عقل اور سمجھ دونوں ہی لطیف یعنی نہ نظر آنے والی چیزیں ہیں اور انہیں دوسرے عوامل کی مدد سے پہچانا اور ان کا قیاس کیا جاتا ہے ۔ عام طور پر انسان ان دونوں کو آپس میں گُڈ مُڈ کر دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بالکل مُختلٍف عوامل ہیں ۔ عقل بے اختیار ہے اور سمجھ اختیاری ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ عقل آزاد ہے اور سمجھ غلام
عقل وہ جنس ہے جسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہر جاندار میں کم یا زیادہ رکھا ہے ۔ عقل کی نشو و نما اور صحت ۔ ماحول اور تربیت پر منحصر ہے ۔ سازگار ماحول اور مناسب تربیت سے عقل کی افزائش تیز تر اور صحتمند ہوتی ہے ۔ جس کی عقل پیدائشی طور پر یا بعد میں کسی وجہ سے مفلوج ہو جائے ایسے آدمی کو عام زبان میں پاگل کہا جاتا ہے ۔ عقل اگر کمزور ہو تب بھی جتنا کام کرتی ہے وہ درست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر جسے لوگ پاگل کہتے ہیں وہ بعض اوقات بڑے عقلمند لوگوں کو مات کر دیتے ہیں ۔ کسی زمانہ میں برطانیہ کے ذہنی بیماریوں کے ہسپتال کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ایک دن دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر جانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھِبریاں [nuts] نہیں ہیں ۔ وہ پریشان کھڑا تھا کہ ایک پاگل نے ہسپتال کی کھڑکی سے آواز دی “ڈاکٹر ۔ کیا مسئلہ ہے ؟” ڈاکٹر نے بتایا تو پاگل کہنے لگا “باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھِبری اُتار کر اس پہیئے میں لگا لیں اور راستے میں کسی دکان سے 4 ڈھِبریاں لے کر لگا لیں”
عقل جانوروں کو بھی تفویض کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور نسل در نسل انسانوں کے درمیان رہے [چڑیا گھر میں نہیں] تو اس کی کئی عادات انسانوں کی طرح ہو جاتی ہیں ۔ اصلی سیامی بِلی اس کی مثال ہے جو بدھ مت کے شروع میں بکشوؤں نے اپنا لی اور پھر نسل در نسل وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانوں کے کچھ اشاروں اور باتوں کو سمجھنے لگی ۔ ہم نے ایک اصل سیامی بلی پالی تھی جو بستر پر سوتی تھی تکیئے پر سر رکھ کر ۔ بلی کی یہ نسل دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئی ہے جس کا ذمہ دار انسان ہی ہے
کچھ جانور انسان کے کچھ عوامل کی نقل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر بندر ۔ شِمپَینزی [chimpanzee] ۔ طوطا ۔ مینا ۔ وغیرہ ۔ ایسا اُن کی عقل ہی کے باعث ہوتا ہے جو کہ اُن میں انسان کی نسبت کم اور محدود ہوتی ہے اسی لئے جانور انسان کی طرح ہمہ دان یا ہمہ گیر نہیں ہوتے
عقل پر ابلیس براہِ راست حملہ آور نہیں ہو سکتا چنانچہ اسے بیمار یا لاغر کرنے کی غرض سے وہ ماحول کا سہارا لیتا ہے ۔ لیکن یہ کام ابلیس کیلئے کافی مشکل ہوتا ہے ۔ آدمی اپنی عقل کو عام طور پر ابلیس کے حملے سے معمولی کوشش کے ساتھ محفوظ رکھ سکتے ہیں
سمجھ وہ جنس ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے صرف انسان کو تفویض کی ہے ۔ سمجھ جانوروں کو عطا نہیں کی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو اس کی افزائش ۔ صحت اور استعمال کی آزادی دے رکھی ہے ۔ ابلیس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کی سمجھ کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ انسان کی فطری خود پسندی اور مادی ہوّس کو استعمال میں لا کر کُل وقتی نہیں تو جزو وقتی طور پر یا عارضی طور پر ابلیس اس میں عام طور پر کامیاب رہتا ہے ۔ اگر ابلیس انسان کی سمجھ کو اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر متعلقہ انسان کو ہر چیز یا عمل کی پہچان ابلیس کے ودیعت کردہ اسلوب کے مطابق نظر آتی ہے ۔ اسی عمل کو عُرفِ عام میں آنکھوں پر پردہ پڑنا کہتے ہیں کیونکہ آدمی دیکھ کچھ رہا ہوتا ہے اور سمجھ کچھ رہا ہوتا ہے
اُخروی سزا و جزا کا تعلق عقل سے نہیں ہے بلکہ سمجھ سے ہے ۔ سمجھ مادی جنس نہیں ہے اور میرا مفروضہ ہے کہ سمجھ انسان کے جسم میں موجود روح کی ایک خُو ہے ۔ سمجھ کی جانوروں میں عدم موجودگی کی وجہ سے جانوروں کو اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی اسی لئے اُنہیں اپنے عمل کے نتیجہ میں آخرت میں کوئی سزا یا جزا نہیں ہے ۔ اُن کی زندگی میں غلطیوں کی سزا اُنہیں اسی دنیا میں مل جاتی ہے اور اس کا تعلق ان کے جسم سے ہوتا ہے
مندرجہ بالا تحریر میری ساری زندگی کے مشاہدوں اور مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں درست سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری سمجھ کو ابلیس سے محفوظ رکھے