Yearly Archives: 2009

طالبان طالبان کی رَٹ ۔ حقائق سے چشم پوشی

میرے ہموطنوں کی اکثریت کو ٹی وی نشریات اور اخبارات نے اتنا محصور [hypnotise] کیا ہے کہ وہ بھی افسانوی راگ الاپنے لگ گئے ہیں ۔ میں نے پہلے 25 جولائی 2008ء کو طالبان کی پوری تاریخ لکھی پھر سوات کے حوالے سے 24 اور 25 فروری 2009ء کو لکھا ۔ 7 مئی 2009ء کو اسی سلسلہ میں قارئین کے سوالات کے جوابات لکھے ۔ میرے ہموطنوں کے عمومی رویہ سے متعلق میں اپنی 25 فروری 2009ء کی تحریر میں سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں

یہ واقعہ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”

دورِ حاضر کی جواں نسل [عمر 20 تا 40 سال] کی اکثریت کی پہچان ہے کہ ان کا پہلا فقرہ یا ردِ عمل ہوتا ہے “آپ نہیں جانتے” بلکہ درست فقرہ یہ ہے “آپ کو کچھ پتہ نہیں”۔ کوئی اور مزید آگے بڑھے گا اور کہہ دے گا “آپ اب اپنے مصنوعی خول سے نکلیں اور حقائق کو تسلیم کر لیں”۔ پچھلے ماہ میں اپنے ایک ساتھی کے سامنے يہی بات کہہ رہا تھا تو ایک چونتیس پینتیس سالہ اعلٰی تعلیم يافتہ جوان بولا ” آجکل چھوٹے چھوٹے بچے ہمیں کہتے ہیں ۔ آپ کو کیا پتہ”

حقیقت یہ ہے دورِ حاضر کے اکثر لوگوں کو سطحی معلومات تو بہت ہوتی ہیں ۔کسی معاملہ کی گہرائی میں جانے کی یا تو وہ کوشش نہیں کرتے یا زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کرنے کی وجہ سے گہرائی میں جانے کا وقت نہیں ملتا ۔ بعض اوقات صورتِ حال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سچ سامنے رکھ دیا جائے تو اُسے کسی بہانے ٹالنے پر اصرار ہوتا ہے

مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ بے تکلّف احباب کی محفل میں بیٹھے اگر کوئی پوچھے “آجکل کیا ہو رہا ہے ؟” تو میں کہہ دیتا “اپنے تو دو ہی شوق ہیں ۔ کھانا اور سونا”۔ ایک دن جب میں نے ایسا کہا تو وہاں ایک پڑھا لکھا جوان جو مجھے نہیں جانتا تھا موجود تھا ۔ بعد میں اُس جوان کو کچھ عِلمی معلومات کی ضرورت پڑی تو اُس کے ایک بزرگ نے اُسے میرے پاس آنے کو کہا مگر وہ نہ آیا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ معلومات اُسے حاصل نہ ہو سکیں ۔ اس پر اس بزرگ نے اسے کہا “کیا اجمل بھوپال صاحب کو بھی معلوم نہیں ؟” تو جوان بولا “جسے کھانے اور سونے سے فرصت نہیں وہ کیا بتائے گا”۔ اُس کے بزرگ نے اُسے صرف اتنا کہا ” تم لوگ بدقسمت ہو”

میں جب بچپن میں قرآن شریف میں پڑھتا تھا ” اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے”۔ تو سوچتا تھا کہ شاید اُس زمانہ کے لوگ بے علم تھے جب یہ آیت اُتری ۔ 1970ء کی دہائی کے عوامی دور میں معلوم ہوا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ کہلانے والوں کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ سو یہ وصف ہماری قوم کی اکثریت کا ہے کہ نجانے کس انجانے خوف کے زیرِ اثر حقائق کا خود سامنا نہیں کرنا چاہتے اور دوسرے کو غیرمصدقہ بات کو حقیقت ماننے پر مجبور کرتے ہیں

اس صورتِ حال کے نتیجہ میں قوم ایک غیر معیّن تیر [misguided missile] بن کے رہ گئی ہے ۔ شور شرابا بہت ہے سُدھار کیلئے عملی طور پر آگے کوئی نہیں بڑھتا ۔ سال سے زائد عرصہ گذرا کہ غریب پختون بچوں کو تعلیم میسر نہ ہونے کا بہت واویلا تھا ۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر وہ مدرسوں کی بجائے انگریزی سکولوں میں نہ گئے تو دہشتگرد بن جائیں گے ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے بلاگ پر عملی تعاون کی درخواست کی ۔ دو تین جوانوں نے اسلام آباد میں میرے گھر آ کر میری ہمت افزائی کی ۔ میں نے صورتِ حال کی وضاحت کی ۔ بڑا نہیں چھوٹا سا منصوبہ تھا ۔ درجن سے زیادہ بچوں کی ایک اچھے سکول میں تعلیم کی کفالت کی جا چکی تھی ۔ اس سے قبل یہ بچے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے تھے ۔ اس تعداد کو 24 تک لیجانا چاہ رہے تھے مگر مالی وسائل نہ تھے ۔ فی بچہ 600 روپیہ ماہانہ فیس ۔ اس کے علاوہ کتابیں کاپیاں پنسل وغیرہ اور روزانہ ایک وقت کا کھانا ۔ بس اتنا ہی کرنا تھا

ابھی پھر کوئی اسی طرح کا عنوان چھیڑ دیجئے ۔ اس پر لمبی لمبی تحاریر لکھی جائیں گی مگر جب باری عمل کی آئے گی تو شاید کوئی ڈھونڈے سے نہ ملے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے خواندہ گنے لوگوں میں سے نصف مدرسوں سے پڑھے ہوئے ہیں ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والوں کی جاہلیت کے متعلق پچھلے چند سالوں میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے ہیں جن میں سے درجنوں بلاگرز نے لکھے ہیں ۔ ان سب لکھنے والوں میں کتنے ہیں جنہوں نے دور نہیں اپنے علاقے کے مدرسہ کی ہی بہتری کیلئے عملی کام کیا ہے ؟ اسے بھی چھوڑیئے کیا کسی نے کبھی کسی مدرسہ کا مطالعاتی دورہ بھی کیا ہے ؟ پوچھیئے تو محلے کی مسجد کے مدرسہ کی بات کریں گے جہاں بچوں کو طوطوں کی طرح قرآن شریف رٹایا جاتا ہے اور وہاں کا بھی مطالعاتی دورہ نہیں کیا ہو گا

بیت اللہ محسود جسے پاکستانی طالبان کا سربراہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق معروف ہے کہ گونٹانامو بے میں 11 ماہ قید کے بعد رہا کر ديا گیا بلکہ کھُلا چھوڑ دیا گیا جبکہ 80 سالہ بوڑھے بیگناہ پاکستانی کو بھی ڈھائی سال بعد اُس وقت چھوڑا گیا تھا جب وہ قریب مرگ تھا اور بات بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ باقی پاکستانی جو ڈھائی تین سال بعد وہاں سے چھوٹے وہ کسی اور جگہ قید ہیں ۔ اب شُنید ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کھیلے جانے والے ڈرامہ کا حصہ ہے اور وہ زندہ ہے مگر غائب ہے ۔ حقیقت جو میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں یہی ہے کہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے والے اور فوج کے خلاف لڑنے والے کرائے کے قاتل ہیں جن کے آقا غیر ملک یا ممالک کی حکومتیں ہیں ۔ ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے البتٰہ افغانستان کی کٹھپتلی حکومت کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے

جب تک غیرملکی مفاد کو چھوڑ کر ملکی مفاد کے تحت کام نہیں کیا جائے گا ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے رہیں گے اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جنگجو حملہ آوروں کی تعداد پہلے سے کہیں زیاد ہو چکی ہے ۔ وہ پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور پہلے سے زیادہ بے جگری سے لڑ رہے ہیں ۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی ۔ اسلام آباد اقوامِ متحدہ کے امدادی دفتر پر حملہ ۔ پھر پشاور میں اہم شہری علاقہ میں دھماکہ پھر فوج کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو کر حملہ اور آج لاہور شہر کے اہم علاقہ میں واقعہ ایف آئی اے کے دفتر مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز اور بیدیاں میں پولیس کمانڈو تربیتی مرکز پر حملے ہوئے ۔ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ حملے کی پہلے سے اطلاع تھی

اسلام آباد میں جگہ جگہ ناکہ بندیاں ہیں ۔ میرے اپنے گھر کے تین راستے مکمل بند کر کے ایک راستہ میں جگہ جگہ بلاک رکھے ہیں جن میں سے بالکل آہستہ ہی گذرا جا سکتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کا امدادی دفتر میرے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اُس کی حفاظت کیوں نہ کی جا سکی ؟ آخر ان علاقوں کی درست حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ؟ وزارتِ داخلہ کیا کر رہی ہے ؟ رحمٰن ملک صرف بیان داغنے کے کی بجائے کوئی عملی کام کیوں نہیں کرتا ؟

آنکھوں [عقل] پر پردہ پڑنا اور کسے کہتے ہیں ؟ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو سیدھی راہ پر لگائے اور ہمارے ملک کو مزید تباہی سے بچائے

مدد درکار ہے

میں کسی کا امتحان نہیں لے رہا بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اسلئے مندرجہ ذیل معلومات فراہم کردیں تو نوازش ہو گی خواہ اس کے لئے مطالع کرنا پڑے یا کسی عالِم کی مدد لینا پڑے ۔ میں اپنے گھر اسلام آباد میں ہوتا تو شاید یہ اشتہار نہ دینا پڑتا

سوال ۔ 1 ۔ اگر مندرجہ ذیل کے علاوہ کوئی اور مستند مجموعات حدیث اُردو ترجمہ کے ساتھ ہیں تو ان کے نام اور ان کے مصنفین کے نام بتایئے اور اگر انٹرنیٹ پرچاہے انگریزی میں ہوں تو ربط دے دیجئے
1 ۔ صحیح بخاری
2 ۔ صحیح مُسلم
3 ۔ سُنن ابو داؤد
4 ۔ سنن ترمذی
5 ۔ سنن ابنِ ماجہ
6 ۔ موطاء عبدالمالک

سوال ۔ 2 ۔ میرے علم کے مطابق اگر فرض نماز شروع ہو جائے یا فرض نماز کی تکبیر اقامت شروع ہو جائے تو پھر کسی اور نماز یعنی نفل یا سُنت کی نیّت کرنا منع ہے ۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر 4 رکعت سُنّت نماز شروع کر لی ہو اور تکبیر اقامت شروع ہو جائے تو 2 رکعت مکمل کر کے سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہو جانا چاہیئے ۔ کیا یہ شرط فجر کی نماز پر لاگو نہیں ہوتی ؟ اگر لاگو نہیں ہوتی تو مستند حدیث کا حوالہ دیجئے ۔ اگر انٹرنیٹ پرچاہے انگریزی میں ہو تو ربط دے دیجئے

پتھر دل سفّاک

ایک محاورہ سکول کے زمانہ میں پڑھا تھا ۔ ” آنکھ کے اندھے نام نَین سُکھ ” ۔ دورِ حاضر میں جس طرح باقی چیزوں کی تجدید ہو رہی ہے اس محاورہ کی تجدید بھی ضروری ہے چنانچہ اس کا ہمزاد کچھ اس طرح ہونا چاہيئے ” پتھر دل سفّاک ۔ نام روشن خيال” ۔ غزہ میں ايک سکول پر اسرائیل نے حملہ کیا جس میں فاسفورس بم استعمال کئے گئے ۔ نیچے اس کی چند تصاویر ہیں

جولائی 2007ء میں اسلام آباد کی مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ پر اپنے ہی ملک کے بدبخت سربراہ کے حکم پر اپنی ہی فوج نے فاسفورس بم برسائے تھے جس کے نتیجہ میں سینکڑوں بے قصور کم سِن بچیاں جل کر کوئلہ ہو گئی تھیں ۔ ان یتیم اور لاوارث بچیوں کا رونے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ غزہ میں تو اقوامِ متحدہ کے مددگار موجود تھے اُنہوں نے اُن کے جلے جسموں کو صحیح طرح دفنا دیا ہو گا ۔ جامعہ حفصہ کی معصوموں کے قتل عام کی کاروائی کے بعد ان معصوموں کے جسموں کا جو کچھ بچا تھا رات کے اندھیرے میں لَوڈروں [Loaders] کے ذریعہ ڈَمپروں [Dumpers] میں بھر کر اسلام آباد کے قریبی جنگلوں میں دبا دیا گیا تھا اور جلی ہوئی جامعہ حفصہ کی عمارت کو گِرا کر ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا تاکہ اصل صورتِ حال عوام کے علم میں نہ آ سکے ۔ سِتم ظریفی یہ کہ اس بہیمانہ کاروائی کے دوران کراچی بلکہ لندن سے اسلام آباد تک ہمہ وقت اپنے حقوق کا رونا رونے والے دھاڑ رہے تھے “مار دو انہیں ۔ ختم کر دو انہیں”

داغے گئے سفید فاسفورس والے دو گولے
MIDEAST-ISRAEL-GAZA-CONFLICT-UN
گولے گر چکے ہیں
MIDEAST-ISRAEL-PALESTINIAN-CONFLICT-GAZA
گولے پھٹنے کا منظر
CORRECTION-MIDEAST-ISRAEL-GAZA-CONFLICT-UN
فاسفورس بم کی تباہ کاری ۔ بچے مکمل طور پر جل کر کوئلہ ہو چکے ہیں اور سب فرنیچر بھی راکھ ہو چکا ہے
AK00000001
MIDEAST-ISRAEL-GAZA-CONFLICT-UN
MIDEAST-PALESTINIAN-ISRAEL-GAZA
AK00000001

اب سمجھ آئی امریکہ کیسے دریافت ہوا تھا

مجھے ایک کارٹون یاد آ گیا ہے جو میں نے رسالہ تعلیم و تربیت میں اُن دنوں دیکھا تھا جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا [1951ء]
ماں بچے سے ” بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو”
بچہ ماں سے”ماں ۔ اور سوچنے سے پہلے ؟”
ماں ” یہ سوچا کرو کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں ”

میں نے یکم جولائی 2009ء کو تمام قارئین کی خدمت میں ایک تحریر پیش کی تھی جس میں نے گوگل کا ربط دیا تھا ۔ اس کا پہلا فقرہ ملاحظہ ہو

میں مخاطب ہوں اُن قارئین و قاریات سے جن کے کمپیوٹر پر اُردو نصب [install] نہیں ہے یا اُن کے کمپیوٹر کا کلیدی تختہ [keyboard] اُردو نہیں لکھتا اس لئے پریشانی اُٹھانا پڑتی ہے یا وہ مجبور ہو کر انگریزی حروف [English letters] میں اُردو لکھتے ہیں جسے رومن اُردو [Roman Urdu] بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ سب کی مُشکل اللہ نے آسان کر دی ہے ۔ آپ مندرجہ ذیل ربط کو اپنے پاس محفوظ کر لیجئے

اس پر شاید صرف 4 قارئین [ منیر عباسی ۔ سعود اور احمد صاحبان اور شاہدہ اکرم صاحبہ] سوا کسی نے توجہ نہ دی چنانچہ چند ہفتوں کے وقفہ سے کچھ حضرات نے باری باری اسے دریافت کر کے قارئین کو آگاہ کیا

ہماری فوج کے “القاعدہ عمومی” پر “کرائے کے قاتلوں” کی طالبان کے تخیّلی اور فوج کے ظاہری بہروپ میں یلغار ایک افسوسناک واقع ہے کیونکہ اس میں ہمارے 11 محبِ وطن کام آئے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہونا چاہیئے کہ ہمارے ملک کے پاسبانوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اپنا فرضِ منصبی احسن طریقہ سے انجام دیا ۔ میں نے انگریزی کے لفظ “جنرل ہیڈ کوارٹر” کا ترجمہ “القاعدہ عمومی” اس لئے کیا ہے کہ اس عام سے بے ضرر لفظ کو مسلم دُشمن دنیا نے اپنے ذرائع ابلاغ کے زور سے سفّاک مُجرم بنا کے رکھ دیا ہے

ماضی کی طرح حملہ کی خبر نکلتے ہیں “طالبان” “طالبان” کا شور اُٹھا اور کْرّہ ارض پر چھا گیا ۔ امریکہ اور یورپ والے بھی جانتے ہیں مگر میرے ہموطنوں میں سے کون ہے جو طُلباء یا طالبان کا مطلب نہیں جانتا ؟ یہ الگ بات ہے کہ دورِ حاضر کے باعِلم ہموطن آجکل “طلباء” کو “طلبہ” لکھتے ہیں

آمدن برسرِ مطلب [ماضی میں اعتراض ہوا تھا کہ آمدم ہونا چاہیئے۔ آمدم کا مطلب ہے “ہم آئے” يعنی ایک سے زیادہ لوگ آئے ۔ دوسرے یہ ماضی کا صیغہ ہے اور آمدن بسرِ مطلب کے معنی ہیں “آنا مطلب کی طرف”] ۔ دورِ حاضر میں “طالبان” نام دیا گیا ہے دینی مدارس کے فارغ التحصیل کو اور فرض کر لیا گیا ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل جاہل اور دہشتگرد ہوتے ہیں ۔ اگر یہ تشریح جو بے بنیاد ہے کو مان بھی لیا جائے تو جو شخص کبھی دینی مدرسہ گیا ہی نہ ہو وہ کیسے طالبان ہو گیا ؟ ایک اور بھی اصطلاح ہے دورِ حاضر کے سندیافتہ لوگوں کی جس میں پی ایچ ڈی بھی شامل ہیں کہ پاکستان کے پختون قبائلی دہشتگرد ہیں ۔ کوئی بھی واقعہ ہو اسے اُن سے جوڑنے میں تاخیر کو شاید حرام سمجھا جاتا ہے ۔ آج تک کسی نے سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ واردات کرنے والوں کی پہچان کیا ہے ۔ بس ایک اعلان آتا ہے طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ سب کو تسلی ہو گئی اور پھر استراحت فرمانے لگے یا ضیافتیں اُڑانے لگے ۔ ذمہ داری قبول کرنے والا درحقیقت کون ہے اور اُس کا آقا کون ہے ؟ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہمیں صرف ایک بیان چاہیئے ہوتا ہے

سب سے پہلا حملہ پاکستان کی سپاہ پر پرویز مشرف کے زمانہ میں ہوا تھا ۔ اُس کے ردِ عمل میں کاروائی کی گئی تو 9 حملہ آور مارے گئے ۔ وہ نہ مسلمان تھے نہ یہودی کیونکہ اُن کے ختنے نہیں ہوئے تھے اور قبائلیوں نے انہیں نہلانے اور دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس بات کو سختی سے دبا دیا گیا ۔ اور آج تک بار بار حقائق کو دبا کر تمام گندگی طالبان اور القاعدہ کے ناموں پر گرائی جا رہی ہے ۔ اور ايسا کرنے پر میرے بہت سے پڑھے لکھے ہموطن جن میں کچھ بلاگر اور میرے قارئین بھی ہیں فاتحانہ انداز اختیار کرتے ہیں

یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ لاہور میں سری لنکا کے کھلاڑیوں اور اب جی ایچ کیو پر حملہ دونوں کمانڈو حملے تھے اور ان دونوں میں تمام تر دعووں کے باوجود نہ کوئی پختون قبائلی تھا نہ طالبان ۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کا تعلق پنجاب ۔ سرحد [قبائلی علاقہ نہیں] اور سندھ سے ہے

یقین

بِلُو بِلا صاحب نے “کرتوتوں کی سزا” کے عنوان کے تحت ایک رکشا والے کی بات بیان کی تو مجھے ایک اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ یاد آیا لیکن پہلے میں یہ بتا دوں کہ یقین کسے کہتے ہیں ۔ یقین یا ایمان ایک ہی عمل کے دو نام ہیں ۔ آج دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمان ہیں مگر بے کس اور مجبور ۔ ہر مسلمان دعوٰی کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات بھاری اکثریت کے صرف ہونٹوں یا زیادہ سے زیادہ زبان کی نوک سے آگے اندر نہیں جاتی ۔ دل و دماغ میں یقین غیراللہ پر ہوتا ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اللہ پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی مدد کیلئے پکارے اور مدد نہ آئے

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

آدھی صدی کے قریب پرانا واقعہ ہے ۔بارشں نہیں ہو رہی تھی ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کئی دن تک بارش کے کوئی آثار نہ تھے ۔ خشک سالی کا اندیشہ تھا جس کا نتیجہ قحط ہو سکتا تھا ۔ راولپنڈی کی مساجد میں نمازِ استسقاء ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ بتایا گیا کہ شہر سے باہر پیدل جا کر پڑھی جائے گی ۔ ایک اجتماع ہیلی واٹر ورکس جو بعد میں کالی ٹینکی کے نام سے موسوم ہوا کے قریب اور دوسرا ٹوپی رکھ میں جو بعد میں ایوب نیشنل پارک کے نام سے موسوم ہوئی ۔ یہ راولپنڈی کی دو اطراف تھیں آبادی سے باہر ۔ مرد اور لڑکے جوق در جوق گھروں سے نکلے ۔ اس وقت کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی ٹوپی رکھ پہنچے ۔ میں دوسروی طرف یعنی ہیلی واٹر ورکس کی طرف گیا ۔ وہاں اتنے لوگ تھے کہ دور دور تک زمین نظر نہ آتی تھی ۔ نہ کوئی لاؤڈ سپیکر تھا اور نہ کوئی صف بچھی تھی ۔ کرتار پورہ کی بڑی مسجد کے خطیب مولوی عبدالحکیم صاحب جو ہمارے سکول میں اُستاذ رہ چکے تھے اور بعد میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے نے امامت کرائی ۔ نماز کے بعد دعا شروع ہوئی ۔ اتنی خاموشی تھی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قدرت کہ دور دور تک آواز سنائی دی ۔ امام رو رہے تھے اور مقتدی بھی سسکیاں لینے لگے ۔ نہ ہمیں وقت کا احساس ہوا نہ پتہ چلا کہ کب بادل آئے ۔ دعا ختم ہونے پر گھروں کا رُخ کیا ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے کہ بارش شروع ہو گئی گھر پہنچنے تک تیز بارش شروع ہو چکی تھی

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانہ میں بھی نمازِ استسقاء پڑھی گۓي تھی مگر ایوانِ صدر میں اور مساجد میں ۔ نہ کوئی گڑگڑایا نہ کسی نے آنسو بہائے اور بادل بھی شاید دور قہقہے لگاتے رہے ہوں مگر قریب نہ آئے ۔ ايوب خان بھی جنرل اور صدر تھا اور پرویز مسرف بھی جنرل اور صدر لیکن فرق واضح ہے

کیسا صنم

قارئین میری خُشک تحاریر پڑھ پڑھ کر مکھن کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے ۔ سوچا کہ کچھ تَری کا بندوبست کیا جائے ۔ میں صرف اپنے خاندان و برادری ہی میں نہیں اساتذہ ۔ ہم جماعت لڑکوں اور دوسرے ساتھیوں میں خوش مزاح اور ہنس مُکھ جانا جاتا تھا ۔ پچھلے آٹھ سالوں کے مُلکی حالات نے میری حِسِ مزاح اتنی مجروح کر دی ہے کہ ہلکا پھُلکا سُوجھنا ہی مُشکل ہو گیا ہے ۔ کچھ دن قبل ایک پرانے ساتھی کے یاد دِلانے پر ایک سکول کے زمانہ کی چیز یاد آئی

سُنا ہے صنم کی کمر ہی نہیں ہے
نہ جانے وہ دھوتی کہاں باندھتی ہے

میری صنم کی نزاکت تو دیکھو
چھَپَر پہ بیٹھی جُوئیں نکالتی ہے

کیوں نہ ہوں میری صنم پر مکھیاں فدا
کھاتی ہے ریوڑیوں اورگَچَک بہت زیادہ

ملنے جائیں ہم صنم سے کیسے
کہ اُس کی گلی کا کُتا کاٹتا ہے
کریں ٹیلیفون ہم صنم کو
اُس کا ابا ہمیں ڈانٹتا ہے

مہمان خانہ

میرے ہموطنوں بالخصوص شہروں میں بسنے والوں نے غیروں کی نقالی میں ایسی دوڑ لگائی کہ اپنی ثقافت سے بیگانہ ہو گئے ۔ ہماری دیرینہ ثقافت کے ایک جُزو سے متعلق ایک تحریر نظر پڑھی تو اسے آگے بڑھانے کا موقع ضائع کرنا اپنے آپ سے زیادتی محسوس ہوا ۔ میری خواہش ہے کہ جو کمی میں چھوڑ دوں اُسے دوسرے بلاگر یا قارئین پُر کریں

عنیقہ ناز صاحبہ کی ڈرائنگ روم کے حوالے سے تحریر میں اگر ڈرائنگ روم کی بجائے بیٹھک یا مہمان خانہ یا حجرہ مہماناں یا ڈیرہ لکھ دیا جاتا تو کچھ بات بنتی ۔ ڈرائنگ روم جن کی زبان کا لفظ ہے اُن کے ہاں تو ایسا الگ تھلگ کمرہ صرف ان کا ذاتی سونے کا کمرہ ہی ہوتا ہے ۔ اُنہی کی نقّالی کو ترقی کی نشانی سمجھتے ہوئے ميرے کئی ہموطنوں نے مہمان خانہ اور کھانے کا کمرہ ملا کر اس کا نام ڈائیننگ ڈرائینگ [Dining Drawing] رکھ دیا۔

عنيقہ ناز صاحبہ لکھتی ہیں “یہ حصہ ہمہ وقت صاف ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ آپکے حسن ذوق کا آئینہ دار بھی بن جائے”
اور ساتھ ہی لکھتی ہیں “گردش دوراں نے اسے کسی کی سماجی حیثیت کا آئینہ دار بنا دیا”

حسنِ ذوق کے دو حصے ہوتے ہیں
ايک ۔ سليقہ
دوسرا ۔ مادی
سلیقہ کیلئے مناسب تربیت ضروری ہے اور مادی حصہ کٰی تکمیل دولت کے بغیر ممکن نہیں ۔ میں تمام تر ذوقِ لطافت کے ہوتے ہوئے آج تک اپنے مہمان خانہ کو اپنے حُسنِ ذوق کا آئینہ دار نہ بنا سکا ۔ سبب صرف فالتو دولت کا نہ ہونا تھا

عنیقہ ناز صاحبہ مزید لکھتی ہیں
“اور ایسے ڈرائنگ روم وجود میں آگئے جہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظر اٹھتے ہی ایسے نظاروں میں کھو جاتی ہے جو اپنے ساتھ احساس محرومی، احساس کمتری، احساس کمزوری، احساس دوری، احساس مجبوری اور اس جیسے بہت سے دوسرے احساسوں کو لیکر پلٹتی ہے”

یہ درست ہے کہ کچھ مہمان خانوں میں جا کر محسوس ہوتا ہے کہ کسی چھ ستاروں والی سرائے [Six Star Hotel] میں لگی نمائش میں آ گئے ہيں لیکن اپنے کو محروم سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جس شخص کے پاس کئی کلو گرام سونا ہوتا ہے وہ بھی تو سب کی طرح گوشت سبزی اور دال ہی کھاتا ہے ۔ ویسے احساسِ کمتری اور اس کی ساری اقسام جن میں احساسِ برتری بھی شامل ہے فائل کے عمل سے زیادہ مفعول کی سوچ سے جنم ليتی ہیں

آخر میں عنیقہ ناز صاحبہ نے ایک اچھی ھدائت کی ہے “اپنے گھروں میں ایک سیدھا سادہ سا گوشہ ضرور رکھیں۔ جہاں آنے والاپاؤں پسارے یا آلتی پالتی مارے تعلقات کی دھونی جمائے بیٹھا رہے”

خیال تو اچھا ہے لیکن اس کیلئے بھی دولت ضروری ہے ۔ کم از کم پچھلے 50 سالوں میں شہروں میں تعمیر ہونے والے مکانات میں معدودے چند ایسے ہوں گے جن میں متذکرہ سہولت موجود ہو ۔ اس کی دو وجوہ ہیں اول ۔ دولت کی کمی اور ۔ دوم ۔ جدیدیت یعنی فرنگی کی نقالی

جس طرح کے کمرے کی خواہش کی گئی ہے ہماری ثقافت کا اہم جزو تھا ۔ گھر سے باہر مگر گھر سے منسلک یا گھر کے اندر صدر دروازہ کے ساتھ ایک کمرہ ہوا کرتا تھا جسے بیٹھک یا مہمان خانہ یا حجرہ [پورا لفظ حجرہ مہماناں ہے] یا ڈیرہ کہتے تھے ۔ یہ کمرہ ان مرد مہمانوں کیلئے ہوتا تھا جن سے گھر کی خواتین نے پردہ کرنا ہو ۔ اس کمرہ میں فرش بچھا ہوتا اور گاؤ تکئے لگے ہوتے تھے بعد میں جن کی جگہ کئی گھروں میں صوفے اور پلنگ یا پلنگ نما چیز نے لے لی ۔ مرد مہمان وہیں بیٹھتے اور استراحت کرتے ۔ فی زمانہ متذکرہ کمرہ جہاں موجود ہے اس علاقے کے مکینوں کو انتہاء پسند ۔ شدت پسند اور دہشتگرد کہہ کر ملیامیٹ کیا جا رہا ہے