سجاد میر صاحب نے ” الزام نہیں ۔ ۔ ۔ حقیقت” کے عنوان کے تحت واقعی حقیت کا اظہار کیا ہے ۔ ضرور پڑھیئے
اج آکھاں وارث شاہ نوں
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچون بول
تے اج کتابے عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیآں رودیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا
تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا
جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ
رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیّئاں چون
پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون
اج کتھوں لیآئیے لب کے وارث شاہ اک ہور
اج تے سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور
امریتا پرتم کور ۔ چھ ماہ کی علالت کے بعد 31 اکتوبر 2005 کو بھارت میں فوت ہو گئی ۔ وہ 31 اگست 1919 کو پنجاب کے اس حصہ میں پیدا ہوئی تھی جو اب پاکستان میں شامل ہے ۔ 1947 میں ہجرت کر کے بھارت چلی گئی تھی ۔ اس نے شاعری اور نثر کی ایک سو کے لگ بھگ کتب لکھیں جن میں حقیقت کا ساتھ نہ چھوڑا اور خاصی تنقید کا نشانہ بنی ۔ مندرجہ بالا نظم اس نے 1947 کے قتل عام سے متاءثر ہو کر لکھی تھی ۔ جس نے بھارت میں اس پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے یہ نظم کہاں سے پڑھی تھی یقینی بات ہے کہ کہیں سے بھارت میں چھپا ہوا کوئی اخبار یا رسالہ ہاتھ لگ گیا ہو گا ۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی مجھے یاد ہے ۔ جو قاری پنجابی نہیں جانتے ان کی خاطر نیچے اردو ترجمہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ غلطیوں کی معذرت پیشگی ۔
آج کہوں وارث شاہ سے کہیں قبروں میں سے بول
اور آج کتاب عشق کا کوئی اگلا صفحہ کھول
ایک روئی تھی بیٹی پنجاب کی تو نے لکھ دیئے تھے بہت بین
آج لاکھوں بیٹیاں رو رو کے اے وارث شاہ تجھے کہیں
اٹھو دردمندوں کے دردمند دیکھو اپنا دیس پنجاب
آج میدانوں میں لاشیں پڑی ہیں اور لہوسے بھرگیا چناب
کسی نے پانچوں پانیوں میں آج دیا ہے زہر ملا
اور ان پانیوں سے زمینوں کو کر دیا ہے سیراب
جس میں بجتی تھی پھونک پیار کی وہ بانسری ہو گئی گم
رانجھے کے سارے بھائی آج بھول گئے اسے بجانے کا طریقہ
دنیا پر خون برسا اور قبروں میں بھی لگا ٹپکنے
پیار بھری شہزادیاں آج مزاروں میں بیٹھ کے روئیں
آج تو سب ہی کیدو بن گئے اور حسن و عشق کے چور
آج کہاں سے لائیں ڈھونڈ کے وارث شاہ ایک اور
ایک تنتبو لا دو نا ۔ ۔چھ سالہ بچے کا انٹرویو
صحافی ۔ تمہارے گھر میں کتنے لوگ باقی ہیں ؟
منّان ۔ صاحب ایک تنبو لا دو نا ۔ (تنبو خیمے کا دوسرا نام ہے)
صحافی ۔ اچھا یہ بتاؤ منان تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟
منّان ۔ کہیں سے ایک تنبو منگوا دو!
صحافی ۔ منان تمھارے کتنے ہم جماعت ملبے میں دب گئے؟
منّان ۔ مجھے تنبو کہاں سے ملےگا!
صحافی ۔ اچھا چلو گاڑی میں بیٹھو۔میں تمھیں ایک کیمپ سے کچھ کھانے پینے کا سامان دلانے کی کوشش کروں۔مگر تم تو چھوٹے سے ہو آخر کتنا وزن اٹھا پاؤ گے؟
منّان ۔ صاحب کسی سے کہہ دو نا، ہمیں صرف ایک تنبو دے دے!
صحافی ۔ چلو تم میرے ساتھ نہیں چلتے نہ سہی۔یہ تو بتادو کہ جب تم رات کو سوتے ہو تو کس طرح کے خواب دیکھتے ہو؟
منّان ۔ مجھے اور میری بہن کو سردی لگتی ہے آپ ایک تنبو تو دلواسکتے ہونا!
صحافی ۔ منان کیا میں تمہیں مظفرآباد یا اسلام آباد کی اس ڈیلی بریفنگ میں لے جاؤں جس میں تم خود سن لوگے کہ حکومت کتنی جان توڑ کوشش کررہی ہے ہر خاندان کو سردیاں شروع ہونے سے پہلے تنبو دینے کے لئے۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔تم اکیلے تو نہیں ہونا منان! دس لاکھ ٹینٹوں کی ضرورت ہے اور ان میں سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ آ بھی چکے ہیں۔یقین نہیں آتا تو چلو کسی افسر سے ملوادوں۔اقوامِ متحدہ کے کسی اہلکار سے پوچھ لو۔بولو کس سے ملوگے ؟
منّان ۔ آپ میرے ابو کو لے جائیں نا اور انہیں کسی سے بھی ایک تنبو دلوادیں!
جن کے پورے پورے یا آدھے خاندان ختم ہوگئے انہیں اس سے کیا کہ عالمی برادری ڈیڑھ کروڑ ڈالر چندہ دیتی ہے یا اٹھاون کروڑ ڈالر۔
انہیں اس بات کی کیوں پروا ہو کہ حکومت نے پہلے پہل جذباتی ہوکر فی ہلاک شدہ ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیوں کیا اور پھر اسے ایک لاکھ روپیہ فی خاندان کیوں کردیا۔
وہ کیوں اس بات پر کان دھریں کہ انکے لئے فائبر گلاس کے گھر کب اور کہاں بنیں گے۔
چین سے تین لاکھ ٹینٹ جلدآ رہے ہیں ! آیا کریں۔
نیٹو کی فوج اور مزید امریکی شنوک پہنچ رہے ہیں ! پہنچتے رہیں۔
ہم کیا کر رہے ہیں ؟
زلزلہ سے متاءثرہ علاقہ کی ایک جھلک ۔ اعجاز آسی
اعجاز آسی صاحب دس دن زلزلہ سے متاءثرہ علاقہ میں گذارنے کے بعد ایک دن کے لئے اسلام آباد آئے تھے اور پھر متاءثرہ علاقہ میں چلے گئے ہیں ۔ ان کے بالکل مختصر تاءثرات انہی کے الفاظ میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے ۔
ترقی یافتہ روشن خیال جنہیں دہشت گرد کہتے ہیں
جہادی تنظیمیں زلزلے کے خلاف ’جہاد‘ میں مصروف
صدر پرویز مشرف نے بیس اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔
صدر کے اس بیان سے جہاں حکومت کی تشویش کا اندازہ ہوتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی جہادی سرگرمیوں کا سولہ سالہ تجربہ اور نیٹ ورک خاصا مددگار ثابت ہورھا ہے۔
مثلاً جماعت الدعوہ ( سابق لشکرِ طیبہ) کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے۔اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی ایک ہزار کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا۔تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھلے حصے میں کپڑوں، گدوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے۔اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے۔
مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے۔بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے زریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں۔
اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے۔
ستائیس اکتوبر کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی۔اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں ایک سو بیس بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں۔ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں۔جبکہ اب تک ساڑھے تین ہزار چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں۔
اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھ۔یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے۔
جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ اس نے مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا۔اسکے علاوہ متاثرین کو ایک ہزار گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارھا ہے۔
کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں۔الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں۔
یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررھا ہے۔
بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر فی الحال مناسب نہیں سمجھتے۔
اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جٹی ہوئی ہے۔مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں۔جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔تاہم میں نے صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں میں بظاہر حزب کی ریلیف سرگرمیاں نہیں دیکھیں۔
ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے۔بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے۔یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں۔
البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی۔ اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ’ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں۔
شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔
میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رھا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے۔’وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے۔‘
میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی۔کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہے۔ اسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں۔بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی ڈھائی ہزار خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے۔جبکہ ایک ہزار زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے۔
تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے۔
الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے۔تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے۔
یہ تضاد آپ کو اور کئی شکلوں میں بھی نظر آسکتا ہے مثلاً یہی کہ متاثرہ علاقوں کے اوپر امریکی چنوک ہیلی کاپٹر پروازیں بھر رہے ہیں اور نیچے جہادی تنظیمیں کوشاں ہیں اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔
پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی
میں اپنا پہلا بلاگ “یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟ ۔ Hypocrisy Thy Name … انگریزی میں لکھا کرتا تھا ۔ جب اردو عام ہوئی تو میں نے یہ دوسرا بلاگ اردو میں شروع کیا ۔ پھر میں نے اپنے پہلے بلاگ میں بھی اردو لکھنا شروع کر دی ۔اس ماہ مجھے کچھ ای میلز آئیں کہ آپ کے بلاگ پر جاتے ہیں مگر اردو نہ جانتے ہوۓ پڑھ نہیں سکتے ۔ اس پر میں نے سائٹ میٹر کھولا تو معلوم ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے علاوہ قارئین کا تعلق امریکہ ۔ کینڈا ۔ افریقہ ۔ سعودی عرب ۔ فلسطین ۔ کویت ۔ ترکی ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ برطانیہ ۔ ایران ۔ افغانستان ۔ سنگا پور ۔ ہانگ کانگ ۔ کوریا اور آسٹریلیا سے ہے ۔
سو میں نے اپنے پہلے بلاگ پر پھر سے انگریزی لکھنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اردو بھی ساتھ چلے گی ۔ چنانچہ اردو سیّارہ کی پالیسی کے تحت اب میرا پہلا بلاگ آپ کو اردو سیّارہ پر صرف اس وقت نظر آۓ گاجب میں اس میں اردو لکھوں گا ۔
انگریزی میں بھی انشاء اللہ دلچسپ باتیں لکھی جائیں گی ۔ صرف آپ کو میرے بلاگ پر جانے کی زحمت گـوارہ کرنا پڑے گی جس کے لئے معذرت پیشگی ۔”