بہشت گوش تھے نغمات آبشاروں کے
نظر نواز تھے نظارے مرغزاروں کے
بھلاؤں کیسے مناظر تری بہاروں کے
ستم شعاروں سےتجھ کو چھڑائیں گے اِک دن
ميرے وطن تری جنت میں آئیں گے اِک دن
ميرے وطن ميرے وطن ميرے وطن ميرے وطن
جموں کشمیر کے مسلماں يہ کہتے ہیں ہر دم
وطن تیری آزادی تک نہ چین سے بیٹھیں گے ہم
ميں مسلم ہائی سکول راولپنڈی ميں دسويں جماعت کا طالب عِلم تھا ۔ اکتوبر 1952ء کے شروع ميں اعلان کيا گيا کہ 24 اکتوبر کو يومِ اقوامِ متحدہ منايا جائے گا ۔ ميں نے چند ہمجماعت لڑکوں سے بات کی کہ اقوامِ متحدہ جموں کشمير کے مسلمانوں سے کيا ہوا وعدہ تو پورا کرتا نہيں تو ہم کس لئے اقوامِ متحدہ کا دن منائيں ؟ اُنہوں نے بھی ہاں ميں ہاں ملائی اور پھر ہماری جماعت کے سب لڑکے ہمخيال ہو گئے ۔ کچھ لڑکوں نے جا کر پرنسيپل صاحب سے بات کی مگر وہ نہ مانے
24 اکتوبر کو صبح سويرے سارے سکول کے طلباء کے سامنے ہمارے ايک اُستاذ صاحب نے اقوامِ متحدہ کی خوبياں بيان کرنا شروع ہی کی تھيں کہ سکول کے باہر سے آواز آئی ۔ ہم منائيں گے يومِ کشمير ۔ اُن کی آواز ميں ہماری جماعت کے طلباء نے آواز ملائی ۔ پھر کيا تھا پورا سکول نعروں سے گونج اُٹھا ۔ کرائيں گے آزاد ۔ جموں کشمير ۔ اقوامِ متحدہ مردہ باد ۔ سکول کے باہر گورنمنٹ کالج راولپنڈی کے طلباء جلوس کی شکل ميں آئے تھے ۔ پرنسيپل صاحب ہمارے ساتھ اتنے ناراض ہو گئے کہ اگلے سال ہماری الوداعی دعوت ميں مہمانِ خصوصی بننے سے انکار کر ديا
آج سے 63 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے بل پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی
جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے انسانوں سے مايوس ہو کر اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے اللہ کی نُصرت سے آگے بڑھتے رہے ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتی گئیں یہاں تک کہ مجاہدین مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی ۔ بھمبر اور پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے
بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی پھر جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی
اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہ تھے مگر وزیرِ خارجہ ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948ء میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی
آجکل پاکستان کی حکومت بھی پاکستان دُشمن قوتوں کے نِرغے ميں ہے اورجموں کشمير کے مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ محبت کی پينگيں بڑھا رہی ہے ۔ يوں محسوس ہوتا ہے کہ اندر کھاتے امريکا کے دباؤ کے تحت بھارت کی ہر بات ماننے بلکہ ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہمارے روشن خيال حکمران امريکا کو دے کر اُن کی زبانی شاباشوں پر پھولے نہيں سماتے ۔ ليکن تاريخ پڑھنے والے جانتے ہيں کہ نيک مقصد کيلئے ديا ہوا خون کبھی رائيگاں نہيں جاتا اور غاصب و ظالم حکمران کے خلاف آزادی کی جدوجہد سے بڑھ کر نيک مقصد اور کيا ہو سکتا ہے ؟ جموں کشمير کے مسلمان پچھلے 63 برس ميں پانچ لاکھ کے قریب جانيں ظُلم کی بھينٹ چڑھا چکے ہيں ۔ انشاء اللہ يہ بيش بہا قربانياں ضائع نہيں جائيں گی اور رياست جموں کشمير آزاد ہو کر رہے گی