريں گے

ميری يہ تحرير ميری اجازت سے درجن بھرفورمز پر شائع کی يا پڑھی جا چُکی ہے

عقل” اور “سمجھ” دونوں ہی لطیف یعنی ايسی چيزيں ہيں جنہيں حواسِ خمسہ سے نہيں پہچانا جا سکتا ۔ البتہ انہیں دوسرے عوامل کی مدد سے پہچانا اور ان کا قیاس کیا جاتا ہے

عام طور پر انسان “عقل” اور “سمجھ” کو آپس میں گُڈ مُڈ کر دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بالکل مُختلٍف عوامل ہیں

عقل” بے اختیار ہے اور “سمجھ” اختیاری ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ “عقل” آزاد ہے اور “سمجھ” غلام ہے

عقل” وہ جنس ہے جسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہر جاندار میں کم یا زیادہ رکھا ہے

عقل” کی نشو و نما اور صحت ۔ ماحول اور تربیت پر منحصر ہے ۔ سازگار ماحول اور مناسب تربیت سے “عقل” کی افزائش تیز تر اور صحتمند ہوتی ہے

جس کی “عقل” پیدائشی طور پر یا بعد میں کسی وجہ سے مفلوج ہو جائے ایسے آدمی کو عام زبان میں “معذور يا پاگل” کہا جاتا ہے

عقل” اگر کمزور ہو تب بھی جتنا کام کرتی ہے وہ درست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر جسے لوگ پاگل کہتے ہیں وہ بعض اوقات بڑے عقلمند لوگوں کو مات کر دیتے ہیں ۔ کسی زمانہ میں برطانیہ کے ذہنی بیماریوں کے ہسپتال کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ایک دن دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر شام کو گھر جانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھِبریاں [nuts] نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر پریشان کھڑا تھا کہ ایک ذہنی مريض نے ہسپتال کی کھڑکی سے آواز دی
“ڈاکٹر ۔ کیا مسئلہ ہے ؟”
ڈاکٹر نے بتایا تو ذہنی مريض کہنے لگا “پريشانی کيا ہے ؟ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھِبری اُتار کر اس پہیئے میں لگا لیں ۔ گاڑی آہستہ چلائيں اور راستے میں کسی دکان سے 4 ڈھِبریاں لے کر پوری کر لیں”

عقل” جانوروں کو بھی تفویض کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور نسل در نسل انسانوں کے درمیان رہے [چڑیا گھر میں نہیں] تو اس کی کئی عادات انسانوں کی طرح ہو جاتی ہیں
اصلی سیامی بِلی اس کی مثال ہے جو بدھ مت کے شروع میں بِکشوؤں نے اپنا لی اور پھر نسل در نسل وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانوں کے کچھ اشاروں اور باتوں کو سمجھنے لگی
ہم نے ایک اصل سیامی بلی پالی تھی جو بستر پر سوتی تھی تکیئے پر سر رکھ کر ۔ ميں کہوں “بيٹھ جاؤ” تو بيٹھ جاتی ۔ مياؤں مياؤں کر رہی ہو تو ميرے “چُپ” کہنے يا اپنے منہ پر اُنگلی رکھنے سے چُپ ہو جاتی ۔ بلی کی یہ نسل دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئی ہے جس کا ذمہ دار انسان ہی ہے
کچھ جانور انسان کے کچھ عوامل کی نقل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر طوطا ۔ مینا ۔ بندر ۔ شِمپَینزی [chimpanzee] ۔ وغیرہ ۔ ایسا اُن کی عقل ہی کے باعث ہوتا ہے جو کہ اُن میں انسان کی نسبت کم اور محدود ہوتی ہے اسی لئے جانور انسان کی طرح ہمہ دان یا ہمہ گیر نہیں ہوتے

عقل” پر ابلیس براہِ راست حملہ آور نہیں ہو سکتا چنانچہ اسے بیمار یا لاغر کرنے کی غرض سے وہ ماحول کا سہارا لیتا ہے ۔ لیکن یہ کام ابلیس کیلئے کافی مشکل ہوتا ہے

آدمی اپنی “عقل” کو عام طور پر ابلیس کے حملے سے معمولی کوشش کے ساتھ محفوظ رکھ سکتا ہیں

سمجھ” وہ جنس ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے صرف انسان کو تفویض کی ہے ۔ “سمجھ” جانوروں کو عطا نہیں کی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو اس کی افزائش ۔ صحت اور استعمال کی آزادی دے رکھی ہے

ابلیس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کی “سمجھ” کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے
انسان کی فطری خود پسندی اور مادی ہوّس کو استعمال میں لا کر کُل وقتی نہیں تو جزو وقتی طور پر یا عارضی طور پر ابلیس اس میں عام طور پر کامیاب رہتا ہے

اگر ابلیس انسان کی “سمجھ” کو اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر متعلقہ انسان کو ہر چیز یا عمل کی پہچان ابلیس کے ودیعت کردہ اسلوب کے مطابق نظر آتی ہے ۔ اسی عمل کو عُرفِ عام میں ” آنکھوں پر پردہ پڑنا ” کہتے ہیں کیونکہ آدمی دیکھ کچھ رہا ہوتا ہے اور سمجھ کچھ رہا ہوتا ہے

اُخروی سزا و جزا کا تعلق “عقل” سے نہیں ہے بلکہ “سمجھ” سے ہے

بچے ميں “عقل” ابھی نشو و نما پا رہی ہوتی ہے اور “سمجھ” بہت کم ہوتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ بچے کا کوئی عمل گناہ يا جُرم تصور نہيں ہوتا کيونکہ اُسے ابھی اتنی “عقل” يا “سمجھ” ہی نہيں ہوتی کہ جُرم يا گناہ کی پہچان کر سکے

سمجھ” مادی جنس نہیں ہے اسلئے میرا مفروضہ ہے کہ “سمجھ” انسان کے جسم میں موجود روح کی ایک خُو ہے

سمجھ” کی جانوروں میں عدم موجودگی کی وجہ سے جانوروں کو اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی اسی لئے اُنہیں اپنے عمل کے نتیجہ میں آخرت میں کوئی سزا یا جزا نہیں ہے ۔ اُن کی زندگی میں غلطیوں کی سزا اُنہیں اسی دنیا میں مل جاتی ہے اور اس کا تعلق ان کے جسم سے ہوتا ہے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں درست سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری “سمجھ” کو ابلیس کی گرفت سے محفوظ رکھے

احوالِ قوم ۔ 3 ۔ تنزّل

رہے جب تک ارکانِ اِسلام برپا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا مَیل سے شہد صافی مصفّا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہی کھوٹ سے سِیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم ایک تھا شش جہت میں درافشاں

پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گیا چھوٹ سررشتہ دینِ ھدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہُما کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بگڑا نہیں آپ دنیا میں جب تک
بُرے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دنیا میں بس کر اُجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھٹا کھُل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ايک رخصت۔ ۔ مِٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ آتی ہو واں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرد مند دانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ۔ ۔ ۔ ۔ کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ
وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں
بہت ان سے کمتر پہ سر سبز و خنداں۔ ۔ ۔ ۔ بہت خشک اور بے طراوت ۔ مگر ہاں
نہیں لائے گو برگ و بار اُن کے پودے۔ ۔ ۔ ۔ نظر آتے ہیں ہونہار اُن کے پودے

پھر اک باغ دیکھے گا اُجڑا سراسر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں خاک اُڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہری ٹہنیاں جھڑگئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل۔ ۔ ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل
جہاں زہر کا کام کرتا تھا باراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں آکے دیتا ہے رُو اَبر نیساں
تردّد سے جو اور ہوتا ہے ویراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں
یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ اسلام کا باغِ ویراں یہی ہے

کلام ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

غريب قوم کا مال

اعداد و شمار اکٹھے کر کے اس تحرير کا مسؤدہ 28 ستمبر 2010ء کو تيار کيا تھا تاکہ ايک دو دن بعد شائع کيا جائے مگر 28 ستمبر کی شام ميں حادثہ ميں زخمی ہو گيا

پچھلے 40 سال سے غريب قوم کا مال دونوں ہاتھوں سے لُوٹا اور لُٹايا جا رہا ہے

منگل بتاريخ 28 ستمبر 2010ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سرکاری بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرض معافی کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ عدالت نے گزشتہ 2 برس میں معاف شدہ قرضوں کی تفصیل طلب کی تو مدعيان کے وکلا نے بتايا کہ ان 2 سالوں ميں 50 ارب[50000000000] روپے کے قرض معاف کئے گئے

اسٹیٹ بینک کے وکیل نے کہا کہ یہ قرض نجی بینکوں نے معاف کئے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نجی بینک بھی اسٹیٹ بینک کے ماتحت کام کرتے ہیں ۔ وہ خود کیسے قرض معاف کرسکتے ہیں ؟

اسٹیٹ بنک کے وکیل نے مزيد بتایا کہ 1971ء سے دسمبر 2009ء تک بینکوں نے 2 کھرب 56 ارب [256000000000] روپے کے قرض معاف کئے

سپریم کورٹ نے 1971ء سے اب تک ہرسال کے 10 بڑے قرض معافی کیسوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرض معافی سے متعلق اسٹیٹ بینک کے سرکولر 29 کا آئینی جائزہ بھی لیا جائیگا

انگریزوں کی عیّاری اور قتلِ عام کی ابتداء

انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء سے کچھ دن بعد کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا ہو گیا ۔

مسلمانوں کے قتل عام کی ابتداء

جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہءِ تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی تلاشی لے کر نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر پاکستان کا بہت بڑا جھنڈا بہت اُونچا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے اور ہمارا خاندان اُس کی سیاسی حمائت ۔

اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے بعد دوپہر ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ بچوں کے لئے لے آیا ہوں ۔ دودھ اُبال کر ہمیں پینے کو کہا گیا مگر اُس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ دوسرے دن صبح چائے بنانے لگے تو دیکھا کہ دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور تڑپتے تڑپتے وہ مر گئی ۔ دراصل وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا

جاری ہے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ايک سوچ

کبھی کبھی ميرے دل ميں يوں خيال آتا ہے
دنيا جسے ميں بسيرا انسانوں کا سمجھتا تھا

کہيں يہ اُس ہی جہنم کا ايک کونا تو نہيں
کہ دہکتے پتھر ہوں گے جس کے انگارے

جس الاؤ ميں انسان جلائے جائيں گے
بد اعماليوں بد فعليوں کے نتيجہ ميں

پر ميں کانپ اُٹھتا ہوں يہ سوچ آتے ہی
آنسو ميرے چہرے پہ ڈھلک جاتے ہيں

[فی البديع ٹوٹکا]

سچ کيا ہے ؟

محترمات قاريات و محترمان قارئين ۔ السلام عليکم و رحمة اللہ و برکاة
ميں نے 28 ستمبر کو حادثہ پيش آنے سے چند روز پہلے ” يومِ يکجہتی جموں کشمير” کے حوالے سے ايک تحرير لکھ کر محفوظ کر لی تھی جو ايک کلک کے انتظار ميں تھی چنانچہ دن کے حوالے سے 24 اکتوبر 2010ء کو شائع کر دی تھی ۔ پھر 25 اکتوبر کو 3 مختصر سی تحارير شائع کرنا پڑيں ۔ اپنی غيرحاضری کا سبب پچھلے 3 دن سے تھوڑا تھوڑا لکھ کر محفوظ کرتا رہا جو آج پيشِ خدمت ہے

جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فرما ديا اور قرآن شريف کی صورت ميں محفوظ ہے اس کے ساتھ جو آخری نبی اور رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی حديث ہے
وہ سچ ہے
جو اس کے مطابق نہيں وہ جھوٹ ہے
بے شک اللہ ہی ہے جس نے اس کائنات کو پيدا کيا اور اس کا نظام چلاتا ہے
ميں آج 28 دن کے بعد پھر لکھ رہا ہوں ۔ يہ بھی اللہ کی قدرت کا ايک بہت ہی معمولی سا کرشمہ ہے

ميں بہت احسانمند ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا اور شکر گذار اُن تمام محترمات اور محترمان کا جو ميری غير حاضری سے متفکر ہوئے بالخصوص اُن کا جنہوں نے ميری صحت کيلئے دعا کی ۔ اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو سدا صحتمند خوش اور خوشحال رکھے ۔ اللہ کريم آپ کا اور اُن کا بھی بھلا کرے جنہوں نے ميرے بارے ميں سوچا بھی نہيں
ميری حقيقت صرف اتنی سی ہے کہ ميں ايک ادنٰی سا انسان ہوں
جس نے ميرے متعلق سوچا وہ اُس کی خُوبی ہے اور جس نے ميرے لئے دعا کی وہ اُس کی دريا دِلی ہے اور جس نے توجہ نہ دی وہ کسی اہم کام ميں مصروف رہا ہو گا

ميں 28 ستمبر 2010ء کو الرشيد ہسپتال ميں ناک گلا کان کے ڈاکٹر [ENT Specialist] سے معائنہ کے بعد شام 7 بج کر 5 منٹ پر دوہری سڑک جس کی ہر سُو دو دو لينز [lane] ہيں کے کنارے کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا کہ ٹريفک تھمے تو ميں سڑک پار کروں ۔ کوئی 5 منٹ بعد ميرے سامنے والی لين ميں ٹريفک بند ہو گيا ۔ ميں نے ديکھا کہ اس کے بعد والی لين ميں 4 کاريں آ رہی ہيں کہ ہر دو ميں کافی فاصلہ ہے ۔ ميں نے ايک لين عبور کی کہ دوسری لين ايک کار گذرنے کے بعد ميں آسانی سے پار کر لوں گا ۔ ايک لين پار کرنے کے بعد ميں نے ديکھا کہ اگلی کار تيز ہو گئی ہے ۔ ميں دوڑ کر جا سکتا تھا مگر خطرہ مول نہ ليا اور کھڑا ہو گيا ۔ اس کے بعد آنے والی دونوں کاريں بھی تيز ہو گئيں ۔ واپس جانا چاہا تو ميرے پيچھے بھی گاڑيا ں فر فر گذرنے لگيں ۔ ميں سفيد لکير پر کھڑا ہو کر داہنی طرف ديکھنے لگ گيا ۔ چھ سات منٹ بعد ميں نے ديکھا کہ 7 کاروں کے بعد فاصلہ دے کر ايک رکشا آ رہا ہے ۔ ميری گردن داہنے ديکھتے تھک گئی تھی ۔ گاڑياں ميرے سامنے اور پيچھے بھی ڈھائی تين فُٹ کا فاصلہ چھوڑ کر نکل رہی تھيں اسلئے کوئی خطرہ محسوس نہ کيا اور سامنے ديکھنے لگا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ مجھے کچھ ياد نہيں

ميں نے آنکھ کھولی تو ميں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت [I.C.U = Intensive Care Unit] کے کمرہ ميں تھا اور گلو کوز کی ڈرِپ لگی ہوئی تھی ۔ سر اُٹھانے کی کوشش کی تو ميری چارپائی اور کمرہ گھومنے لگے اور ميں پھر غائب ۔ کچھ دير بعد ہوش آيا ۔ ميں نے پوچھا کيا بجا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ پہلی بار ميں نے 20 گھنٹے بيہوش رہنے کے بعد آنکھ کھولی تھی ۔ 50 گھنٹے ہسپتال ميں رہنے کے بعد گھر آ گيا مگر اس ھدائت کے ساتھ کہ آرام سے ليٹے رہنا ہے اور سر کو بالکل نہيں ہلانا ۔ دوسرے مجھے اُٹھائيں اور لٹائيں گے اس طرح کہ سر کو کسی قسم کا ضعف نہ پہنچے ۔ آج 28 دن ہو گئے ہيں مگر سجدہ رکوع کرنے يا سر کو آگے پيچھے جھُکانے يا داہنے بائيں موڑنے کی ابھی اجاز ت نہيں ۔ نماز صرف اشاروں سے پڑھتا ہوں ۔ چکروں کو روکنے ۔ اعصاب کو مضبوط کرنے اور خون بڑھانے کيلئے دوائياں دی گئی ہيں جو کھا رہا ہوں ۔ خون کافی بہہ جانے کی وجہ سے ہيموگلوبن 10 گرام رہ گئی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ 6 دن سے کھانے والے کمرے ميں جا کر کھانا کھا رہا ہوں

حادثہ کے فوراً بعد چھوٹا بيٹا “فوزی” دبئی سے پہنچ گيا تھا ۔ وہ اپنی پوری چھٹی گذار کر ايک ہفتہ قبل ہی دبئی پہنچا تھا چنانچہ ايمر جنسی کی چھٹی پر آيا اور 6 دن بعد چلا گيا ۔ پھر بڑا بيٹا “زکريا” اٹلانٹا ۔ جارجيا ۔ امريکا سے آ گيا اور 2 ہفتے رہا ۔ ان سے بڑا سہارا رہا ۔ دن رات ميرا خيال رکھتے رہے چنانچہ ميری بيوی اور بيٹی کو بھی کچھ آرام مل گيا

حادثہ کے 11 دن بعد کوئی عزيز ميری بيمار پُرسی کيلئے آئے تو بيٹا “زکريا” اور بيوی دونوں مجھے چھوڑ کر گئے اور 10 منٹ اُن کے ساتھ مشغول رہے ۔ مجھے واش روم جانا تھا ۔ ميرا موبائل فون سيٹ حادثہ کے وقت گم ہو گيا تھا ۔ دوسرے ٹيليفون سے بيٹے يا بيوی کے موبائل فون پر بات کرنا چاہی تو ان کے نمبر ہی ياد نہ آ سکے ۔ احساس ہوا کہ ميری ياد داشت کھو چکی ہے ۔ اللہ کی نہائت کرم نوازی ہے کہ ميں بتدريج تندرست ہو رہا ہوں ۔ اب آہستہ آہستہ باتيں ياد آ رہی ہيں ليکن حادثہ سے کچھ منٹ پہلے سے لے کر حادثہ کے بعد کا مجھے کچھ ياد نہيں

مجھے بتايا گيا ہے کہ ايک تيز رفتار موٹر سائيکل اچانک کہيں سے نمودار ہوا اور مجھے زمين سے اُچھال ديا ۔ ميں موٹر سائيکل کے اُوپر سے ہوتا ہوا پيچھے چہرے کے بَل سڑک پر گرا ۔ ميری پتلون دائيں طرف کی جيب کے پيچھے سے پھٹ کر موٹر سائيکل کے ساتھ اٹک گئی تھی اور موٹر سائيکل گرنے تک ميرا سر سڑک سے اور ٹانگيں شايد موٹر سائيکل کے ساتھ ٹکراتی رہيں پھر لوگ مجھے اُٹھا کر الرشيد ہسپتال لے گئے ۔ 15 منٹ کے اندر ريسکيو 1122 کی ايمبولنس آ گئی اور مجھے لاہور جنرل ہسپتال لے گئی جہاں ميری بہت اچھی ديکھ بھال کی گئی ۔ سی ٹی سکين کے مطابق
1 . Basal Skull Fracture
2. Incident Cyst at posterior Fossa
3. Calcification along superior Sajital Sinus

ميرے جسم پر 24 زخم اور 10 چوٹيں آئی تھيں جن ميں سے سر کی چوٹ سب سے شديد اور خطرناک کہی گئی جس کا نتيجہ مندرجہ ذيل ہو سکتا تھا
1 ۔ موت يا
2 ۔ مستقل بيہوشی [Coma] يا
3 ۔ بينائی ضائع يا
4 ۔ دماغی توازن بگڑنا [پاگل پن] یا
5. یاد داشت ختم ہو جائے گی

ميرے ماتھے پر تين گہرے اور لمبے زخم تھے جن پر کافی ٹانکے لگے
ناک پر شديد ضرب کی وجہ سے زيادہ خون نکلا جو پيٹ ميں جاتا رہا ۔ ميں نے بعد ميں خون کی 4 قے کيں
اُوپر والا جبڑا پيچھے چلا گيا تھا جس کی وجہ سے منہ نہيں کھُلتا تھا ۔ اب اللہ کے فضل سے ٹھيک ہے مگر سامنے کے دانتوں ميں ابھی بھی درد ہے ۔ زخم سارے تقريباً ٹھيک ہو گئے ہيں ۔ جہاں جہاں چوٹوں کی وجہ سے گلٹياں پڑی ہيں وہ موجود ہيں اور ہاتھ لگانے سے درد ہوتا ہے
۔ ناک ابھی تک سُن [Numb] ہے اور خوشبُو يا بدبُو کی حِس معطل ہے ۔ کان بند ہو گئے تھے ۔ کچھ دنوں سے تھوڑا سنائی دينے لگ گيا مگر عام آواز سنائی نہيں ديتی اور زيادہ اونچا کوئی بولے تو آواز پھٹ جاتی ہے اور کچھ سمجھ ميں نہيں آتا ۔ ايک خاص سطح پر بات سمجھ آتی ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہيں سر کو شديد چوٹ لگنے کی وجہ سے ايسا ہوا ۔ درست ہونے ميں مزيد چار پانچ ماہ لگيں گے

آئی سی يو کے انچارج ڈاکٹر ۔ سرجری کے پروفيسر ۔ ہسپتال ميں پروفيسر نيورولوجِسٹ [Neurologist] اور جس پروفيسر نيورولوجِسٹ کا ميں اب علاج کروا رہا ہوں [لاہور کا بہترين نيورولوجِسٹ] سب نے بار بار کہا “سر کی چوٹ بہت خطر ناک ہے مگر بچت ہو گئی ہے

مہربان قاريات اور قارئين سے دعا کی درخواست ہے کہ جب تلک زندگی ہے اللہ مجھے بقائمیءِ ہوش و حواس چلتا پھرتا رکھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ سے پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ کے 20 دن بعد