زلزلہ سے متاءثر علاقہ سے

بٹگرام کی وادی الائی میں پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں

وادی الائی کے علاقے میں امداد کاموں کے انچارچ کرنل ذکیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر علاقے کی آبادی کو دو تین دنوں میں یہاں سے نہ نکالا گیا تو پچیس سے تیس ہزار لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔

کرنل ذکیر نے بی بی سی کے نامہ نگار وسعت اللہ خان کوبتایا کہ پچھلی ایک رات میں دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک جھٹکے محسوس کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات آنے والے جھٹکے ’ آفٹر شاکس‘ نہیں تھے بلکہ آتش فشاں حرکت معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور جب ایک جھٹکا آتا ہے تو اس کے ساتھ دھماکے کی آواز بھی آتی ہے۔ اور یہ آواز اتنی زیادہ ہوتی ہے جیسے توپوں سے گولے داغے جا رہے ہوں۔ کرنل ذکیر نے بتایا کہ انہوں نے اعلی حکام کو سفارش کی ہے کہ وادی الائی میں امدادی کارروائیوں کرنے کی بجائے تمام مکینوں کو یہاں سے فوراً نکال لیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر دو تین دنوں میں لوگوں کو وہاں سے نہ نکالا گیا تو شاید پھر ہم کچھ کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں رہیں گے۔ کرنل ذکیر نے کہا لوگوں کو علاقے سے نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ اور ذریعہ نہیں ہےبی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق علاقے کی تمام زمینی راستے ختم ہو چکے ہیں اور تین دن کی مشقت سے بنائی جانے والی ایک سڑک رات کے زلزلوں میں پھر تباہ ہو گئی ہے۔ وادئِی الائی پونے دو لاکھ کی آبادی کا علاقہ ہے۔ یہاں آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے میں تین سے چار ہزار افراد ہلاک اور بیس سے بائیس ہزار زخمی ہوئے تھے۔

سرکاری حکام کے مطابق الائی میں اٹھانوے فیصد مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں کیونکہ یہ وادی ایسے پہاڑوں سے گِھری ہوئی ہے جہاں گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل زلزلے کی سی کیفیت ہے۔ یہاں آبادی ایک جگہ پر اکٹھی نہیں بلکہ دو دو تین تین مکانوں کی شکل میں پہاڑوں پر پھیلی ہوئی ہے۔یہاں 12 تاریخ سے فوج عالمی امدادی اداروں کے کیمپ موجود ہیں لیکن نوے فیصد آبادی نقطہ انجماد کے نیجے کے درجہ حرارت پر کھلے آسمان تلے راتین گزارنے پر مجبور ہے۔ اگلے چوبیس گھنٹوں میں برف باری کی پیش گوئی اور مسلسل آتش فشانی کیفیت کے پیش نظر وادی کو خطر ناک قرار دے کر آبادی کو کہیں اور منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

تیس لاکھ بےگھر، صرف 30 ہزار خمیے

امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تیس لاکھ بے گھر افراد کو پناہ فراہم کرنے کے لیے اب تک صرف تیس ہزار خیمے پہنچائے جا سکے ہیں جبکہ اس علاقے میں تین لاکھ پچاس ہزار خیموں کی ضرورت ہے۔ مگرامدادی تنظیموں کے مطابق امدادی ہیلی کاپٹروں کی تعداد میں اضافے کے باوجود اب بھی زلزلے سے متاثرہ تمام علاقوں تک پہنچنا یا وہاں امداد کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ریلیف کو آرڈینیٹر راشد خالیکوف نے کہا ہے کہ زلزلے کے دو ہفتے بعد بھی صرف مظفرآباد میں آٹھ لاکھ افراد بےگھر ہیں ۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں زلزلے کے دوہفتے بعد تک تقریباً دو ہزار دیہات ایسے ہیں جہاں تک مکمل رسائی نہیں ہو سکی ہے اور خدشہ ہے کہ ان دیہات کے رہائشی افراد سخت سردی کا شکار ہو کر ہلاک نہ ہو جائیں۔

امدادی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلہ زدگان کے لیے عالمی امداد کی فراہمی سست روی کا شکار ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ریلیف کوارڈینیٹر ارشد خالیکوف نے کہا ہے کہ’ یہ لازم ہے کہ امداد دینے والے ممالک جلد از جلد اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہمارے پاس چھ ہفتے کا وقت ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہم یہ کام کر پائیں گے بھی یا نہیں ۔ یاد رہے کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کو پانچ بلین ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ عالمی برادری نے اب تک صرف چھ سو بیس ملین ڈالر امداد دی ہے۔

ٹھٹھا مذاق

سورۃ 49 الحجرات آیۃ 11 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔

معیشت اور تکبّر

معیشت

سورۃ 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔

فخر و تکبّر

سورۃ 31 لقمان آیۃ 18 اور 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔

ہماری امداد کریں ناں۔۔۔

میرا نام صبا ہے۔ میں نویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ میری عمر اب چودہ سال ہے۔ اس زلزلے میں میرے امی ابو دونوں کا انتقال ہو گیا۔ ہم دو بہنیں ہیں۔ لاوارث ہیں۔ بس یہاں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ ابھی بچے رو رہے تھے، بھوکے ہیں سب۔ ہمیں کچھ مدد نہیں دے رہے۔ ایک گاوں میں رہنے والے دہات والوں کو ایک ٹینٹ دے دیتے ہیں، اور کہتےہیں کہ بس سب کو دے دی امداد۔ اس وقت میرے آس پاس بہت سارے بچے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سارا دن یہ بچے یوں ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی کھانا مانگتے ہیں، کبھی روتے ہیں۔ سردی بھی بہت رہتی ہے۔ کچھ بچوں کو نمونیا ہو گیا ہے۔ تین، چار، پانچ سال کے چھوٹھ چھوٹے بچے ہیں جنہیں سردی کی وجہ سے نمونیا ہو گیا ہے۔ سارے جانور اور مویشی بھی مکانوں کے نیچے دب کر مر گئے۔ہماری امداد کریں ناں۔۔۔

یہ جو جہاز وغیرہ ہیں، یہ ہمارے سامنے فوجی رہتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں ، ادھر جا کر بیٹھتے ہیں ۔ ہمیں کچھ نہیں دیتے ۔ پل
بھی جو تھا ، دریا نیلم کے اوپر، وہ بھی گر گیا ۔ ہماری کچھ مدد کریں ناں۔۔۔

امدادی سامان جل کر راکھ ہو گیا

کراچی کے سٹی ریلوے سٹیشن پر زلزلے کے متاثرین کے لیے بھیجے جانے والے سامان میں آگ بھڑک اٹھی جس سے سارا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ سندھ بوائز اسکاؤٹ کی جانب سے کیمپ لگا کر یہ سامان جمع کیا گیا تھا جو ریل کے ذریعے راولپنڈی روانہ کیا جانا تھا۔ سٹی ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ دوپہر کو ریل کی بوگی میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد پوری بوگی جل گئی۔ پولیس کے مطابق بوگی میں زلزلے زدگان کے لیے بستر، لحاف، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان موجود تھا۔ اس کے علاوہ اس سامان میں ماچس کے پیکٹ بھی تھے جن کے جل جانے سے آگ نے اور زور پکڑ لیا۔

ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ ریلوے کی جانب سے یہ بوگی مفت میں سندھ اسکاوّٹس کو فراہم کی گئی تھی۔

زلزلے یا ہزاروں ایٹم بم اور متاءثرین کے شب و روز

ميں نے آزاد جموں کشمیر اور صوبہ سرحد کے ساتھ اسلام آباد میں 15 اکتوبر رات 12 بج کر 37 منٹ 42 سیکنڈ تک آنے والے رخٹر سکیل پر 4 سے زیادہ شدت والے زلزلوں اور جھٹکوں (آفٹر شاکس) کا ریکارڈ پیش کر دیا تھا ۔ اس کے بعد مزید مندرجہ ذیل زلزلے آۓ ۔رخٹر سکیل پر 4 سے کم شدت کے بھی کئی زلزلے آئے مگر ان کا ریکارڈ نہیں ہے ۔

15 اکتوبر

صبح 9 بج کر 24 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا
صبح 9 بج کر 32 منٹ 21 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 شدت کا
صبح 11 بج کر 52 منٹ 14 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 4 شدت کا

17 اکتوبر

صبح 3 بج کر 5 منٹ 33 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 3 شدت کا
بعد دوپہر 3 بج کر 43 منٹ 8 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا

18 اکتوبر

رات 11 بج کر 32 منٹ 3 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا

19 اکتوبر

رات 2 بج کر 20 منٹ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا
رات 2 بج کر 20 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 3 شدت کا
صبح 7 بج کر 33 منٹ 30 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 8 شدت کا
صبح 8 بج کر 16 منٹ 22 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 4 شدت کا
بعد دوپہر 5 بج کر 47 منٹ 28 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 2 شدت کا

کچھ خبریں

جھٹکوں یا آفٹر شاکس کے علاوہ 80 زلزلے بھی آۓ

کراچی یونیورسٹی کے جیالوجسٹ ڈاکٹر نیئر ضیغم نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور شمالی علاقوں میں اتنے شدید زلزلے کی وجہ زمین کی سطح سے صرف دس سے بیس کلو میٹر کی گہرائی پر توانائی کی بڑی مقدار کا اخراج تھا ۔ پاکستان میں اکتوبر کی آٹھ تاریخ کو سات عشاریہ آٹھ اور اس کے بعد چھ عشاریہ چار کی شدت سے آنے والے دو زلزلوں میں جتنی توانائی خارج ہوئی ہے وہ ایک میگا ٹن کے ساٹھ ہزار ایٹم بموں کے دھماکوں کے برابر تھی۔ انہوں نے کہا کہ اتنے شدید زلزلے نے ایک ڈگری سکوائر کے علاقے میں دوسری فالٹ لائنز کو بھی متحرک کر دیا ہے اور ماضی میں غیر متحرک یا سوئی ہوئی فالٹ لائنز بھی زلزلوں کا باعث بن رہی ہیں ۔

ڈاکٹر نیئر نے کہا کہ پندرہ تاریخ تک اس علاقے میں پچہتر زلزلے ریکارڈ کیے گئے جن کو سائنسی اصطلاح میں آفٹر شاک یا جھٹکے کہنا ٹھیک نہیں بلکے یہ علیحدہ علیحدہ زلزلے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ماہرین کا خیال یہی تھا کہ یہ بڑے زلزلے کے بعد آنے والے جھٹکے ہیں لیکن اس زلزلوں کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ الگ الگ زلزلے تھے اور کسی ایک جگہ نہیں آ رہے۔ انہوں نے کہ ہمالیہ پہاڑیوں کے تھرسٹ سسٹم میں ارتعاش پیدا ہوگیا ہے۔

متاءثرین کے شب و روز

بی بی سی کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زلزلے کے باعث ہزاروں خاندان پاکستان کے مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ یہ خاندان یا تو اپنے طور پر رہ رہے ہیں یا حکومت کی طرف سے قائم چند خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر ہیں یا وہ اسلام آباد میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تعمیر کیے گئے فلیٹس میں رہتے ہیں ۔ یہ فلیٹس اسلام آباد میں آبپارہ میں واقع ہیں ۔ ایسے ہی ایک مقام پر بہت سے بچے ڈھیر میں سے کپڑے تلاش کر رہے تھے۔ ایک بچی نے کہا کہ اس کو کچھ نہیں ملا۔ ایک بچہ ہنستےہوئے بولا کہ اس کو ایک جیکٹ مل گئی لیکن وہ اسے چھوٹی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کو یہ کپڑے پسند نہیں ہیں اور یہ سارے بچے کھلکھلاتے ہوئے بیک آواز بولے کہ یہ لنڈا بازار ہے۔

ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کے رہائشی ہلال پیرزادہ کا کہنا ہے کہ یہ کپڑے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھیجے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑی خوبصورتی سے پیک کیے گئے تھے لیکن جب ان کو کھولا گیا تو اندر سے پھٹے پرانے کپڑے نکلے جو بالکل ناکارہ اور ناقابل استعمال تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ کشمیری اس مشکل حالات میں بھی اس سے کئی بہتر چیزیں عطیے میں دے سکتے ہیں۔

لگ بھگ تین سو فلیٹس میں کچھ دنوں سے مقیم چھ سات سو خاندان خاصی مشکل زندگی گذار رہے ہیں۔

ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کی خاتون نبیلہ حبیب کا کہنا ہے کہ ان کے تین خاندان دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں اور گزر اوقات کر رہے ہیں۔ یہ زندگی نہیں ہے۔ ‘کہاں اپنا گھر اور گھر کا آرام اور کہاں یہ’۔ انہوں نے جذباتی ہو کر کہا کہ ان کے پرانے گھر کا سٹور ان کمروں سے بہتر تھا جس میں وہ اب سوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم دوسروں کے محتاج ہوگئے ہیں کہ وہ کھانا لائیں گے اور ہم کھائیں گے جب ہمیں شاپر میں پیک کرکے کھانا دیا جاتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے پہلے ہم روتے ہیں پھر کھاتے ہیں۔ ہماری عزت نفس مجروح ہورہی ہے ۔ہمیں ساری رات نیند نہیں آتی ہے ہمیں کوئی سکون نہیں ہے’۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیر کو بچوں کی کچھ چیزیں خریدنے کے لیے بازار گئی تو وہاں دوکانیں دیکھ کر انہیں اس لیے رونا آرہا تھا کہ کبھی وہ بھی ایسی ہی دوکانوں کے مالک تھے۔

نبیلہ کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگوں نے ان کی بہت مدد کی لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے شہر میں عزت سے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے لیکن ہم یہاں چوروں کی طرح رہ رہے ہیں’۔

ان فلیٹس میں رہنے والے بےگھر کشمیری اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔

آصفہ جو پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھتے تھے لیکن یہاں بچوں کو کوئی سہولت نہیں ہے۔ اب بچوں کا مستقبل کیا ہے، وہ خود گریڈ سولہ کی ملازم ہیں ان کا مستقبل کیا ہے۔ ان کی بہنوں کا کیا مستقبل ہے ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے وہ سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ آصفہ تین بچوں کی ماہ ہیں اور ان کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کب تک وہ اپنے بچوں کو خشک بسکٹ اور ٹھنڈا دودھ دیں گے۔ اس سے بچے بیمار ہوجائیں گے جو آدھے بچے بچ گئے ان کو تو نہ ماریں۔

پروفیسر عبدالمجید کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان فلیٹوں میں بجلی، پانی اور گیس میسر نہیں ہے جبکہ یہاں تینوں کے کنکشن پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی حکومتی اہلکار نہیں آیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لوگوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے ملاقات کرکے انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کیا تھا اور انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مسائل حل کریں گے لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

حکومت نے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں امدادی کام شروع کیا ہے لیکن یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ خاندان کتنے عرصے تک مشکلات کا شکار رہیں گے اور کب ان کی معمول کی زندگی بحال ہوگی۔

لین دین

سورۃ 17 بنی اسرآءیل آیۃ 35 ۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کے دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہتر ہے ۔

سورۃ 61 الصف آیۃ 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہر ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔