میں نے 30 اکتوبر کو جو وعدہ کیا تھا اللہ کے فضل و کرم سے اُسے پورا کرنے کیلئے قدم بڑھا رہا ہوں ۔ اللہ مجھے اس سلسلہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ تاخیر کی وجہ ملک کے حالات ہیں جو بہرحال سب سے اہم مسئلہ ہیں ۔ میں نہ تو صحافی ہوں نہ مصنف لیکن اللہ کی کرم نوازی دیکھئیے کہ پچھلی چار دہائیوں سے صحافی اور مصنف کہلانے والے مختلف حضرات مجھ سے مختلف موضوعات پر لکھنے کی فرمائش کرتے رہے ہیں ۔ بلاگ شروع کیا تو یہ فرمائشیں یہاں بھی شروع ہو گئیں جن میں سے کچھ پوری کر چکا ہوں اور کچھ ابھی باقی ہیں ۔ آج کی تحریر کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کیلئے میرے پاس بلاگرز کی طرف سے چوتھی فرمائش آ چکی ہے کہ اسلام آباد کی ترقی کے مدارج کے متعلق تاریخ کے جھروکے سے لکھوں ۔ اسلام آباد کے متعلق لکھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ میرا اس شہر سے کیسے واسطہ پڑا اور یہاں پہلے کیا تھا ؟
میں 14 ۔ 15 اور 16 اگست 2007ء کو لکھ چکا ہوں کہ کس طرح ہمارا خاندان 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان پہنچا اور میں اور میری دو بڑی بہنیں [ 12 اور 15 سال] اپنے گھر والوں کے تقریباً دو ماہ بعد پہنچے ۔ سیالکوٹ میں کسی کے ہاں قیام کیا اور 1948ء کے آخر یا 1949ء کے شروع میں راولپنڈی کے جھنگی محلہ میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے ۔ دوسال ہمیں راولپنڈی سے مانوس ہونے میں لگے ۔ 1951ء کی گرمیوں میں ہمیں جموں کی نہریں یاد آنے لگیں تو ہم راولپنڈی کے قریبی دریائے سواں پہنچے ۔ اس میں پانی گدلا تھا اور گہرائی اتنی کہ سارا جسم گیلا کرنے کیلئے ہمیں لیٹنا پڑا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ نور پور شاہاں کے پاس پہاڑی نالہ ہے ۔ سوچا کہ پکنک منائیں گے اور شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ بھی کہہ لیں گے ۔ نالہ تو قابلِ ذکر نہ پایا ۔ شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ رہے تھے کہ ایک شخص نے روک کر کہا “خوردہ لے لو”۔ وہ جلے ہوئے اوپلوں کی راکھ ہمیں بیچنا چاہتا تھا کہ شاہ عبداللطیف کا تبرک ہے ۔ ہم نے نہ لی تو اس نے ہمیں بہت بددعائیں دیں ۔ اس زمانہ میں شاھ عبداللطیف کی قبر پتھروں سے بنی تھی اور اردگرد پتھروں کی دو فٹ سے کم اونچی دیوار کے سوا کچھ نہ تھا ۔
پھر کسی نے بتایا کہ سیدپور میں چشمے ہیں ۔ ہمیں کشمیر کے چشمے یاد آئے اور ہم سیدپور پہنچ گئے ۔ وہاں ایک چشمے کے پانی کے آگے کوئی 6 فٹ اونچائی پر ایک پائپ لگایا گیا تھا جس میں سے پانی نل کی طرح گر رہا تھا ۔ بڑے چشمہ کی طرف جانے کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس کا پانی پینے کیلئے راولپنڈی کو مہیا کیا جاتا تھا ۔ وہاں ایک واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی تھا ۔ سید پور گاؤں میں ایک کُمہار [خاور صاحب نہیں] نے مٹی سے ریلوے انجن اور ڈبّے اور ریلوے لائین بنائی ہوئی تھی جو قابلِ دید تھی ۔ وہاں کے لوگوں سے پوچھ کر ہم نے ایک چٹان کے پیچھے پکنک منائی اور چشمے کا پانی پیا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ راول میں پہاڑی نالہ ہے اس میں بہت پانی ہوتا ہے ۔ وہاں پہنچے ۔ پانی سواں سے زیادہ تھا اور صاف بھی مگر پینے کے قابل نہ تھا ۔ پانی کے اندر نوکیلی چٹانیں تھیں جس سے ایک ساتھی کا پاؤں زخمی ہو گیا ۔ بہر حال ہم نے پکنک منا ہی لی ۔ اس کے بعد چھتر کا علم ہو تو وہاں پہنچے ۔ وہاں ایک پہاڑی نالہ بہہ رہا تھا جس میں پانی تیرنے کیلئے ناکافی تھا البتہ چٹانیں نہیں تھیں ۔ اس علاقہ میں لوکاٹ کے بہت پودے تھے ۔ چھتر کے لوکاٹ چھوٹے چھوٹے مگر میٹھے ہوتے تھے ۔ یہ پکنک کیلئے اچھی جگہ تھی ۔ اس کے بعد ہم شاہدرہ گاؤں گئے ۔ وہاں کافی بڑا پہاڑی نالہ تھا ۔ جس میں نہانے کی اجازت نہ تھی اور نہ وہاں پکنک منانے کیلئے کوئی مناسب جگہ تھی ۔ شاہدرہ سے کچھ دُور ایک چھوٹا سا شفاف چشمہ کا نالہ بہہ رہا تھا جو کہ پینے کے قابل تھا ۔ وہاں پکنک منانے کی بہت اچھی جگہ تھی ۔ یہ جگہ اسلام آباد کی ڈویلوپمنٹ کی نظر ہو چکی ہے ۔
چھتر اور شاہدرہ اسلام آباد کے کنارے پر ہیں ۔ اسلام آباد کا اس وقت جو آباد علاقہ ہے اس میں سیدپور ۔ نورپور اور گولڑہ کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جہاں کیکر ۔ کہُو ۔ لوکاٹ ۔ تُوت اور بٹنّکیوں کے درخت اور پھلائی اور کوکن بیروں کی جھاڑیاں تھیں ۔ بٹنکی ناشپانی کی شکل کا چھوٹا سا پھل ہے جس کا زیادہ حصہ بیج ہوتے ہیں اور گودا بہت کم ہوتا ہے ۔ کوکن بیر اس قسم کے بیر ہوتے ہیں کہ گٹھلی کے اُوپر چھلکا ۔ ان دونوں کے کھانے سے گلا پکڑا جاتا ہے ۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔